آسمان کو چھوتی قیمتیں

صارفین اور کسانوں کو بڑے کاروباریوں کے رحم وکرم پر چھوڑدیا گیا

زعیم الدین احمد ،حیدرآباد

 

اے خاک وطن تجھ سے میں شرمندہ بہت ہوں
مہنگائی کے موسم میں یہ تیوہار پڑا ہے
ایک زمانہ تھا کہ سبزیاں، دالیں سستی ہوا کرتی تھیں غریب دال کھاکر گزارا کرتا تھا لیکن آج غریب کے بس کا روگ نہیں ہے کہ وہ دال سبزیاں کھاکر اپنا گزارا کرسکے۔ اس کی ایک وجہ بڑے تاجروں کی ذخیرہ اندوزی ہو سکتی ہے بڑے تاجر پیاز، آلو اور دیگر سبزیوں کا ذخیرہ کرکے قیمتیں بڑھنے کا انتظار کرتے ہیں اور بعد میں قیمتیں بڑھنے کے بعد اسے بازار میں فروخت کرکے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس طرح کھانے کی اشیا کی قیمتیں بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں سبزیوں کی قیمتیں عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوجاتی ہیں۔
ایک مشہور حکایت ہے کہ جب اودھ کے نواب واجد علی شاہ کو کمپنی بہادر نے ملک بدر کر دیا اور انہیں جلا وطن کر کے کولکتہ بھیج دیا گیا تو ان کے باورچیوں کے لیے بہت مشکل ہوگیا کہ نواب صاحب کو کھانے میں کیا پیش کریں کیونکہ نواب صاحب تو لکھنو کے گوشت سے بھرے پکوان کے دل دادہ تھے۔ اگرچہ کہ نواب کے لیے کچھ تھوڑا بہت گوشت کا انتظام تھا لیکن اس طرح معمولی اور روایتی انداز کے کھانے نواب صاحب کے حلق سے نہیں اتر پا رہے تھے۔ کولکتہ میں آلو بہت سستا ہوا کرتا تھا لہٰذا ان کے باورچیوں نے ایک ترکیب نکالی اور بریانی میں گوشت کی کمی کو پورا کرنے کے لیے آلو کا استعمال شروع کیا۔ یہی بریانی بعد میں اودھی بریانی کہلائی جانے لگی۔
آج چیزیں بہت مختلف ہوگئی ہیں کیونکہ آلو آج ایک امیر آدمی کا کھانا بن گیا ہے۔ پچھلے دو ماہ سے اسے 50 روپے فی کلو یا اس بھی زیادہ قیمت میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ لیکن میری نظر میں آلو کی قیمت کم ہی نظر آرہی ہے کیونکہ دوسری سبزیوں کی قیمتیں تو اس بھی کہیں زیادہ ہوگئی ہیں۔ کئی مہینوں سے حیرت انگیز طور پر ایک چیز کی قیمت مستحکم ہے اور وہ پیاز ہے جو 40 تا 60 روپیوں میں بیچی جارہی ہے شہر حیدرآباد میں تو اس کی قیمت سو روپے ہو چکی ہے۔
مہاراشٹر کا ضلع ناسک جو پیاز کی پیداوار میں ملک بھر میں سرفہرست ہے وہاں کی ہول سیل منڈی میں پیاز جہاں 10 تا 15 روپے بک رہی تھی وہیں آج اس کی قیمت 40 روپے فی کلو گرام ہوچکی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ قیمتوں کے اس اضافے سے کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں مل رہا ہے۔ حقیقت میں کسانوں نے قیمتوں کے اس اچھال سے ایک پیسہ بھی حاصل نہیں کیا ہے۔ یہ سارا منافع بڑے تاجروں نے اٹھایا ہے جنہوں نے پیاز کا ذخیرہ کیا ہوا تھا۔ اکثر کسان پیاز کو زیادہ تر سردیوں میں اُگاتے ہیں اسے سرما کی فصل کے طور پر اُگایا جاتا ہے اسی وجہ سے جنوری سے لے کر اپریل تک یہ بازار میں دستیاب رہتی ہے۔ مئی اور جون کے مہینوں میں بڑے کاروباری یعنی ہول سیلرز کے ذریعہ ذخیرہ کردہ پیاز مارکیٹ میں آنے لگتی ہے جسے وہ قیمتوں میں اضافہ کرکے بیچتے ہیں پھر اگست کے مہینے میں کرناٹک، آندھراپردیش اور تمل ناڈو سے تھوڑی بہت فصل آجاتی ہے اسی لیے یہ بازار میں دستیاب رہتی ہے۔ اس سال غیر موسمی اور غیر متوقع بارشوں کی وجہ سے موسم گرما کی فصل کے ایک بڑے حصے کو شدید نقصان پہنچا جس کی وجہ سے قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سال کے پہلے چند مہینوں میں پیاز کی تھوک قیمتیں بہت زیادہ ہوگئی تھیں۔ مارچ کے مہینے میں ہول سیل مارکیٹ میں پچھلے سال کے مقابلے میں پیاز کی قیمتیں 112 فیصد زیادہ تھیں جب کہ ماہ اپریل میں قیمتوں میں 72 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا لیکن مئی کا مہینہ آتے آتے قیمتیں گرنا شروع ہوگئیں اور پیاز کی ہول سیل قیمت ماہ جون کے مقابلے 15 فیصد اور ماہ جولائی میں 26 فیصد اور اگست میں 34 فیصد کمی واقع ہوگئی۔ اس کمی کے باوجود بھی اس کی قیمت 50 تا 60 روپے ہے۔
اوسطاً بھارت میں ایک خاندان ہر مہینے میں 4-5 کلو پیاز استعمال کرتا ہے۔ ایسے لوگ جو خالص سبزی خور ہیں وہ ہر مہینے اوسطاً 7-8 کلو پیاز کا استعمال کرتے ہیں۔ ایسے افراد کے لیے یہ کتنی مشکل بات ہوگی کہ وہ اتنی مہنگی پیاز کو اپنے پکوان میں استعمال کریں۔ شاید اسی وجہ سے ہمارے ملک کی وزیر خزانہ پیاز نہیں کھاتیں۔ شاید انہیں اس بات کا علم ہے کہ پیاز کی تیزی اس کی قیمت بڑھنے سے اور زیادہ ہو گئی ہے۔ اسی طرح ٹماٹر کا استعمال بھی ہمارے ملک کے متعدد حصوں میں خاص طور پر جنوبی بھارت میں بہت زیادہ کیا جاتا ہے اس کے بغیر سبزیاں اور گوشت نہیں بنایا جاتا آج اس کی قیمت بھی آسمان کو چھو رہی ہے۔
کیا آپ کو یہ بات غیر معمولی نظر نہیں آتی کہ ایک ہی وقت میں یہ تینوں اہم سبزیاں آلو، پیاز اور ٹماٹر مہنگے ہوگئے ہیں؟ ان کی قیمتوں میں اچانک اچھال دیکھا جا رہا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ تالا بندی بھی ہوسکتی ہے جس میں حمل و نقل کا بند ہونا بھی ہے جس کی وجہ سے کسان ان سبزیوں کو بازار تک نہیں لاسکے۔ خاص طور پر ٹماٹر جو بہت جلد خراب ہو جاتا ہے اسی وجہ سے وہ ضائع ہوگئے اس کا کسانوں کو بہت بڑا نقصان اُٹھانا پڑا۔ یہ واضح طورپر غیر منصوبہ بند تالا بندی کا نتیجہ ہے جس کا کسانوں نے شدید نقصان اُٹھایا۔ کچھ حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے والے اکنامسٹ کہتے ہیں کہ قیمتوں میں اضافہ سے کسانوں کو فائدہ ہی ہوگا یہ اچھی بات ہے کہ قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ اگر یہ بات سچ ہے تو پھر تھوک قیمتوں میں بھی اضافہ ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ رواں مالی سال کے پہلے تین مہینوں میں غذائی اشیا تھوک بازار میں صرف 2.4 فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ ریٹیل بازار میں اشیاء خورد ونوش کی قیمتوں میں 8 فیصد سے زیادہ کا اضافہ درج کیا گیا۔ ریٹیل سے کسانوں کو کسی قسم کا فائدہ نہیں ہوتا بلکہ اس سے تاجروں کو ہی فائدہ ہوتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں کاشت کاروں نے ان بڑھتی قیمتوں سے ایک پیسہ کا فائدہ حاصل نہیں کیا۔ عام آدمی جب پھلوں اور سبزیوں کو اضافی قیمت پر خریدتا ہے تو یہ پیسہ صرف ہول سیل تاجروں کو جاتا ہے کسانوں کو نہیں۔ کاشت کار آج بھی بدتر حالت میں ہیں ایک طرف غیر موسمی بارشوں نے ان کی فصلوں کو تباہ کیا ہے تو دوسری طرف لاک ڈاون نے ان کی حالت کو مزید بدتر بنا دیا ہے۔ جن بڑے تاجروں نے پیاز اور آلو کا ذخیرہ کیا تھا وہ اس انتظارمیں بیٹھے ہیں تاکہ قیمتیں بڑھیں اور وہ اس سے فائدہ اُٹھائیں۔
اگر مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے بہتر ہم آہنگی اور اچھی منصوبہ بندی کے ساتھ کام کیا ہوتا تو ان بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پایا جاسکتا تھا۔ اگر حکومتیں فصلوں کے متعلق کوئی منصوبہ نہیں بنا سکتیں اور کاشتکاروں کو ان کی پیداوار کی مناسب قیمتیں نہیں دلا سکتیں تو ایسی حکومتوں کا ہونا نہ ہونا دونوں یکساں ہے۔
اگر حکومتیں اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے میں سنجیدہ ہوتیں تو صارفین اور کسانوں کو موسم کے حال پر اور بڑے ہول سیل تاجروں کے رحم و کرم نہیں چھوڑتیں وہ کاشت کاروں کو اپنی پیداوار کو ذخیرہ کرنے کے لیے مناسب سہولتیں فراہم کرتیں اور انفراسٹرکچر کی تعمیر پر اپنی توجہ مرکوز کرتیں۔
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ

اوسطاً بھارت میں ایک خاندان ہر مہینے میں 5-4کلو پیاز استعمال کرتا ہے۔ ایسے لوگ جو خالص سبزی خور ہیں وہ ہر مہینے اوسطاً 8-7کلو پیاز کا استعمال کرتے ہیں۔ ایسے افراد کے لیے یہ کتنی مشکل بات ہوگی کہ وہ اتنی مہنگی پیاز کو اپنے پکوان میں استعمال کریں۔ شاید اسی وجہ سے ہمارے ملک کی وزیر خزانہ پیاز نہیں کھاتیں۔ شاید انہیں اس بات کا علم ہے کہ پیاز کی تیزی اس کی قیمت بڑھنے سے اور زیادہ ہو گئی ہے۔ اسی طرح ٹماٹر کا استعمال بھی ہمارے ملک کے متعدد حصوں میں خاص طور پر جنوبی بھارت میں بہت زیادہ کیا جاتا ہے اس کے بغیر سبزیاں اور گوشت نہیں بنایا جاتا آج اس کی قیمت بھی آسمان کو چھو رہی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 تا 14 نومبر، 2020