آن لائن کھیل نوجوان نسلکے لیے سم قاتل

غیر محسوس تباہی سے نوجوان نسل کو بچانے کے لیے مہم چلانے کی ضرورت

از : زعیم الدین احمد، حیدرآباد

آن لائن کھیلوں سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان کھیلوں میں مبتلا ہونے والے نہ صرف اپنا وقت ضائع کرتے ہیں بلکہ اپنا اپنے ماں باپ کا پیسہ اور اپنی صحت کو بھی خراب کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس لت میں پڑنے والے زیادہ تر خود کشی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کھیلوں میں اپنا پیسہ گنوانے والے مقروض ہو رہے ہیں جس کے نتیجہ میں وہ معاشی طور پر دیوالیہ بھی ہو رہے ہیں اور جب انہیں اس دلدل سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ملتا تو خود کشی کر لیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں کئی ریاستوں نے آن لائن کھیلوں پر پابندی لگائی ہے لیکن نوجوان نسل پابندی کے باوجود اس سے باز نہیں آ رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ ہمارے ملک کی عدالتوں نے اس پابندی کو شخصی آزادی کو ختم کرنے کے مترادف گردانا ہے اسی لیے گیم کے بجائے پابندی پر ہی روک لگا دی گئی ہے۔
نوجوان نسل کو ان کے والدین آن لائن کھیلوں سے روک نہیں پا رہے ہیں، اس معاملے میں وہ بے بس و لاچار نظر آتے ہیں۔ آخر ہمارے ملک میں ایسی صورت حال کیوں پیدا ہوئی یہ ایک اہم سوال ہے۔ ہمارے ملک میں آن لائن کھیلوں پر خرچ ہونے والی رقم کوئی معمولی رقم نہیں ہوتی۔ IFACCI (انڈین فیڈریشن آف چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری) کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں تقریباً 6 ہزار 5 سو کروڑ روپے آن لائن کھیلوں پر خرچ کیے گئے ہیں۔ آن لائن کھیل اس وقت ایک صنعتی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ماہرین کے اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں آن لائن گیموں پر خرچ ہونے والی رقم 61 ہزار کروڑ روپے ہے جو ملک کے دفاعی شعبے کے لیے جنگی جہاز تیار کرنے والے ادارے "ہندوستان ایروناٹکس لمیٹیڈ” کی مارکیٹ ویلیو کے برابر ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کتنی بڑی تعداد میں نوجوان نسل آن لائن کھیلوں کی دیوانی ہے۔
آن لائن کھیلوں پر حکومتی سطح پر جتنی پابندی عائد کی جا رہی ہیں اتنی ہی بڑی تعداد میں نوجوان اس میں ملوث ہوتے جا رہے ہیں۔ حکومت عوام کے مطالبے پر پابندی تو عائد کر رہی ہے لیکن عدالتیں اس پابندی کو شخصی آزادی کے خلاف تصور کر رہی ہیں، ان کے خیال میں اگر آن لائن کھیلوں پر پابندی عائد کی جاتی ہے تو یہ شخصی اظہار آزادی رائے پر راست حملہ ہو گا۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ آئیے اس کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
بنیادی طور پر کھیل دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جس میں انسان اپنی قابلیت کی بنیاد پر جیتتا ہے جسے اسکل بیسڈ گیمز کہتے ہیں، دوسرا وہ جس کا فیصلہ محض قسمت کی بنیاد پر ہوتا ہے جسے چانس بیسڈ گیمز کہتے ہیں۔ مثلا شطرنج کا کھیل ہے، جسے کھیلنے والا محض اپنی قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر ہی جیت سکتا ہے اس میں قسمت کا دخل نہیں ہوتا۔ اس کھیل میں پیسہ لگانا قانونی و اخلاقی طور سے درست ہے یا نہیں یہ ایک دوسرا موضوع ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں جیت صرف قابلیت کی بنا پر ہوتی ہے، دوسری طرف سانپ اور سیڑھی جیسے کھیل ہیں، اس طرح کے کھیلوں میں جیت کا فیصلہ محض قسمت پر ہوتا ہے اس میں قابلیت و صلاحیت کچھ کام نہیں آتے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ آپ کے پانسے کس پہلو پر پڑتے ہیں یا کوڑیاں کس کروٹ بیٹھتی ہیں وغیرہ۔ کھیلوں کے ماہرین کے مطابق کھیلوں کی ایک اور قسم بھی پائی جاتی ہے جن میں قابلیت اور قسمت دونوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے مثلا لوڈو ہے یا تاش وغیرہ، لیکن ان میں بھی قسمت کا دخل ہی زیادہ ہوتا ہے، آپ کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اب کون سا پتا آنے والا ہے اس لیے اسے قسمت کا کھیل ہی کہنا چاہیے۔
اب عدالت اس الجھن میں ہے کہ ان میں تفریق کس طرح کی جائے، اسی کی وجہ سے وہ فیصلہ نہیں کر پا رہی ہے کہ کون سا اسکل گیم ہے اور کون سا چانس گیم۔ آن لائن کھیلوں کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ ضروری نہیں کہ آپ کا مد مقابل ایک آدمی ہی ہو، وہ کوئی روبوٹ بھی ہو سکتا ہے جس سے آپ کسی بھی طرح نہیں جیت سکتے، بلکہ کیا معلوم کہ وہ کوئی سوپر کمپیوٹر ہو، جس سے جیتنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے؟ عدالت کا موقف اس معاملے میں واضح ہے کہ جن کھیلوں میں قسمت یا چانس کا عمل دخل ہے وہ گیمبلنگ کہلاتا ہے اور گیمبلنگ ہمارے ملک میں ممنوع ہے جب کہ قابلیت و صلاحیت دکھانے والے کھیلوں کو ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا کیوں کہ یہ دستور کی شق 9 کی خلاف ورزی ہو گی۔ آدمی کھیل میں اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر پیسہ کما سکتا ہے اس میں کوئی خرابی نہیں ہے لیکن چانس کے کھیلوں میں قابلیت کا کوئی کردار نہیں ہوتا اس لیے اس سے پیسے نہیں کمائے جا سکتے۔ اسی لیے عدالتیں اب اس پر غور کر رہی ہیں کہ قابلیت سے کھیلے جانے والے کھیل ہی قانونی طور پر صحیح ہیں اور قسمت یا چانس والے کھیل ممنوع ہیں۔
یہاں ایک اور بات بھی قابل غور ہے کہ ہمارے ملک میں آن لائن کھیلوں پر کوئی حکومتی نگرانی اس طرح نہیں کی جاتی جس طرح دوا سازی کی صنعت پر کی جاتی ہے جہاں بہت سارے اصول و ضوابط طے شدہ ہیں یا جس طرح تمباکو کی صنعت پر نگرانی ہوتی ہے کیوں کہ وہاں بھی کچھ اصول و ضوابط طے شدہ ہیں۔ پھر اسی طرح کھانے پینے کی اشیاء کی صنعت پر بھی اصول و ضوابط طے کیے گئے ہیں، یہاں تک کہ اسٹاک مارکیٹ پر بھی نگرانی ہوتی ہے کیوں کہ وہاں بھی اصول و ضوابط طے ہیں۔ ان سب پر نگرانی کے لیے علیحدہ علیحدہ ادارے موجود ہیں لیکن بد قسمتی سے آن لائن کھیلوں پر نگرانی کے لیے کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔ لاکھوں نوجوانوں کی زندگیوں کو برباد کرنے والے آن لائن کھیلوں پر کوئی اصول و ضوابط طے نہیں ہیں۔ لوگ کروڑ روپے ان تباہ کن آن لائن کھیلوں پر خرچ کر رہے ہیں لیکن افسوس کہ حکومت کی اس جانب کوئی توجہ نہیں ہے، اسے یہ احساس ہی نہیں ہے کہ ملک کا مستقبل جو اس تباہی کا شکار ہوتا جا رہا ہے اسے کس طرح محفوظ کیا جائے۔ ملک کی نوجوان نسل اپنے ماں باپ کی گاڑھی کمائی بے مصرف ان آن لائن کھیلوں پر خرچ کر رہی ہے اسے کیسے بچایا جائے، یہ حکومتی ایجنڈے میں ہے ہی نہیں۔
یہ تو رہے آن لائن کھیلوں کے مادی نقصانات، ان کے اخلاقی و روحانی نقصانات اس سے شدید تر ہیں۔ انسان ان کھیلوں سے نہ صرف تباہی خرید رہا ہے کہ بلکہ اخلاقی زوال کا بھی شکار ہوتا جا رہا ہے۔ اس بیماری میں مبتلا فرد تنہائی پسند ہو جاتا ہے اس کا ذہنی سکون غارت ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کے کردار پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ سماجی رشتوں کی اس کے پاس کوئی اہمیت نہیں رہتی، ماں باپ کے ساتھ اس کی بد اخلاقی و بد تمیزی بڑھتی جاتی ہے، وہ جنونی بن جاتا ہے، اس کی کیفیت میں اور ایک نشہ کرنے والی کی کیفیت میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا یہاں تک کہ وہ کسی کا قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔
ہمیں اپنے گھروں میں اپنی نئی نسل پر توجہ دینی چاہیے، انہیں آن لائن کھیلوں کی تباہ کاریوں سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بعض آن لائن کھیل نوجوانوں میں شدت پسندی کو فروغ دیتے ہیں، انہیں غیر قانونی و غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ہمیں ان پر یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اس سے نہ صرف مادی نقصان پہنچتا ہے بلکہ دین اور اخلاق بھی تباہ ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی ہمیں ان کو اس کا بہترین متبادل بھی دینا چاہیے۔ سماجی تنظیموں کو سماجی رابطے کے ساتھ ساتھ اور بھی دوسرے ذرائع اختیار کرتے ہوئے مہم چلانی چاہیے تاکہ اس غیر محسوس تباہی سے نوجوان نسل کو بچایا جاسکے۔
***

 

***

 ہمیں اپنے گھروں میں اپنی نئی نسل پر توجہ دینی چاہیے، انہیں آن لائن کھیلوں کی تباہ کاریوں سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بعض آن لائن کھیل نوجوانوں میں شدت پسندی کو فروغ دیتے ہیں، انہیں غیر قانونی و غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ہمیں ان پر یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اس سے نہ صرف مادی نقصان پہنچتا ہے بلکہ دین اور اخلاق بھی تباہ ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی ہمیں ان کو اس کا بہترین متبادل بھی دینا چاہیے۔ سماجی تنظیموں کو سماجی رابطے کے ساتھ ساتھ اور بھی دوسرے ذرائع اختیار کرتے ہوئے مہم چلانی چاہیے تاکہ اس غیر محسوس تباہی سے نوجوان نسل کو بچایا جاسکے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  24 جولائی تا 30 جولائی 2022