اپنے ملک کو بچائیے
(محمدابراہیم خان آکوٹ،مہاراشٹر)
پچھلے کچھ برسوں سے پریشانیوں میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ ہم نے اردو ادب میں حب الوطنی کے بہت سارے گیت پڑھے ہیں ۔ نثر پاروں میں بھی اپنے وطن سے محبت کا اظہار کرنے والے کئی واقعات پر بھی ہماری نظر ہے۔ ہمیں اپنے اس دوست کے ایک خط کی یاد اکثرتڑپاتی ہے جس نے انتہائی مجبوری کے عالم میں روزگار کے لیے ترک وطن کا صدمہ اٹھایا تھا ۔ اب وہاں دولت کی تو کوئی کمی نہ تھی ،خوب مال کمایا۔ ادھر رقم بھیجنی شروع کی اور جیسا کہ مشہور ہے کہ ’کچھ مالی حالت ٹھیک ہو اور کچھ روپے جمع ہوجائیں تواولین فرصت میں مکان کی تعمیر کا کام انجام دینا چاہئے۔انہوں نے بھی یہی کیا۔ اپنے ایک پلاٹ پر ایک عالی شان مکان بھی تیار کیا ۔ مگر جب کبھی مجھے وہاں سے ان کے خطوط آتےتو محسوس ہوتا کہ ادھر کی یادوں کے سایے ہی ان کے دل ودماغ پر چھائے ہوئے ہیں ۔ ایک بار انہوں نے خط میں پرندے کی فریاد لکھ بھیجی اور لکھا بچپن میں علامہ اقبال کی یہ نظم پڑھی تھی۔۔ لیکن آج سمجھ میں آیا ۔۔۔ کہ بے وطنی کیا چیز ہے
آتا ہے یاد مجھ کو گذرا ہوا زمانہ
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا
ہم بھی وہ نظم کئی بار پڑھ چکے تھے ، لیکن دیار غیر میں مقیم وطن سے دور دوست کی درد بھری داستان کے ساتھ پرندے کی فریاد پڑھ کر تو رونا ہی آگیا۔ اور آخر کار وہ دن بھی آہی گیا کہ یہ پرندہ آزاد ہوا ۔ یعنی ہمارے دوست اپنے وطن عزیز میں ہمیشہ کے لیے آگئے ۔۔۔
ہم تو اکثر سوچتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی نظام کی ایک خرابی یہ ہے کہ مسلم طلباء تو اپنی مادری زبان کے علاوہ ہندی اور انگریزی سے بھی اچھی طرح واقف ہوتے ہیں ۔ قومی زبانوں کے علاوہ اپنی ریاستی زبان سے بھی واقف ہوتے ہیں ۔۔۔ لیکن ہمارے دیگر وطنی بھائی جو اپنی مادری زبان ، ریاستی زبان۔ ہندی اور انگریزی تو جان لیتے ہیں ۔ لیکن اردو سے ناواقف ہوتے ہیں ۔ اردو سے برادران وطن کی نا واقفیت بہت بڑے خسارے کا سبب بن گئی ۔ اور نفرت کی بنیادوں پر سیاست کرنے والے سیاسی جاہلوں نے ملک کی ایک خاص آبادی کو معتوب قرار دے کر نفرت کا خطرناک ماحول پیدا کر دیا ہے ۔ انتہائی درجہ نامعقول اور غلط فیصلے کر رہے ہیں ۔ جنہیں اسلام کی الف سے واقفیت نہیں وہ اسلامی موضوعات پر ڈیبٹ ، اور اظہار خیال کر رہے ہیں اور پارلیمنٹ میں بحث و تکرارکر کے اسلام کو جاننے والوں کو ہی بے وقوف قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور خود یہی لوگ غلط قانون بنا کر ملک کے پر امن ماحول کو غارت کر رہے ہیں ۔ہماری پریشانی ۔ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کتنا ہی لکھیں ، کتنا ہی چلائیں ’بھینس کےآگے بین بجانے‘ سے کیا فائدہ ؟۔۔۔ اچانک ایک دن پریشان تھے سوچ رہے تھے کہ کیا کریں۔
یہ لوگ چاہتے ہیں شراب عام ہو سوپر مارکیٹ میں اور عام دکانوں پر ملے کل تک جس ام الخبائث کو چوری چھپے لوگ خرید کر گھر ں میں لے جا کر پیتے تھے ۔پینے والے بھی بڑے محدود تھے ۔اب یہ لوگ چاہتے ہیں کہ یہ بری چیزعام ہواس کے استعمال پر کوئی روک نہ رہے ۔ بالکل اسی طرح برائیو ں سے بچانے والا، بری نظروں سے محفوظ رکھنے والا حجاب ملک کی خواتین کے لیے نہایت مفید ہے ۔مگر اس کے باوجود بھی شاطر دماغ لوگ حجاب کے خلاف محاذ آرا ہیں ۔ افسوس کہ یہ ملک پہلے ہی خواتین کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ وہ لوگ جنھیں تو شراب اور دیگر بے حیائیوں کے خلاف کام کرناتھا لیکن انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ بلکہ گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ بس یہی صورت حال ہماری پریشانی کا سبب بنی ہوئی تھی، کہ اچانک واٹس ایپ پر ایک حکایت سامنے آگئی۔ اگر آپ بھی ہماری طرح حساس ہوں ،اور ملک کے موجودہ حالات پر سوچتے رہتے ہوں ، تو ذرا اسے بھی پڑھ لیں ۔یہ منقول حکایت واٹس ایپ پر پڑھنے کے بعد ۔۔
ہمارا احساس ہے کہ اس کا آخری جملہ اصل کرنے کے کام کی طرف ہماری رہنمائی کرے گا۔حکایت کچھ ایسی تھی۔
’’ایک بادشاہ نے اپنے بہنوئی کی سفارش پرایک شخص کو موسمیات کا وزیر مقرر کر دیا۔ ایک روز بادشاہ شکار پر جانے لگا تو روانگی سے قبل اپنے وزیرِ موسمیات سے موسم کا حال پوچھا۔ وزیر نے کہا کہ موسم بہت اچھا ہے اور اگلے کئی روز تک اسی طرح رہے گا۔ بارش وغیرہ کا قطعاً کوئی امکان نہیں۔ بادشاہ مطمئن ہوکر اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ شکار پر روانہ ہو گیا۔ راستے میں بادشاہ کو ایک کمہار ملا۔
اس نے کہا حضور! آپ کا اقبال بلند ہو‘ آپ اس موسم میں کہاں جا رہے ہیں؟
بادشاہ نے کہا شکار پر۔ کمہار کہنے لگا‘ حضور! موسم ٹھیک نہیں ہے ۔ کچھ ہی دیر بعد بارش کے امکانات ہیں۔ بادشاہ نے کہا‘ ابے او برتن بنا کر گدھے پر لادنے والے ‘ تو کیا جانے موسم کیا ہے ؟ میرے وزیر نے بتایا ہے کہ موسم نہایت خوشگوار ہے اور شکار کے لیے بہت موزوں اور تم کہہ رہے ہو کہ بارش ہونے والی ہے؟
پھر بادشاہ نے ایک مصاحب کو حکم دیا کہ اس بے پر کی اڑانے والے کمہار کو دو جوتے مارے جائیں۔ بادشاہ کے حکم پر فوری عمل ہوا اور کمہار کو دو جوتے نقد مار کر بادشاہ شکار کے لیے جنگل میں داخل ہو گیا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ گھٹا ٹوپ بادل چھا گئے ۔ ایک آدھ گھنٹہ بعد گرج چمک شروع ہوئی اورپھر بارش۔ بارش بھی ایسی کہ خدا کی پناہ۔ ہر طرف کیچڑ جمع ہو گئی اور دلدل بن گیا۔ جنگل پانی سے جل تھل ہو گیا۔ ایسے میں خاک شکار ہوتا۔ بادشاہ نے واپسی کا سفر شروع کیا اور برے حالوں میں واپس محل پہنچا۔ واپس آکر اس نے دو کام کیے ۔ پہلا یہ کہ وزیرِ موسمیات کو برطرف کیا اور دوسرا یہ کہ کمہار کو دربار میں طلب کیا، اسے انعامات سے نوازا اور وزیرِ موسمیات بننے کی پیشکش کی۔ کمہار ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا‘ حضور! کہاں میں جاہل اور ان پڑھ شخص اور کہاں سلطنت کی وزارت۔ مجھے تو صرف برتن بنا کر بھٹی میں پکانے اور گدھے پر لاد کر بازار میں فروخت کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں آتا۔ مجھے موسم کا رتی برابر پتہ نہیں۔ ہاں البتہ یہ ہے کہ جب میرا گدھا اپنے کان ڈھیلے کر کے نیچے لٹکائے تو اس کا مطلب ہے کہ بارش ضرور ہو گی۔ یہ میرا تجربہ ہے اور کبھی بھی میرے گدھے کی یہ پیش گوئی غلط ثابت نہیں ہوئی۔ یہ سن کر بادشاہ نے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے کمہار کے گدھے کو اپنا وزیرِ موسمیات مقرر کر دیا۔
مؤرخوں کا کہنا ہے کہ گدھوں کو وزیر بنانے کی ابتدا تب سے ہوئی‘۔‘حکایت ختم ہوئی، ہمیں امید ہے کہ آپ بہت کچھ سمجھ چکے ہوں گے ۔ اب سوچیے اورملک کو بچانے کے لیے گدھوں کا کچھ علاج کیجیے ۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 6 تا 12 مارچ 2022