اور جب انسانیت کا مسئلہ ’داخلی معاملہ ‘ بن جاتا ہے۔۔

حقوق کی پامالیوں کے خلاف عالمی برادری کی آواز تجارتی مفادات کے تابع عالمی دباؤ کی امیدیں فضول۔مسلمانوں کو اپنی لڑائی خود لڑنی ہوگی

شبیع الزماں ( پونہ)ٹکنالوجی کی ترقی اور گلوبلائزیشن کے ارتقاء نے دنیا کو ایک گلوبل ویلیج میں تبدیل کر دیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی ترقی نے لوگوں کو ایک دوسرے کے اس قدر قریب کردیا ہے کہ امریکہ میں بیٹھا ہوا شخص ہندوستان کے حالات سے مکمل طور پر باخبر رہ سکتا ہے۔ اب زمین کے کسی ایک خطہ میں ہونے والا واقعہ پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرواسکتا ہے یا ساری دنیا کو متاثر کرسکتا ہے۔
گلوبلائزیشن کے کئی فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ دنیا کے کسی دور دراز علاقہ میں ہونے والے ظلم کا نوٹس پوری دنیا لیتی ہے اور اس متعلقہ ملک پر دباؤ ڈالا جا تا ہے۔ جیسے 11 ستمبر کو نیویارک میں پیش آنے والا حادثہ، پوری دنیا نے اس کے اثرات یوں محسوس کیے گویا ان کے ملک میں یہ واقعہ پیش آیا ہو۔ عراق پر حملے کے خلاف پوری دنیا میں بیک وقت مظاہرے ہوئے تھے۔ ملالہ پر ہوئے حملے کی مذمت عالمی سطح پر ہوئی تھی۔
لیکن یہ بات ایک حد تک ہی درست ہے۔ عالمی طاقتیں کسی ملک پر انصاف کے لیے دباؤ ڈالتے وقت مذکورہ ملک سے اپنے تجارتی تعلقات اور سیاسی مفادات کا خاص لحاظ رکھتی ہیں بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ دباؤ مفادات ہی کے تحت ڈالا جاتا ہے۔ہندوستان کا شمار بھی ان ہی ملکوں میں ہوتا ہے جہاں عالمی طاقتیں اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتیں۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔
اول تو یہ کہ مغربی ممالک میں ہندوستان کی عمومی تصویر روحانیت، عدم تشدد، تحمل، مذہبی رواداری، جمہوری اقدار، سبزی پسند، غیر توسیع پسند، پر امن ملک اور اہنسا والے گاندھی کے دیش کے طور پر ہے۔ اس کا اندازہ رابرٹ بلیک ول کے اس جملہ سے لگایا جاسکتا ہے:
India is a pluralist society that creates magic with democracy, rule of law and individual freedom, community relations and (cultural) diversity. What a place to be an intellectual!… I wouldn’t mind being born ten times to rediscover India.
ہندوستان دنیا میں اپنی اس امیج کو باقی رکھنے کوشش کرتا رہتا ہے۔ دوسری اہم اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کسی بھی ملک کے لیے سب سے بڑی فری مارکیٹ ہے۔ اور کوئی بھی ملک ہندوستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کر کے اپنی تجارت کو متاثر نہیں کرنا چاہتا۔ ان وجوہات کے سبب بین الاقوامی سطح پر ہندوستان میں دلتوں اور اقلیتیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف کبھی آواز نہیں اٹھتی اور انھیں اندرونی معاملات کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اگر یہی مظالم کسی اور ملک میں ہوتے تو سوپر پاورس اس کو حقوقِ انسانی کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دے دیتے۔
ملالہ یوسف زئی پاکستان کے سوات علاقے میں رہتی تھی۔ جہاں طالبان نے لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی لگادی تھی۔ طالبان کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملالہ اسکول جاتی ہے۔ اسے اسکول بس سے کھینچ کر گولی مار دی جاتی ہے۔ ملالہ کو علاج کے لیے انگلینڈ روانہ کیا جاتا ہے جہاں وہ کرشماتی طور پر بچ جاتی ہے۔ امریکی صدر اور اسٹیٹ سکریٹری ملالہ کا بھرپور تعاون کرتے ہیں اور اس کی مدد کا وعدہ کرتے ہیں۔ میڈونا اپنا گیت ملالہ کے نام کرتی ہے۔ انجیلینا جولی ملالہ کے حق میں آرٹیکل لکھتی ہیں۔ ملالہ کی تصویر ٹائم میگزین کے کور پیج پر چھپتی ہے۔ دنیا کی تقریباً تمام ہی بڑی شخصیتیں ملالہ یوسف زئی کے لیے تہنیتی پیغامات بھیجتی ہیں۔ اقوام متحدہ اس کے علاج اور تعلیم کے تمام اخراجات برداشت کرتا ہے۔ دنیا بھر میں اسے ظلم کے خلاف اٹھنے والی آواز کے طور پرپیش کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ملالہ کو دنیا کے سب سے بڑے اعزاز نوبل انعام سے نوازا جاتا ہے۔ امریکہ، پاکستان میں ’’اسلامک دہشت گردوں‘‘ پر ڈرون برساتا ہے تاکہ خواتین آزادی کے ساتھ تعلیم حاصل کر سکیں۔
سریکھا بھوٹمانگے ایک چالیس سالہ دلت خاتون تھی جو ہندوستان میں مہاراشٹر کے ایک چھوٹے سے دیہات کھیر لانجی میں رہتی تھی۔ سریکھا ایک تعلیم یافتہ خاتون تھی اور اپنے خاندان کو ترقی کرتے دیکھنا چاہتی تھی۔ اس کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ سریکھا زمین کا ایک چھوٹا سا خطہ خریدتی ہے جو بد قسمتی سے اعلی ذات کے ہندوؤں کے کھیتوں کے درمیان واقع تھا۔ جس کی بنا پر گاؤں کی پنچایت اسے بجلی کا کنیکشن نہ دینے کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس پر گاؤں کی نہر اور کنویں سے پانی لینے پابندی لگادی جاتی ہے اور اس کے کھیت کے درمیان سے عوامی راستہ بنا دیا جاتا ہے۔ سریکھا کے احتجاج کرنے پر اس کے کھیت میں مویشی چھوڑ دیے جاتے ہیں اور اس کے مویشی چھین لیے جاتے ہیں۔
اس ظلم کے خلاف سریکھا پولیس میں شکایت درج کرواتی ہے۔ جس سے ناراض ہوکر گاؤں والے سریکھا کے قریبی رشتے دار کو قتل کردیتے ہیں۔ سریکھا دوبارہ پولیس میں شکایت درج کراتی ہے اس مرتبہ پولیس بعض لوگوں کو گرفتار تو کرتی ہے لیکن وہ کچھ ہی دنوں میں سریکھا سے بدلہ لینے کے لیے ضمانت پر باہر آجاتے ہیں۔
سریکھا اور اس کی فیملی کو گھر سے باہر نکالا جاتا ہے اور اس کے بیٹوں سے اس کا اور اس کی بیٹیوں کا ریپ کرنے کو کہا جاتا ہے۔ انکار کرنے پر ان کے عضوِ مخصوص کاٹ دیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد درندگی سے اس کا اور اس کی بیٹیوں کا ریپ کرنے کے بعد بے رحمی سے قتل کرکے لاشیں قریبی نالے میں پھینک دی جاتی ہیں۔ پولیس ابتدا میں سریکھا کے خلاف ہی افیر کا کیس درج کرتی ہے بعد میں بعض گرفتاریاں ہوتی ہیں اور پھر وہی عدالتی کارروائیاں۔
لیکن سریکھا کے لیے نہ میڈونا کوئی گیت گاتی ہے اور نہ انجیلینا جولی کوئی آرٹیکل لکھتی ہیں۔اقوام متحدہ اور امریکہ کی طرف سے کوئی پٹیشن دائر نہیں کی جاتی ہے۔ نہ ہی ہندوستان میں اچھوتوں پر ہونے والے مظالم ختم کرنے کے لیے کوئی ڈرون حملے ہوتے ہیں۔ کیونکہ سریکھا دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ اور فری ڈیموکریسی میں رہتی ہے یعنی ہندوستان میں، جو تمام سوپر پاورس کے لیے ہر طرح کی اشیاء کے لیے سب سے بڑا بازار ہے۔
یہ تو ایک مثال تھی ورنہ ہندوستان میں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق ہر سولہ منٹ میں دلتوں کے خلاف ایک ظلم کیا جاتا ہے روزانہ چار سے زیادہ دلت خواتیں زنا بالجبر کا شکار ہوتی ہے۔ ہر ہفتہ 13 سے زیادہ دلتوں کا قتل کیا جاتا ہے۔ صرف 2012 میں جس سال دہلی میں نربھیا ریپ کیس ہوا تھا 1574 دلت خواتیں کے ساتھ زنا بالجبر کیا گیا تھا اور 651 کے قریب دلتوں کا قتل ہوا تھا۔ یہ اعداد و شمار صرف ان معاملات سے متعلق ہیں جو درج رجسٹر ہوئے اور جن کا تناسب دس فی صد سے بھی کم ہے۔
یہ تمام واقعات ہندوستان میں کئی سالوں سے ہو رہے ہیں لیکن دنیا کی کوئی عالمی تنظیم یا کوئی سوپر پاور کبھی بھی اس میں مداخلت نہیں کرتی کیونکہ اس سے ان کے معاشی مفادات مجروح ہوتے ہیں۔
ہندوستان کی موجودہ صورتحال میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس میں بعض احباب کو یہ خوش فہمی رہتی ہے کہ شاید عالمی قوتیں مودی حکومت پر کوئی دباؤ بنائیں گی۔ اس لیے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ معاشی اور سیاسی مفادات کے مد نظر کوئی بھی حکومت ایسے اقدام نہیں کرے گی جس سے ہندوستان ناراض ہو اور ان کی تجارت پر اس کا اثر پڑے۔ دوسرے یہ کہ اس وقت دنیا کے تقریباً سبھی بڑے ممالک میں دائیں بازو کی پارٹیوں ہی کی حکومتیں ہیں جو خود اپنی اقلیتوں پر اسی طرح کے مظالم کا ارتکاب کر رہی ہیں۔ ایسی صورت میں وہ ہندوستانی حکومت پر اپنی اقلیتوں کے ساتھ بہتر سلوک کے لیے کیسے دباؤ ڈال سکتی ہیں؟
رہا سوال مسلم ممالک کا تو ان سے کوئی امید ہی فصول ہے اول تو خود دنیا میں ان کا کوئی سیاسی وزن نہیں ہے دوسرے نیشن اسٹیٹ کے اس دور میں ہندوستان کے داخلی معاملات میں مداخلت ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ فلسطین کے معاملہ میں مسلم ممالک کا موجودہ طرز عمل دنیا کے سامنے ہے۔ عالمی سطح پر زیادہ سے زیادہ کچھ قراردادیں پاس کی جا سکتی ہیں۔ کچھ میگزین اور اخبارات اداریے لکھ سکتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ حقوقِ انسانی کی تنظیمیں کچھ ریلیاں اور دھرنے دے سکتی ہیں۔ اس لیے ہندوستانی مسلمانوں کو عالمی دباؤ سے توقعات وابستہ کرنے کے بجائے خود ہندوستانی سماج میں تبدیلی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ دنیا میں کیسی ہی قراردادیں پاس ہو جائیں یا کتنے ہی خوبصورت اور بہترین قوانین بن جائیں لیکن اگر سماج انھیں تسلیم نہیں کرتا تو یہ قوانین اور قراردادیں عبث اور بے کار ہیں۔ اسی لیے بابا صاحب امبیڈکر کہا کرتے تھے ۔
If the fundamental rights are opposed by the community , no law, no parliment, no judiciary can guarantee them in the real sense of the word.
(اگر ملکی سماج کی جانب سے ہی بنیادی حقوق کی مخالفت ہو تو کوئی قانون، کوئی پارلیمنٹ اور کوئی عدلیہ لفظوں کے حقیقی مفہوم کے مطابق ان کی ضمانت نہیں دے سکتے)
**