آسام:بے زمینوں کی زمین پر چند لمحات
مظلوموں کی داد رسی کے لیے الفاظ نہیں۔مسلم تنظیموں کے وفد کے دورہ کی روداد
محمد سلمان احمد
آسام میں گزشتہ ہفتہ نہایت بدبختانہ اور دل شکن واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آئے جہاں بنگالی نژاد مفلوک الحال مسلمانوں پر سفاکانہ سرکاری تشدد کو بے لگام کیا گیا۔ انہیں ان کی بنگالی نسل اور مسلم شناخت کی وجہ سے غیر ملکی اور درانداز ہونے کے الزامات کے تحت وقفہ وقفہ سے زیادتیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور منظم طریقہ سے الگ تھلگ کردینے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔مقامی طورپر یہ لوگ دریائے برہما پترا کے اس سیلابی علاقے میں آباد ہیں جو بار بار سیلاب کی مار مکانات اور زرعی اراضیات کی تباہی کا سبب بنتا ہے جہاں لوگ بچاؤ کے لیے خود کو بنجر زمینوں پر منتقل کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں زبردست نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں۔ سرکاری حکام پر موسمی قدرتی آفات سے انہیں بچانے کے معاملے میں بے حسی طاری ہے اور وہ جان بوجھ کر اس مسئلہ سے نمٹنے سے کترا رہے ہیں۔ بار بار مقامات کی تبدیلی اور لگاتار مسائل کی اصل وجہ غیر مقامی افراد کے تئیں شدید تعصب ہے کیونکہ زیادتیوں کا نشانہ بننے والے ہمیشہ بنگالی مسلمان یا میاں برادری رہی ہے۔
حالیہ واقعات کا آغاز اس وقت ہوا جب حکومت نے ریاستی دارالحکومت گوہاٹی کے قریب ضلع دارانگ میں واقع دریائے برہما پترا کے سیلاب کی زد میں آنے والے میدانوں سے تقریباً 800 بنگالی مسلمانوں کے انخلا کا آغاز کیا جو حکومت کے ’ری لوکیشن پروگرام‘ کا حصہ ہے۔
بے دخل خاندانوں نے حکومت کے خلاف جمہوری طریقہ سے احتجاج کیا۔ حکومت کی سرپرستی میں پولیس نے مخالفت کرنے والوں پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں دو زندگیاں چلی گئیں اور 20 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ معین الحق جو پولیس کے حملے سے اپنے خاندان کو بچانے کے لیے آگے آئے تھے ان پر نہایت سفاکی سے گولی چلائی گئی جس کے فوراً بعد ایک کیمرہ مین بار بار ان کی نعش پر کودنے لگا۔ یہ کیمرہ مین پولیس عملے کے ساتھ آیا تھا۔ اس واقعہ کا وحشیانہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جو پولیس کی سفاکیت اور ایک متعصب کیمرہ مین کی درندگی کو بے نقاب کرتا ہے۔
اس بدبختانہ واقعہ کے فوری بعد اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (ایس آئی او) نے ریاستی تشدد کے خلاف ملک گیر مظاہرے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مہم کے حصہ کے طور پر دلی سے مسلم تنظیموں کا وفد آسام روانہ ہوا۔
ابتدا میں ہم ڈپٹی کمشنر پربھاتی تھاوسین کے پاس گئے۔ انہوں نے اس واقعہ کو بدبختانہ قرار دیتے ہوئے اپنے ردعمل میں کہا کہ اس طرح کا واقعہ پیش نہیں آنا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملہ کی تحقیقات کررہے ہیں اور ہمیں انتباہ دیا کہ علاقہ میں داخل نہ ہوں کیونکہ وہاں دفعہ 144 نافذ ہے۔ بعد ازاں ہم نے ایس پی سشانت بسوا سے بات کی۔ انہوں نے پولیس کارروائی کو منصفانہ قرار دینے کی کوشش کی اور واقعہ کو پولیس پر ایک ہجومی حملہ ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ پولیس تشدد کو روکنے کی ابتدائی کوشش ناکام ہوجانے کے بعد فائرنگ کرنے پر مجبور ہوئی تھی لیکن اس علاقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اس بیانیہ سے متفق نہیں ہیں اور انہوں نے بار بار اس بات کو دہرایا ہے کہ لوگوں کی اکثریت جنہیں انخلا کی نوٹس ملی تھی علاقہ سے پہلے ہی منتقل ہوگئی تھی۔ جمہوری احتجاج کرنے والے صرف وہ لوگ تھے جن کے پاس دوبارہ آباد ہونے کے کوئی وسائل نہیں تھے۔
ہم نے چیف منسٹر آسام ہیمنت بسوا شرما کے ساتھ بھی تقریباً ایک گھنٹہ اس معاملہ پر بات چیت کی۔ انہوں نے اس بدبختانہ واقعہ پر افسوس ظاہر کیا اور کہا کہ اس معاملے کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے۔ پھر چیف منسٹر نے ہمیں دفعہ 144 نافذ رہنے کے باوجود علاقہ کے دورہ کی خصوصی اجازت دی ۔
ہم نے شہید معین الحق کے گھر کا دورہ کیا اور ان کی بیوہ، بھائیوں اور والدین سے بات چیت کی۔ معین الحق طویل عرصہ سے زرعی مزدور کے طور پر کام کررہے تھے اور ان کی اہلیہ اس کام میں ان کی معاون تھیں اور وہ قریبی آنگن واڑی جایا کرتی ہیں جہاں سے انہیں ماہانہ تقریباً 2 ہزار روپے ملتے ہیں۔ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا آنگن واڑی جاتا ہے اور بڑے بچے پرائمری اسکول جاتے ہیں۔ تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے بعد ایس آئی او نے معین الحق کے بچوں کو مکمل تعلیمی امداد کی پیشکش کی۔
مقامی افراد کی مدد سے ہم نے شہید کی قبر کی زیارت بھی کی۔ لوگوں نے ہمیں وہ ڈنڈا بھی دکھایا جسے لے کر وہ پولیس کے آگے سینہ سپر ہوگئے تھے اور بالآخر گولی کھا کر اپنی جان دے دی۔ یہاں سے ہم لوگ شیخ فرید کے گھر گئے۔ 12 سالہ فرید کو اپنا آدھار کارڈ حاصل کرنے کے بعد گھر واپس ہونے کے دوران گولی مارکر شہید کردیا گیا تھا۔ ہم اس کی ماں کو جس نے اپنے کم عمر بیٹے کو کھویا تھا پرسہ دینے میں بے بسی محسوس کر رہے تھے۔ اس کی قبر گھر کے قریب ہی تھی۔ پھر ہم نے قریب میں واقع مدرسہ اور مسجد کا دورہ کیا اور وہاں موجود کئی افراد سے بات چیت کی۔ ہم نے دیکھا کہ کئی افراد کو جنہیں بے دخل کیا گیا ہے دوبارہ آباد ہونے کے لیے بنیادی ضروریات تک مہیا نہیں کی گئی ہیں۔ وفد نے قریب میں واقع دو اسکولوں کا بھی دورہ کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ وہاں وافر مقدار میں غذائی اشیا اور دوائیں دستیاب رہیں۔
علاقہ کے کئی افراد کے ساتھ بات چیت کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ پولیس فائرنگ اور شہریوں پر بے لگام ریاستی تشدد کی مناسب تحقیقات کرائی جانی چاہیے۔ خاطیوں کے خلاف سخت اقدام لازماً کیا جائے جنہوں نے بے قصوروں پر تشدد کیا ہے۔ آسام کے بنگالی مسلمانوں کے خلاف سابق میں پیش آئے تقریباً تمام ہی واقعات میں خاطیوں کو قصور وار قرار نہیں دیا گیا۔ ان اسلاموفوبک واقعات کے بار بار پیش آنے کے پیچھے کی اصل وجہ خاطیوں کا قصوار قرار نہ دیا جانا ہے۔ ضلع دارانگ کے ساکنین کو درپیش ایک بڑا مسئلہ دریائے برہما پترا کا موسمی سیلاب ہے۔ اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے ریاستی انتظامیہ کی جانب سے مناسب اور موزوں اقدامات کیے جانے چاہئیں اور اس بات کو لازماً یقینی بنایا جائے کہ سیلاب کی زد میں آنے والے میدانوں میں رہنے والے ساکنین کی جو زراعت سے منسلک ہیں، مناسب باز آبادکاری کی جائے نیز اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں کہ باز آبادکاری کے طور پر دی جانے والی اراضیات زرخیز اور بود و باش کے قابل ہوں۔
ہم بنگالی نژاد یا میاں برادری کے خلاف متعصبانہ مہمات سے واقف ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران سلسلہ وار بے دخلیوں سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ متاثرین ہمیشہ بنگالی بولنے والے مسلم کسان ہی رہے ہیں۔ یہ برادری انتہائی مفلوک الحال، غربت زدہ اور نہایت مخدوش سماجی حالات میں گزر بسر کررہی ہے۔ یہ لوگ اکثر زراعت اور یومیہ مزدوری پر اپنا گزارا کرتے ہیں۔ ہزارہا مسلمانوں میں سے ہمیں صرف ایک وکیل اور چند فوجی اور پولیس جوان ہی مل سکے ۔
یہ فیصلہ لیا گیا ہےکہ دیگر ہم خیال گروپوں اور تنظیموں کے تعاون و اشتراک سے ایک فعال ریلیف پروگرام شروع کیا جائے۔ ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بھی اقدام کریں گے کہ متاثرہ خاندانوں کو انصاف ملے اور انتظامیہ کی جانب سے مناسب معاوضہ حاصل ہوا۔
ایس آئی او نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس سنگین اور تشویش ناک معاملے سے نمٹنے میں پیش پیش رہے گی اور وہ تمام متاثرین کو انصاف ملنے تک سکون سے نہیں بیٹھے گی۔ یہ جدوجہد میاں برادری کے لیے آسام میں ایک باعزت اور باوقار طریقے سے رہنے کا حق دلانے کے لیے جاری رہے گی۔ (بشکریہ دی کمپینین)
(مضمون نگار اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کے صدر ہیں)
***
***
علاقہ کے کئی افراد کے ساتھ بات چیت کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ پولیس فائرنگ اور شہریوں پر بے لگام ریاستی تشدد کی مناسب تحقیقات کرائی جانی چاہیے۔ خاطیوں کے خلاف سخت اقدام لازماً کیا جائے جنہوں نے بے قصوروں پر تشدد کیا ہے۔ آسام کے بنگالی مسلمانوں کے خلاف سابق میں پیش آئے تقریباً تمام ہی واقعات میں خاطیوں کو قصور وار قرار نہیں دیا گیا۔ ان اسلاموفوبک واقعات کے بار بار پیش آنے کے پیچھے کی اصل وجہ خاطیوں کا قصوار قرار نہ دیا جانا ہے۔ ضلع دارانگ کے ساکنین کو درپیش ایک بڑا مسئلہ دریائے برہما پترا کا موسمی سیلاب ہے۔ اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے ریاستی انتظامیہ کی جانب سے مناسب اور موزوں اقدامات کیے جانے چاہئیں۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 17 تا 23 اکتوبر 2021