آسام کے وزیراعلیٰ مدارس پر معقولیت سے عاری موقف ترک کریں

ڈاکٹر ہیمنتا بسوا سرما کے نام ایک صحافی کا کھلا خط

معزز وزیر اعلی، آسام
بتاریخ: 03 جون، 2022
موضوع: مدرسہ کے فارغین بنام ڈاکٹرس و انجینئرس
محترم وزیراعلی،

مذکورہ بالا امور کے حوالے سے یہ بات عرض کرنی ہے کہ آسام اور اس سے باہر کے مختلف میڈیا آؤٹ لیٹس کے ذریعے مدارس کے فارغین کے تعلق سے نیز مدارس سے ڈاکٹروں اور انجینئروں کے نہیں نکلنے کے حوالے سے آپ کے حالیہ بیانات پر میری نظر پڑی ہے۔ براہِ کرم، مجھے آپ کی توجہ صرف موضوع کے تین اہم نکات کی طرف مبذول کرانے کی اجازت دیں اور اپنے اور ان لوگوں کو جو اس ’’کھلے خط‘‘ کی نکات کو مثبت انداز میں سمجھ سکتے ہیں، مثبت نتیجہ اخذ کرنے کے لیے آپ کو گہرائی کے ساتھ معاملہ فہمی کی دعوت دیتا ہوں۔
1۔مدرسہ کیا ہے؟
مدرسہ وہ جگہ ہے جہاں تعلیم دی جاتی ہے۔ عربی زبان کی اصطلاح میں مدرسہ انگریزی کے لفظ اسکول، ہندی کے لفظ ودیالیہ، سنسکرت یا بنگالی میں استعمال کی جانے والی اصطلاح پاٹھشالہ کے عین مترادف ہے۔ مدرسہ کا سیدھا مطلب ہے تعلیم کی جگہ، اور تعلیم سائنس، فنون لطیفہ، تجارت، دینیات یا دیگر علوم کی ہو سکتی ہے۔
سنہ 1835 تک یعنی آزادی سے قبل اور برطانوی استعمار کے دور میں، دیگر کمیونٹی کے مذہبی تعلیمی اداروں کے ساتھ مدارس ہی پورے ملک (ہندوستان) کے لیے تمام طرح کے اطباء، انجینئر، منتظم، سائنس داں اور جج پیدا کرتے تھے۔ تھامس بیبنگٹن میکالے (لارڈ میکالے) کی مداخلت کے بعد، جو ہندوستان میں مغربی تعلیم کو متعارف کرانے کا بانی تھا، ہندوستانی نظام تعلیم کو بنیادی طور پر نجی اور سرکاری شعبوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب رہا۔ عیسائی مشنری اسکول، ہندو مشن اسکول، گروکل ودیالیہ اور موجودہ دور کے مسلمانوں سے منصوب کیے جانے والے مدارس اس نجی شعبے کے تعلیمی نظام کا حصہ ہیں جس میں نصاب اور تدریس کے طریقہ کار میں کمیونٹی کی بنیاد پر تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ بعد ازاں، تمام مذہبی گروہوں کے ان تعلیمی اداروں میں سے کچھ کو یا تو مکمل طور پر اپنایا گیا یا جزوی طور پر، متعلقہ ریاستی یا مرکزی حکومتوں نے مختلف سطحوں پر مختلف اوقات میں اور متعدد منصوبوں کے تحت انہیں مالی امداد بھی فراہم کیں، اور یہ سلسلہ آج تک پورے ملک میں جاری ہے۔ جناب والا! سنہ 1950 سے ریاستی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ آسام (SMEBA) حکومت کے تعاون سے چلنے والے سب سے قدیم اور کامیاب ترین تعلیمی اداروں میں سے ایک رہا ہے۔ ملک کو آزادی ملنے کے بعد ہندوستان میں امداد یافتہ مدارس بورڈز، جو کہ بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن، آسام (SEBA) کی طرح کام کر رہے ہیں، اور جنہیں دسمبر 2020 میں مدارس کو بند کرنے کی آپ کی مہم جوئی کی تکمیل تک آرٹس اسٹریم میں کے جی (ابتدائی) سے پوسٹ گریجویٹ تک کی تعلیم فراہم کر رہے ہیں-
محترم آپ نے، حال ہی میں دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا، ’’لفظ مدرسہ، کا ہی وجود ختم ہونا چاہیے۔‘‘
کیا آپ تعلیم کے خلاف ہیں جناب وزیر اعلیٰ!
محض مدرسہ کے لفظ سے ہی کسی خاص قسم کی تعلیم کی صراحت نہیں ہوتی ہے۔ یہ مسلم مخالف گروہوں اور اسلامو فوبیا سے متاثر اذہان کی پیداوار ہے نیز یہ مکمل طور پر ایک تنگ اور متعصبانہ تفہیم ہے کہ مدرسہ صرف علوم اسلامی (دینیات) یا زیادہ واضح طور پر محض اسلامی علوم و فنون سے متعلق تعلیم فراہم کرتا ہے۔ ایک روشن خیال اور اعلی ظرف انسان، سابق وزیر تعلیم اور کسی ریاست کے وزیراعلیٰ سے تعلیم کی عام اصطلاح کے بارے میں اتنے سادہ لوح ہونے کی توقع نہیں کی جاتی!
2۔ڈاکٹرس اور انجینئرس مدرسوں سے کیوں تیار نہیں ہوتے؟
علمی حلقے میں یہ سوال کسی بھی طرح اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ جو شخص ہندوستان میں تعلیمی نظام اور ہمارے تدریسی طریقہ کار سے واقف ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ہمارے پاس اسکولی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کے تین بڑے اور اہم اسٹریم ہیں۔ وہ ہیں (i) آرٹس اسٹریم، (ii) کامرس اسٹریم اور (iii) سائنس اسٹریم۔ 11 ویں کلاس کے بعد میڈیکل ڈاکٹرز یا انجینئرز کسی بھی قسم کے تعلیمی نظام سے صرف سائنس اسٹریم کے ہی طلبا مطلوب ہوتے ہیں۔ سابقہ دو ۔ آرٹس اور کامرس جدید طبیب یا انجینئر پیدا نہیں کرتے۔ مدارس، 1857 کے بعد سے ہندوستان میں، صرف فنون لطیفہ (آرٹس اسٹریم) کی تعلیم ہی فراہم کرتے ہیں۔ اس لیے مدارس سے ایم بی بی ایس ڈاکٹرز اور آئی آئی ٹی انجینئرز پروڈیوس کرنے کی خواہش ایک خواب کے مترادف ہے۔ یہ مضحکہ خیز ہے کہ کالج یا یونیورسٹی کے آرٹس یا کامرس اسٹریم کا طالب علم نیورو سرجن یا خلائی سائنسدان بنے گا! یہ بچکانہ بات تو ہے ہی اس کے ساتھ ہی یہ غیر دانشمندانہ اور غیر ضروری بھی ہے اور ایک لایعنی دلیل سے زیادہ کچھ نہیں ہے، نیز یہ عقل کے بھی برخلاف ہے۔
یہاں یہ بھی ذکر کرنا قرین قیاس ہے کہ ہندوستانی تعلیمی نظام میں وہ طالب علم جس نے سائنس اسٹریم سے تعلیم حاصل نہیں کی ہے، ایک کامیاب ڈاکٹر یا انجینئر بنے؛ یہ اتنا عام نہیں ہے بلکہ اسے شاذ میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، ہندوستان میں 1,457 افراد کے لیے ایک ڈاکٹر ہے۔ ملک بھر میں 74.04 فیصد کی شرح خواندگی کے ساتھ، ہمارے پاس ملک میں صرف 12.07 فیصد کل پوسٹ گریجویٹ ہیں جن میں سائنس، آرٹس، کامرس اور مینجمنٹ، انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے شعبے شامل ہیں۔ تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ 2020 تک جملہ تعلیمی نظام سے صرف 0.81 فیصد طلبا داخلہ لیتے ہیں۔ اور یہ، سب جانتے ہیں، اعداد و شمار اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ سینکڑوں یونیورسٹیوں اور ہزاروں ریاستوں اور مرکزی حکومتوں کے تحت چلنے والے کالجز ہمارے موجودہ تعلیمی ڈھانچے کے اندر سے ڈاکٹر یا IIT انجینئر بننا کتنا عام اور کتنا سہل ہے۔
دوسری طرف، کیا اس قوم کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کے لیے صرف ایلوپیتھک ڈاکٹروں اور آئی آئی ٹی انجینئروں کی ضرورت ہے –
جناب وزیراعلی؟
کیا ہمارے اساتذہ قوم کے حقیقی معمار نہیں ہیں؟ کیا ہندوستان کی عدالتوں میں وکلاء اور ججز، افرادی قوت میں اکاؤنٹنٹ اور سی اے، سڑکوں اور سرحدوں پر مامور پولیس اور مسلح افواج، اس ملک کے ہر کونے میں پھیلے انتظامیہ اور انتظامی عملے کی ہندوستان میں کوئی قیمت نہیں؟ کل 685کامیاب امیدواروں میں سے جن کی سفارش یو پی ایس سی نے 2021 میں تقرریوں کے لیے کی اور اس کا اعلان 30 مئی 2022 کو کیا گیا ہے، کتنوں کا تعلق ریاست آسام سے ہے؟ صرف تین، یہ 0.43 فیصد ہے اور سبھی 500 سے نیچے رینک میں ہیں! بہت مایوس کن، نہایت ہی افسوسناک اور یقیناً بہت خراب کارکردگی!
محترم ڈاکٹر سرما، آپ براہ کرم مدارس سے ڈاکٹرز اور انجینئرز پیدا کرنے کے حوالے سے اپنی دلیل پر نظر ثانی کریں جو بنیادی طور پر اساتذہ اور قوم کے معماروں کو ہیومینٹیز کے ذریعے تعلیم کے دھارے میں پروان چڑھاتے ہیں۔ آپ کا استدلال علمی تمثیلات پر موقوف نہیں ہے اور آپ کی علمی شخصیت کی اچھی شبیہ پیش نہیں کرتا ہے۔
3-ڈاکٹر بمقابلہ ایک دوسرا ڈاکٹر
محترم ڈاکٹر ہمنتا بسوا سرما، چونکہ آپ نے حال ہی میں ’نیوز لائیو‘ چینل کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران واضح طور پر کہا ہے کہ مدارس کے فارغ التحصیل اس قابل نہیں ہیں کہ وہ جدید دنیا کے سائنسی مزاج کا مقابلہ کرسکیں، اس لیے اس موضوع پر اپنے طور سے حل نکالتے ہیں۔ آئیے اس کا ایک تقابلی انداز میں کیس اسٹڈی کرتے ہیں۔ اس سے ہمیں ایک دوسرے کی حقیقی لیاقت و صلاحیت کی سطح کو جانچنے میں بھی مدد ملے گی۔ ڈاکٹر بمقابلہ ایک دوسرا ڈاکٹر۔ ہم اس کیس اسٹڈی کے لیے زیادہ دور نہیں جا رہے ہیں۔ میں نے اس تقابلی موازنے کے لیے دو اہم ترین شخصیات کا انتخاب کیا ہے، ایک بذات خود آپ ڈاکٹر سرما اور آپ کے ہی اسمبلی کے ایک ساتھی ڈاکٹر رفیق الاسلام قاسمی۔
آپ، یعنی آسام کے موجودہ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر ہمنتا بسوا سرما نے بیچلر آف آرٹس (بی اے) اور ماسٹر آف آرٹس (ایم اے) کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ اس کے بعد آپ نے بیچلر آف لاز (LLB) کی ڈگری حاصل کی اور 2001 تک گوہاٹی ہائی کورٹ میں قانون کی پریکٹس کی۔ 2006 میں آپ نے گوہاٹی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ آف فلاسفی (پی ایچ ڈی) مکمل کی، اس طرح آپ ڈاکٹر بن گئے لیکن اس سے قبل آپ 2001 میں عوام کی خدمت کے لیے منتخب کر لیے گئے۔
ڈاکٹر رفیق الاسلام قاسمی جو کہ ضلع بارپیٹا کے جنیا ایل اے سی سے آسام کے قانون ساز اسمبلی سے 3 بار اور موجودہ رکن اسمبلی (ایم ایل اے) بھی ہیں۔ انہوں نے بچپن میں ہی مدرسہ سے قرآن کریم حفظ کیا اور قرآن کریم کی 114 سورتوں یا 6349 آیات کو اپنے قلب میں محفوظ کرلیا۔ اس طرح وہ حافظ کلام اللہ بن گئے۔ اس کے بعد انہوں نے عالمی شہرت یافتہ دانشگاہ دارالعلوم دیوبند سے فضیلت کی ڈگری (بیچلر کے مساوی) حاصل کی، اور ایک عالم دین (عرف عام میں مولانا) بن گئے۔ انہوں نے ممبئی سے انگریزی زبان اور ادب میں ڈپلومہ بھی کیا۔ اس کے بعد انہوں نے بیچلر آف آرٹس (BA) اور ماسٹر آف آرٹس (MA) کی ڈگری لی۔ وہ گوہاٹی یونیورسٹی میں ایم اے میں گولڈ میڈلسٹ تھے۔ انہوں نے 2016 میں ڈاکٹریٹ آف فلاسفی (پی ایچ ڈی) مکمل کی اس طرح اسی یونیورسٹی سے آپ کی طرح ڈاکٹر بن گئے، جہاں سے آپ نے اپنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی یعنی گوہاٹی یونیورسٹی سے۔ اور آپ کے برعکس، انہوں نے سیاست میں مکمل طور پر آنے سے قبل وہاں بطور لیکچرر تدریسی خدمات بھی انجام دیں۔
ڈاکٹر رفیق الاسلام عمر میں آپ سے 11 سال چھوٹے ہیں۔ وہ اب 42 سال کے ہوچکے ہیں اور آپ کی عمر 53 سال ہے۔ ڈاکٹر رفیق الاسلام 2011میں بطور رکن اسمبلی عوامی خدمت سے منسلک ہوئے تھے اور آپ نے 10 سال پہلے 2001 میں، شمولیت اختیار کی تھی۔ مصنف (مکتوب نگار) کو ڈاکٹر رفیق الاسلام کے استاد ہونے کا شرف حاصل ہے، اس لیے میں یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ ڈاکٹر رفیق الاسلام کمیونیکیشن اسکل اور زبان و بیان کی مہارت میں دیگر سیاست دانوں سے میلوں آگے ہیں۔ دسِپور میں آپ کے موجودہ اسمبلی ہاؤس میں بہت سے لوگوں کی اہلیت و لیاقت کے پیمانے پر موازنہ کرنا، بشمول آپ کے ۔ وہ عربی، انگریزی، اردو، ہندی، آسامی اور بنگالی زبانوں پر یکساں عبور رکھتے ہیں۔ خواہ اسمبلی میں کسی بل پر بحث و مباحثہ ہو میڈیا کو کچھ بریفنگ دینی ہو یا عوام کے درمیان اپنی بات رکھنی ہو، مطلوبہ مہارت اور قابل رشک دانشمندی کو بروئے کار لانے والے فصیح اللسان مقرر بھی ہیں۔ وہ اپنے سامعین کو مایوس کیےبغیر ایک کہنہ مشق مقرر کی طرح متاثر کرتے ہیں اور قائدانہ خوبیوں کے ساتھ ایک زبردست عالم دین بھی ہیں۔ وہ یقیناً آپ کی طرح ہی ڈاکٹر ہیں — ڈاکٹر سرما۔ ڈاکٹر رفیق الاسلام بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ اس ’’کھلے خط‘‘ کے مصنف نے جزوی طور پر ہی سہی مدرسہ کے فارغ التحصیل ڈاکٹر رفیق الاسلام جیسے 40 سے زیادہ ڈاکٹروں کو سکھایا پڑھایا (ٹرینڈ کیا ہے) ہے۔
محترم ڈاکٹر سرما
آپ اور ڈاکٹر اسلام دونوں کا تعلق ایک ہی سرزمین سے ہے – آسام کی خوبصورت ریاست میں آپ دونوں نے ہی ایک ہی قانون ساز اسمبلی کے لیے عوامی نمائندوں کے طور پر کام کیا ہے، بیچلر، پی جی اور ڈاکٹریٹ کی مساوی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ آپ نے اپنی تعلیمی لیاقت میں ایل ایل بی کے ذریعہ ایک اضافہ بھی کیا ہے، انہوں نے انگریزی زبان اور ادب میں ڈپلوما کرکے اپنی قابلیت میں اضافہ کیا ہے۔ آپ نے گوہاٹی ہائی کورٹ میں وکیل کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہیں اور انہوں نے گوہاٹی یونیورسٹی میں بطور لیکچرر خدمات انجام دی ہیں۔ ان کے علاوہ، وہ ایک حافظ قرآن اور ایک عالم دین بھی ہیں، اور آپ سے زیادہ زبانوں میں گفتگو کرسکتے ہیں۔ پھر آپ اپنے اور مدرسہ کے فارغ التحصیل حافظ وڈاکٹر رفیق الاسلام قاسمی کے درمیان تعلیمی لیاقت کی سطح کو کس پیمانے سے ناپنا چاہتے ہیں!
محترم ڈاکٹر سرما،
مدرسہ کے خلاف آپ کا سارا استدلال بالکل بے بنیاد ہے۔ آپ کی چالاکی سے تیار کردہ پوری منصوبہ بندی حقیقتاً غلط خطوط پر مبنی اور عام لوگوں کے لیے پوری طرح گمراہ کن ہے۔ براہ کرم اپنے ضمیر سے پوچھیں اور مدرسہ اور ہماری ریاست – آسام کی 36 فیصد مسلم آبادی کے حوالے سے اپنے حالیہ بیانات کا خود جائزہ لیں۔ ہم آپ کو ایک فعال اور متحرک رہنما کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں جو اپنی ریاست کے تمام شہریوں کو یکساں نظریہ سے دیکھتا ہے اور دانشوروں کے مابین (جب علمی مباحثے ہو رہے ہوں وہاں بھی) بلند سطح پر کھڑا ہو اور اعلی اخلاقی اقدار کا مظاہرہ کر رہا ہو۔ آپ کی جانبدارانہ سیاست نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ اس غریب ریاست (آسام) کی اور اس کی تعلیم کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہے۔
آخری بات، لیکن بس اتنا ہی نہیں، ڈاکٹر سرما، آئیے حکومت- این پی او کے مشترکہ منصوبے کے تحت آسام اور ہندوستان کی بہتری اور فلاح کے لیے مل کر کام کریں اور موجودہ مدارس سے ڈاکٹر اور انجینئر تیار کرنے کے اپنے خواب کو پورا کریں، اگر آپ واقعی مثبت اور منفعت بخش کام کرنے کے لیے مخلص ہیں۔ آسام کے موجودہ مدرسہ کے تعلیمی نظام میں تبدیلی لانے کے خواہاں ہیں تو آپ کو صرف دو کام کرنے کی ضرورت ہے – (الف) براہ کرم آسام میں تمام 700 سے زیادہ ریاستی مالی اعانت سے چلنے والے مدارس کے لیے سائنس اور ریاضی کے لیے دو خصوصی اساتذہ کا تقرر کردیں اور ان میں سے کسی ایک کو بند کیے بغیر اور (ب) ریاست آسام میں مطلوبہ تعداد میں میڈیکل اور انجینئرنگ کالج کے قیام کی کوششیں شروع کردیں۔ میں اور میری ٹیم تعلیم کے شعبے میں NPO پارٹنر کے طور پر آپ کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کریں گے اور پروجیکٹ کے آغاز کے محض چار برسوں میں مدارس کے سینکڑوں طلباء کو NEET اور JEE امتحانات میں امتیازی نمبروں کے ساتھ کامیاب کرانے کے لیے تیار کر لیں گے۔ یقین جانیں، ڈاکٹر سرما، ہم یہ کر سکتے ہیں جیسا کہ میں گزشتہ 25 سالوں سے تعلیم کے شعبے سے منسلک ہوں اور یہ منصوبہ بہت زیادہ لاگت اور افرادی قوت کی ضرورت کے بغیر ہی شاندار نتائج لائے گا۔ یہ ممکنہ طور پر ہمارے آسام کو تعلیم میں ممتاز مقام، فیصلہ ساز اور ہندوستان میں تعلیم کا مرکز بنا سکتا ہے۔
اس قوم کے تعلیمی ادارے کے طور پر لفظ مدرسہ، دوسری سب سے زیادہ آبادی والی مذہبی کمیونٹی کے طور پر مسلمان اور اس ملک کی تقریباً 15 فیصد آبادی؛ اور دنیا بھر میں 1.8 بلین مسلمانوں کے ساتھ ایک بڑے عالمی مذاہب کے طور پر مادر وطن ہندوستان کا اثاثہ ہے اور ایک عوامی نمائندہ اور ریاست کے سربراہ کے طور پر آپ کو انہیں مصیبت میں ڈالنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اس لفظ سے یا اس سے ملتے جلتے الفاظ کے ذریعہ توہین آمیز تبصرے اسلامو فوبیا سے متاثر ہونے کی علامت کے سوا کچھ نہیں ہے- ڈاکٹر سرما۔ براہ کرم اس تصور اور اس سوچ کو ترک کردیں اور اپنے ذاتی عمل یا قانون سازی کے ذریعے، ان میں سے کسی کو بھی نقصان پہنچائے بغیر، صدیوں میں اور بڑی مشقت کے ساتھ پروان چڑھائے گئے قوم کے تعلیمی انفراسٹرکچر میں اضافہ کریں۔ ہم آپ سے صرف ایک کال کے فاصلے پر ہیں، آئیے اپنے آباؤ اجداد کے خون پسینے، محنت و جانفشانی اور ان کے ذریعہ وقف کی گئیں بیش قیمتی اراضی اور تعمیراتی انفراسٹرکچر پر کھڑے علم کے مندر کو بنائیں، اسے خدارا منہدم نہ کریں۔
مجھے امید ہے کہ یہ ’کھلا خط‘ آپ تک ضرور پہنچے گا اور موضوع کے حوالے سے آپ کی مخلصانہ اور مثبت انداز میں کی جانے والی خود احتسابی و خود شناسی کے ذریعہ آپ کی شخصیت اور سوچ کو تبدیل کرے گا۔
دل کی گہرائیوں کے ساتھ آپ کا بہت بہت شکریہ!۔
فقط محمد برہان الدین قاسمی، ایڈیٹر: ایسٹرن کریسنٹ، ممبئی
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  12 جون تا 18 جون  2022