بمبئی ہائی کورٹ نے تبلیغی جماعت میں شرکت کرنے والے غیر ملکیوں کے خلاف ایف آئی آر کو کالعدم قرار دیا، کہا کہ ان پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد
ممبئی، اگست 22: جمعہ کے روز بمبئی ہائی کورٹ کے اورنگ آباد بنچ نے دہلی کے نظام الدین میں تبلیغی جماعت کی تقریب میں شامل غیر ملکیوں کے خلاف ایف آئی آر کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’مہاراشٹر پولیس نے عجلت میں کارروائی کی۔‘‘
دی ہندو کی خبر کے مطابق جسٹس ٹی وی نلواڈے اور جسٹس ایم جی سیولیکر کے ڈویژن بنچ نے کہا ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ریاستی حکومت نے سیاسی مجبوری کے تحت کام کیا اور پولیس بھی ضابطے کے قوانین اور ٹھوس قوانین کی دفعات کے تحت ان کو دیے گئے اختیارات کو استعمال کرنے کی ہمت نہیں کر پائی۔ جب ایک وبائی بیماری یا آفت آتی ہے تو ایک سیاسی حکومت قربانی کا بکرا تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے اور حالات بتاتے ہیں کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ ان غیر ملکیوں کو حکومت نے قربانی کا بکرا بنانے کے لیے منتخب کیا۔‘‘
واضح رہے کہ عدالت ان 29 غیر ملکی شہریوں کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کررہی تھی جن پرجماعت میں شرکت کی وجہ سے سیاحتی ویزا کی شرائط کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں ہندوستانی تعزیرات کے مہاماری ایکٹ، ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ اور غیر ملکی ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
58 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’’الزامات اپنی بنیاد میں بہت مبہم ہیں۔ اور ان الزامات سے کسی بھی مرحلے میں یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اسلام مذہب کو پھیلا رہے تھے اور انھوں نے مذہب کی تبدیلی کا ارادہ تھا۔ حکومت مختلف ممالک کے مختلف مذاہب کے شہریوں کے ساتھ مختلف سلوک نہیں کر سکتی ہے۔‘‘
عدالت نے مزید کہا ’’کم از کم جنوری 2020 سے لے کر ہندوستان میں کئی مقامات پر دھرنا دے کر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ احتجاج میں شریک زیادہ تر افراد مسلمان تھے۔ یہ ان کا مؤقف ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ 2019 مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ مسلمان مہاجرین اور تارکین وطن کو ہندوستانی شہریت نہیں دی جائے گی۔ وہ شہریت کی قومی رجسٹریشن کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ کارروائی کی وجہ سے ان مسلمانوں کے ذہنوں میں خوف پیدا ہوا۔ اس کارروائی نے ہندوستانی مسلمانوں کو بالواسطہ انتباہ دیا کہ کسی بھی شکل میں اور کسی بھی چیز سے مسلمانوں کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔ یہ اشارہ دیا گیا کہ دوسرے ممالک کے مسلمانوں سے بھی رابطے رکھنے کے لیے، ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اس طرح ان غیر ملکیوں اور مسلموں کے خلاف ان کی مبینہ سرگرمیوں کے سبب کی جانے والی کارروائی سے بدگمانی کی بو آ رہی ہے۔‘‘
میڈیا کا کردار
انھوں نے بتایا کہ مرکز میں دہلی آنے والے غیر ملکیوں کے خلاف پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں بہت بڑا پروپیگنڈا ہوا تھا اور ایسی تصویر دکھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ یہ غیر ملکی ہندوستان میں COVID-19 وائرس پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔ ان غیر ملکیوں کے خلاف عملی طور پر ظلم و ستم ہوا۔
عدالت نے کہا ’’ہندوستان میں انفیکشن کے حالات اور تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ موجودہ درخواست گزاروں کے خلاف ایسی کارروائی نہیں کی جانی چاہیے تھی۔ اب وقت آگیا ہے کہ متعلقہ حکام غیر ملکیوں کے خلاف کی جانے والی اس کارروائی پر توبہ کریں اور اس طرح کے اقدام سے ہونے والے نقصان کی اصلاح کے لیے کچھ مثبت اقدامات کریں۔‘‘
ہماری ثقافت
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’’ہماری ثقافت میں ’’اتیتھی دیو بھوا‘‘ کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ ہمارے مہمان ہمارے خدا ہیں۔ موجودہ حالات سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم واقعی اپنی عظیم روایت اور ثقافت کے مطابق کام کر رہے ہیں؟‘‘
عدالت نے مزید کہا ’’کوویڈ 19 وبائی امراض کی پیدا کردہ صورت حال کے دوران ہمیں اور زیادہ رواداری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں اپنے مہمانوں کے لیے خاص طور پر موجودہ درخواست دہندگان کی لیے زیادہ حساس ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ الزامات ظاہر کرتے ہیں کہ ان کی مدد کرنے کے بجائے ہم نے ان پر یہ الزام لگا کر انھیں جیلوں میں قید کردیا کہ وہ سفری دستاویزات کی خلاف ورزی کے ذمہ دار ہیں اور وہ وائرس وغیرہ پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔‘‘