ہریانہ کے مانیسر میں منعقدہ پنچایت میں مسلم دکانداروں کے معاشی بائیکاٹ کا مطالبہ کیا گیا
نئی دہلی، جون 4: دی انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق اتوار کو ہریانہ کے مانیسر میں منعقدہ ایک پنچایت نے علاقے کے مسلمان دکانداروں اور خوانچہ فروشوں کے معاشی بائیکاٹ کا مطالبہ کیا اور انھیں ’’غیر قانونی تارکین وطن‘‘ قرار دیا۔
اخبار کے مطابق ہندوتوا گروپس وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے ارکان سمیت میٹنگ میں شرکت کرنے والوں نے الزام لگایا کہ مسلمانوں کی دکانوں پر ایک سازش کے تحت ’’ہندو ناموں اور ہندو دیوتاؤں‘‘ کا استعمال کیا گیا ہے۔
وشو ہندو پریشد کی مانیسر یونٹ کے جنرل سکریٹری دیویندر سنگھ نے میٹنگ میں کہا ’’اقتصادی بائیکاٹ ہی واحد حل ہے۔ ان (مسلمانوں) کی دکانیں کاروبار یا روزگار کے لیے نہیں ہیں… یہ جہاد کا حصہ ہیں۔ دیہاتوں میں کمیٹیاں بنانے کی ضرورت ہے جو بات چیت اور کارروائی کر سکیں۔ ہم نے اس کی شروعات مانیسر سے ہی کر دی ہے۔‘‘
انڈین ایکسپریس کے مطابق میٹنگ میں کئی دیگر مقررین نے بھی اس بائیکاٹ کال کی حمایت کی۔
پنچایت ممبران نے ڈپٹی کمشنر کو ایک میمورنڈم بھی پیش کیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ ’’غیر قانونی تارکین وطن‘‘ کو بے دخل کیا جائے۔
میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ ’’اس کی فوری انکوائری ہونی چاہیے اور جو غیر قانونی طور پر قیام پذیر پائے جائیں انھیں بے دخل کیا جانا چاہیے۔ وہ لوگوں کامذہب تبدیل کروانے میں ملوث ہیں اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔‘‘
سنگھ نے کہا کہ پنچایت ’’ہندو سماج‘‘ کی جانب سے ملک میں بڑھتی ہوئی ’’مذہبی بنیاد پرستی اور جہادی طاقتوں‘‘ کے خلاف بلائی گئی تھی۔
ہندوتوا تنظیم کے رہنما نے دعویٰ کیا کہ روہنگیا، بنگلہ دیشی اور پاکستانی اپنی اصل شناخت چھپا کر گروگرام اور مانیسر میں غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔
اس نے کہا کہ ہم نے انتظامیہ کو اس کی تحقیقات کرنے اور غیر قانونی دستاویزات رکھنے والوں کی شناخت کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا ہے۔ یہ ہماری سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ اگر کوئی کارروائی نہیں ہوئی تو ہندو سماج کارروائی کرے گا۔ ایک اور پنچایت بڑے پیمانے پر بلائی جائے گی اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔‘‘
میٹنگ کے مقررین نے مہاراشٹر کے امراوتی اور راجستھان کے ادے پور میں ہوئے قتل کے بارے میں بھی بات کی۔ دی کوئنٹ کی رپورٹ کے مطابق انھوں نے شرکاء سے کہا کہ وہ اپنے تحفظ کے لیے اپنے فون کی جگہ ہتھیار رکھیں۔
شرکاء نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ 29 جون کو منعقدہ ایک ریلی کے منتظمین کے خلاف درج کی گئی پہلی اطلاعاتی رپورٹ، جس کے دوران ہندوتوا تنظیموں کے ارکان نے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز نعرے لگائے، کو واپس لیا جائے۔
اتوار کو ہونے والی اس پنچایت میٹنگ میں کاسن، دھروہیرہ اور گروگرام کے قریبی علاقوں سے تقریباً 200 افراد نے شرکت کی۔