آپ اور آپ کا نصب العین

کیا آپ کا تعارف اپنی بستی میں ایک ’بہترین انسان‘ کی حیثیت سے ہے؟

مولانا محمد یوسف اصلاحیؒ

آپ ایک انقلابی انسان ہیں، آپ حالات کو بدل ڈالنے کا عزم لے کر اٹھے ہیں۔ آپ اپنے پسندیدہ اصول ونظریات کے مطابق ایک ایسا خوش گوار انقلاب لانا چاہتے ہیں کہ انسان کی انفرادی زندگی بھی بدل جائے اور اجتماعی زندگی بھی۔ آپ اسلام سے عقیدت رکھتے ہیں اور آج کی دکھی انسانیت کے تمام مسائل کا حل اسلام کو سمجھتے ہیں، آپ اسلام کے داعی ہیں اور زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کو غالب اور نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہیں، آپ کی یہ تمنا ہے کہ اللہ کے بندے صرف اللہ کی بندگی کریں اور دین کامل کے مطابق زندگی گزاریں جو اللہ نے ان کے لیے پسند کیا ہے۔ آپ کی پاکیزہ آرزو یہ ہے کہ دنیا اسلام کے رنگ میں رنگ جائے اور اسلام کی بے بہا برکتوں سے مالا مال ہوجائے۔ کتنا بلند ہے آپ کا یہ نصب العین اور کتنی مبارک ہے آپ کی یہ تمنا۔
۔۔
آپ کی پر سوز اور دلنواز گفتگوئیں بھی میں نے سنی ہیں۔ آپ کے منصوبوں سے بھی میں واقف ہوں، اصلاح وتربیت کے لیے آپ کی کوششیں بھی میرے سامنے ہیں، آپ کی مرتب اور مدلل تقریریں بھی میں نے سنی ہیں، دل کی گہرائی میں اس کا اثر محسوس کیا ہے اور ذہن ودماغ کو اطمینان بھی ہوا ہے۔ اللہ شاہد ہے کہ دل سے بے اختیار دعا نکلی ہے۔ اللہ محفوظ رکھے ہر بلا سے۔ بارہا ایسا بھی ہوا ہے کہ میں نے تنہائی میں آپ کے لیے پروردگار سے دعائیں کی ہیں۔ آپ کی کامیابی اور آپ کی درازی عمر کے لیے التجائیں کی ہیں اور اکثر میں نے اپنی آنکھوں کو بھیگا ہوا پایا ہے۔
۔۔
مگر محترم! تلخ نوائی معاف فرمائیں ’’آج کچھ درد میرے دل میں سِوا ہوتا ہے‘‘ میری زندگی میں کچھ تلخ لمحات بھی آئے ہیں، انتہائی تلخ۔ کوشش کے باوجود ان کی تلخی کسی طرح کم نہیں ہو پاتی۔ جب بھی یہ لمحات یاد آتے ہیں حیران اور پریشان ہوجاتا ہوں اور اپنے رب سے دعائیں کرتا ہوں کہ پروردگار! یہ لمحے مجھے پھر کبھی نہ دکھانا۔
محترم! ان تلخ لمحات کا تعلق آپ سے بھی ہے۔ کاش کہ ان کا تعلق آپ سے نہ ہوتا۔ یہ لمحات وہ ہیں جب میں نے آپ کی دلنواز گفتگو اور آپ کے طرز عمل میں فاصلہ محسوس کیا ہے، ایسا عظیم فاصلہ جس کو کسی حسین تاویل اور کسی حسن ظن سے میں طے کرنے میں کامیاب نہیں ہوا اور ہر بار اپنے کو سبنھالنے کی آخری کوشش کے باوجود مجھ پر مایوسی، پریشانی، حیرانی اور حوصلہ شکنی کی وہ کیفیت طاری ہوئی جس کے بیان سے بھی میرا دل دکھتا ہے۔ اللہ سے گڑگڑا کر دعا کرتا ہوں کہ الٰہی تو اپنے کرم سے اس فاصلے کو کم کردے، نہیں بلکہ ختم کردے اور جب کبھی یہ سوچتا ہوں کہ قول و عمل کا یہ فاصلہ کچھ سادہ لوح بندوں کے لیے اللہ کے دین سے بیزاری کا باعث بھی بنتا ہوگا تو عقل وفہم کی قوتیں جواب دینے لگتی ہیں اور میں بے چین ہوکر اللہ کے دامن عفو وکرم میں پناہ ڈھونڈنے لگتا ہوں۔
آپ کا عذر بجا ہے کہ حالات انتہائی سنگین ہیں۔ دولت کی ریل پیل نے انسان سے فکر وانجام کی سنجیدگی چھین لی ہے۔ آپ یہ کہنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ کسی کے دل پر آپ کا زور نہیں۔ آپ صحیح کہتے ہیں کہ معاشرے کو اپنی پسندیدہ راہ پر رواں دواں کردینا آپ کے اختیار میں نہیں ہے۔ بے شک آپ بزور حالات کی کلائی نہیں موڑ سکتے، آپ کا ارشاد بجا ہے کہ آپ صرف اپنی بات بتا سکتے ہیں، سمجھا سکتے ہیں لیکن کسی کے دل میں بات اتار دینا اور اسے بدل ڈالنا ہرگز آپ کے بس میں نہیں۔ آپ کا یہ شکوہ بھی بجا ہے کہ لوگ آپ کی بات پر دھیان نہیں دیتے، حق کا وزن نہیں محسوس کرتے اور کسی ذمہ داری کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ بات کو طول نہ دیجیے، مجھے آپ کی بے بسی کا احساس ہے اور میں خوب جانتا ہوں کہ حالات بدل ڈالنے کا آپ کو کوئی اختیار نہیں، آپ معذور ہیں، اللہ کی نظر میں بھی اور بندوں کی نظر میں بھی۔
۔۔
مگر میرے محترم! جن تلخ لمحات کا اور جن فاصلوں کا ذکر میں آپ سے کرنا چاہتا ہوں، ان میں کوشش کے باوجود میں آپ کی معذوری سمجھنے سے قاصر ہوں۔ میری کڑھن یہ ہے کہ آپ اپنی گفتگووں، اپنی تقریروں، اپنی تحریروں اور دعووں میں جو کچھ دوسروں کے لیے چاہتے ہیں مجھے ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنے لیے وہ نہیں چاہتے! آپ سماج کو اسلامی سماج بنانا چاہتے ہیں اور اس کی خیر وبرکت کو بڑے مدلل انداز میں دل نشین کراتے ہیں مگر میں دیکھتا ہوں کہ آپ کا اپنا گھر اس کی برکتوں سے محروم ہے۔ آپ کے اپنے کارخانے، اپنی فیکٹریاں، اپنے دفاتر اور اپنے ادارے ان برکتو ں سے خالی ہیں۔ آپ اپنے زور بیان سے پھر مجھے ادھر متوجہ کر رہے ہیں کہ گھر میں رہنے والوں، دفتروں اور اداروں میں کام کرنے والوں پر ہمارا کیا اختیار؟ مگر محترم میں اس پر گفتگو نہیں کررہا ہوں۔ میری گفتگو کا محور آپ کا برتاو، آپ کا طرز فکر، آپ کا انداز عمل اور آپ کا رویہ ہے! آپ کے گھر والے آپ کے رویے سے کیوں غیر مطمئن ہیں۔ آپ کے برتاو
سے کیوں شاکی ہیں؟ وہ کیوں آپ کا ایک اچھا انسان تصور نہیں کرتے۔ آپ کے طرز عمل کو اپنے لیے مثال بنانے کے بجائے اس سے بیزار کیوں ہیں؟
آپ کے دفتروں، آپ کے کارخانوں اور اداروں میں کام کرنے والے اور آپ سے کاروباری تعلق رکھنے والے آپ کے سلوک سے کیوں نالاں ہیں۔ ان کے دلوں میں یقین کی یہ ٹھنڈک کیوں نہیں پیدا ہوتی کہ آپ کے دعوے کے مطابق اسلامی نظام جب آئے گا تو بہت بڑے پیمانے پر وہ اجتماعی عدل ومعاشی عدل اور سماجی عدل قائم ہوگا جس کی جھلک چھوٹے پیمانے پر وہ آپ کے ادارے اور آپ کے کارخانے میں دیکھتے ہیں، مجھے تو خطرہ یہ ہے کہ اگر آپ نے اپنے واسطے سے اسلامی انقلاب کے لیے ووٹ لینا چاہا تو آپ کی سرپرستی میں کام کرنے والوں کا ووٹ بھی آپ کو نہ مل سکے گا۔ درآں حالیکہ یہ لوگ اسلام کے حق میں مخلص ہوں گے۔
۔۔
آپ جس بستی میں رہتے ہیں جس معاشرے اور جس خاندان سے آپ کا تعلق ہے وہاں آپ کا تعارف ایک ’بہترین انسان‘ کی حیثیت سے کیوں نہیں ہے۔ کیا آپ واقعی اپنی بستی والوں کے لیے درد مند ہیں۔ کیا آپ ان کے دکھ درد کے شریک ہیں۔ کیا آپ ان کی پریشانیاں معلوم کرتے اور ان کو دور کرنے کے لیے فکر مند رہتے ہیں۔ کیا آپ اپنی سوسائٹی کے لوگوں کے جذبات واحساسات کا احترام کرتے ہیں۔ کیا آپ کا سلوک ان کے ساتھ فیاضی، فراخ دلی اور فضل واحسان کا سلوک ہے۔ کیا آپ کے معاملات سے وہ مطمئن ہیں۔ کیا انہیں یہ یقین ہے کہ آپ ان کے معاملے میں کبھی نا انصافی نہیں کریں گے اور ان کا حق پورا پورا دیں گے بلکہ فضل واحسان اور ایثار سے کام لیں گے۔ آپ سے تعلق رکھنے والے واقعی آپ کے خیرخواہ اور مخلص ہیں۔ سوچیے کیا ان کی وفاداریاں آپ کے ساتھ ہیں؟ کیا آپ کو یہ فکر بے چین کیے رہتی ہے کہ ان کی ضرورتیں پوری کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ کیا کبھی یہ سوچ کر بھی آپ کو نیند اچاٹ ہوئی ہے کہ آپ کی نگرانی میں کام کرنے والوں کی دینی اور اخلاقی زندگی کے بارے میں بھی کل آپ سے پوچھا جائے گا۔
۔۔
میرا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ آپ ان پر اثر انداز کیوں نہیں ہیں۔ آپ کے ساتھ شب و روز رہنے کے باوجود اس خوش گوار انقلاب کے اثرات ان کی زندگیوں میں کیوں نہیں ہیں جس کے آپ داعی ہیں حالانکہ یہ حقیقت بھی آپ کے لیے یقیناً قابل غور ہے کہ جس گھر میں آپ بستے ہیں جس معاشرے میں آپ زندگی گزارتے ہیں جس خاندان سے آپ کا تعلق ہے جو دفتر، جو کارخانہ اور جو ادارہ آپ کے نظم میں چل رہا ہے اس میں لازماً آپ کی اچھائیوں کا اثر پڑنا چاہیے۔ نہ پڑ رہا ہوتو آپ کو فکر مند ہونا چاہیے۔ غلط زندگیوں کے ساتھ برسہا برس تک نباہ پر اطمینان کیسا؟ انسان کی فطرت خیر پسند ہے، خیر کا اثر انسان بالعموم قبول کرتا ہے۔ خیر چھوڑیے ان کے اثر لینے یا نہ لینے کو، آپ اپنے بارے میں سوچیے کہ آپ ان کے حقوق واقعی ادا کررہے ہیں؟ آپ کے معاملات سے وہ مطمئن ہیں؟ آپ کا رویہ انہیں اسلام سے قریب کر رہا ہے؟ آپ کے برتاو سے ان کے دل اسلام کے لیے کھل رہے ہیں یا وہ آپ کے بارے میں اس سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ آپ سے قریب رہنے والوں کی آپ کے بارے میں رائے ہرگز نظر انداز کرنے کے قابل نہیں ہے۔ یہ ایک آئینہ ہے اس میں آپ اپنی تصویر دیکھ سکتے ہیں، آپ کے پڑوس میں رہنے والوں کی رائے آپ کے بارے میں ہرگز بے وزن قرار نہیں دی جاسکتی۔
محترم! میرا احساس تو یہ ہے کہ آپ اپنے وجود پر بھی اس اسلام کو غالب نہیں کرسکتے جسے دنیا میں غالب کرنا آپ کا نصب العین ہے۔ آپ کا وجود اور اس کی صلاحیتیں تو بڑی حد تک آپ کے اختیار میں ہیں۔
آپ کے سینے میں دھڑکنے والا دل آپ کا دل ہے، اس میں پیدا ہونے والے جذبات آپ کے جذبات ہیں، ان جذبات پر بھی آپ قابو نہیں رکھتے، آخر آپ کے دل میں دوسروں کے خلاف غصہ اور نفرت کیوں ہے؟ اللہ کے دشمنوں کے خلاف نہیں بلکہ ان لوگوں کے خلاف جو اللہ کی فرمانبرداری کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کی زبان سے آپ کے ساتھیوں کے خلاف نہیں بلکہ ان لوگوں کے خلاف جو اللہ کی فرمانبرداری کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کی زبان سے آپ کے ساتھیوں کے دل زخمی کیوں ہیں، وہ کیوں شاکی ہیں کہ آپ نے ان کی تحقیر کی ہے۔ بارہا آپ نے اپنی ناروا باتوں سے ان کے دل چھیلے ہیں۔ ان کا یہ احساس کیوں ہے کہ آپ ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ انہیں یہ شکایت کیوں ہے کہ انہیں آپ نے گرانے کی کوشش کی ہے اور ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے۔ زندگی کا بڑا حصہ آپ کے ساتھ گزارنے کے باوجود آپ کی زیادتی کا رونا کیوں روتے ہیں۔ نافرض شناسی اور غیر ذمہ داری کا الزام آپ پر کیوں ہے، آپ اپنی ذات میں انقلاب لاسکتے ہیں جو اپنی زندگی میں بھی انقلاب لانے کی ہمت نہ رکھتے ہوں۔
آپ کے جذبات، آپ کے اخلاق، آپ کا برتاو، آپ کے معاملات، آپ کا سلوک، آپ کی عادات اور آپ کے طور طریق ان میں کوئی چیز بھی اگر ان لوگوں کو اسلام کی طرف متوجہ نہیں کررہی ہے تو بتایے کس منہ سے آپ کہتے ہیں کہ آپ اسلامی انقلاب کے داعی ہیں!
۔۔
قابل احترام ساتھی، اسلامی انقلاب کا معاملہ دوسرے انقلابات سے بہت مختلف ہے۔ آپ اپنی کوششوں کے نتیجے میں اللہ کا کامل بندہ بننے کی آرزو رکھتے ہیں اور آخرت میں اس سے اجر کے خواہاں ہیں۔ آپ کی کامیابی یہ نہیں ہے کہ آپ اسلامی انقلاب برپا کردیں۔ اگر کچھ سعید روحوں کے تعاون سے یہ صبح سعادت آپ دیکھ بھی لیں اور آپ کی زندگی میں اس انقلاب کا کوئی اثر نہ ہو تو آپ سرتا سر ناکام ہیں۔ آپ اللہ کے مخلص بندوں کی طرح اگر اپنی زندگی کو کو اسلام کے رنگ میں رنگنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو اللہ کی نظر میں آپ کی کوئی قیمت نہیں ہے اور آپ آخرت میں کسی اجر کے مستحق نہیں ہیں۔ اسلامی انقلاب کے اجر میں آپ کا حصہ اتنا ہے جتنا آپ اپنی زندگی میں انقلاب لے آنے کی کوشش کریں۔
میرے محترم! دوسروں کی عاقبت بنانے کے دعووں سے زیادہ اپنی عاقبت کی فکر کیجیے۔ آج کے نام نہاد دین پسندوں کا ایک مرض یہ بھی ہے کہ وہ دوسروں کی عاقبت بنانے کے لے بے چین ہیں اور اپنی صرف دنیا بنانے کے لیے سرگرداں ہیں۔ خدارا اس مرض کا کوئی سایہ اپنے اوپر نہ پڑنے دیجیے۔ دوسروں کی زندگی میں اسلامی رنگ لانے سے پہلے اپنی زندگی میں اسلامی رنگ لانے کی کوشش کیجیے۔ دوسروں کو جو کچھ بتائیں وہ خود کرکے دکھائیں، سب سے زیادہ اپنی فکر کیجیے اور قول وعمل کے اس فاصلے کو کم کرنے کی انتھک کوشش کیجیے جو آپ کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ ہو سکتا ہے۔ اس فاصلے کی موجودگی میں اللہ بھی آپ پر کرم کی نظر نہیں کرے گا اور بندوں کے درمیان بھی آپ کوئی عزت کا مقام نہ پاسکیں گے اور آپ کا انقلابی خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا۔
مجھے ہرگز اصرار نہیں کہ میرا تجزیہ اور تبصرہ ہر پہلو سے مکمل ہے، ہو سکتا ہے کہ میرے الفاظ صحیح صورتحال کو واضح کرنے میں کوتاہ ہوں۔ بالکل ممکن ہے کہ میری اس یاد دہانی اور تذکیر میں حکمت وسوز کی کمی ہو، یہ بھی بعید نہیں کہ میرے انداز بیان میں غلو ہو گیا ہو اور میرا تراشا ہوا الفاظ کا یہ جامہ آپ کی شخصیت پر فٹ نہ آتا ہو۔ لیکن راہ حق کے مخلص ساتھی! اس کے باوجود بھی آپ اسے یکسر نظر انداز نہ کریں، نہ نفس کو یہ ڈھیل دیں کہ وہ دوسروں پر اس تنقید کو چسپاں کرنے میں وقت ضائع کرے، بلکہ سنجیدگی سے تنہائی میں اپنا جائزہ لیجیے۔ میرا احساس تو یہ ہے کہ آپ کے ماضی اور حال میں بھی فرق ہے۔ بے شک دنیوی اعتبار سے آپ کا حال آپ کے ماضی سے بہتر ہوگا لیکن دینی اعتبار سے تو آپ کا حال ماضی سے بہتر ہونا کیا معنی اور کمتر ہی نظر آرہا ہے۔ مجھے تو آپ کے جذبات، آپ کے حوصلے آپ کے ولولے اور آپ کے عزائم کچھ ٹھٹھرے ہوئے نظر آتے ہیں اور دین حق کے لیے آپ کا اضطرب جمود میں بدلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
رفیق محترم! اللہ نے آپ کو دین کی عظیم دولت سے نوازا ہے۔ آپ کو بہت بڑے کام کے لیے منتخب کیا ہے۔ اس دولت کی قدر کیجیے اور اس انتخاب پر اللہ کا شکر ادا کیجیے۔ پناہ بخدا آپ جانتے ہیں کہ اس عظیم دولت کی ناقدری اور اس حسن انتخاب کی ناشکری کا انجام کیا ہے۔ بیان کروں تو کیسے کروں، دل لرزتا ہے اور قلم میں تاب نہیں۔
رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ
۔۔

 

***

 فرد کی اصلاح اور تزکیہ کے بغیر صالح معاشرہ کی تشکیل کا تصور ممکن نہیں ہے۔ یہی وہ خیال تھا جس کی بنیاد پر مولانا محمد یوسف اصلاحیؒ نے اصلاح وتربیت و اپنی تحریروں کا خاص موضوع بنایا۔ مولانا کی زیر ادارت شائع ہونے والے ماہنامہ ’ذکری‘ کے اداریوں کا موضوع بھی اکثر یہی ہوتا تھا۔ ان اداریوں کو ’’شعور حیات‘‘ کے نام سے کتابی شکل دی گئی ہے جو دو حصوں پر مشتمل ہے ۔ اسی کتاب سے لی گئی مولانا کی ایک پرسوز تحریر قارئین دعوت کی خدمت میں پیش ہے ۔(ایڈیٹر)۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  02 جنوری تا 08 جنوری 2022