انشائیہ: پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
سید افتخار احمد، سینیٹر صحافی، مترجم و مصنف
ممکن ہے کہ غالب نے یہ اشعار آج سے سو سال قبل کسی ایسے ہی بحران کے زمانے میں کہے ہوں جس وبا سے فی زمانہ ہم لوگ گزر رہے ہیں۔ شاید اس وقت کی وبائیں اتنی بھیانک اتنی خوفناک اتنی سنگدل اور اتنی ہراساں کر دینے والی رہی ہوں گی جتنی موجودہ وبا ہے۔ اس وبا کو پوری طرح سے بیان کرنے کے لیے تو الفاظ بھی کم پڑ جاتے ہیں۔ کیا رشتے ناطے، کیا سماج اور خاندان، کیا پڑوسی و دوست اور کیسے احباب؟ کوئی کسی کا نہیں حشر سے پہلے حشر کا سماں ہے قیامت سے پہلے قیامت کا منظر ہے۔ دنیا بھر کی جتنی طاقتیں ہیں وہ ساری کی ساری اس وائرس سے اس طرح نبرد آزما ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ اگر کوئی اس مرض میں مبتلا ہو جائے تو اولاد اپنے ماں باپ سے ماں باپ اولاد سے شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے ایسے دور بھاگتے ہیں جیسے وہ اجنبی بھی نہ ہوں اس لیے کہ اجنبی سے بھی لوگ بول چال کر لیتے ہیں۔ انسانوں کو ایک دوسرے سے ہمدردی غمگساری مصیبت کے وقت اس کی مدد کے لیے پہنچنے بیماری کے دوران اس کی تیمارداری اور اسی قبیل کے جو سارے اخلاقی و سماجی قوانین تقریباً تمام مذاہب نے وضع کیے ہیں کہ انسانوں کو اچھی تہذیب سے آراستہ کیا جائے اس بیماری نے ان ساری اقدار کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ وہ جو غالب نے کہا ہے کہ
ان کے آنے سے جو آجاتی ہے منھ پہ رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
اس کا کوئی معنی ومطلب ہی نہ رہا۔ اگر کسی کو اپنے کسی عزیز کے پاس جو اس مرض میں مبتلا ہے لاکھ ٹال مٹول کرنے کے بعد بھی جانا پڑ جائے اور وہ نظر بچا کے، جسم وجان بچا کے وہاں پہنچ بھی جائے تو خود اس بیچارے کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگتی ہیں، اسے دیکھنے سے بھلا بیمار کے چہرے پر کیا رونق آئے گی؟
دوسری جانب اس بیماری کو ماہرین طب جتنا سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ایک عام آدمی اتنا ہی الجھتا اور پریشان ہوتا جاتا ہے، کہتے ہیں کہ یہ وائرس ہوا میں اڑ نہیں سکتا تو پھر کیوں لوگوں سے یہ کہا جاتا ہے کہ وہ گھر میں رہیں باہر نہ نکلیں۔ جب وائرس گھر تک پہونچ ہی نہیں سکتا تو بار بار ہاتھ دھوتے رہنے کا کیا مطلب۔ کہتے ہیں یہ وائرس مردہ حالت میں رہتا ہے اور جسم میں داخل ہونے کے بعد حرکت میں آتا ہے یعنی مردہ بھی ہے اور حرکت بھی کرتا ہے، مردے تو آخرت مین زندہ ہونے والے ہیں اب بات سمجھ آئی کہ اس وائرس کی آخرت انسان کے جسم میں ہوتی ہے تاکہ انسان مردہ ہو کر آخرت میں اٹھے۔بالکل اسی طرح جیسے بندوق کا کارتوس بے جان حالت میں ہوتا ہے مگر جب بندوق کے ذریعہ اس کو حرکت دی جاتی ہے تو وہ انسان کا اسی طرح خاتمہ کر دیتا ہے جیسے یہ وائرس۔
دنیا میں جتنے اخلاقی قوانین ہیں ان تمام کو اس بیماری نے الٹ کر رکھ دیا ہے۔ اس اصول کو کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے معاشرے اور اس کی اجتماعی زندگی کے بغیر وہ اکیلا زندگی نہیں گزار سکتا اس مرض نے یہ اصول بتایا ہے کہ اگر انسان کو اپنی زندگی پیاری ہے تو اس کو معاشرتی دوری اختیار کرنی ہوگی اس کو سب سے الگ تھلگ رہنا ہو گا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہر انسان کسی دوسرے انسان کو خواہ وہ اس کا کتنا ہی عزیز یا اس کا جگر گوشہ ہی کیوں نہ ہو اس سے کراہت محسوس کرتا ہے بلکہ اس کی طرف حقارت سے دیکھتا ہے۔
جب ایک بچہ جنم لیتا ہے تو اس کے ساتھ اس کی معاشی ضروریات بھی جنم لیتی ہیں۔ معاشی پیداوار، ان کا پروان چڑھنا اور ان کا قائم رہنا یہ تمام امور کسی ایک بچے یا صرف انسانی جان کی پرورش اس کی ترقی اور اس کی بقا ہی کی ضامن نہیں ہوتیں بلکہ انسانی تہذیب وتمدن، اس کے بقا اور اس کے عروج کے لیے لازم ہوتے ہیں اور اسکی بقا وترقی کے لیے انسان کی اجتماعی زندگی اور اس کی اجتماعی کاوشوں اور مشترکہ جدو جہد کی ضرورت ہوتی ہے اگر ایسا نہ ہوا اور پیدا ہونے والے بچے کی ضرورتیں پوری نہ کی گئیں تو جیسے وہ بچہ مر جائے گا اسی طرح انسانی تہذیب وجود میں آنے سے پہلے ہی مٹ جائے گی۔ اس مرض کا یہ تقاضہ ہے کہ اگر تم کو جینا ہے تو ہر حال مین اجتماعی جدوجہد سے خود کو الگ رکھنا ہوگا اپنے معاشی کاروبار کو تالا لگا کر اپنے گھروں میں بند ہونا پڑےگا۔ کہنے کو تو بہت کچھ کہا جاسکتا ہے داستاں طویل ہو جائے گی۔
یہی سب باتیں سوچ سوچ کر ساری دنیا کے لوگ پریشان ہیں۔ کسی کو کوئی جواب نہیں سوجھتا تو اس نتیجے پر پہونچ جاتے ہیں کہ نہیں اب جو بھی ہو پہلے جیسی دنیا لوٹ کر نہیں آئے گی۔ اب پہلے جیسے حالات کبھی نہیں آسکتے مگر اقبال کہتے ہیں(تھوڑے سے تصرف کے لیے معذرت کے ساتھ)۔
اگر انسانیت پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
اور یہ کہ
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آیئنہ پوش
اورظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک
بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی
اس قدر ہوگی ترنم آفریں باد بہار
نکہت خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
علامہ اقبال کی اس حیرت کا جواب دیکھیے فیض نے کیا دیا ہے(تھوڑے سے تصرف کے لیے معذرت کے ساتھ):
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے جو لوح ازل پہ لکھا ہے
ہم اہل جفا مردود حکم مسند پہ بٹھاے جائیں گے
جب تاج اچھالے جائیں گے
جب تخت گراے جائیں گے
اٹھے گا انالحق کا نعرہ جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرےگی خلق خدا جو میں بھی ہوں اور
تم بھی ہو
***
***
ممکن ہے کہ غالب نے یہ اشعار آج سے سو سال قبل کسی ایسے ہی بحران کے زمانے میں کہے ہوں جس وبا سے فی زمانہ ہم لوگ گزر رہے ہیں۔ شاید اس وقت کی وبائیں اتنی بھیانک اتنی خوفناک اتنی سنگدل اور اتنی ہراساں کر دینے والی رہی ہوں گی جتنی موجودہ وبا ہے۔ اس وبا کو پوری طرح سے بیان کرنے کے لیے تو الفاظ بھی کم پڑ جاتے ہیں۔ کیا رشتے ناطے، کیا سماج اور خاندان، کیا پڑوسی و دوست اور کیسے احباب؟ کوئی کسی کا نہیں حشر سے پہلے حشر کا سماں ہے قیامت سے پہلے قیامت کا منظر ہے۔ دنیا بھر کی جتنی طاقتیں ہیں وہ ساری کی ساری اس وائرس سے اس طرح نبرد آزما ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ اگر کوئی اس مرض میں مبتلا ہو جائے تو اولاد اپنے ماں باپ سے ماں باپ اولاد سے شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے ایسے دور بھاگتے ہیں جیسے وہ اجنبی بھی نہ ہوں اس لیے کہ اجنبی سے بھی لوگ بول چال کر لیتے ہیں۔