این ایچ آر سی نے آسام حکومت سے گائے کا گوشت فروخت کرنے کے سبب تشدد بنائے جانے والے شخص کو ایک لاکھ روپے ادا کرنے کو کہا
گوہاٹی: نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (این ایچ آر سی) نے آسام حکومت کو ایک ایسے شخص کو ایک لاکھ روپیہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے، جسے ایک پرتشدد ہجوم نے ضلع بسواناتھ میں چائے کے ایک اسٹال پر پکا ہوا گائے کا گوشت فروخت کرنے پر مارا پیٹا تھا۔
کمیشن نے اس حقیقت کا بھی سنجیدہ نوٹس لیا کہ چیف سیکرٹری نے شوکاز نوٹس کا جواب نہیں دیا اور نہ ہی پولیس کے ڈائریکٹر جنرل نے اس معاملے میں قصوروار پولیس عہدیداروں کے خلاف کارروائی کی رپورٹ پیش کی۔
گذشتہ سال 7 اپریل کو شوکت علی (48) کو اپنے چائے کے اسٹال پر پکا گوا گائے کا گوشت فروخت کرنے کے سبب ایک ہجوم نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں اسے خنجیر کا گوشت کھانے پر مجبور کیا تھا۔
علی کو دکان چلانے کی اجازت دینے پر مارکیٹ کے ایک ٹھیکیدار کو بھی مارا پیٹا گیا تھا۔
واضح رہے کہ آسام میں گائے کے گوشت کا استعمال اور خرید و فروخت قانونی ہے۔
اپوزیشن لیڈر دیبابرتا سایکیہ کی ایک شکایت پر 9 ستمبر کو اس معاملے پر غور کرتے ہوئے حقوق انسانی کی تنظیم نے ڈی جی پی کو انتباہ کیا تھا کہ اگر چار ہفتوں میں رپورٹ نہ بھیجی گئی تو اس کے خلاف کارروائی شروع کردی جائے گی۔
این ایچ آر سی نے کہا کہ ’’کمیشن کو متعلقہ اتھارٹی کی جانب سے وجہ بتاؤ نوٹس کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا جس کی وجہ سے کمیشن نے یہ مشاہدہ کیا کہ متعلقہ اتھارٹی کے پاس کمیشن کو جواب دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ لہذا کمیشن اپنی سفارش کی تصدیق کرتا ہے اور چیف سکریٹری، آسام حکومت کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ متاثرہ شوکت علی کو 1،00،000 روپے کی رقم جاری کرے اور چھ ہفتوں میں کمیشن کو ادائیگی کے ثبوت کے ساتھ ایک رپورٹ پیش کرے۔‘‘
اس معاملے میں پولیس نے 15 افراد کوگرفتار کرکے انھیں عدالتی تحویل میں بھیج دیا ہے۔ گرفتار افراد میں بی جے پی کا ایک وارڈ ممبر بھی شامل ہے۔