آنسو پائے حیرت کیوں ہے ،وہ کاٹا ہے جو تھا بویا
بنگال تشدد :انتخابات میں شکست کےبعد بی جے پی کاپروپیگنڈا
ڈاکٹر سلیم خان
صدر راج نافذ کرکے اقتدار پر غیر قانونی قبضہ کی کوشش؟
مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات کے نتائج امن کے بجائے تشدد کا پیغام لے کر وارد ہوئے۔ انتخابی نتائج کے بعد شروع ہونے والے تشدد میں مہلوکین کی تعداد 20 تک پہنچ چکی ہے۔ ذرائع کے مطابق ان میں 9 کا تعلق بی جے پی اور 8 کا ٹی ایم سی سے ہے۔ ایک سی پی ایم اور ایک آئی ایس ایف سے ہے۔ ایک ایسا بدنصیب بھی ہے جس کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں تھا۔ اس تشدد پر بی جے پی اور ترنمول کے مابین لفظی مہا بھارت برپا ہے لیکن اسی کے ساتھ وزارت داخلہ نے تشدد سے متعلق رپورٹ طلب کر کے جائزہ لینے کی خاطر ایک وفد بھی روانہ کر دیا ہے۔ بی جے پی بڑی شد ومد کے ساتھ اپنے حامیوں کے نشانہ بنائے جانے کا شور مچا رہی ہے۔ وزیر اعظم کو 2002 کے فسادات کی یاد دلانے والی کنگنا رناوت نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ مودی جی کے ہوتے سنگھی بہادروں کو مغربی بنگال سے بھاگ کر آسام جانے کی نوبت آئے گی۔ ویسے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آسامی بنگلا دیش سے آنے والے بنگالیوں کے بھی اتنے دشمن ہیں جتنے مغربی بنگال باشندوں کے ہیں۔ وہ کسی صورت میں ان کا نام این آر سی میں شامل نہیں ہونے دیں گے اور نہ سی اے اے کا چور دروازہ کھولیں گے ۔
دوسروں کے گھروں اور دکانوں کو آگ لگانے والی بی جے پی کے ریاستی صدر دلیپ گھوش اپنی پارٹی کے دفاتر میں آتشزدگی کی مبینہ ویڈیو بھی شیئر کر کے آنسو بہا رہے ہیں۔ گھوش نے کہا کہ بد قسمتی سے جب کووڈ-19 کا بحران عروج پر ہے تو ریاست میں انتخابات کے بعد تشدد برپا ہے۔ وہ بھول گئے کہ مغربی بنگال میں انتخاب کے وقت بھی کورونا زوروں پر تھا لیکن اقتدار کی ہوس نے ان لوگوں کو اندھا کر دیا تھا۔ وزیر داخلہ امیت شاہ کی توجہ جب اس جانب مبذول کرائی جاتی تو عجیب وغریب دلائل دیتے تھے۔ کبھی کہتے کہ مہاراشٹر اور دہلی میں کون سا انتخاب ہو رہا ہے اور کبھی کہتے کہ چونکہ بی جے پی کے مخالفین کو ان کی شکست کا خوف ستا رہا ہے اس لیے وہ انتخابی مہم کو مختصر کر کے آخری چار مراحل کا انتخاب ایک ساتھ کروانا چاہتے ہیں۔ اب جبکہ بی جے پی کو پتہ چل گیا ہے کس کی ہار ہوئی اور کون جیت گیا تو اسے کورونا کا رونا آرہا ہے۔
ریاستی صدر دلیپ گھوش نے الیکشن کمیشن سے فریاد کرنے کی بات تو کی مگر بھول گئے کہ جس وقت یہ تشدد ہو رہا تھا ریاست کا نظم ونسق ممتا کے نہیں کمیشن کے ہاتھوں میں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ گورنر جگدیپ دھنکڑ نے جب حلف برداری کے بعد ممتا بنرجی سے موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا تو وہ بولیں ابھی تک کمیشن کے ہاتھوں میں کمان ہے اب میں سنبھالوں گی تو قابو میں کروں گی۔ وزیر اعظم کے کہنے پر گورنر نے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اور کولکاتہ پولیس کمشنر کو بھی طلب کیا مگر ممتا بنرجی نے نہلے پر دہلہ مارتے ہوئے ان کا تبادلہ کر دیا۔ سنگھ کی طلبا تنظیم اے بی وی پی نے الزام لگایا کہ ٹی ایم سی پارٹی کے کارکنان نے جان بوجھ کر ہندو دیوتاؤں اور مجاہدین آزادی کے مجسموں کی بے حرمتی کی۔ آئی ٹی سیل نے اس موقع پر ہوا سازی کے لیے جعلی ویڈیوز کا طوفان برپا کر دیا حالانکہ ان میں سے بیشتر کی تردید ان میں نظر آنے والے افراد اور انتظامیہ کر چکا ہے۔ ٹی ایم سی بھی بی جے پی والوں پر اپنے کارکنان کے قتل کا الزام لگا رہی ہے اور سنگھی پروپیگنڈے کو پرانی تصاویر کا پلندہ بتا رہی ہے۔عجب کی بات یہ ہے کہ دلی فساد کے وقت بی جے پی کے جو لیڈر اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے تھے اب وہ قومی صدر جگت پرکاش نڈا کی قیادت میں مغربی بنگال کے دو روزہ دورے پر نکل کھڑے ہوئے ہیں تاکہ اپنے کارکنوں کی مزاج پرسی کر سکیں۔ بی جے پی والے بھول گئے کہ تشدد تو انتخاب کے دوران بھی ہوا تھا لیکن اس وقت زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک پاشی کی جارہی تھی۔ یہ بہت پرانی بات بھی نہیں ہے، 10 اپریل کو چوتھے دور کی پولنگ کے دوران شیتل کوچی میں سی آئی ایس ایف نے چار لوگوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس پر بی جے پی کے سابق صوبائی صدر راہل سنہا نے کہا تھا 4 کے بجائے 8 لوگوں کو گولی سے بھون دیا جانا چاہیے تھا۔ مرکزی فورس کو اس کوتاہی کے لیے وجہ بتاو نوٹس دے کر جواب طلب کیا جانا چاہیے کہ صرف 4 پر اکتفا کیوں کیا گیا؟ یہ غنڈے عوام کا جمہوری حق چھین لینا چاہتے ہیں۔ ایسا اگر پھر ہوا تو اس کا جواب اسی طرح دیا جائے گا۔ دلیپ گھوش نے بھی آئندہ مرحلوں میں تشدد کا امکان ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر بدمعاش لڑکوں نے خود کو قابو میں نہیں رکھا تو یہی معاملہ دہرایا جائے گا۔ کیا اس فائرنگ میں مرنے والے کسی کے بھائی، بیٹے یا شوہر نہیں تھے؟ کیا وہ بھی مزاج پرسی کے حقدار نہیں تھے؟ کیا خون کا رنگ بھی سبز یا زعفرانی ہوتا ہے؟ الیکشن کمیشن نے اس اشتعال انگیزی پر انہیں 48 گھنٹوں تک انتخابی مہم سے باہر کر دیا تھا۔ بی جے پی جس طرح اب تشدد کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہی ہے اسی طرح اس وقت ٹی ایم سی نے کوچ بہار کے شیتل کوچی میں مرکزی فورسیز کی مبینہ فائرنگ کے خلاف ریاست بھر میں احتجاج کرنے کا اعلان کیا تھا۔ صوبائی وزیر سبرتو مکھرجی نے کہا تھا کہ ‘وزیر اعظم ہر لمحہ لوگوں کو قتل کرنے کے لیے اکسا رہے ہیں۔ بی جے پی کے اکسانے پر ہی نندی گرام میں ممتا بنرجی پر حملہ ہوا۔ انہوں نے اس معاملے میں وزیر اعظم مودی کی بیان بازی پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔ بی جے پی کی مذکورہ سفاکی اس لیے تھی کہ مہلوکین کی شناخت حمید الحق، امین الحق، منیرالحق اور نور عالم کے طور پر ہوئی تھی۔ سبرتو مکھرجی نے نریندر مودی اور امیت شاہ پر لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے قتل و غارتگری کروا کے بنگال کو بدنام کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اس گولی باری کی تفصیل ٹی ایم سی کے سوگتا بوس نے اس طرح بتائی تھی کہ ووٹنگ کی قطار میں کھڑے مہلوکین کو بی جے پی کے غنڈوں نے دھمکیاں دیں اور مرکزی فورسیز نے ان کے اشارے پر فائرنگ کر دی کیونکہ مرکزی فورسیز میں ہنگامہ آرائی کرنے والوں پر روک لگانے کی ہمت نہیں تھی۔
وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے کوچ بہار کی گولی باری کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ سنٹرل انڈسٹریل سیکیورٹی فورسز (سی آئی ایس ایف) کا سینے میں گولی مارنا ’نسل کشی‘ ہے۔ سی آئی ایس ایف کو ہجوم پر قابو پانے کا تجربہ نہیں ہے۔ وہ صرف صنعتی معاملات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ممتا بنرجی نے جو اسلحہ چھیننے کا دعویٰ کیا اس کے حق میں کوئی ویڈیو فوٹیج یا ثبوت نہیں پیش کرسکی۔ ممتا بنرجی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اصولاً پہلے لاٹھی چارج کیا جانا چاہیے پھر آنسو گیس کے گولے یا پانی کی دھار سے ہجوم کو منتشر کیا جاتا ہے اس کے بعد ہی فائزنگ کی باری آتی ہے۔ دیدی نے اسے رائے دہندگان کو ڈرا کر ووٹ ڈالنے سے روکنے کا حربہ قرار دیا۔ اس الزام میں حقیقت ہے کیونکہ مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں میں انہیں پولنگ سے روکنے کے لیے پہلے تو رمضان کی تاریخیں رکھی گئیں اور جب دیکھا کہ وہ پھر بھی بڑے پیمانے پر آرہے ہیں تو گولی باری کر کے حوصلہ شکنی کی گئی لیکن وہ بی جے پی کے بزدلوں کی طرح وہ بھاگنے والوں میں سے نہیں تھے، انہوں نے بی جے پی کو ہی تڑی پار کر دیا۔
ممتا بنرجی نے جب متاثرہ علاقوں کا فوری کرنے کا اعلان کیا تو مرکز کے غلام بے دام الیکشن کمیشن نے سیاسی رہنماؤں کے دورے پر پابندی عائد کرکے انہیں روک دیا۔ یہ کس قدر زیادتی کی بات ہے کہ دلی کی ٹیم تو حالات کا جائزہ لینے کے لیے بنگال جا سکتی ہے لیکن وزیر اعلیٰ کو اجازت نہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس سانحہ پر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے کہا کہ کوچ بہار میں جو کچھ ہوا وہ افسوس ناک ہے۔ انہوں نے انسانی جانوں کے اتلاف پر ان کے اہل خانہ سے تعزیت تو کی مگر اس کے لیے ترنمول کانگریس کو ذمہ دار ٹھہرا کر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی نیز، گولی چلانے والے ظالموں کا دفاع بھی کیا۔ وزیر اعظم مودی نے سلیگوڈی میں اپنی انتخابی تقریر میں عوام کو یقین دلایا کہ ترنمول کانگریس کی غنڈہ گردی اب آگے جاری نہیں رہے گی۔ بی جے پی اس میں تبدیلی لائے گی اور تمام لوگوں کی حفاظت کرے گی۔ انتخابی نتائج گواہ ہیں کہ عوام نے ان وعدوں کو جوتے کی نوک پر اڑا دیا۔ مودی نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ بھگوان نے دیدی کو بنگال کی خدمت کرنے کا موقع دیا لیکن انہوں نے بنگال کو تباہ کر دیا۔ عوام نے بی جے پی کے ذریعہ متوقع تباہی وبربادی پر دیدی کو ترجیح دے کر وزیر اعظم کے کان لال کر دیے۔
وزیر اعظم نے ممتا پر مرکزی افواج کے خلاف لوگوں کے جذبات کو بھڑکانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے بہادر فوجی دہشت گردوں اور نکسلیوں سے نہیں ڈرتے۔ اس کا مظاہرہ تو چھتیس گڑھ میں ہو چکا لیکن بنگال میں پتہ چلا کہ نہتے لوگوں پر یہ فوجی خوب زور دکھاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اپنے آقاوں کے حکم پر گولی چلانے والے حفاظتی دستے کے جوانوں کو کلین چٹ دے دی۔ اس کے خلاف سنجوکت مورچہ کے وفد نے ای سی کے افسروں سے مل کر ان کی خامیوں پر انگلی رکھ کر سوال کیا کہ آخر اس پورے واقعے کی ویڈیو گرافی کیوں نہیں ہوئی؟ ویسے گاوں کے عینی شاہدین نے بھی ضلع انتظامیہ کے بوتھ پر ہنگامہ آرائی کے دعوے کو خارج کر دیا۔ اس دباو کے بعد الیکشن کمیشن نے تسلیم کیا کہ یہ ہنگامہ آرائی غلط فہمی کے نتیجے میں ہوئی تھی اور سیکورٹی فورسیس کے جوانوں نے اپنی جان بچانے کے لئے فائرنگ کی تھی۔
مقامی لوگ الیکشن کمیشن کے مذکورہ دعویٰ کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کے مطابق بوتھ پر ایک بچہ ویڈیو بنا رہا تھا جس کی سیکورٹی فورسیس کا جوان خوب جم کر پٹائی کرنے لگا۔ گاوں والوں کو جب کو اس کی خبر ملی تو وہ بچے کو بچانے کے لیے پہنچ گئے۔ اس درمیان سیکورٹی فورسیس نے فائرنگ کردی جس میں چار افراد فوت ہو گئے۔ اس معاملے کی حقیقت جاننے کے لیے جماعت اسلامی ہند، مغربی بنگال کے ایک وفد نے متاثرہ گاوں کا دورہ کیا اور جنازے میں شرکت کرنے کے ساتھ ساتھ اہل خانہ کو پرسہ دینے کے لیے ان سے ملاقات کی۔ کوچ بہار کے رہنے والے جماعت کے امیر حلقہ عبد الرقیب نے مقامی لوگوں سے بات چیت کرنے کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ پورا واقعہ سازش کے تحت انجام دیا گیا ہے اور اس کا مقصد رائے دہندگان کو خوف زدہ کرنا تھا کیونکہ فائرنگ ایسے علاقہ میں ہوئی جہاں 80 فیصد مسلم آبادی ہے۔
امیر حلقہ نے اپنے دعویٰ کے حق میں کئی ایسے سوال کیے جن کا جواب الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کے پاس نہیں ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ آخر مجمع کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے کیوں نہیں چھوڑے گئے؟ جب مجمع جمع ہونا شروع ہوا تو اضافی فورسیس کیوں طلب نہیں کی گئیں؟ مقامی لوگوں نے اگر حملہ کیا تو اس میں سیکورٹی فورسیس کے جوان زخمی کیوں نہیں ہوئے؟ اور اگر زخمی ہوئے ہیں تو پھر طبی جانچ کیوں نہیں کرائی گئی؟ انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ اگر مقامی لوگوں کے پاس ہتھیار تھے تو پھر اسے برآمد کیوں نہیں کیا گیا؟ اس معاملے کی اعلیٰ سطحی جانچ کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ہی انہوں نے ترنمول کانگریس کے اس دعویٰ کو بھی خارج کر دیا کہ مرنے والوں کا تعلق ترنمول کانگریس سے تھا۔ ان کےمطابق وہ گاوں کے عام باشندے تھے جن کا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں تھا۔ سیتل کوچی کی اس فائرنگ پر کلکتہ ہائی کورٹ کے میں ایڈووکیٹ امین الدین خان نے ایک پی آئی ایل دائر کرکے عدالتی جانچ کی درخواست کی ہے نیز بے قصور مرنے والوں کے لواحقین کے لیے معاوضہ طلب کیا ہے۔ یہ معاملہ زیر سماعت ہے۔
ایک ماہ قبل اس قتل عام کا بھر پور سیاسی فائدہ اٹھانے کے بعد مرکزی حکومت نے اسے نظر انداز کر دیا۔ عوامی تحفظ وسلامتی کے اصل ذمہ دار وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا تھا کہ کوچ بہار تشدد ممتا دیدی کی بیان بازی کا نتیجہ ہے جس میں انہوں نے مرکزی فوج کا گھیراؤ کرنے کے لیے لوگوں کو اُکسایا تھا۔ انہوں نے بے قصور لوگوں کی موت پر افسوس کا اظہار کرنے کے بجائے یہ پیشن گوئی کی کہ 2؍ مئی کو بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد ریاست مکمل طور پر تشدد سے پاک ہو جائے گی۔ یہ دعویٰ ایک ایسا شخص کر رہا تھا کہ جس کے اقتدار میں آنے بعد گجرات میں ناقابل بیان ظلم وتشدد ہوا۔ امیت شاہ نے ایک روڈ شو میں کہا تھا کہ ’کسی کی بھی موت تکلیف دہ ہے مگر کچھ روز پہلے سیتل کوچی میں ممتا بنرجی کی اشتعال انگیز تقریر ہوئی تھی جہاں اب چار لوگوں کی گولی لگنے سے موت ہوئی ہے‘‘۔ اس طرح کے گمراہ کن بیان سے اگر اشتعال انگیز تقاریر کو تشدد اور قتل کا ذمہ دار بنا کر اسے بلا واسطہ حق بجانب ٹھہرایا جائے تو انتخاب کے بعد ہونے والی غارتگری کے لیے بھی بی جے پی کی اشتعال انگیزی کو جواز بنایا جا سکتا ہے۔ اس لیے بی جے پی کو اتنا رونے پیٹنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ویسے بھی شاہ جی کی پیشن گوئی غلط ثابت ہو چکی ہے۔
یہ عجب تماشا ہے کہ بی جے پی کے مطابق نندی گرام میں ممتا بنرجی پر حملہ ہو تو وہ ٹی ایم سی والے حملہ کرتے ہیں اور وزیر مملکت برائے امور خارجہ اور پارلیمانی امور وی مرلی دھرن کے قافلے پر حملہ کرنے والے بھی وہی لوگ ہوتے ہیں۔ ممتا بنرجی اگر اپنے اوپر حملے کا ناٹک کر سکتی ہیں تو بی جے پی کیوں نہیں کرسکتی جبکہ سب سے زیادہ ناٹک باز تو وہی ہے۔ ایسے میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو سمراٹ اشوک کی اولاد سمجھنے والے بی جے پی کے کاغذی شیروں نے کیا ممتا بنرجی کی چوڑیاں پہن کر اپنے ہاتھوں میں مہندی لگا رکھی ہے؟ بی جے پی کی قدیم حلیف شیو سینا نے جو اس کی ریشہ دوانیوں سے اب خوب واقف ہو چکی ہے اپنے ترجمان ’سامنا‘ کے اداریہ میں لکھا ہے کہ ‘‘مغربی بنگال میں حقیقت میں کیا ہو رہا ہے اور اس کے پیچھے غیبی طور پر کس کا ہاتھ ہے یہ چیزیں واضح ہونی چاہیئں۔ جب سے ریاست میں بی جے پی کو شکست فاش ہوئی ہے تبھی سے تشدد کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ ترنمول کانگریس کے کارکنوں نے بی جے پی کے کارکنوں کے ساتھ مار پیٹ کی لیکن یہ سب غلط تشہیر ہے‘‘
شیو سینا نے تو گویا شک کی سوئی بی جے پی کی جانب گھما دی ہے۔ سامنا مزید لکھتا ہے کہ ’’وزیر اعظم نریندر مودی نے مغربی بنگال کے گورنر سے بات کر کے حالات سے آگاہی حاصل کی۔ بی جے پی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بھی ہائی کورٹ کا رخ کر کے ممتا بنرجی کو تشدد کا ذمہ دار قرار دیا اور ریاست میں گونر راج تک نافذ کرنے کا مطالبہ کر ڈالا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی سازش کر رہی ہے۔‘‘ اداریہ میں کورونا وائرس کی تباہی کے دوران فسادات پر سیاست اور دلیپ گھوش و آدتیہ ناتھ کی انتخابی تشہیر پر تنقید کی گئی۔ بی جے پی فسادات کی سیاست میں کس قدر نیچے گر گئی ہے اس کا اندازہ کمال چالاکی سے کیے جانے والے ایک ٹویٹ سے کیا جا سکتا ہے جس میں لکھا گیا تھا کہ ’’معذرت امیت شاہ میں نے تم پر بھروسہ کیا اور تمہیں ووٹ دیا لیکن اب میری عصمت دری کی جا رہی کیونکہ تم الیکشن ہار گئے ہو۔ برائے کرم مجھے آبروریزی سے بچائیں۔ آپ کے پاس مرکز میں ۳۰۳ نشستیں ہیں۔ اس طرح بغیر ریڈھ کی ہڈی والا نہ بنیں‘‘۔
اس ٹویٹ کے بعد ٹوئیٹر پر ہیش ٹیگ
# ممتا کو گرفتار کریں
# بنگال تشدد
# بے ریڈھ کی ہڈی والی بی جے پی چل پڑا۔ اس ٹویٹ کے ساتھ الگ سے یہ بھی لکھ کو تشہیر کی گئی کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کا اقتدار قائم کرنے والوں کو بنگال میں قتل کیا جا رہا ہے۔ اگر آپ ان کی حفاظت نہیں کر سکے تو بزدل کہلاو گے۔ آپ بزدل نہیں ہیں اس لیے صرف گفتگو کرنے کے بجائے سخت اقدام کریں۔ اسی کے ساتھ بھیشما پتامہا کہلانے کی عار دلا کر بہت ساری بکواس کی گئی۔ ٹویٹ میں دکھائی جانے والی تصویر کی تفتیش سے پتہ چلا کہ یہ 6 نومبر 2020 کو بی جے پی آئی ٹی سیل کے سربراہ کے ذریعہ سب سے پہلے مشتہر کی گئی تھی۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے جب بانکورہ کے میں ایک قبائلی بی بھیشان ہانڈا کے گھر کھانا کھایا تھا تو ان کی بیٹی کے ساتھ یہ تصویر کھنچوائی گئی تھی۔ یہ سراغ مل جانے کے بعد بوم نامی ادارے نے تفتیش کے لیے لڑکی کے والد سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا وہ اور ان کی بیٹی محفوظ ومامون ہیں۔ ان کے علاقہ میں کوئی تشدد نہیں ہوا۔ ان کی بیٹی کے حوالے سے پھیلائی جانے والی رپورٹ جھوٹی ہے۔مذکورہ لڑکی بارہویں جماعت کی طالبہ ہے۔ بانکورہ پولیس سے لوجکل انڈیا نے رابطہ کیا تو اس نے بھی لاعلمی کا اظہار کر دیا۔ اس طرح یہ بات ثابت ہو گئی کہ سماجی رابطے کے ذرائع میں پھیلائی جانے والی یہ خبر سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ اسی قبیل کی دیگر خبروں پر بھی اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے۔ ایسے میں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ آخر اس ڈرامہ بازی کی وجہ کیا ہے؟ ہندوستان کے اکثریتی فرقہ کے لیے اس کے جواب کی رسائی مشکل ہے مگر اقلیتوں کے لیے آسان ہے کیونکہ وہ اس صورتحال سے گزرتے رہے ہیں۔ فی الحال بی جے پی جس طرح ہندووں کی ہمدرد بن کر ان کا سیاسی استحصال کر رہی ہے اسی طرح کا معاملہ برسوں تک مسلمانوں کے ساتھ سیکولر جماعتوں کی جانب سے کیا جا چکا ہے۔ وہ لوگ مسلمانوں کے اندر عدم تحفظ کے احساس کو خوب بڑھاتے تھے اور خود کو نجات دہندہ بنا کر پیش کرتے تھے تاکہ مسلمان ان کی پناہ میں اپنے لیے عافیت سمجھیں۔
یہ کھیل ایسے وقت میں زیادہ شدو مد سے کھیلا جاتا تھا کہ جب کسی اور پارٹی خاص طور پر بی جے پی کو کامیابی ملتی تھی۔ فرقہ وارانہ فساد کے بعد مسلمانوں کو اپنی غلطی کا احساس دلایا جاتا کہ اگر وہ انہیں ووٹ دیتے تو ایسا نہ ہوتا۔ اس سے یہ پیغام بھی جاتا کہ آئندہ اس طرح کی غلطی کو دہرایا نہ جائے۔ بی جے پی اپنے اوچھے پروپیگنڈے کے ذریعہ فی الحال بنگال کے ہندووں کو ان کی غلطی کا احساس دلا رہی ہے نیز اس تشدد کے بہانے بنگال میں صدر راج نافذ کر کے اقتدار پر غیر قانونی قبضہ کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ ایسا کرنے کے نتیجے میں ممتا بنرجی کے تئیں عوام کی ہمدردی میں مزید اضافہ ہو گا اور انتخاب میں وہ پھر سے کامیاب ہو جائیں گی۔ بی جے پی یہ غلطی پچھلی مرتبہ کرچکی ہے اس لیے اسے اپنی گزشتہ ناکامی سے عبرت پکڑ کر ایسا کرنے سے گریز کرنا چاہیے مگر ظالم ایسا کم ہی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد ربانی ہے: ’’اس طرح فرعون کے لیے اس کی بد عملی خوشنما بنا دی گئی اور وہ راہ راست سے روک دیا گیا فرعون کی ساری چال بازی (اُس کی اپنی) تباہی کے راستہ ہی میں صرف ہوئی‘‘۔
***
یہ کھیل ایسے وقت میں زیادہ شدو مد سے کھیلا جاتا تھا کہ جب کسی اور پارٹی خاص طور پر بی جے پی کو کامیابی ملتی تھی۔ فرقہ وارانہ فساد کے بعد مسلمانوں کو اپنی غلطی کا احساس دلایا جاتا کہ اگر وہ انہیں ووٹ دیتے تو ایسا نہ ہوتا۔ اس سے یہ پیغام بھی جاتا کہ آئندہ اس طرح کی غلطی کو دہرایا نہ جائے۔ بی جے پی اپنے اوچھے پروپیگنڈے کے ذریعہ فی الحال بنگال کے ہندووں کو ان کی غلطی کا احساس دلا رہی ہے نیز اس تشدد کے بہانے بنگال میں صدر راج نافذ کر کے اقتدار پر غیر قانونی قبضہ کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 16 مئی تا 22 مئی 2021