اولاد کی تربیت اور صحابیاتؓ
ڈاکٹر سید محی الدین علوی، حیدرآباد
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے مواعظ حسنہ میں جہاں صحابہ کے ایمان میں پختگی ، راہ حق میں استقامت اور فکر آخرت کا سامان تھا وہیں صحابیات کے لیے بھی بہت کچھ تھا۔ جب عیدین کا خطبہ ہوتا تو حضورؐ کچھ وقت خواتین کے لیے مختص فرماتے اور حضرت بلالؓ آپؐکے ساتھ ہوتے اور حضورؐراہ خدا میں اپنا پسندیدہ مال خرچ کرنے کی تلقین فرماتے تو خواتین بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں اور اپنے زیورت نکال نکال کر حضرت بلالؓ کی جھولی میں ڈالتیں۔ یہاں تک کہ جھولی بھرجاتی۔ تاریخ اسلام میں صحابیات کی ایک طویل فہرست ہے جن کے کارنامے ہماری خواتین کے لیے نشان راہ ہیں۔ ان میں سے چند صحابیات کا ذکر کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنی اولاد کی تربیت کے لیے بہت کچھ کیا۔
حضرت ام سلیمؓ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے بے انتہا محبت تھی اور کسی نہ کسی طرح حضور ؐکی خدمت میں لگی رہتی تھیں۔ اپنی بیوگی کے زمانے میں آپ کی توجہ اپنے بیٹے انس ؓبن مالک کی تربیت کی طرف رہتی اور آپ نے دوسرا نکاح نہیں کیا یہاں تک کہ حضرت انس بن مالکؓ دس سال کے ہوگئے تب حضرت انس بن مالکؓ کو لے کر حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ اے اللہ کے رسولؐیہ میرا بیٹا انس ہے اسے میں آپ کے حوالے کرتی ہوں۔ یہ آپ کی خدمت کرے گا۔ حضرت انسؓ بن مالک دس سال حضورؐ کی خدمت میں رہے اور آپ کے اخلاق حسنہ سے بے حد متاثر تھے۔ حضرت انسؓ بن مالک کہتے ہیں کہ دس سال رسول اللہ صلی علیہ و سلم کی خدمت میں رہا۔ لیکن آپؐ نے کبھی اُف تک نہیں کہا۔ حضرت انسؓ بن مالک سے کئی احادیث مروی ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے لیے دعا کی تھی۔ جس سے انہیں طویل العمری حاصل ہوئی۔ اور کثیر اولاد ہوئی اور دولت مند رہے۔ اور ایک سو سال کی عمر میں انہوں نے وفات پائی ان کے بیٹے اور پوتے ملا کر کل ایک سو ان کی اولاد ہوئی۔ حضورؐ کو ان سے محبت اور قربت ان کے نیک اطوار کی وجہ سے تھی۔ صحابیات میں حضرات اسما بنت ابوبکرؓ بہت مشہور ہوئیں۔ ان کی دین داری اور نیک اطواری کا یہ عالم تھا کہ یہ ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ آچکی تھیں ان کی والدہ کافرہ تھیں۔ یہ مدینہ میں اپنی بیٹی حضرت اسماؓ سے ملنے آئیں تو حضرت اسماؓ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا کہ میری ماں مکہ سے مجھ سے ملنے یہاں مدینہ آئی ہیں او ریہ مجھ سے کچھ توقع رکھتی ہیں لیکن ایمان نہیں لائی ہیں۔ کیا میں ان کی ضیافت کرسکتی ہوں۔ اللہ کے رسول نے انہیں اس کی اجازت دی تو انہوں ان کی ضیافت کی۔
حضرت اسماؓ کے فرزند عبداللہ بن زبیر کی تربیت میں ان کے والد حضرت زبیر بن عوام عشرہ مبشرہ صحابی سے بڑھ کر ان کی والدہ کا حصہ تھا۔ حضرت اسماؓ اپنے بیٹے کو بہادر ہی نہیں بلکہ اسلام کی آبرو پر مرمٹنے والا بنانا چاہتی تھیں۔ بچپن سے ان سے سخت کام لیتیں۔ بھوک پیاس کی ان میں برداشت پیدا کرتیں اور فن سپہ گری میں انہیں طاق بنانا چاہتیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ میں اتنا حوصلہ پیدا ہوا کہ انہوں نے دیکھا کہ حضرت امیر معاویہؓ کے بعد ملک خلافت سے ملوکیت کی طرف جارہا ہے تو انہوں نے بھی حضرت امام حسینؓ کی طرح یزید سے بیعت کرنے پر انکار کردیا اور یزیدی فوج کا پوری بہادری سے مقابلہ کیا۔ انہیں حجاج بن یوسف سے واسطہ پڑا تو آپ نے اس سے مردانہ وار مقابلہ کیا یہاں تک کہ جان جان آفرین کے سپرد کردی۔ حجاج نے ان کی لاش کو سولی پر لٹکادیا۔ ان کی ماں حضرت اسماؓ نے یہ منظر دیکھا تو بڑے صبر سے کام لیا اور حجاج سے برجستہ کہا کہ کیا سوار کے اترنے کا وقت ابھی نہیں آیا۔ یہ حضرت اسماؓ کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ یہ نماز حرم میں اس طرح پڑھتے کہ اگر چڑیا بھی ان کے سرپر بیٹھے تو انہیں پتہ نہیں چلتا۔ تیروں کی بارش میں بھی ان کا یہی حال رہتا۔
تاریخ اسلام کی ایک مشہور خاتون حضرت خنسا گذری ہیں۔ یہ شاعرہ بھی تھیں اور ان کے اشعار اسلام ک تعریف اور سربلندی کے لیے ہوتے لیکن یہ ان کے دو بھائیوں کی وفات پر افسردہ خاطر ہوئیں اور مرثیے لکھے اور غم میں مبتلا رہیں یہاں تک کہ ایرانیوں کے خلاف قادسیہ کی جنگ ہوئی۔ انہوں نے اپنے چاروں بیٹوں کو جنگ کے لیے تیار کیا اور خو دبھی آگے بڑھیں۔ اپنے بیٹوں سے انہوں نے کہا کہ مرناتو سب کو ہے لیکن شہادت کی موت سب میں بہترین موت ہے۔ اور جنت تمہارا انتظار کررہی ہے۔ اے میرے بیٹو تم اس جنگ میں بڑی بہادری سے لڑنا یہاں تک کہ تم دشمن کےسپہ سالار تک پہنچ جاو اور اسے موت کے گھاٹ اتارو۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ چاروں بیٹے اس جنگ میں شہید ہوئے۔ جب انہیں اپنے بیٹوں کی شہادت کی اطلاع ملی تو اسے انہوں نے مژدہ جانفزا سمجھا اور خدائے تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اب اس کے بعد بھائیوں کی وفات پر ان کا ختم نہ ہونے والا سوگ اپنے بیٹوں کی شہادت پر خوشی اور اطمینان میں تبدیل ہوگیا۔
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم تا 7 نومبر، 2020