آن لائن فرقہ پرست فحاشی کا بڑھتا چلن
سوشل میڈیا پر مسلم خواتین کی ہراسانی نفرت کے سوداگروں کی گری ہوئی حرکت
محمد انور حسین، اودگیر
انصاف کے لیے آواز اٹھانے والی خواتین نشانے پر
سوشل میڈیا کی یہ دنیا جتنی خوبصورت نظر آتی ہے اتنی ہی بھیانک بھی ہے۔ وہ کسی کو منٹوں میں ہیرو بنا دیتی ہے تو کسی کو بے عزت بھی کر دیتی ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ الزام ہے کہ اس نے فحاشی اور عریانیت کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ لیکن فحاشی کا یہ کھیل اب سیاست کے لیے کھیلا جا رہا ہے۔ فیس بک، وہاٹس ایپ، یوٹیوب اور ٹویٹر پر فحش کلچر کو سیاسی دشمنی کے لیے فروغ دیا جا رہا ہے۔ عورتوں پر جنسی ہراسانی کے واقعات سوشل میڈیا کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی آگئے تھے لیکن جنسی ہراسانی اور فحاشی کو اب فرقہ پرستی، نفرت اور سیاسی دشمنی کے فروغ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
ستیہ ہندی ڈاٹ کام کی صحافی نیلو کی رپورٹ کے مطابق ابھی عید الفطر کے موقع پر کانگریس کی نیشنل میڈیا کوآرڈینٹر حسیبہ امین کی نازیبا تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئیں اور خاص طور پر ٹویٹر کے ذریعے حسیبہ امین کو ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی۔ گراوٹ کی انتہا دیکھیے کہ ٹویٹر پر اس خاتون کی بولی لگائی گئی اور اس کو ہراج کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کی تصاویر چند ٹویٹر اکاؤنٹس پر پوسٹ کی گئیں۔ حسیبہ امین کی تصویریں DesiSulliDeals نامی ٹویٹر ہینڈل سے اپلوڈ کی گئی تھی ۔”Sulli” نا شائستہ لفظ ہے جو بطور گالی استعمال ہوتا ہے۔ مسلم مخالف ذہنیت رکھنے والے لوگ اسے مسلم خواتین کو بے عزت کرنے اور ہراساں کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس پر حسیبہ امین نے پولیس میں شکایت بھی درج کروائی ہے۔ شکایت کے بعد اس ٹویٹر ہینڈل کا نام بدل کر محمود عالم کر دیا گیا تھا۔ حسیبہ امین نے اسے پولیس اور ٹویٹر کے ذمہ داران کو ٹیگ کیا لیکن اس کے بعد بھی ریمارکس آتے رہے۔ جب ٹویٹر پر گفتگو شروع ہوئی تو کسی نے اس کی بولی ایک ڈالر پیش کی تو دوسرے نے 77 پیسے میں خرید لیے جانے کا اعلان کیا۔ یہ اور اس طرح کے فحش ریمارکس کسی بھی خاتون کے لیے برداشت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
ایک اور صحافی ثانیہ احمد کو بھی پچھلے ایک سال سے سوشل میڈیا پر ستایا جا رہا ہے۔ ثانیہ کو SulliDeals101 نامی اکاونٹ سے پریشان کیا جا رہا ہے۔ ثانیہ نے ایک نیوز پورٹل article 14‘ کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ یہ تجربہ اس کے لیے رونگٹے کھڑے کر دینے والا تھا اس نے یہ تمنا کی کہ اس طرح کے حالات کسی دوسری عورت کو کبھی پیش نہ آئیں۔ اس نے بھی پولیس میں شکایت درج کروائی تھی لیکن کوئی کامیابی نہیں مل سکی جبکہ فرضی اور نامعلوم اکاونٹ کے ذریعے اس طرح کی کوشش قانونی اعتبار سے جرم ہے۔
آرٹیکل 14 میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق اس سال عید کے موقع پر بہت سی لڑکیوں اور عورتوں نے اپنی تصویریں سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ہیں ان تصویروں کا غلط استعمال کرتے ہوے عید کے موقع سے لائیو یوٹیوب چیانل کے ذریعے ان لڑکیوں کی فرضی خرید وفروخت کا گھناونا کھیل کھیلا گیا۔
دی پرنٹ میں شائع رپورٹ کے مطابق رتیش جھا نامی ایک شخص اس کا مجرم ہے جو Liberal Doge اور Secular Doge نامی چینل چلاتا ہے۔اس نے عید کے موقع پر کئی مسلم عورتوں کو بیہودہ اور فحش انداز میں پیش کیا جو انسانی اخلاق اور سوشل میڈیا کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ یہ سارا کھیل ایک خاص سیاسی پارٹی کے بھکتوں کی طرف سے کھیلا جا رہا ہے۔
انٹرنیٹ پر اس طرح ہراساں کرنے کو "Cyber bully” کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ عمل ٹیکنالوجی کی ترقی اور انٹرنیٹ کے بے تحاشہ پھیلاو کے نتیجہ میں بڑھتا جا رہا ہے۔ اس میں خاص طور پر نوجوان لڑکے لڑکیاں بڑے پیمانے پر شامل ہو رہے ہیں۔ اس طرح کی ہراسانی میں عام طور پر افواہ پھیلانا، دھمکیاں دینا، جنسی اور فحش فقرہ کسنا یا القاب دینا، کسی کی ذاتی معلومات کو عام کر دینا، کسی کی تصویروں کو نازیبا طریقہ سے پوسٹ کرنا، فحش اور گندی گالیاں دینا وغیرہ طریقے رائج ہیں۔ اس ہراسانی کے شکار مرد وخواتین شدید ذہنی اذیت کا شکار ہو جاتے ہیں ان میں مایوسی خوف اور ہیجان کی کیفیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ وہ شدید بے عزتی محسوس کرتے ہیں اور ان کے خود کشی کی طرف راغب ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
حسیبہ امین نے بھی اپنے نیوز 18 پر پوسٹ کیے گئے بلاگ میں لکھا کہ عید کے موقع پر فرقہ پرست ٹرولرز کی وجہ سے کس طرح وہ اور اس کے خاندان کے لوگ پریشان ہو گئے تھے۔ پڑوسی، رشتہ دار اور دوست احباب سب لوگ اسی کے بارے میں پوچھ رہے تھے جو اس کے لیے شدید اذیت اور کرب کا احساس تھا۔ اہل خاندان کی مدد اور ہمت کے ذریعے حسیبہ امین اس صورتحال پر قابو پا سکی۔
پچھلے کچھ سالوں سے مسلم خواتین کو سوشل میڈیا پر ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے خاص طور پر ان خواتین کو جو سیاست میں سرگرم ہیں اور حکمراں پارٹی کی نقاد ہیں۔فرقہ پرست عناصر کی طرف سے ’’لو جہاد‘‘ کا بیانیہ بڑی تیزی سے سوشل میڈیا پر پھیلایا جارہا ہے حالانکہ حقیقت بالکل مختلف ہے۔ ایسا پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے مسلم مرد غیر مسلم عورتوں کو اپنی محبت کے جال میں پھنسانے کے لیے کوشاں ہیں۔ موجودہ آن لائن ہراسانی اور خاص طور مسلم خواتین کی ہراسانی کے واقعات تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں جس کو قابو کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ نیوز پورٹل آرٹیکل 14 کی رپورٹ کے مطابق بہت سارے سوشل میڈیا اکاونٹس فرضی ناموں سے چلائے جاتے ہیں جیسے فرزانہ بیگم، ظالم ہندو، پاکیزہ مومنہ، سائرہ بے شرم، ارجن پنڈت وغیرہ وغیرہ۔ اور ان اکاونٹس کے فالوورس لاکھوں کی تعداد میں ہیں جو واضح طور پر خواتین اور خاص طور پر لو جہاد کے نام پر مسلم خواتین کی حیثیت کو بری طرح مجروح کرنے کے مرتکب ہیں، جو فحاشی وعریانیت اور بیہودگی کی حدوں کو پار کرنے والے ہیں۔
ان تمام فرضی اکاونٹس سے جو مواد شائع کیا جا رہا ہے وہ تقریباً ایک طرح کا ہوتا ہے اور وہ ایک دوسرے کو مدد کرنے والا ہوتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کچھ لوگ جان بوجھ کر یہ کام کر رہے ہیں۔
ٹویٹر پر عورتوں کے بارے میں بہت فحش مواد موجود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا عورتوں کے لیے زہر ثابت ہو رہا ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب، علاقہ یا سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتی ہوں۔ خصوصیت سے پچھلے کچھ سالوں سے مسلم عورتوں کو لو جہاد اور اسلامو فوبیا کے نام پر ہراساں کیا جا رہا ہے۔ آرٹیکل 14 نیوز پورٹل پر شائع رپورٹ کے مطابق بہت سے فرضی اکاونٹس کے ذریعے مسلم عورتوں کو ہندو مردوں کے لیے جنسی تسکین کی ایک شے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ایسی بہت سی فحش اور نازیبا تصویریں اور ویڈیوز پوسٹ کیے جا رہے ہیں جس میں خواتین کو حجاب میں دکھایا جا رہا ہے جو مسلم خواتین کو بدنام کرنے اور ان کو پریشان کرنے کی ایک مذموم سازش ہے۔ اس طرح کی تصویریں بھی بہت عام ہو رہی ہیں جس میں ایک ہندو آدمی کو بتایا جا رہا ہے کہ وہ کس طرح مسلم لڑکیوں کو ہولی کے رنگ لگا رہا ہے، ٹیکہ اور تلک لگا رہا ہے۔ بہت سی فوٹو شاپ کے ذریعے مسخ کی ہوئی اور انٹرنیٹ سے چرائی گئی تصویروں میں بتایا جا رہا ہے کہ کس طرح مسلم حاملہ عورتیں ہندو مرد سے حاملہ ہونے پر فخر محسوس کر رہی ہیں۔ آپ کو بی جے پی کے ایم پی تیجسوی سوریہ کا وہ ٹویٹ یاد ہوگا جو اس نے عرب عورتوں کے بارے میں کیا تھا کہ عرب عورتیں صدیوں سے اپنی جنسی تسکین کے حصول میں ناکام ہیں۔ اس طرح کے بیانات اسی تحریک کا ایک حصہ ہیں۔
اس کے علاوہ پچھلے کچھ سالوں سے ہندو نوجوانوں کو بہکایا جا رہا ہے کہ وہ مسلم لڑکیوں سے شادی کریں۔ بہت سی تنظیمیں اسے باضابطہ فروغ دے رہی ہیں۔ اگسٹ 2018 میں اکھل بھارتیہ ہندو یوا مورچہ نے مسلم لڑکی سے شادی کرنے والے ہندو نوجوانوں کو ڈھائی لاکھ روپیے انعام دینے کا وعدہ بھی کیا تھا۔
آرٹیکل 14 میں شائع رپورٹ کے مطابق ٹاکسک ٹویٹر نامی رپورٹ میں ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے الزام لگایا تھا کہ ٹویٹر آن لائن نفرت روکنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔
پروفیسر شکنتلا باناجی نے جو ڈپارٹمنٹ آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن لندن کے اسکول آف اکنامکس سے تعلق رکھتی ہیں اپنے ایک سروے میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ بھارت میں جنسی فقرے اور فحش مواد کو زیادہ تر مسلم اور عیسائیوں سے جوڑا جاتا ہے۔ ملاقات کے دوران اس طرح کی پوسٹ کرنے والے لوگوں نے یہ بات قبول کی کہ وہ اس طرح کا کام ایک مذہبی فریضہ کے طور پر انجام دے رہے ہیں۔ ایسا اس لیے کہ وہ بھارت کو غیر ملکی مذاہب سے آزاد کروانا چاہتے ہیں۔ اس طرح ہزاروں فرضی اکاونٹس کے ذریعے نفرت اور فحاشی پھیلائی جا رہی ہے۔
عارفہ خانم شیروانی نے اپنے آرٹیکل 14 کو دیے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر "Begum” اور "Hijabi” جیسے الفاظ عورتوں کی بدنامی تحقیر وتذلیل کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں جیسے مسلم مردوں کے لیے ’’جہادی‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انتہا پسند اور فاشسٹ طاقتوں نے زنا بالجبر جیسے گھناونے عمل کو مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے اور کمزور کرنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ ان کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ مسلم عورتوں کو کمزور، بدنام اور پست حوصلہ کر دیا جائے۔ گجرات اور مظفر نگر اس کی مثالیں ہیں۔
پچھلے سال شاہین باغ میں سی اے اے مخالف احتجاج کے دوران کئی مسلم خواتین کو ٹرول کر کے ستایا گیا۔ خاص طور پر وہ خواتین جو سی اے اے کے خلاف بول رہی تھیں ان میں سے بعض خواتین کو فحش تصویروں کے ساتھ دکھایا گیا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ یہ سب کام شاہین باغ کا حصہ ہیں۔ صفورہ زرگر کے حمل کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی، اسی طرح شہلا رشید بھی ٹرول کرنے والوں کے نشانے پر رہی۔
اس کے علاوہ بہت سے صحافی جیسے برکھا دت کے سرجیکل اٹیک کے بارے میں کی گئی رپورٹنگ پر جو گالیاں سوشل میڈیا پر دی گئیں وہ کسی درجہ میں بھی قابل برداشت نہیں ہو سکتی تھیں۔ اس کےعلاوہ وہ صحافی خواتین جو سچائی کے لیے جدجہد میں مصروف ہیں ان کو بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
بات صاف ہے نفرت کے سوداگر ہر قیمت پر نفرت پھیلانا چاہتے ہیں چاہے وہ ماب لنچنگ ہو یا سوشل میڈیا کا کھیل ہو اس نفرت کی سوداگری میں وہ کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔افسوس تو یہ ہے کہ بد اخلاقی کا یہ کھیل مذہب کے نام پر کھیلا جا رہا ہے۔
بہت سارے قوانین اس سلسلے میں بنائے گئے ہیں لیکن قوانین اس وقت کام کرتے ہیں جب قانون کے رکھوالے اس کی پاسداری کرنا چاہتے ہوں یہاں تو معاملہ الٹا ہے رکھوالے خود مجرم ہیں یا پھر مجرمین کے مددگار ہیں۔ لیکن آزادی اظہار ایک ایسا حق ہے جو انسانی فطرت کا سب سے طاقتور داعیہ ہے جسے زیادہ دیر تک دبائے رکھنا ممکن نہیں ہے۔ حق کی آواز اٹھانے والے نہ سلاسل سے خوف کھاتے ہیں نہ تضحیک سے جبکہ ان کی عزتوں سے کھلواڑ حق کے راستے میں بہت مضبوط بنا دیتا ہے۔ اس سے بڑی گراوٹ اور کیا ہے جب بیٹی بچاو بیٹی پڑھاو کا نعرہ دینے والے خود بیٹیوں کی عزت کو تار تار کرنے لگ جائیں۔ یہ نہ جانے کب تک چلتا رہے گا عورتوں کو اس سلسلے میں ہوشیار اور باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔ قانونی واقفیت کے ساتھ اپنے حقوق کی لڑائی بھی لڑنے کی ہمت افزائی ہونی چاہیے۔
ہمارے سامنے سوشل میڈیا ایک اہم میدان کے طور پر سامنے آیا ہے جس میں بہت سے چیلنجیز ہیں۔ ساتھ ہی امکانات کی وسیع دنیا ہے۔ ہمارا موقف واضح ہونا چاہیے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ ہم نفرت کا جواب نفرت سے نہیں بلکہ محبت سے دیتے ہیں۔ لوگ گالیاں دیں یا فحش مواد پوسٹ کریں تو ہم ان کے جواب میں گالیاں یا فحش مواد پوسٹ نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارا دین اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ہمارے نزدیک تکریم انسانیت کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ ہم یہ میدان چھوڑ کر بھاگ بھی نہیں سکتے۔ ہم میں سے بعض کا مشورہ یہ ہو سکتا ہے کہ سوشل میڈیا سے ہمیں یکسر الگ ہو جانا چاہیے لیکن یہ بزدلی ہے۔ ہم نفرت کی بجائے محبت کا پیغام عام کریں گے ہم عورتوں کو ذلیل نہیں کریں گے بلکہ انہیں عزت وتکریم کا اعلیٰ مقام عطا کریں گے اختلاف کو احسن اور معروف طریقہ سے پیش کریں گے کیونکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہم سے اس بات کا مطالبہ کرتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ہمیں جدید ٹکنالوجی سے واقفیت اور سوشل میڈیا سے متعلق گائیڈ لائنس اور قوانین کی واقفیت ہونی چاہیے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ سوشل میڈیا پر ہراسانی کے جواب میں کیا قانونی مدد لی جا سکتی ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں درست طریقہ سے سوشل میڈیا کا استعمال نہیں آتا ہے اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مسلم عورتوں کو بھی سوشل میڈیا سے ڈر کر بھاگنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ احتیاط کے ساتھ ساری قانونی واقفیت حاصل کر کے مثبت رول ادا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
’ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے‘
***
’’ہمارے سامنے سوشل میڈیا ایک اہم میدان کے طور پر سامنے آیا ہے جس میں بہت سے چیلنجیز ہیں ساتھ ہی امکانات کی وسیع دنیا ہے۔ ہمارا موقف واضح ہونا چاہیے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ ہم نفرت کا جواب نفرت سے نہیں بلکہ محبت سے دیتے ہیں۔ لوگ گالیاں دیں یا فحش مواد پوسٹ کریں تو ہم ان کے جواب میں گالیاں یا فحش مواد پوسٹ نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارا دین اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ہمارے نزدیک تکریم انسانیت کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ ہم نفرت کی بجائے محبت کا پیغام عام کریں گے‘‘
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 جون تا 19 جون 2021