ایمرجنسی ۱۹۷۵: رات سے صبح بھی نمایاں ہوئی
انتظار نعیم،نئی دلّی
۲۵/۲۶ جون ۱۹۷۵ کی سیاہ رات ہندوستان میں ملکی دستور کی پامالی، جمہوری نظام کی تباہی اور ظلم و نا انصافی کے خوف ناک دور کے قیام کی ناپاک کوشش کے لیے تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
۲۶؍ جون کی صبح ملک بیدار ہوا تو اس کو یہ محسوس کرنے میں دیر نہ لگی کہ دستور ہند لہو لہان ہے، آمریت کا غلبہ ہے اور عدل و انصاف کا قتل جاری ہے۔اسی رات وطن عزیز میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی تھی جس کی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی اور ان کے حوارین کے علاوہ کسی کو ضرورت نہ تھی۔ ایمرجنسی کے زیر سایہ ملک کی ۳۶ تنظیموں، جماعتوں اور پارٹیوں پر پابندی لگادی گئی۔ تحریر و تقریر کی آزادی سلب کرلی گئی اور جو لوگ بھی مسز اندرا گاندھی کے دہشت گردانہ فکر اور طرز عمل کے پرستار محسوس نہ کئے گئے ان کو ملک کے طول و عرض میں گرفتار کرکے جیلوں میں قید کردیا گیا۔ہندوستان میں پولیس راج اور خوف کا ماحول تھا، لوگ گاووں، قصبوں اور شہروں سے بعض اوقات ہتھکڑیوں میں جکڑ کرلے جائے جاتے لیکن کوئی پولیس فورس سے یہ سوال کرنے کی جرات نہ کرتا کہ گرفتار کئے جانے والے شخص کا جرم کیا ہے؟ گرفتار کئے جانے والے اشخاص کو پولیس اسٹیشن لے جانے کے بعد پولیس کا عملہ یہ طے کرتا کہ ان پر کیا جرم عائد کیا جائے!۔
ایمرجنسی کا ایک بڑا ستم جماعت اسلامی ہند پر بھی پابندی عاید کیا جانا تھا۔ جب کہ مسز اندرا گاندھی کے خلاف جے پرکاش ناراین کی جاری تحریک کے دوران ملک میں امن و امان کے قیام کے لیے امیر جماعت اسلامی ہند مولانا محمد یوسف ؒ نے اپیل بھی کی تھی۔ اس کا صلہ انہیں یہ دیا گیا کہ ملک کے اس بڑے بہی خواہ کو اپنے رفقائے جماعت کے ساتھ گرفتار کیا گیا اور ان پر اندرا گاندھی کی حکومت کا تختہ پلٹنے کی سازش کا الزام لگایا گیا اور ۷۵ سالہ فرشتہ صورت اور نیک سیرت بزرگ کو تہاڑ جیل میں تیس ہزاری عدالت کو ہتھکڑیاں لگاکر لایا جاتا ہے !
یہ بات جماعت اسلامی ہند کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھی جائے گی کہ اپنی گرفتاری کے بعد تیس ہزاری کورٹ میں عصر تا عشا اپنے مقدمے کی پیروی خود ہی کرتے ہوئے امیر جماعت نے غیر معمولی صبر و استقامت کا اظہار کیا اور اپنی یا اپنی جماعت کی جانب سے کسی معافی طلبی کا اشارہ تک نہیں کیا اور تحریک کی آبرو رکھی۔
امیر جماعت کو عدالت لانا تو ایک رسم تھی سو وہ پوری کردی گئی اور عشا کے قریب ان کو اور سکریٹری جماعت مولانا سید حامد علی ؒ کو تہاڑ جیل روانہ کردیا گیا۔ پھر جب ان کو تاریخ پر ہاتھ میں ہتھکڑی لگاکر عدالت میں لایا جاتا تو وہ منظر قابل دید ہوتا تھا۔ موصوف ہتھکڑیوں کی کوئی فکر کئے بغیر جماعت کے رفقا و احباب کے حالات جاننے کے لیے بے تاب رہتے تھے۔ یہی کیفیت ان کی ہر تاریخ پر ہوتی تھی۔
میری مصروفیت جماعت اور اس کے وابستگان سے متعلق مختلف کاموں کے سلسلے میں جاری رہتی تھی۔ کبھی میں دلی رہتا اور کبھی کسی ریاست کے حالات جاننے کے لیے نکل جاتا۔ دلی میں میری گرفتاری اکتوبر ۷۵ میں ہوئی ۔ مجھے بھی عدالتی کارروائی کی رسم پوری کرکے تہاڑ سنٹرل جیل بھیج دیاگیا۔ مجھ کو بھی جیل کے سنگین وارڈ میں وہیں لے جایا گیا جہاں محترم امیر جماعت مولانا محمد یوسفؒ کے ساتھ دیگر ذمہ داران و وابستگان نیز سہ روزہ دعوت، کانتی ویکلی، ریڈینس ویکلی اور دلی جماعت کے وابستگان و احباب موجود تھے۔ محسوس ہوا کہ جیسے اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔ سب نے شفقت و محبت کے ساتھ استقبال کیا۔ہماری بیرک میں ایک طرف آر ایس ایس اور جن سنگھ کے بھی کچھ حضرات مقیم تھے۔ جماعت کا قافلہ اذان اور باجماعت نماز کا اہتمام کرتا تھا۔ معلوم ہوا کہ میری گرفتاری کے روز تک جمنا پار کے ایک غیر جماعتی صاحب اذان دیا کرتے تھے لیکن ان کے لہجے کی تندی و تیزی بلکہ کرختگی سے غیر مسلم حضرات پریشانی محسوس کرتے تھے۔ میرے پہنچتے ہی محترم امیرجماعت نے مجھ سے عشا کی اذان دینے کے لیے فرمایا۔ میں نے اذان دی تو جن سنگھ کے ایک معروف لیڈر گوئل صاحب امیر جماعت کے پاس تشریف لائے اور میری اذان کی تحسین فرمانے لگے۔ ایک روز موسیقی کے شوقین جن سنگھ کے ایک صاحب مجھ سے فرمانے لگے کہ آپ کی اذان کی آواز موسیقی کے تمام اصولوں کے مطابق ہوتی ہے!
پھر تو الحمدللہ یہ ہونے لگا کہ بیرک میں بعد میں لائے گئے تقریباً ۷۰ کے قریب آر ایس ایس کے نوجوان طلبہ جو آغاز آمد پر اذان کے وقت بھی شور شرابا اور ہنگامہ کرتے رہتے ، بعد میں میری اذان شروع ہوتے ہی سنجیدگی اختیار کرلیتے اور اشارے سے ایک دوسرے کو خاموش کرنے لگتے۔ایمرجنسی کی جیل کیا تھی، مختلف افکار و خیالات اور تنظیموں کے افراد کے ایک ساتھ جمع ہوجانے کا مقام تھا۔ ایک دوسرے سے ناواقف و بدگمان لوگ تک باہم مل کر رہنے پر مجبور تھے۔ ہمارے ساتھ بیرک میں جو نوجوان تھے وہ شام کو بیرک سے باہر وارڈ کے وسیع میدان میں کشمیر نامی کھیل کھیلتے۔ نوجوان دو گروہوں میں خود کو تقسیم کرلیتے۔ ایک گروپ بھارت بنتا اور دوسرا پاکستان۔ دونوں آمنے سامنے کھڑے ہوکر نعرے بلند کرتے، ایک بھارت کی حمایت کرتا اور دوسرا پاکستان کی۔ شور کرتے ہوے دونوں گروپ آخر میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوتے اور جنگ میں فتح بھارت کی ہوتی!
اس کھیل کے ذریعے بیرک کے غیر مسلم نوجوان ساتھیوں کے ذہن و فکر کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ہم نے ان کے اس مزاج پر کوئی گفتگو کرنے کے بجائے ان کے ساتھ محبت و رواداری کا رویہ اختیار کیا۔ نتیجے میں ان میں سے ایک نوجوان نے تنہائی میں مجھ سے لمبی گفتگو میں اپنی کئی بدگمانیوں اور غلط فہمیوں کا ازالہ ہوجانے کے بعد کہا آپ لوگ دیوتا ہیں! ایک اور نوجوان ایک دن اپنے بستر پر شدید تکلیف میں محسوس ہوا تو اس کا خیال کئے بغیر کہ وہ ہم لوگوں سے نفرت کرتے تھے میں نے اور برادرم شبیر احمد فلاحی صاحب نے ان کے پاس جاکر ان کا سر اور پیر دیر تک دباتے رہے کچھ دیر بعد انہیں راحت محسوس ہوئی، انہوں نے آنکھیں کھولیں اور محبت آمیز لہجے میں ہماری طرف اشارہ کیا اور کہا کہ آپ لوگ دیوتا ہیں!
جیل کی تفصیلات بہت سی ہیں، مختصر یہ کہ جماعت اسلامی کے ہمارے بزرگوں اور ہم نوجوان ساتھیوں کی نرم خوئی اور محبت کے سلوک نے بیرک ہی نہیں بلکہ پورے وارڈ کے ماحول کو خوش گوار بنادیا تھا۔
مہاراشٹرا میں پونہ جیل میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ آر ایس ایس کے سربراہ بالا صاحب دیورس بھی قید تھے۔ اس جیل کے ماحول کو جماعت اسلامی ہند کے دیگر احباب کے ساتھ بہ طور خاص جناب محمد حسین اسلمی (بھیونڈی) جناب غلام رسول دیشمکھ (بھاول) اور جناب مصطفیٰ خاں (شولا پور) کے اعلیٰ کردار اور محبت و رواداری کے طرز عمل نے پورے جیل کا ماحول ہی تبدیل کردیا تھا۔ بالا صاحب دیورس کا حال یہ تھا کہ وہ جماعت کے ان احباب کے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے، ان کا انتظار کرتے اور ان کو بلوا کر ہی کھانا کھاتے۔جماعت اسلامی بہار کے امیر ڈاکٹر ضیا الہدی صاحب کے اسلامی کردار نے پٹنہ جیل کی مخدوش فضا کو محبت و اپنائیت اور خلوص و رواداری کے اپنے فطری اظہار سے یکسر بدل دیا تھا اور ڈاکٹر صاحب پوری جیل کے محترم ’چچا‘ بن گئے تھے۔
(مضمون نگارجماعت اسلامی ہندکےسابق اسسٹنٹ سکریٹری )