زعیم الدین احمد،حیدرآباد
بھارت ایک طرف دنیا کا سپرپاور بننے کی کوشش میں سرگرداں ہے تو دوسری طرف ملک میں بسنے والے کمزور طبقات جیسے ایس سی، ایس ٹی اور مسلمان اس ترقی کے ثمرات سے محروم ہیں۔ ملک کی ترقی کے منصوبوں میں ان طبقات کو عملاً نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور موجودہ حکومت میں یہ عمل تو اور بھی بے باکی کے ساتھ جاری ہے۔ آج کی ڈیجٹل و تیزرفتار دنیا میں بھی یہ کمزور طبقات غربت و بھکمری کا شکار ہیں۔ یہ نہ صرف ایک شرمناک بات ہے بلکہ تاریخ کا المیہ بھی ہے۔
حال ہی میں اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ (2006-2005 تا 2016-2015) میں بھارت کو شرمسار کرنے والے حقائق منظر عام پر آئے ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں رہنے والے تین طبقات—درج فہرست قبائل (ST) میں سے ہر دوسرا، درج فہرست ذاتوں (SC) اور مسلمانوں میں سے ہر تیسرا شخص سطح غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ یہ طبقات صرف معاشی طور پر ہی غریب نہیں ہیں بلکہ وہ زندگی کے ہر شعبے میں انتہائی کمزور پائے گئے ہیں۔ وہ غذائی قلت کا شکار ہیں، وہ تعلیمی لحاظ سے پیچھے ہیں، وہ سماجی طور پر دبے کچلے ہیں اور سیاسی میدان میں ان کو پوری طرح حاشیے پر دھکیل دیا گیا ہے۔ ان کے پیچھے رہ جانے کے اسباب میں اعلیٰ ذاتوں کا اقتدار میں رہنا اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم بھی شامل ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ ترقیاتی پروگرام (UNDP) اور آکسفورڈ پاورٹی اینڈ ہیومن ڈیولپمنٹ انیشیٹیو (OPHI) کے اشتراک سے گلوبل ملٹی ڈائمنشنل پاورٹی انڈیکس (MPI) کے پروگرام کے تحت ایک تحقیقاتی سروے کیا گیا۔ یہ سروے سال ۲۰۰۵۔۲۰۰۶سے سال ۲۰۱۵۔۲۰۱۶تک کیا گیا۔پانچ جہتوں سے مذکورہ طبقات کے معیار زندگی کو جانچا گیا۔ یہ پہلو معاش، تغذیہ، تعلیم، صحت اور اثاثہ جات سے متعلق ہیں۔
سروے میں ملک کے 640 اضلاع کا احاطہ کیا گیا اور ایک رپورٹ ترتیب دی گئی۔اس رپورٹ کے مطابق بھارت کے 27اضلاع ایسے ہیں جہاں کی 70فیصد آبادی انتہائی غربت میں زندگی بسر کرتی ہے۔ مدھیہ پردیش کے ضلع علیجہ پور کو بھارت کا سب سے زیادہ غریب ضلع قرار دیا گیا جہاں 76.5فیصد لوگ ہمہ جہت غربت کا شکار ہیں۔
بھارت ان دس سالوں میں 27کروڑ 10 لاکھ افراد کو انتہائی غربت سے باہر نکالنے میں کامیاب رہا جب کہ یہ تعداد 63کروڑ 50لاکھ سے زیادہ تھی۔ اس کوشش کے باوجود بھی 36 کروڑ 40لاکھ افراد اب بھی انتہائی اور ہمہ جہت غربت کا شکار ہیں۔ یہ اعداد بذات خود دنیا کے کئی ممالک کی کل آبادی کے برابر ہیں آج بھی بھارت کی کل آبادی کا 27.5فیصد ہمہ جہت غربت کا شکار ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہمہ جہت غربت سے مراد یہ ہے کہ یہ طبقات صرف معاشی طور پر ہی غربت کا شکار نہیں ہیں بلکہ ان میں شدید طور پر غذائی قلت بھی پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کے بچے بھکمری کا شکار ہوتے ہیں۔ ان طبقات کے بچے بنیادی تعلیم حاصل کرنے سے بھی محروم ہیں۔ بنیادی صحت کی سہولتیں بھی انہیں میسر نہیں ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کے پاس کوئی اثاثے بھی موجود نہیں ہیں۔ وہ ہر اعتبار سے غریب ہیں ان کے بچے جن کی عمریں 10 سال سے کم ہیں ان کا شمار ملک کے غریب ترین عوام میں ہوتا ہے۔ یہ اس نوعیت کی ہمہ جہت غربت کا شکار ہیں۔
درج فہرست قبائل کی آبادی کا 50 فیصد حصہ ہر طرح کی غربت کا شکار ہے جنہیں کھانے کے لیے کھانا، پینے کے لیے صاف پانی، سر چھپانے کے لئے کٹیا اور علاج کی کوئی بنیادی سہولت میسر نہیں ہے۔ دلت اور مسلمانوں کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ ان کی 33فیصد آبادی سطح غربت سے نیچے زندگی گزار نے پر مجبور ہے۔
ملک کی آبادی کا تقریباً 40 فیصد حصہ انہی SC, ST اور مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ان کی معاشی بدحالی کو دور کرنے، ان میں ناخواندگی کو ختم کرنے اور ان کو سماجی طور پر اونچا اٹھانے کی حکومتی سطح پر جس طرح کی کوششیں ہونی چاہئے تھیں وہ عمداً نہیں کی گئیں۔ آج بھی اس ترقی یافتہ دور میں ان کے ساتھ حیوانوں جیسا برتاؤ کیا جاتا ہے۔ ترقی کے سارے ثمرات اعلیٰ ذاتوں تک محدود رکھے جاتے ہیں۔ انہیں اعلیٰ ذاتوں کی جانب سے کچلنے اور دبانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ سماجی طور پر تو انہیں عدم مساوات و عدم برابری کا سامنا ہے ہی لیکن سیاسی طور پر بھی انہیں حاشیہ پر لا کر رکھ دیا گیا ہے۔ دستور نے انہیں جو تحفظات فراہم کیے ہیں اعلیٰ ذاتوں کی سازش یہ ہے کہ ان کو اب اس سے بھی محروم کر دیا جائے۔
بھارت میں آج بھی کئی اضلاع ایسے ہیں جہاں کی آبادی دلتوں اور مسلمانوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے وہ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، جہاں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، جہاں بچوں کے لیے بنیادی تعلیم کی سہولت فراہم نہیں ہے اور جہاں کی عوام ہمہ جہت غربت کا شکار ہیں۔ مدھیہ پردیش اور اتر پردیش ریاستوں کے کئی اضلاع ایسے ہیں جہاں کی 70 فیصد آبادی سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ان اضلاع کی ایک بڑی آبادی دلت اور مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ان کے ساتھ جانبدارانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے اندر عدم تحفظ کی فضا قائم ہے۔
ان دس سالوں میں مسلمان، SC اورST طبقات میں معاشی طور پر کچھ بہتری ہوئی ہے لیکن دیگر پیمانوں میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔ وہ آج بھی سماجی عدم مساوات کا شکار ہیں اور ان کے سروں پر تشدد کی تلوار ہمیشہ لٹکتی ہے۔
اگر یہ تین طبقات اپنی موجودہ حالات سے ابھرنا اور وہ ملک میں اپنی بقا چاہتے ہیں تو ان کو اپنی سیاسی بے وزنی کو دور کرنا ہوگا۔ انہیں ایک مشترکہ سیاسی حکمت عملی طے کرنی ہوگی۔ انہیں آپس میں ایک ساتھ آنا ہوگا، ایک آواز میں اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لیے لڑنا ہوگا اور بھارت کو بھکمری، بیماری اور بے ایمانی سے نجات دلانا ہوگا۔
یہ اس وقت ممکن ہے جب یہ تینوں طبقات مل کر مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع ہوں۔ کیونکہ یہ کل آبادی کا تقریباً 40 فیصد ہیں تو انہیں اپنی سیاسی قوت کا اندازہ لگاتے ہوئے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا ہوگا اور ایک نئی سیاسی قوت بن کر ابھرنا ہوگا۔ تب ہی نہ صرف ان طبقات کے حالات بدل سکتے ہیں بلکہ پورے ملک کی صورت حال بھی بدل سکتی ہے۔ اور یہی وقت کی اہم ترین ضرورت بھی ہے۔
اس ضمن میں مسلمانوں کو خاص طور پر آگے بڑھ کر کوششیں کرنی چاہیے۔ جو دوری SC, ST طبقات کے ساتھ ہے اس کو ختم کرتے ہوئے ان کے مسائل کو حل کرنا چاہیے۔ انہیں چاہیے کہ وہ ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔ ان طبقات پر جو مظالم ہو رہے ہیں اس کے خلاف کھڑے ہوں تب ہی یہ بات ممکن ہے کہ وہ بھی آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ یہی چیز ہم سب میں اتحاد کو پیدا کرے گی اور آگے چل کر یہی قوت بھارت کو ایک سیاسی متبادل فراہم کرے گی۔