اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ

عیدا لفطر: رب کی بڑائی اور مجاہدانہ زندگی کا پیام

رضی محمد ولی

تقویٰ ، صبرواستقامت اور غلبہ دین کو زندگی کا محور بنائیں
رمضان ہمارا مہمان تھا جو رحمتوں اور برکتوں کی سوغات لے کر آیا تھا،وہ اپنے ساتھ سحر و افطار کی مسرتوں کو لے کر آیا،وہ اپنے ساتھ روزے کی پر لطف گھڑیوں کو لے کر آیا،وہ اپنے ساتھ قرآن کی زبانی اللہ سے سرگوشیوں کا پیام لے کر آیا،وہ اپنے ساتھ معرکۂ بدر کے شہدا کی یاد لایا،وہ اپنے ساتھ فتح مکہ کی خوشخبری لایا،وہ اپنے ساتھ شب قدر کی برکتوں کو لایا،وہ اللہ کی برکتوں کو ہماری بستیوں میں لے کر آیا تھا ۔ اس نے اپنا سارا سرمایہ ہمارے درمیان لُٹادیا اور اب وہ ہماری نیکیوں کے اجر کے لیے، ہمارے گناہوں کی مغفرت کے لیے ہمارا سفارشی بن کر اللہ کے حضور چلاگیا۔
رمضان اللہ کی نعمتوں کا سفیر بن کر ہمارے درمیان آیا تھا اور اس نے ہم کو تقویٰ اور پاکیزگی، اطاعت اور عبادت کے طریقے بتائے۔ ایسے وقت جب فضا میں پُراسرار اور لطف انگیز سناٹا چھایا ہوا رہتا ، وہ ہمارے پاس آتا اور شفقت و رحمت کے ساتھ ہم کو نفس کی حیلہ گری سے بچنے اور روزے کی تیاریوں کے لیے آمادہ کرتا۔جب سورج مشرق سے مغرب کی طرف سفر کرتا تو بھوک اور پیاس پر صبر کرنا سکھاتا، اور بھوک پیاس کے مارے مجبور انسانوں کی تکلیف کا احساس دلاتا۔جب سورج غروب ہوجاتا ، سیاہی کی لکیر روشنی کی لکیر پر غالب آجاتی تو وہ اللہ کی نعمتوں پر شکر کرنے کی تلقین کرتا اورجب آسمان پر تارے نکل آتے تو وہ نزولِ قرآن کی یاد میں کلام الٰہی سننے سنانے پر آمادہ کرتا۔ اس طرح وہ ہمارے روز و شب کو سنوارنے اور ہماری زندگی کی راہوں میں خیر و برکت بکھیرنے کے لیے آیا تھا۔ 30 دنوں میں اس نے اپنا فریضہ بہ حسن خوبی انجام دیا۔
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺنے:
‘‘رمضان میں رکھا جانے والا روزہ اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوگا اور رمضان سفارش و شفاعت کرتے ہوئے کہے گا:اے ربّ!میں نے اس کو کھانے پینے اور شہوت سے دن بھر روکے رکھا تھا،اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔‘اس کی تائید کرتے ہوئے قرآن بارگاہِ ایزدی میں عرض کرے گا:اے ربّ!میں نے اسے رات کے آرام سے روکے رکھا، تو میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما۔ اللہ ان دونوں کی سفارش قبول کرے گا اور اس کو دنیا و آخرت میں بہتر اجر سے نوازے گا۔ ’’
عید کے بعد کرنے کے کام
رمضان آیا تھا ہماری تربیت کا سامان کرنے، ہماری جسمانی و روحانی Overhaling کرنے، ہمیں بتانے کہ ایک ماہ کے Refresher کے بعد آئندہ گیارہ ماہ کیسے گزارنے ہیں؟ اور کن چیزوں کا خیال رکھنا ہے تاکہ تمہاری زندگی دنیا و آخرت کی کامیاب زندگی کا نمونہ ثابت ہو۔اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ رمضان المبارک میں حاصل ہونے والی تربیت کوکیسے عملی زندگی میں نافذ کرکے ایک کامیاب مومن ہونے کا درجہ پاسکتے ہیں۔
شوال کے چھ روزے
حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے راوی سے جن کا نام عمر ؓ بن ثابت ہے، یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا جو شخص رمضان کے روزے رکھے اور پھر اس کے بعد شوال کے مہینے میں چھے روزے بھی رکھے تو وہ ہمیشہ روزہ رکھنے والے کے مانند ہوگا۔ (مسلم)
اس حدیث کی توضیح علمانے یہ کی ہے کہ رمضان المبارک کے ۳۰ روزے ہوتے ہیں (اگر چاند ۲۹ کا ہوتب بھی ثواب ۳۰ہی کا ملتا ہے) اور اللہ کا نظام ہے کہ وہ ایک نیکی کا اجر دس گُنا دیتا ہے۔ اس طرح رمضان کے روزوں کا اجر ۳۰۰=۱۰*۳۰کے برابر ہوگیا اور ۶ روزے شوال کے رکھ لینے سے۶۰=۱۰*۶ روزوں کا ثواب مزید مل گیا۔ لہٰذا اس طرح ایک روزے دار کو کل ۳۶۰ روزوں کا اجر حاصل ہوگیا۔ بقیہ عید الفطر کا روزہ، عید الاضحی کا روزہ اور ایامِ تشریق کے ۳روزے رکھنے سے مسلمانوں کو منع کیا گیا ہے لہٰذا کل ۵ دن ایسے ہیں جن کے روزے مسلمانوں کو رکھنے ہی نہیں ہیں۔
یہ روزے شوال میں کبھی بھی رکھے جاسکتے ہیں۔ لگاتار بھی اور وقفے وقفے سے بھی۔ نہ تو انھیں شروع کرنے کی کوئی تاریخ متعین ہے اور نہ اختتام کی۔
قرآن سے مضبوط اور مسلسل تعلق
رمضان کی ساری برکتیں قرآنِ کریم کے نزول کی وجہ سے ہیں، اس قرآن کے نزول ہی نے ماہِ رمضان کو رحمتوں اور برکتوں والااور ماہِ مبارک کی ایک رات کو ہزار مہینوں سے بہتر بنایا۔جس طرح رمضان المبارک میں ہمارا تعلق قرآن سے مضبوط رہا دوسرے دنوںمیں بھی اس کا اثر ہماری زندگیوں میں نظر آنا چاہیے۔
تلاوتِ قرآن
رمضان میں الحمدللہ کچھ لوگوں نے پورے قرآن کی تلاوت مکمل کی، کسی نے دو کی اور کسی نے تین کی اور کسی نے اس سے بھی زیادہ۔ رمضان کی تربیت کا تقاضا ہے کہ دوسرے ایام میں بھی روزانہ قرأت ِ قرآن کو اپنا معمول بنائیں۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :’’قرآن کے ہر حرف کو پڑھنے پر۱۰ نیکیوں کے برابر اجر ملتا ہے اور میں یہ نہیں کہتا کہ ا ل مٓ ایک حرف ہے۔ بل کہ الف ایک، حرف، ل دوسرا اور م تیسرا حرف ہے۔‘ اس طرح صرف الٓمٓ پڑھنے سے ہمارے نامۂ اعمال میں ۳۰ نیکیوں کا اضافہ ہوسکتا ہے۔اس کی تلاوت سے شیاطین دور بھاگتے ہیں اور گھروں اور کاروبار میں برکت ہوتی ہے۔
فہمِ قرآن
آپ قرآن کی لاکھ بار تلاوت کرلیں اور کثرت سے حفظ کرلیں تب بھی اُس کے حقیقی فیوض و برکات حاصل نہیں کرسکیں گے۔ جب تک اُس کو سمجھ نہ لیں۔ ظاہر ہے کہ جب تک سمجھیںگے نہیں اُس وقت تک اُس پر عمل ممکن نہ ہوسکے گا اور نہ دوسروں کو اس کی تعلیم دے سکیں گے۔ لہٰذا تلاوتِ قرآن اور تحفیظ القرآ ن کے ساتھ ساتھ فہم القرآن ایک لازمی عمل ہے۔ اس کے لیے عربی زبان سیکھنے کی کوشش کریں اور قرآن کے جو تراجم اور تفاسیر موجود ہیں، ان سے استفادہ کریں۔ فہمِ قرآن کاایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی صاحبِ علم کو قرآن کا درس دینے کے لیے مدعو کیا جائے اور شرکائ بیٹھ کر اطمینان سے سنیں اور آخر میں جو بات سمجھ میںنہ آئی ہو اس کے متعلق مدرس سے سوالات کرلیں اس طرح کی محفلوں میں تعلیم یافتہ اور کم تعلیم یافتہ سب شریک ہوکر مستفید ہوسکتے ہیں۔ نبی ٔکریم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے :
‘‘جب کبھی لوگ اللہ کے گھروں میں جمع ہوتے ہیں، قرآن مجید کی تلاوت کرنے اور اس کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر پڑھنے اور پرھانے کے لیے، ان پر برکت نازل ہوتی ہے، رحمت ان کو گھیر ے میں لے لیتی ہے، فرشتے ان پر سایہ کرتے ہیں اور اللہ اپنی محفل میں ان کا ذکر کرتا ہے۔‘‘ (مسلم)
تقویٰ کی زندگی
حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا :’آدمی’تقویٰ کی اصلیت کو نہیں پہنچ سکتا یہاں تک کہ وہ ہر اس چیز کو چھوڑدے جس سے دل میں کھٹک پیدا ہو۔‘ (بخاری)
رمضان میں روزے کے ذریعے اللہ ربّ العزت نے اُمتِ مسلمہ کو ۳۰ دن تقویٰ کی انتہائی اعلیٰ ترین تربیت دی ، ہمارے خیال میں اس سے بہتر تقوے کی تربیت شاید ہو ہی نہیں سکتی۔تقویٰ نام ہے قلب و ذہن میں اس تصور کو تازہ رکھنے کا کہ ڈھکے اور چھپے ہر حال میں اللہ دیکھ رہا ہے۔ اگر یہ یقین نہ ہو کہ ہر وقت اور ہر حال میں اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے تو ہم دائرۂ اسلام سے خارج ہوجائیں گے اور یہ کیفیت دکھاوے اور بناوٹ سے نہیں آتی بلکہ دل اس کا اصل مقام ہے۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا : التقویٰ ھا ھُنا اور اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا ۔ دوسرے الفاظ میں اگر زندگی کا مقصد اللہ کی بندگی اور اس کی رضا و جنت کی طلب ہے تو ہر وہ کام اور ہر وہ بات جس سے اس راہ میں رکاوٹ آتی ہو، اس سے بچنے کا نام تقویٰ ہے۔ خلیفۂ دوئم حضرت عمر فاروقؓ نے مفسرِ قرآن اُبی ؓ بن کعب سے دریافت کیا کہ تقویٰ کیا ہے؟ انھوں کہا یا امیر المومنین !کبھی آپ نے کسی ایسی پگڈنڈی پر سفر کیا ہے جس کے دونوں طرف خاردار جھاڑیاں ہو، آپ ؓ نے فرمایا بارہا کیا ہے، اس پر اُبیٔ ؓ بن کعب نے سوال کیا تو اس راستے سے گزرتے ہوئے آپ کیا کرتے ہیں؟ آپؓ نے جواب دیا کہ میں اپنے کپڑوں کو سمیٹ لیتا ہوں تاکہ کسی کانٹے میں اُلجھ کر پھٹ نہ جائے اور آہستہ آہستہ بچتا بچاتا اُس راہ سے گزر جاتا ہوں۔ اس پر اُبیٔ ؓ بن کعب نے کہا کہ امیر المؤمنین بس یہی تقویٰ ہے کہ دنیا ایک پگڈنڈی ہے اور دنیا کی آلائشیں خاردار جھاڑیاں ہیں ان سے بچ بچا کر دنیا سے گزرنے کا نام ہی تقویٰ ہے۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کے ہر حال میں حاضر و ناظر ہونے کا تصور روزہ سے زیادہ کسی اور عبادت میں نہیں ہوتا۔ روزہ کی حالت میں سحری سے لے کر افطار تک باوجود شدیدپیاس شدید بھوک کے ہم محض اس لیے نہیں کھاتے اور پیتے کہ ہم خلوت میں ہوں یا جلوت میں ہر حال میں اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے جس کی رضا کے لیے ہم نے روزہ رکھا ہے۔ اسی طرح روزہ کی حالت میں ہم جھوٹ بولنے، غیبت کرنے، دھوکا دہی، کم تولنے، وعدہ خلافی اور اسی طرح کی اخلاقی برائیوں سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کہیں ہمارا روزہ جو ایک ڈھال ہے اس میں سوراخ نہ ہوجائے۔ رمضان میں حاصل کی گئی تربیت کا تقاضا ہے کہ یہ دونوں کیفیات دیگر ۱۱ مہینوں میں بھی برقرار رہیں۔
صبر و استقامت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘‘جو شخص صبر کرنے کی کوشش کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کو صبر دے گا، اور صبر سے زیادہ بہتر اور بہت سی بھلائیوں کو سمیٹنے والی بخشش اور کوئی نہیں۔’’ (بخاری عن ابو سعید خدریؓ)
روزہ کے دوران انسان کو صبر و استقامت کی بہترین مشق کرادی جاتی ہے اور دنیا میں کامیاب زندگی گزارنے کے لیے صبر ایک بہترین نسخہ ہے۔ روزہ رکھنے والے کو چونکہ رات دیر سے سونے ، صبح جلدی اُٹھنے، دن بھر بھوک پیاس کی حالت میں کام کاج کرنے کی مشق کرنی ہوتی ہے اور بہت سی ایسی چیزوں پر عمل کرنا ہوتا ہے جس کی جانب دل راغب نہیں ہوتا۔ لہٰذا وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ سخت سے سخت حالات میں بھی صبر و استقامت کا مظاہرہ کرے۔ لہٰذا اس کی یہ تربیت اس بات کی متقاضی ہے کہ رمضان کے علاوہ دیگر مہینوں میں اسی صبر و استقامت کا مظاہرہ کرے اور اسی جانفشانی سے سخت سے سخت حالات کا مقابلہ کرے۔ آنحضورؐ کی غزوۂ اُحد و حنین میں پامردی کے ساتھ استقامت، غزوۂ تبوک میں سخت گرمیوں کے موسم میں سروسامان کی کمیابی کے باوجود صحابہ کرامؓ کا اُس راہ میں نکلنا اور جنگِ یرموک میں یکے بعد دیگرے شہادت پانے والے جعفر طیار(رض)، عکرمہؓ اور دیگر صحابہ ؓ کرام کا صبر اس تربیت کی بہترین مثالیں ہیں۔
اجتماعیت کا فروغ
رہبر ور رہنما حضرت محمد مصطفی ﷺ کا ارشادِ پاک ہے:
‘‘مسلمان مسلمان کے لیے عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو قوت پہنچاتا ہے، پھر آپﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کرکے بتایا۔
’’ (متفق علیہ ۔ ابو موسیٰؓ)
اللہ رب العزت کو اگر صرف اپنے بندوں میں محض تقویٰ مطلوب ہوتا تو وہ انہیں حکم دیتا کہ سال میں 30روزو ں کی گنتی پوری کر لیا کرو لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ رمضان کے مہینے کو مخصوص کرکے پوری دنیا کے مسلمانوں پر اس مہینہ کے روزے فرض کیے۔ جس سے نیکی کی اجتماعی فضا پیدا ہوتی ہے اور اُمت پر اس کا اثر یہ پڑتا ہے کہ اس میں جماعتی احساس پیدا ہوتا ہے اور جب سب ایک جیسے اعمال و افعال میں مصروف ہوتے ہیں تو غیر ارادی طور پر اس احساس کو تقویت ملتی ہے کہ ہم ایک ہیں۔ مفکرِ اسلام مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ فرماتے ہیں کہ جس طرح آپ دیکھتے ہیں کہ ہر غلّہ اپنا موسم آنے پر خوب پھلتا پھولتا ہے اور ہر طرف کھیتوں میں چھایا ہوا نظر آتا ہے، اسی طرح رمضان کا مہینہ گویا خیر و صلاح اور تقویٰ و طہارت کا موسم ہے۔ جس میں برائیاں دبتی ہیں، نیکیاں پھلتی ہیں، پوری پوری آبادیوں پر خوفِ خدا اور حُبِّ خیر کی روح چھا جاتی ہے، اور ہر طرف پرہیز گاری کی کھیتی سر سبز نظر آنے لگتی ہے۔ اس زمانہ میں گناہ کرتے ہوئے آدمی کو شرم آتی ہے، ہر شخص خود گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے کسی دوسرے بھائی کو گناہ کرتے دیکھ کر اسے شرم دلاتا ہے، ہر ایک کے دل میں خواہش ہوتی ہے کہ کچھ بھلائی کا کام کرے، کسی غریب کو کھانا کھلائے، کسی ننگے کو کپڑا پہنائے، کسی مصیبت زدہ کی مدد کرے، کہیں کوئی نیک کام کررہا ہو تو اس میں حصہ لے، کہیں کوئی بدی ہو رہی ہو تو اسے روکے۔ اس وقت اجتماعی طور پر لوگوں کے دل نرم ہوجاتے ہیں اور ظلم کے ہاتھ رُک جاتے ہیں، برائی سے نفرت اور بھلائی سے رغبت پیدا ہوجاتی ہے، نیک لوگ بہت نیک ہوجاتے ہیں اور بد کی بدی اگر ختم نہیں ہوتی تب بھی اس کی بہت کچھ اصلاح ہوجاتی ہے۔
انفاق فی سبیل اللہ
رمضان المبارک میں روزہ کی کیفیت سے گزرنے کے بعد امیر سے امیر فرد کو بھی بھوک اور پیاس کا احساس ہوجاتا ہے۔ اگر اللہ روزے کا نظام نہ بناتا تو مالدار افراد کو بھوک اور پیاس کی شدت کا اندازہ ہی نہ ہوتا اور غریب کی غربت کا احساس ان کے قریب سے نہ گزرتا۔ لہٰذا اس احساس کو زندہ کرنے کے بعد تعلیم یہ دی جاتی ہے:’مسلمان تو آپس میں ایک جسم کے مانند ہیں، چوٹ ایک حصے پر لگتی ہے تو روتی آنکھ ہے اور پورا جسم درد محسوس کرتا ہے۔‘ روزے میں حاصل ہونے والی تربیت کے نتیجے میں دوسرے بھائی کی بھوک اور پیاس کی تکلیف کا احساس مسلمان کو انفاق فی سبیل اللہ پر اُبھارتا ہے۔ جب رمضان کا مہینہ آتا تھا تو رسول اللہ ﷺ کی سخاوت دو چند ہوجاتی تھی، ایک تیز ہوا کی مانند جس سے ہر کس و نا کس فیض یاب ہوتا تھا۔ یاد رکھیے اُس ربّ کی راہ میں جو خرچ کیا جائے وہ اللہ کو قرض دینے کی مانند ہے اور اللہ اُس قرض کی ادائی آخرت تک موقوف نہیں رکھے گا بلکہ ہی دنیا میں ہی لوٹا دے گا اور اپنی راہ میں دینے والو کو اتنا نوازے گا کہ وہ نہال ہوجائیں گے۔ اللہ کے نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ انسان کا اپنی زندگی میں ایک درہم صدقہ کرنا بہتر ہے ، مو ت کے وقت 100درہم صدقہ کرنے کے مقابلے میں (ابوداؤد ۔ ابو سعید خدریؓ)۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے پوچھا: یارسول اللہ ﷺ کون سا صدقہ سب سے زیادہ اجر والا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا :’’وہ جو تندرست ہو، حریص ہو، فقر کا خطرہ ہو اور دولت مندی کی آرزو ہو۔ دیر نہ کرو! جب جان حلق میں آجائے تو اس وقت تم کہنے لگو کہ فلاں کا اتنا ہے اور فلاں کا اتنا ہے حالانکہ وہ تو فلاں کا ہو گیا (متفق علیہ)
۷۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر
رمضان کے مہینے میں اگر کسی شخص نے کسی مجبوری کی بنا پر روزہ نہ بھی رکھا ہوتو وہ رمضان کی فضا میں کھلے عام کھانے پینے سے اجتناب کرتا ہے اور اُسے شرم آتی ہے لیکن اگر کوئی اس شرم و حیاء کو بالائے طاق رکھ کر کھائے پیے تو مسلم عامۃ الناس میں سے ہر کوئی اس کو لعن طعن کرتا ہے اور اس کے اس فعل پر شرم دلاتا ہے۔ اسی طرح عام زندگی میں ہر قسم کے معاملات میں اگر کوئی غلط روش اختیا رکرے تو ایک روزہ دار کا تربیت حاصل کرنے کے بعد یہ فرض بنتا ہے کہ آگے بڑھ کر اُس غلط کام کو روک دے اور معاشرے میں نیکیوں کی تلقین کرتا رہے۔ اسی بات کو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’اگر تم برا کام ہوتے دیکھو اور طاقت رکھتے ہو تو چاہیے کہ طاقت سے روک دو، اگر ایسا نہیں کرسکتے تو زبان سے روکنے کی تلقین کرو اور اگر ایسا بھی کرنے کی قوت نہیں رکھتے تو دل میں برائی کو ضرور برا جانو اور یاد رکھو یہ ایمان کا آخری درجہ ہے۔‘ ایک اور حدیث میں بنی اسرائیل کا واقعہ آتا ہے جب اللہ نے فرشتوں کو ایک بستی پر عذاب کا حکم دیا ، فرشتے اُس بستی میں جاکرواپس چلے گئے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ باری تعالیٰ! اُس بستی میں تو تیرا ایک عابد وزاہد بندہ رہتا ہے جو رات دن تیری عبادت گزاری میں سربسجود رہتا ہے اور ایک لمحہ بھی تیری یاد سے غافل نہیں رہتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہاں مجھے پتا ہے جاؤ اور عذاب اسی کے گھر سے شروع کرو کیونکہ وہ میرے دین کی دھجیاں اُڑتے دیکھ رہا ہے، میری تعلیمات کا مذاق اُڑایا جارہا ہے لیکن اُس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اسی طرح قرآن میں یومِ سبت والوں کا قصہ بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح اللہ کی نافرمانی کے صلے میں گناہ کا ارتکاب کرنے والوں اور انہیںنہ روکنے والوںدونوں کو سزا کے طور پر بندر بنا دیا گیا اور صرف باقی رہے تو وہ لوگ جو خود بھی گناہ سے اجتناب کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے۔ اسی بات کو رسول اللہ ﷺ نے ایک مثال کے ذریعہ سمجھایا کہ حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکام کو توڑتا ہے اوروہ جو اللہ تعالیٰ کے احکام کو توڑتے ہوئے دیکھتا ہے مگر ٹوکتا نہیں، اس کے ساتھ رواداری برتتا ہے، ان دونوں کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کچھ لوگوں نے ایک کشتی لی اور قرعہ ڈالا، اس کشتی میں مختلف درجے ہیں، اوپر نیچے۔ چند آدمی اوپر کے حصے میں بیٹھے اور چند نچلے حصہ میں، تو جو لوگ نچلے حصہ میں بیٹھے تھے ، وہ پانی کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرتے تاکہ سمندر سے پانی بھر یں، تو اوپر والوں کو اس سے تکلیف ہوتی، آخر کار نیچے کے لوگوں نے کلہاڑی لی اور کشتی کے پیندے کو پھاڑنے لگے، اوپر کے لوگ آئے اور کہا تم یہ کیا کرتے ہو؟ انھوں نے کہا کہ ہمیں پانی کی ضرورت ہے اور سمندر سے پانی اوپر جاکر ہی بھرا جاسکتا ہے اور ہمارے آنے جانے سے تکلیف محسوس کرتے ہو تو اب کشتی کے تختوں کو توڑ کرپانی حاصل کریں گے۔‘ حضور ﷺ نے یہ مثال دے کر بیان فرمایا:
‘‘ اگر اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑ لیتے اور سوراخ کرنے سے روک دیتے ہیں تو انہیں بھی ڈوبنے سے بچالیں گے اور اپنے کو بھی بچالیں گے، اور اگر انہیں اس حرکت سے نہیں روکتے اور چشم پوشی اختیار کرتے ہیں تو انہیں بھی ڈبوئیں گے اور خود بھی ڈوبیں گے۔’’
فریضہ اقامت دین
ہم دیکھتے ہیں کہ روزہ کے درمیان ہم تقویٰ کی صفت سے قربِ الٰہی حاصل کرتے ہیںاوراگر روزہ کو اس کی پوری روح کے ساتھ رکھا گیا ہوتو ایک ماہ میں اپنی ذات میں واضح تبدیلی محسوس کرتے ہیں ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر ایک پانچ سے چھ فٹ کے جسم پر اللہ کے قوانین کو نافذ کرکے ہم معاشرے کے مثالی فرد بن سکتے ہیں انہیقوانین کو اگر اللہ کی زمین پر نافذ کردیں تو یہ زمین امن کا گہوارہ نظر آئے، محبت کے سوتے ہر طرف پھوٹتے نظر آئیں،کوئی بھوک سے مرتا نظر نہ آئے، شر خیر سے تبدیل ہوجائے اور یہ دنیا جنت کا نمونہ پیش کرے۔
عید کے چاند کے بعد سب سے اشد ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب اِقامتِ دین کی کوشش اور جدّوجہد میں لگ جائیں۔یہ جدوجہد انفرادی نہیں ہوسکتی لہٰذا اجتماعی کی جائے ، ایسے لوگوں کا دست و بازو بنا جائے جو اس جدوجہد میں سرپر کفن باندھے میدانِ عمل میں نظر آتے ہیں۔ تب ہی اللہ کی نصرت آئے گی ، تب ہی اللہ کی طرف سے آنے والی روز روز کی آزمائشوں سے جان چھوٹے گی، تب ہی امن و امان کا پھریرا اس کرّۂ ارض پر لہرائے گا، تب ہی حق دار کو اس کا حق بغیر مانگے ملے گا، تب ہی امیر و غریب کا فرق ختم ہوگا، تب ہی کالے اور گورے کی تمیزمٹے گی، تب ہی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوگا، تب ہی ظالم کا ظلم اپنی موت آپ مرجائے گا ور تب ہی اللہ کی رضا حاصل ہوگی اور صلہ کے طور پر آخرت میں جنت ملے گی۔

 

***

 ہمارے لیے عید کا پیام یہ ہے کہ ہم سب اِقامتِ دین کی کوشش اور جدّوجہد میں لگ جائیں۔یہ جدوجہد انفرادی نہیں ہوسکتی لہٰذا اجتماعی کی جائے ، ایسے لوگوں کا دست و بازو بنا جائے جو اس جدوجہد میں سرپر کفن باندھے میدانِ عمل میں نظر آتے ہیں۔ تب ہی اللہ کی نصرت آئے گی، امیر و غریب کا فرق ختم ہوگا، عدل و انصاف کا دور دورہ ہوگا، اللہ کی رضا حاصل ہوگی اور صلہ کے طور پر آخرت میں جنت ملے گی۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  01 تا 07 مئی  2022