اہل وعيال کی آخرت بہتر بنانے کی فکر کريں

ابونصر فاروق
جب مکہ ميں قرآن کی يہ آيت نازل ہوئي’’اے لوگو جو ايمان لائے ہوبچاؤاپنے آپ کو اور اپنے اہل و عيال کو اس آگ سے جس کا ايندھن انسان اور پتھر ہوں گے، جس پر نہايت تند خو اورسخت گير فرشتے مقرر ہوں گے جوکبھی اپنے رب کے حکم کی نافرمانی نہيں کرتے اور جو حکم بھی انہيں دياجاتا ہے اسے بجالاتے ہيں۔ (التحريم: ۶ )’‘ تو رسول اللہ ﷺنے اپنے خاندان والوں کی دعوت کی اور ان سے فرمايا:اے گروہ قريش! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانے کی فکرکرو۔ ميں خدا کے عذاب کو تم سے ذرا بھی نہيں ٹال سکتا۔اے عبد مناف کے خاندان والوميں تم سے اللہ کے عذاب کو کچھ بھی نہيں ٹال سکتا۔ا ے عباسؓ ابن عبد المطلب!(حقيقی چچا)ميں اللہ کے عذاب کوتم سے ذرا بھی نہيں ہٹا سکتا۔اے صفیہؓ (حقيقی پھوپھی ) ميں اللہ کے عذاب کوتم سے ذرا بھی نہيں ہٹا سکتا۔اے ميری بيٹی فاطمہؓ تو ميرے مال ميں سے جتنا مانگے ميں دے سکتا ہوں، ليکن اللہ کے عذاب کو تجھ سے نہيں ٹال سکتا(پس اپنے آپ کو بچانے کی فکر کر کہ ايمان اور عمل ہی وہاں کام آئيں گے)۔(بخاری مسلم) اس حديث ميں دور رسالت کے بالکل ابتدائی دور کا واقعہ مذکور ہے جب اللہ کے نبيﷺکو اہل خاندان کو دين کی دعوت دينے کا حکم ملا تھا۔اس روايت سے ہمارے سامنے دو باتيں آتی ہيں۔ ايک يہ کہ رسولﷺکے امتی ہونے کی حيثيت سے ہر مسلمان کا يہ فرض ہے کہ وہ اپنے اہل و عيال کودين اسلام کی سچی پيروی کرنے کی تلقين کرے، شريعت کی تعليمات کو ان پر واضح کرے اور اسلامی زندگی گزارنے کے لئے ان کی تربيت کرے۔اس نظام عمل ميں يہ بات بھی پوشيدہ ہے کہ ہر مسلمان خود بھی سچا اور پکا مسلمان بنے اور دين اسلام کا اس قدر ضروری علم حاصل کرے جس پر عمل کر کے اور اپنے اہل و عيال سے عمل کرا کے جنت کا حقدار بن جائے۔دوسری اہم بات ہمارے سامنے يہ آتی ہے کہ خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺيا کسی اور بزرگ ہستی سے يہ اميد رکھنا کہ ان کی شفاعت بروز حشر اللہ کے عذاب سے ہميں بچا لے گی احمقوں کی جنت ميں رہنے کے سوا کچھ نہيں ہے۔ جب رسول اللہﷺاپنے حقيقی رشتہ داروں کو يہ کہہ رہے ہيں کہ اپنی آخرت سنوارنے کی تم خود فکر کرو، اس ضمن ميں تمہاری غفلت اور کوتا ہی کا ازالہ وہ نہيں کر پائيں گے تو پھرعام مسلمان کس طرح اپنے رسول ﷺسے شفاعت اور مدد کی اميد کر سکتا ہے جب کہ وہ دين سے غافل اور خدا کا نافرمان بن کر زندگی گزار رہا ہے۔خدا کی سچی فرماں برداری کرنے کے بعد ہی رسول اللہﷺسے شفاعت کی اميد کی جاسکتی ہے۔
معاملہ اہل و عيال کا ہو يا عام مسلمانوں کا، اسلام کی جس ہدايت اور تاکيد کا سب سے زيادہ لحاظ اور پاس رکھناضروری ہے اس کا حکم درج ذيل آيت ميں موجود ہے:
اے لوگو جو ايمان لائے ہو! انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگر چہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر يا تمہارے والدين اوررشتہ داروں پر ہی کيوں نہ پڑتی ہو۔ فريق معاملہ خواہ مالدار ہو يا غريب، اللہ تم سے زيادہ ان کا خير خواہ ہے لہذا اپنی خواہش نفس کی پيروی ميں عدل سے باز نہ رہو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی يا سچائی سے پہلو بچايا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔(النسا ء:آيت ۱۳۵)