پروفیسر محسن عثمانی ندوی
انسانوں کے درمیان شریفانہ تعلقات، خدمت خلق، آپسی ہمدردی وخیرخواہی اور امن وخیر سگالی ہمیشہ ایک کامیاب معاشرہ کی بنیادی ضرورت رہی ہے۔ اسلام اور دنیا کے تمام مذاہب نے اس کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھا ہے اور اس کو یقینی بنانے پر زور دیا ہے۔ اسلام نے جتنا زور اس پر دیا ہے اتنا کسی اور مذہب نے نہیں دیا ہے اسکے باجود یہ خانہ مسلمانوں کی اجتماعی کاموں سے غائب رہا ہے۔ ہندوستان کے موجودہ سنگین حالات میں یہ واحد راستہ ہے جسکے ذریعہ مسلمان نفرت کے ماحول کو بدل سکتے ہیں اور اپنے اخلاق کا نقش لوگوں کے دلوں پر قائم کر سکتے ہیں۔ بہتر تعلقات اور خدمت خلق کے راستے سے ہم اسلام مخالف فضا کو تبدیل کر کے دین اسلام کے تعارف کا کام اس ملک میں بہتر طور پر انجام دے سکتے ہیں۔افسوس کہ یہ دروازہ بہت زمانہ سے بند اور مقفل ہے۔ وفا، آدمیت اور شرف انسانیت ایسا نکتہ ہے جو اسلامی تعلیمات میں ہر جگہ نمایاں اور واضح ہے اور درحقیقت رنگ ونسل اور زبان ولباس کے کسی بھی قسم کے استحصال سے مبرا ایک مثالی معاشرہ انہی خطوط پر تشکیل پاتا ہے۔ محسن انسانیت حضرت محمد ﷺ نے ’’الخلق عیال اللہ‘‘ کہہ کر خلق خدا کو ایک کنبہ بنا دیا۔ کتاب ہدایت کے مضامین اور اس کا مجموعی خطاب بھی اس کی توثیق کرتا ہے۔
یہ پہلا سبق ہے کتاب خدا کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
بھارت کی قدیم تہذیب اور سناتن سنسکرتی کی بھی یہی پہچان رہی ہے کہ یہاں کی اکثر آبادی، آدمیت وانسانیت، اخلاق ومروت، مذہبی وتہذیبی رواداری پر یقبین رکھتی ہے، گو کہ ایک طبقہ مسلسل بھارت کے اس تہذیبی وروایتی ورثہ پر ڈاکہ زنی میں مصروف ہے اور اس میں کسی حد تک کامیاب بھی نظر آتا ہے۔ یو پی کے الیکشن کے نتائج نے حالات کو خطرہ کے نشان تک پہنچا دیا ہے۔ حالات ایسے ہیں جیسے کسی کو اندھے کنویں میں ڈال دیا گیا ہو اور باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو۔ اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ صرف الیکشن اور سیاست مسلمانوں کے لیے مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ حالات نے وہ فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر لیا ہے کہ کوئی غیر مسلم اب مسلمان امیدوار کو ووٹ نہیں دیتا ہے اور جہاں مسلمانوں کی کثیر آبادی ہو وہاں کئی مسلم امیدوار کھڑے ہو جاتے ہیں اور مسلمانوں کا ووٹ تقسیم ہو جاتا ہے اور سارے مسلم امیدوار ہار جاتے ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ اس ملک میں الیکشن حقیقی مسائل کے بجائے جذباتی ایشو پر لڑے جاتے ہیں اور اگر ہندو مسلم مسئلہ کھڑا کر دیا جائے تو فرقہ پرستوں کے لیے الیکشن جیتنا بہت آسان ہو جاتا ہے مگر یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ یہاں شرافت کا پاس ولحاظ بھی پایا جاتا ہے۔ دھرم سنسد کے خون ریزی کے اعلان نے اور منفی کوششوں اور دھمکیوں نے ہر انصاف پسند شہری کے دل کو مسوس کر رکھ دیا ہے۔ مزید اس کے خلاف غم وغصہ کے مظاہرے بھی سب پر عیاں ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ ملک کا اجتماعی مزاج آج بھی بڑی حد تک اپنی اصل پر باقی ہے۔ جمہوریت اور سیکولرازم اور دستور کی حمایت کرنے والے اب بھی بہت ہیں اگر چہ ان کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ الیکشن کے بجائے دوسرے طریقوں سے ان شریف انسانوں کو متحد کرنے کی ضرورت ہے۔
ملک میں اسی مزاج کو زندہ اور باقی رکھنے اور بین المذاہب مشترکہ اقدار اور مشترک جدوجہد کرنے کے لیے ملک کے کچھ فکر مند اور غیور فرزندوں نے ’’ہیومین ویلفیئر کونسل‘‘ کے قیام اور اس کام کو پورے ملک میں پھیلانے کا فیصلہ کیا تاکہ اس عظیم الشان فریضہ کی کسی قدر ادائیگی ہو سکے اور ملک کے ماحول کو خوشگوار بنایا جا سکے جس سے انسانیت کی خدمت بھی ہو اور مسلمان اپنے دین اور تہذیبی تشخص کے ساتھ اس ملک میں رہ سکیں اور ملک وملت دونوں کی خدمت انجام دے سکیں اور سلیقہ سے اپنے دین کا تعارف کر اسکیں۔ یہ تنظیم رجسٹرڈ بھی ہو گئی ہے اس کا بروشر زیر طباعت ہے۔
قرآن وحدیث سے بھی خدمت خلق کے کاموں کی اہمیت ظاہر ہے۔ افسوس کہ مسلمانوں نے اس کی طرف توجہ نہیں کی اور اس کی وجہ سے وہ برادران وطن کے دلوں میں اپنی جگہ نہیں بنا سکے نہ اپنے دین کو لوگوں کے لیے پرکشش بنا سکے۔ اب حالات نے نہایت خطر ناک رخ اختیار کرلیا ہے۔ آگے کنواں اور پیچھے کھائی ہے، لیکن دنیا میں کسی قوم کے حالات یکساں نہیں ہوتے۔ ہر سیاہ رات کے بعد دن نمودار ہوتا ہے۔ اصل کام صحیح راستہ اور صحیح حل کی تلاش ہے۔ مسلمانوں کے لیے واحد راستہ برادران وطن کے سماج میں اترنا اور ان کے دل میں جگہ بنانا اور ڈائیلاگ کرنا ہے، خدمت خلق کے ذریعہ ان کے دلوں کو جیتنا اور پھر کسی ’’صفا‘‘ کی پہاڑی پر چڑھ کر ان کو اپنا مخاطب بنانا ہے۔ مسلمانوں کے اندر جو کام کرنا ہے وہ تعلیم اور کے معیار کو بلند کرنے کا کام ہے۔ اب غیر مسلم سماج میں کام کا صرف یہی ایک راستہ ہے جو کھلا ہوا ہے۔ راستے بند ہیں سب کوچہ قاتل کے سوا۔ وہ راستہ کیا ہے؟ حضور اکرم نے فرمایا ’’سید القوم خادمہم‘‘ معلوم ہوا کہ سیادت اور حکمرانی کی دولت خدمت کے ذریعہ سے ملتی ہے، یعنی سب کی خدمت بلا امتیاز مذہب وملت اور اس کے بعد اللہ کا پیغام پہنچا کر اس کی نصرت حاصل کی جا سکتی ہے۔ مسلمانوں کو اپنے دائرہ میں مذہب، تہذیب اور زبان کی حفاظت کا کام انجام دینا ہے۔ تعلیم میں آگے بڑھنا ہے۔ بیرونی دائرہ میں خدمت خلق کا کام، اپنے عمل وکردار سے اور لٹریچر سے مذہب کے تعارف کا کام کرنا ہے۔ اگر مسلمانوں نے صرف اپنے دائرہ میں کام کیا جیسا کہ مسلم تنظیمیں کرتی ہیں تو منزل تک پہنچنا نصیب نہیں ہو گا۔ مولانا آزاد نے لکھا تھا کہ قوموں کی زندگی میں کبھی ایسا لمحہ آتا ہے کہ اگر صحیح فیصلہ کیا گیا تو قوم صدیوں آگے چلی جاتی ہے۔ ہندوستان میں وہ لمحہ آگیا ہے اور صحیح فیصلہ کرنا ہے۔ اب نوجوانوں کو آگے آنا ہوگا اب کوئی دینی پروگرام منعقد ہو، سیرت النبی کے جلسے کیے جائیں تو بڑے اہتمام کے ساتھ غیر مسلموں کو مدعو کرنا ہو گا۔ ایسا نہ کرنا انبیائی دعوت سے گریز کرنا ہو گا۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ غیرمسلموں کو اپنے پروگراموں میں مدعو کریں ان سے تعلقات قائم کریں۔ موجودہ مسلم تنظیموں کے پاس صحیح منصوبندی نہیں ہے۔ انہوں نے انبیاء کرام کے کام کو اپنا نمونہ نہیں بنایا ہے اس وقت مسلمانوں کو چاہیے کہ فورا منصوبہ بندی کریں اور تمام انسانوں کو اللہ کا کنبہ سمجھیں۔ الیکشن میں ناکامیوں پر آنسو بہا کر مزید وقت نہیں برباد کرنا چاہیے۔ اکثریت کی طاقت کو جو چیز شکست دے سکتی ہے وہ اخلاق کی بلندی ہے اور خدمت خلق ہے اور تعلیم اور ہنر کی برتری ہے اور داعیانہ صفات ہیں۔ دنیا میں جہاں کہیں اقلیتوں نے اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھا کر تعداد کی کمی کی تلافی کی ہے وہ اکثریت سے آگے بڑھ گئیں۔ یہودیوں کی مثال سامنے ہے۔مسلمانوں کو فولادی عزائم کے ساتھ یہ سب کام انجام دینا ہے اور غیر سلم سماج میں اترنا ہے۔ پیغمبروں کی زندگی میں جو چیز بہت نمایاں دکھائی دیتی ہے وہ بے پناہ انسانی ہمدردی ہے۔ افسوس کہ ہر مسلمان اپنے آپ کو ایک بجھا ہوا دیا سمجھنے لگا ہے اور حالات کی تاریکی میں شمع بردار بننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ برادران وطن سے روابط مستحکم کرنے کا کام مسلمانوں کے حق میں ماسٹر اسٹروک ثابت ہوگا اور ان کا ستارہ اقبال چمکنے لگے گا۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے اپنے محلہ کی مسجدوں میں ایک کمیٹی بنالیں اور محلہ کے برادران وطن سے رابطہ قائم کریں اور ان کو اسلام سے مسلمانوں سے اور مسجد سے مانوس کریں۔ خدمت خلق کا کام بھی انجام دیں۔ غیر مسلم آبادی کو ترجیحی بنیاد پر دائرہ خدمت میں جگہ دینی چاہیے۔ بدر کی جنگ میں جب کچھ قیدی گرفتار ہوئے تھے تو مسلمانوں نے ان کے آرام کا اس قدر خیال رکھا کہ خود بھوکے سو گئے لیکن ان کو کھلایا پلایا۔ زکوٰۃ کی ایک مد تالیف قلب ہے اور قرآن میں اس کی صراحت ہے۔ حضرت عمر نے اپنے زمانہ کے حالات اور مسلمانوں کی شوکت اور قوت کی وجہ سے اس کو موقوف کر دیا تھا۔ اب حالات کا تقاضا ہے کہ اس مد کو دوبارہ کھولا جائے۔ جب قرآن میں اس مد کی صراحت موجود ہے تو کس کی ہمت ہے کہ اسے ہمیشہ کے لیے ختم کردے؟ یہ کام اجتماعی طور پر انجام دیا جانا چاہیے۔
تقریباً ہر وہ شخص جس کی نظر سے یہ مضمون گزرے مسجد کو مرکز بنا کر یہ کام شروع کر سکتا ہے۔ اسے کسی قائد کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر مسجد کو مرکز بنا کر گرد وپیش کی غیر مسلم آبادی سے رابطہ قائم کرنا بظاہر ایک چھوٹا سا کام ہے لیکن اس کے عظیم الشان فائدے ظاہر ہوں گے۔ یہ انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا اعبدوا اللہ واتقوہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو۔ ہم حضرت ابراہیم کے تعمیر کردہ بیت اللہ کی جانب پانچ بار رخ کرتے ہیں اور اس کا سات بار طواف کرتے ہیں لیکن قوم اور برادران وطن کو کبھی وہ بات نہیں کہتے جو حضرت ابراہیم نے کہی تھی۔ ہم نے قوم کے ضمیر کو جگانے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔
کوئی ایسی طرز طواف تو مجھے اے چراغ حرم بتا
کہ ترے پتنگ کو پھر عطا ہو وہی سرشت سمندری
ہندوستان کے مسلمان کچھ اپنی غلطیوں سے کچھ دوسروں کی ’’مہربانیوں‘‘ سے اندھے کنویں میں ڈال دیے گئے ہیں۔ خدمت خلق اور دلوں کو جیتنے اور روابط کو مستحکم کرنے کی جو راہ بتائی گئی ہے وہ اندھے کنویں سے نکل کر یوسف کنعاں بننے کی راہ ہے۔ وہ کھنڈرات سے نکل کر تاج وتخت اور اقبال وبخت کی بازیابی کی راہ ہے۔ میرا گھر ایسی گلی میں واقع ہے جس کے بعد ایک بند دروازہ ہے۔ اس دروازہ کے بعد ایک عظیم الشان مسجد ہے۔ دہلی کی سب سے بڑی مسجد یا دوتین سب سے بڑی مسجدوں میں ایک۔ اس مسجد کو اگر مسلمانوں کی مذہبی تہذیبی طاقت کا استعارہ سمجھ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے ہم مسلمانبند گلی میں ہیں اور طاقت اور ترقی کی جانب آگے بڑھنے کے دروازہ کو مقفغل کر دیا گیا ہے۔ اس بند دروازہ کو کھولنا ضروری ہے، ان لوگوں کو کھولنا ہے جو مسلمانوں کا درد رکھتے ہیں اور مسلمانوں کی سرفرازی کے لیے فکر مند ہیں۔
وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتما م ابھی باقی ہے۔
***
***
مسلمانوں کے لئے واحد راستہ برادران وطن کے سماج میں اتر نا اور ابنائے وطن کے دل وجگر میں جگہ بنانا اور ان سے ڈائلاگ کرنا ، خدمت خلق کے ذریعہ ان کے دلوں کو جیتنا اور پھرکسی ’’صفا‘‘ کی پہاڑی پر چڑھکر ان کو اپنا مخاطب بنانا ہے ۔مسلمانوں کے اندر جو کام کرنا ہے وہ تعلیم اور تہذیب کے معیار کو بلند کرنے کا کام ہے۔ اب غیر مسلم سماج میں کام کا صرف یہی ایک راستہ ہے جو کھلا ہوا ہے۔ راستے بند ہیں سب کوچہ قاتل کے سوا
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 10 تا 16 اپریل 2022