’اے ماؤ! بہنو! بیٹیو! دنیا کی عزت تم سے ہے‘

عالم ریختہ: یوم خواتین کے موقع پر خاص، اردو شاعری میں عورت کے مختلف رنگ و روپ

ڈاکٹر محمد کلیم محی الدین

اردو شاعری میں عورت کے مختلف رنگ و روپ پوری آب و تاب کے ساتھ جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ یومِ خواتین کے موقع پر ہفت روزہ دعوت کے لیے چند منتخب شعراء کے کلام کا مختصر مطالعہ پیش کیا جا رہا ہے۔
مقدمہ شعر و شاعری میں الطاف حسین حالی نے شاعری پر تنقیدیں اور ایک صالح انقلاب کی کوشش کی۔ انھوں نے شاعری کو اصلاح کا ذریعے بنانے کی سعی کی۔ وہ عورتوں کی تعریف اور ان کو نصیحتیں بھی کرتے ہیں اور ان کی شجاعت و محنت کو سراہتے بھی ہیں۔
’چُپ کی داد‘ الطاف حسین حالی کی ’ترکیب بند‘ ہے۔ اسے انھوں نے رسالہ ’’خاتون‘‘ علی گڑھ کے ایڈیٹر کی فرمائش پر لکھا تھا۔ رسالہ کے ایڈیٹر نے اسے علیحدہ کتابی شکل میں بھی شائع کروایا تھا اس کی نقل جولائی 1937 کو حالی بک ڈپو پانی پت سے شائع ہوئی جس میں انہوں نے خواتین کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی۔ شعری صنف ’ترکیب بند‘ میں لکھا گیا ہے۔ کل 8 بند اس میں شامل ہیں۔ پہلے بند کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں :
اے ماؤ! بہنو! بیٹیو! دنیا کی عزت تم سے ہے
ملکوں کی بستی ہو تمہی، قوموں کی عزت تم سے ہے
تم گھر کی ہو شہزادیاں، شہروں کی ہو آبادیاں
غمگیں دلوں کی شادیاں، دُکھ سکھ میں راحت تم سے ہے
پہلے بند میں الطاف حسین حالی نے خواتین کے مختلف روپ کی ستائش کی ہے۔ انھوں نے عورتوں کو قوم کی عزت کہا ہے۔ غمگیں دلوں کی خوشی قرار دیا ہے۔ دنیا میں لڑکی آمدِ بے طلب کہا ہے لیکن اس کی پیدائش کے بعد گھر بھر پر اس کے چھا جانے کی ستائش کی ہے۔ پیدائش سے لے کر موت تک مختلف مراحل کی بھی عکاسی کی ہے۔ کہیں میکے میں گھر کی دیکھ بھال اور ماں باپ کی فرماں برداری کا ذکر کیا تو کہیں سسرال کا ذکر کیا۔ چُپ چاپ غم کو سہنا اور خوشیاں بکھیرنا خواتین کی صفت بتایا ہے یہ شعر دیکھیے
آخر تمہاری چُپ دلوں میں اہل دل کے چُبھ گئی
سچ ہے کہ چُپ کی داد آخر بے ملے رہتی نہیں
علم حاصل کرنا ہر کسی کے لیے ضروری ہے۔ آخری بند میں انھوں نے تعلیم نسواں کی تائید میں لکھا ہے :
اے بے زبانوں کی زبانو! بے بسوں کے بازؤو
تعلیم نسواں کی مہم، جو تم کو اب پیش آئی ہے
یہ مرحلہ آیا ہے پہلے تم سے، جن قوموں کو پیش
منزل پہ گاڑی ان کی استقلال نے پہنچائی
غرض یہ ’’چپ کی داد‘‘ میں حالی نے بہت خوبی کے ساتھ عورت کے رتبہ سے لوگوں کو واقف کروایا ہے۔ انھوں نے زندگی کے مختلف ادوار میں خواتین کے رول کو ابھارا ہے اور ساتھ ہی خواتین پر ہونے والے ظلم وناانصافی کے خلاف بھی آواز اٹھائی ہے۔
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال نے شاعری کو پیغامبری کا ذریعہ بنایا۔ انھوں نے ثابت کیا کہ شاعری صرف محظوظ ہونے کا ذریعہ نہیں بلکہ اس سے لوگوں کی اصلاح کی جاسکتی ہے اور اس کے ذریعے صالح معاشرہ کی تعمیری ممکن ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں کئی مقامات پر عورت کی کائنات میں اہمیت کو واضح کیا ہے۔ ضربِ کلیم میں انھوں نے ’’عورت‘‘ کے عنوان سے اشعار لکھے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں
علامہ اقبال خواتین کی تعلیم کے حامی تھے لیکن ساتھ ہی وہ وہ عورت کے لیے دینی تعلیم کو لازم تر قرار دیتے ہیں۔ ’’ضرب کلیم‘‘ میں اقبال کچھ اس طرح سے مخاطب ہیں:
تہذیب فرنگی ہے اگر مرگِ امومت
ہے حضرت انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسۂ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت
ماں کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ ماں بچے کی پہلی تربیت گاہ ہے۔ اقبال اپنی کامیابی کی وجہ اپنی ماں کی تربیت بتاتے ہیں۔ علامہ اقبال کی والدہ امام بی بی نے دین اور دنیا دونوں اعتبار سے ان کی تربیت کا اہتمام کیا اور ماں کی ہمت افزائی نے انہیں زندگی کے مختلف مراحل میں مشکلات کا سامنا کرنے کی طاقت بخشی ہے۔ وہ اپنی ماں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں:
تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر میرے اجداد کا سرمایۂ عزت ہوا
دفتر ہستی میں تھی زرین ورق تیری حیات
تھی سراپا دین و دنیاکا سبق تیری حیات
ماں اپنے بچوں کو خود سے زیادہ چاہتی ہے۔ اگر بچہ رات کے وقت بستر گیلا کردیتا ہے تو وہ بار بار خشک کرتی ہے تاکہ اسے سردی نہ لگ جائے۔ پہلے بچوں کو کھلاتی ہیں اور پھر خود کھاتی ہے۔ ماں کے ایثار کا بدلہ بچے کبھی بھی ادا نہیں کر سکتے۔ چنانچہ بچہ کی پیدائش کے وقت ماں درد سے جو آہیں بھرتی ہے، سسکیاں لیتی ہے اس ایک آہ کا یا ایک سسکی کا بھی بدلہ اولاد زندگی بھر اس کی خدمت کر کے بھی ادا نہیں کر سکتی۔ بچوں کے لیے وہ اپنی نیند اور چین کو قربان کر دیتی ہے۔ اسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مشہور شاعر عباس تابشؔ لکھتے ہیں:
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
اسلامی تاریخ میں کئی ایسی بہادر خواتین بھی گزری ہیں جنھوں نے بے مثال کارنامے انجام دیے ہیں۔ شاعری میں بھی یہ مثالیں ہمیں نظر آتی ہیں۔ علامہ اقبال نے ایسی ہی لڑکی کی بہادری کو بانگ درا میں سراہا ہے۔ فاطمہ بنت عبداللہ جو عرب کے قبیلہ البراعصہ کے سردار شیخ عبداللہ کی گیارہ سالہ بیٹی تھی جو 1912 میں جنگ طرابلس میں غازیوں کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہوگئی تھی۔ اشعار ملاحظہ ہوں:
فاطمہ! تو آبروئے امت مرحوم ہے
ذرّہ ذرّہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے
یہ سعادت حور صحرائی! تری قسمت میں تھی
غازیان دیں کی سقائی تیری قسمت میں تھی
یہ جہاد اللہ کے راستے میں بے تیغ و سپرہے
جسارت آفرین شوق شہادت کس قدر
بے پردگی ایک برائی ہے جس کی ہر دور میں مذمت کی گئی ہے۔ دین اسلام میں بے حیائی اور پردگی کو سخت ناپسند کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں گھر سے باہر نکلتے وقت چادر وغیرہ سے جسم کو ڈھانکنے کے احکام واضح طور پر موجود ہیں۔ مشہور شاعر اکبرالہ آبادی نے خواتین کی بے پردگی میں مردوں کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ چناںچہ ان کے مشہور اشعار ملاحظہ ہوں:
بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں
اکبرؔ زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑ گیا
عورت آدھی انسانیت ہے۔ عورت گھر کی ملکہ ہے۔ ایک عورت اگر خواندہ ہے تو اس سے ایک خاندان خواندہ ہوتا ہے۔ ایک تعلیم یافتہ ماں ہی اپنے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرتی ہے۔ ماں کی تربیت کا اثر بچوں پر ہمیشہ رہتا ہے۔ آگے چل کر وہ جو کچھ بنتے ہیں اس میں ماں کی تربیت کا بہت زیادہ دخل ہوتا ہے۔ ہر دور میں عورت کو ہمت، حوصلہ اور تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونا چاہیے۔ اسی سے قوم و ملک کی ترقی ممکن ہے۔
***
حوالے:
چُپ کی داد، الطاف حسین حالی،پیش کردہ حالی بک ڈپو، پانی پت
کلیات اقبال۔مطبع : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی 2014
کلیات ِ اکبر۔سنٹرل بک ڈپو، اردوبازار، جامع مسجد ، دہلی
***