این آئی اے نے دہشت گرد روابط کے الزام میں سابق بی جے پی رہنما کو گرفتار کیا

سرینگر، 3 مئی: قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) نے بدنام نائب پولیس سپرنٹنڈنٹ (ڈی وائی ایس پی) دیویندر سنگھ سے تعلقات کے الزام میں، جسے دہشت گردی کے الزام میں رواں سال جنوری میں گرفتار کیا گیا تھا، ایک سابق ’’بی جے پی رہنما‘‘ کو گرفتار کیا ہے۔

بی جے پی کے سابق رہنما اور سرپنچ 36 سالہ طارق احمد میر کو بدھ کے روز این آئی اے نے گرفتار کیا تھا۔ اس کا نام حزب المجاہدین کے ساتھ سِنگھ کے گٹھ جوڑ کی جاری تحقیقات کے دوران سامنے آیا ہے۔

دیویندرسِنگھ ، جو سرینگر ہوائی اڈے پر اینٹی ہائی جیکنگ ونگ میں تعینات تھا، 11 جنوری کو جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں سے ایک کار میں سفر کر رہا تھا، جب وہ حزب المجاہدین کمانڈر نوید بابو اور الطاف کے ہمراہ گرفتار ہوا۔

پولیس ذرائع نے بتایا کہ سِنگھ حزب کمانڈروں کو وادی سے نکالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ سرینگر میں سنگھ کے گھر پر چھاپے میں دو اے کے-47 رائفلیں برآمد ہوئی ہیں۔

’’ٹورچر سنگھ‘‘ کے لقب سے جانا جانے والا سنگھ، سرینگر میں اسپیشل آپریشن گروپ (ایس او جی) میں تعینات ہونے پر لوگوں کو حراست میں رکھنے پر اذیت دینے کے لیے بدنام تھا۔ سِنگھ کا نام

ذرائع نے بتایا کہ میر ایک اسلحہ کمانڈر تھا جس سے عسکریت پسند گروپوں اور سَنگھ کو اسلحہ کی فراہمی کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔ اسے عدالت میں پیش کیا گیا، جس نے اس کو این آئی اے کی چھ روزہ حراست میں دے دیا۔

بی جے پی نے میر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسے اکتوبر 2018 میں پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ بی جے پی کے ریاستی ترجمان الطاف ٹھاکر نے کہا ’’جنوبی کشمیر سے گرفتار شخص کو اکتوبر 2018 میں پارٹی مخالف سرگرمیوں کے سبب پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ یہ اطلاعات کہ وہ بی جے پی کے سرپنچ ہیں، حقیقت کے خلاف ہیں، کیوں کہ جموں وکشمیر میں غیر جماعتی بنیادوں پر پنچایت انتخابات ہوئے تھے۔‘‘

ٹھاکر نے دعویٰ کیا کہ بی جے پی اصولوں اور صاف ستھرے لوگوں کی پارٹی ہے۔ انھوں نے کہا ’’بی جے پی سے وابستہ ہر فرد کا صاف ستھرا ریکارڈ ہے۔ ہم ان لوگوں کی عسکریت پسندی کے لنکس یا مجرمانہ ریکارڈ کے حامی نہیں ہیں۔ بی جے پی شفاف ماضی، حال اور مستقبل کے حامل لوگوں کے لیے کھڑی ہے۔‘‘

بی جے پی کے ترجمان نے واضح کیا کہ میر کو پارٹی سے نہیں جوڑنا چاہیے، کیوں کہ انھیں دو سال قبل ہی پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا ’’اس کے نام کو اب بی جے پی کے ساتھ نہیں جوڑنا چاہیے۔ بی جے پی کے ساتھ کسی کی وابستگی قرار دینے سے پہلے میڈیا کو حقائق کی جانچ کرنی چاہیے۔‘‘