حمیرا علیم
اسمارہ ایڈنبرہ اسکاٹ لینڈ میں ’’فلاورز بائی میکڈول‘‘ نامی فلاور شاپ پر جاب کرتی تھی۔ شادی کے بعد اسکاٹ لینڈ میں کچھ عرصہ اس نے ٹیسکو اسٹور پر سیلز گرل کے طور پر ملازمت کی تھی ۔مگر اسے یہ جاب پسند نہ تھی۔ چنانچہ جب اس نے ایک دن فلاور شاپ پر سیلز گرل کی جاب کے لیے بورڈ لگا دیکھا توفورا شاپ اونر سے ملی اور اسے یہ جاب مل گئی۔ اگرچہ یہ جاب بہت محنت طلب تھی لیکن وہ بے حد خوش تھی۔ اسے صبح چھ بجے دکان کھولنی ہوتی تھی تمام لیف لیٹس کو ترتیب سے رکھنا پڑتا اور ساڑھے چھ بجے پھول لے کر آنے والی گاڑی سےڈلیوری بھی وصول کرنی ہوتی اور پھر ایک اور سیلز مین کیساتھ ملکر ان پھولوں کو باکسز اور گلدانوں میں سیٹ بھی کرنا ہوتا تھا مگر پھر بھی وھ مطمئن تھی۔
اسے پھول بے حد پسند تھے۔ان کے خوشنما رنگ اور خوشبواسے مسحور کر دیتی تھی۔پھر یہاں تو ایسے ایسے پھول تھے کہ بس دیکھتے ہی رہ جائیں ۔ایلسٹرومیریا، فریژا ، گربرا، للیز، آرکڈ زینیااور گلاب۔کالے، پیلے، سرخ، سفید، کاسنی، سبز، نارنجی، گلابی ہر رنگ اور ہر شیڈ کے پھول۔اسمارہ کو انگریزوں کی یہ عادت بہت اچھی لگتی تھی کہ وہ مختلف ایونٹس کے حساب سے پھولوں کا استعمال کرتے ہیں ۔یہاں کے لوگوں کی جمالیاتی حس بھی بہت تیز ہے۔ہر موقع اور تقریب کے حساب سے پھولوں کا استعمال یہ خوب جانتے ہیں ۔شادی کے لئے زیادہ ترہلکے رنگوں کے پھول خریدے جاتے ہیں جن میں لائلک، سفید، گلابی للیز، گلاب، تھیسٹلز، کرسٹلز۔ دلہن ایک گلدستہ پکڑتی ہے جبکہ دلہا کے کوٹ کے بٹن ہول میں ایک پھول لگایا جاتا ہے۔
برتھ ڈے پہ وائلٹ وائبز، زین پلانٹڈ ہیٹ باکس، ایمیتھسٹ ڈسک،میلو میرینگ، پنک سوربٹ ۔
کسی کا شکریہ ادا کرنا ہو تو پرپل کمفرٹ، وائٹ ریڈینس، یا اس شخص کے پسندیدہ پھولوں کا گلدستہ۔
کسی سے ہمدردی کرنی ہو تو سفید گلاب، سفید للیز،پنک آرکڈ۔
کسی کی تیمارداری کرنی ہو تو میلو مورینگ، سرخ گلاب، کرمزن گلاب، ایمیتھسٹ ڈسک۔
کسی کے ہاں مہمان جانا ہو توپرلی روز، ہیونلی ریڈ روز، پنک للیز اور روز، ریڈ رہپیسوڈی۔سویٹ پنک آرکڈ۔
اور تواور اپنے جنازوں کو بھی پھولوں سے سجاتے ہیں ۔اور اس کے لیے للیز، گلاب، کارنیشن ، آرکڈ، اینتھوریم استعمال کرتے ہیں ۔تابوت پہ رکھنے کے لیے الگ پھول ، بچوں کے ہاتھوں میں الگ گلدستےفیونرل باسکٹ کے لئے الگ۔پھر ان میں بھی مختلف ڈیزائنز کوئی بڑا سا گلدستہ بنواتا ہے کوئی، پھولوں کی چادر اور کوئی ہار۔
اسے مختلف پھولوں کو مختلف ترکیبوں سے سجانا اور نت نئے انداز میں پیش کرنا پسند تھا۔لہذا وہ روز کوئی نہ کوئی نئی چیز پیکنگ کے لئے استعمال کرتی کبھی ہیٹ شیپ میں تو کبھی بالٹی کی طرح کی پیکنگ میں کبھی کسی شیپ میں اور کبھی کسی نئے میٹریل کی ٹوکری میں ۔وہ نیٹ پر سے دیکھ دیکھ کر نئی ٹوکریاں بناتی اور کسٹمرز اس کے ان نئے تجربوں کو پسند کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ جب سے اسمارہ نے فلاور شاپ کا انتظام سنبھالا تھا اس کی آمدنی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا تھا۔کچھ لوگ تو اس کے مستقل گاہک بھی بن گئے تھے۔لیکن اسمارہ کو اپنی زندگی کے گلدستے میں ایک پھول کی کمی بہت ستاتی تھی۔شادی کے پانچ سال بعد بھی اس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ وہ اکثر سوچتی اگر اس کا ایک بچہ ہو تو اس کا گھر بھی کسی گلدستے کی طرح خوبصورت اور مہک دار ہو جائے۔مگر بہت بار آئی وی ایف کروانے کے باوجود جب اولاد نہ ہوئی تو وہ مایوس ہونے لگی۔فلاور شاپ پر اس کے کسٹمرز نے بھی اس بات کو نوٹ کیا کہ اس کی خوش اخلاقی میں تو کوئی کمی نہیں آئی تھی مگر وہ کچھ چپ چاپ سی رہنے لگی تھی۔ایک دن اس کی ایک بہت اچھی کسٹمر این نے اس سے پوچھا۔ ’’اسمارہ!کیا بات ہے کوئی مسئلہ ہے؟‘‘
’’ نہیں تو! تم نے یہ کیوں پوچھا این؟‘‘ اسمارہ نے حیرت سے کہا۔
’’ تم بہت خاموش اور کھوئی کھوئی سی رہنے لگی ہو میرے ساتھ ساتھ تمہارے سب کسٹمرز نے یہ بات محسوس کی ہے۔اگر تم برا نہ مانو تو اپنا مسئلہ مجھ سے شئیر کر سکتی ہو۔‘‘ این نے اس کا ہاتھ پکڑ کر ہمدردانہ لہجے میں کہا تو اسمارہ جو بھری بیٹھی تھی۔اور دیار غیر میں کسی سے اپنا دکھ نہ کہہ سکتی تھی۔ہلکی سی ہمدردی پا کر پگھل گئی اور سب بتا دیا۔
’’ بس اتنی سی بات!میں سمجھی شاید تمہیں کوئی بڑی بیماری لاحق ہو گئی ہے۔اس کا تو آسان حل ہے تم بچہ گود لے لو۔‘‘ این نے سب سنکر فورا حل بتا دیا۔
’’ یہ اتنا آسان نہیں ہے این۔میرا شوہر اس پر کبھی بھی راضی نہیں ہو گا۔اسے اپنا بچہ چاہیے ہے۔‘‘ اسمارہ نے افسردگی سے کہا۔
” ہمممم! تو ایسا کرو اس کے کسی بہن بھائی کا بچہ ایڈاپٹ کر لو۔مجھے یقین ہے پھر اسے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔‘‘ این نے ایک اور تجویز دی۔
’’ ارے ہاں!یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں ۔تھینک یو سو مچ این!‘‘ اسمارہ نے اس کے گال چومتے ہوئے کہا۔
’’ مائی پلیژر اسمارہ!خوش رہا کرو۔تم اداس بالکل بھی اچھی نہیں لگتی۔گھر جا کر اپنے شوہر سے ضرور بات کرنا۔اچھا اب میں چلتی ہوں۔بائے ہیو آ نائس ڈے اینڈ بیسٹ آف لک۔‘‘ این ہاتھ ہلاتی ہوئی باہر نکل گئی۔
اسمارہ نے اسی شام واپسی پر ڈنر کرتے ہوئےعثمان سے بات کی۔
’’ عثمان !کیوں نہ ہم آپکے بھائی کا بچہ گود لے لیں ۔آپ کی بھابھی کو ڈاکٹر نے آٹھ ماہ بعد کی ڈیٹ دی ہے ہم پاکستان جا کر بچہ پیدا ہوتے ہی ایڈاپٹ کر لیں گے اور اسے اسکاٹ لینڈ لے آئیں گے۔کیا خیال ہے آپ کا؟‘‘
’’ اب یہ خیال تمہارے دماغ میں کیسے آ گیا؟عثمان نے کھانا کھاتے ہوئے کہا۔
’’ اس کو چھوڑیں ۔آپکو یہی اعتراض تھا نا کہ بچہ کسی غیر کا نہ ہو تو آپ کا بھتیجا تو آپ کا اپنا خون ہو گا نا۔ پلیز عثمان بات کریں نا بھائی سے۔‘‘ اسمارہ نے منت کی۔
’’ اچھا !اچھا!سوچتے ہیں کچھ اس بارے میں ۔ابھی تو تم آرام سے کھانا کھاو۔‘‘ عثمان کی رضامندی پا کر اسمارہ بہت خوش ہوئی۔پھر تمام مراحل بڑی آسانی سے طے ہو گئے۔وہ دونوں پاکستان سے بچہ لیکر اسکاٹ لینڈ آگئے۔
جب اسمارہ فلاور شاپ پہ پہنچی تو شاپ کا لاک کھول کر اندر داخل ہوئی تو لائٹ آن کرتے ہی بہت سے پھول اس پر آن گرے اور اس کی شاپ کے اونر، سیلز مین کے علاوہ ان کے بہت سے کسٹمرز ہاتھوں میں پھول اور بچے کے لیے تحائف لیے کھڑے تھے۔سب نے اسے پھولوں کے ساتھ تحائف بھی دئیے اور مبارکباد دی۔دوکان کے مالک نے اسے ایک بڑی سی ٹوکری میں اس کی پسند کے تمام پھولوں کے ساتھ ساتھ ایک ماہ کی چھٹی مع تنخواہ دی تو اسمارہ کی آنکھیں بھرآئیں ۔وہ خوش تھی کہ نہ صرف اس کے آنگن میں ایک پھول مہکنے لگا تھا بلکہ اس کی آمد کے ساتھ ساتھ اس پر تحائف کی بارش بھی ہو گئی تھی۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 07 اگست تا 13 اگست 2022