ایسا نہیں لگتا کہ ترمیم شدہ آئی ٹی قوانین طنز کو تحفظ فراہم کرتے ہیں، بمبئی ہائی کورٹ نے مرکز سے کہا

نئی دہلی، اپریل 24: بمبئی ہائی کورٹ نے پیر کے روز کہا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے قواعد میں نئی ترمیم پہلی نظر میں پیروڈی یا طنز کو تحفظ فراہم نہیں کرتی ہے۔

جسٹس جی ایس پٹیل اور نیلا گوکھلے کی بنچ اسٹینڈ اپ کامیڈین کنال کامرا کی ایک عرضی پر سماعت کر رہی تھی جس میں اس ترمیم کے آئینی جواز کو چیلنج کیا گیا ہے۔

6 اپریل کو مطلع کردہ ترمیم آن لائن گیمنگ اور مرکزی حکومت سے متعلق خبروں کو منظم کرتی ہے۔ قواعد میں کہا گیا ہے کہ مرکزی وزارت انفارمیشن ٹکنالوجی حقائق کی جانچ کرنے والی ایک باڈی کو مطلع کرے گی اور اسے ’’مرکزی حکومت کے کسی بھی کاروبار کے سلسلے میں‘‘ کسی بھی معلومات کو ’’جعلی یا غلط یا گمراہ کن‘‘ کے طور پر نشان زد کرنے کا اختیار دے گی۔

جسٹس پٹیل نے مرکزی حکومت کے ایک حلف نامے کا نوٹس لیا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ پیروڈی یا طنز کو روکنے کی کوشش نہیں کرے گی۔

بار اینڈ بنچ کے مطابق انھوں نے کہا ’’یہ آپ کے اصول نہیں کہتے ہیں۔ کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا ہے۔ جو ہمیں دیکھنا پڑے گا۔‘‘

عدالت نے یہ بھی کہا کہ ’’یہاں مسئلہ یہ ہے کہ قاعدہ اگرچہ اچھی نیت سے ہے، لیکن اس میں ضروری گارڈ ریلز نہیں ہیں۔‘‘

بنچ نے یہ بھی کہا کہ چوں کہ کامرا کی درخواست آئین کے آرٹیکل 19(1)(a) کے تحت اظہار رائے کی آزادی سے متعلق ہے، اس لیے اس میں یہ نہیں کہا جائے گا کہ آیا اسے عدالت سے رجوع کرنے کا حق ہے یا نہیں۔

بنچ 27 اپریل کو صبح 10 بجے اس کیس کی اگلی سماعت کرے گا۔

جنوری میں جب مسودہ قوانین کو عام کیا گیا تھا، تب حکومت نے واضح کیا تھا کہ پریس انفارمیشن بیورو کے فیکٹ چیک یونٹ کو، وزارت اطلاعات و نشریات کے تحت، یا مرکز کی طرف سے مجاز کسی دوسری ایجنسی کو خبروں کو ’’جعلی‘‘ کے طور پر نشان زد کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔

تاہم 6 اپریل کو مطلع کردہ حتمی ترامیم پریس انفارمیشن بیورو کے فیکٹ چیکنگ ونگ کا حوالہ نہیں دیتی ہیں۔