اندر کا ماحول کب ناخوش گوار ہوجاتا ہے؟
محمد عبد اللہ جاوید
اجتماعیت جس مقصد کے لیے وجود میں آتی ہے،بیرونی دنیا میں اس کے حصول کا دارومدار، اندرونی ماحول پر رہتا ہے۔یعنی خارج میں اپنے مقاصد میں کام یابی، داخل کے مستحکم وپائیدار ہونے سے ہی ممکن ہے۔اسی لیے اجتماعی جدوجہد کے جذبے سے سرشار جیالوں سے بنیان مرصوص بن جانے کا تقاضا کیا گیا ہے۔یہ بات دو اور دو چار کی طرح واضح کردی گئی ہے کہ رنگ و بو کی اس دنیا میں کام یابی وکامرانی مادی وسائل و اسباب سے زیادہ اجتماعیت سے وابستہ افراد کی صالحیت اور ان کے آپسی بے لوث تعلقات سے جڑی ہے۔
…إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا…
اگر تم میں سے بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے(سورۃ الانفال: ۶۵)۔
کسی بھی اجتماعیت کا اصل اثاثہ فرد ہوتا ہے۔ہر وابستہ فرد اس کے لیےبہت قیمتی ہوتاہے۔اجتماعی مقصد میں کام یابی فرد کو اس کے شایانِ شان تیار و آمادہ کرنے ہی سے ممکن ہے۔اجتماعیت کے نظام تربیت کا یہی بنیادی عنصر ہے۔ وابستہ افراد کے درمیان خوش گوار تعلقات کی حقیقی روح بھی یہی ہے اور تعلقات کو خوش گوار بنائے رکھنے کا ہنر بھی اسی حقیقت سے وابستہ ہے۔
اجتماعیت کا داخلی ماحول یوں تو عموماًخوش گوار رہتا ہے،لیکن بعض موقعوں پر ناخوش گواری کے آثار نمایاں طور پرمحسوس کیے جاتے ہیں۔یہ ناخوش گواری مثال کے طور پر اس وقت محسوس ہوتی ہے جب کسی اجتماعی سرگرمی کے لیے تمام وابستہ افراد جمع ہوں اور ان سے رائے مشورہ طلب کیا جائے۔بعض افراد اپنے مخصوص مزاج اور پسند وناپسند کے طے شدہ معیارات کے تحت، ایک بنے بنائے ذہن سے ساری کارروائی سماعت بھی کرتے ہیں اور گفتگو میں حصہ بھی لیتے ہیں۔ کبھی وہ شدید اختلاف ظاہر کرتے ہیں، توکبھی ان کی عدم دل چسپی نمایاں ہوجاتی ہے۔یہ صورت حال صرف بے ڈھنگی مخالفت یا لیے گئے فیصلے سے متعلق ناپسندیدگی کے اظہار تک ہی محدود نہیں رہتی، بلکہ نشست کے برخاست ہونے کے بعدموقع بہ موقع مختلف صورتوں میں سامنے آتی ہے۔یہ حالت ان افراد پربڑی گراں گزرتی ہے جو تحریک کے سچے خیر خواہ اور اپنے قول وعمل میں مخلص ہوتے ہیں۔
اس صورت حال کو عموماً ایسے ہی چھوڑ دیا جاتا ہے، الا یہ کہ کوئی ذمہ دار کسی سے کچھ بات کرلے۔ایسا عمل دانستہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے کئی وجوہات ہوتی ہیں۔پہلی تو یہ کہ ایسے افراد کا طرز عمل چوں کہ عین متوقع ہوتا ہے اس لیے اس کے ظاہر ہونے کو زیادہ سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیا جاتا بلکہ یہ سمجھ کر انگیز کرلیا جاتا ہے کہ ان کا تو بس یہی کام ہے۔دوسری یہ کہ ایک ہی مقام پر عرصہ دراز سے گزربسر کرنے والے وابستگان بوجوہ ایک دوسرے کی اصلاح کےلیے اپنے اندر آمادگی نہیں پاتے یا اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اس عدم آمادگی کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ادھر ادھرتنقید کرنے والے بڑی ہوشیاری سے اپنے اعتراضات پیش کرتے ہیں، ایسا موقع ہاتھ آنے ہی نہیں دیتے کہ انھیں کسی واضح دلیل کے ساتھ ذمہ دار کے سامنے پیش کیا جاسکے۔تیسری وجہ یہ کہ ایسے افراد سے بحث و مباحثہ مناسب نہیں سمجھا جاتا کیوں کہ وہ اپنی بات پر جس قدر استقلال کے ساتھ جمے رہتے ہیں اسی قدر دوسروں کی مدلل باتوں کو بے سروپا قرار دینے کے ہنر سے بھی واقف رہتے ہیں۔
اس صورت حال کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ساتھ لے کر چلنے اور باہمی تعلقات کو مزید بگاڑ سے بچانے کے پیش نظر حالات اور رویے انگیز کرلیے جاتے ہیں۔ذمہ دار بھی برداشت کرتے ہیں اور دیگر وابستگان بھی۔اس لیے ان افراد کی نہ اصلاح ہوپاتی ہے اور نہ ہی ایک خوش گوار اجتماعی ماحول برقرار رہ پاتا ہے۔ چوں کہ یہ ناخوش گواری وقتی اور محدود ہوتی ہے اس لیے اجتماعیت کے عمومی ماحول کو زیادہ نقصان نہیں پہنچاتی۔لیکن یہ ماحول اس وقت تنگ محسوس ہونے لگتا ہے جب کسی اجتماعی اقدام کی ضرورت پیش آتی ہے اور اسے سرانجام دینے کے لیے اجتماعی تعاون درکار ہوتا ہے۔ایسے میں جن لوگوں نے اپنے مخصوص انداز سے نشست میں ایک طرح کی بدمزگی پیدا کردی تھی، ان پر خاطر خواہ گرفت یا اصلاح نہ ہونے کی بنا پروہ اپنی پسند و ناپسند کے مطابق اجتماعی فیصلوں کے تحت ہونے والے کاموں کو یا توایک مخصوص رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر عدم تعاون کا ایک ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے اجتماعی ماحول شروع شروع میں متاثر رہتا ہے، لیکن جوں جوں کسی اجتماعی فیصلے کے نفاذ کا وقت قریب آتاہے وہ بناوٹی ماحول اپنی تاثیر کھوتا چلا جاتا ہے اور بہتر انداز سے کام انجام پانے لگتے ہیں۔ اس صورت حال میں وقت کا وہ حصہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے جو فیصلے لینے کے فوری بعد عمل درآمد کے لیے دستیاب تھا۔
اس طرح کے کئی معاملات ہوتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اجتماعیت میں افردا گرچہ ساتھ ہیں پر ایک دوسرے سے ہم آہنگ اور ہم فکر و خیال نہیں ہیں۔یا یہ کہ اس ہم خیالی اور فکری ہم آہنگی کا تسلسل برقرار نہیں رہتا۔چاہے داخلی صورت حال جیسی بھی ہو،ہر صورت میں وابستہ افراد کی اکثریت بہت کچھ کرنا چاہتی ہے لیکن ان کی قوت عمل اس وقت جواب دے جاتی ہے جب اجتماعی سرگرمی کے لیے سازگار ماحول، چند ایک کے مرہون منت ہوکر رہ جاتا ہے۔ایسا کیوں ہوتا ہے؟ حالانکہ ہر کوئی، چاہے کسی بھی سطح کی فکری و اخلاقی سطح کا ہو، چاہتا تو یہی ہے کہ اجتماعیت سے وابستگی کے ذریعہ اپنے قول و عمل سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرے اور جنت کا مستحق بن جائے؟
اس کی بنیادی وجہ، کوئی وقتی یا جذباتی نہیں بلکہ بڑی قدیم ہوتی ہے۔یہ وجہ، ایک تقاضے کے طور پر ہر فرد کی زندگی کا حصہ اسی وقت بن جاتی ہے جب وہ پورے شعور کے ساتھ اجتماعیت سے وابستگی اختیار کرتا ہے۔ یہ تقاضا، اس کا اپنا خاص ہے۔اس تقاضے کے صحیح ہونے اور اس کو ہرحال میں پورا کرنے کے وعدے کے ساتھ ہی ایک فرد تحریک کے شان دار محل میں داخل ہوتا ہے۔ صبر و استقلال کے ساتھ اس تقاضے کی ادائیگی ہی سے وہ سکون و اطمینان میسر آسکتا ہے کہ ہر فرد تحریک سے وابستگی کو قلبی طور پر محسوس کرنے لگتا ہے اور ہر وقت اس کے لیے اپنی جان ومال سے خدمت کے لیے تیار و آمادہ رہتا ہے۔
متعین مقصد کے تحت وجود میں آنے والی اجتماعیت،عمل کے تقاضوں سے کام یابی حاصل کرتی ہے۔ہروابستہ فردکے لیے فوری تقاضا یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق اجتماعی کاز کو تقویت پہنچانے کی کوشش کرےاوراجتماعی اور انفرادی طور پر سرگرم عمل رہے۔ جب کسی فرد کی انفرادی واجتماعی سرگرمیوں کا توازن بگڑجاتا ہے تو وہ برائی پیدا ہوتی ہے جس سے فرد کا وجود، خود اجتماعیت اوراس سے متعلق افراد کے لیے باعث خیر کم باعث زحمت زیادہ بن جاتا ہے۔
اس بنیادی وجہ کا ایک عملی پہلو قابل غور ہے، بلکہ یہی اصل وجہ قرار دی جاسکتی ہے۔اجتماعیت سے وابستگی کے بعد اس کے تقاضوں کی تکمیل ہی سے ہر فرد، اجتماعیت میں اپنے وجود کو باعث خیر سمجھنے لگتا ہے۔ جیسے جیسےاس کی وابستگی ماہ وسال کی مناسبت سے بڑھنے لگتی ہے وہ اپنے صبر و استقلال کے ساتھ کئی جانے والے انفرادی واجتماعی کاموں میں بھی تیزی اوراضافے کو یقینی بناتا ہے۔اس بنا ایک ایسی حالت میسر آتی ہے کہ اس کو نہ صرف اجتماعیت سے وابستہ ہونے پر مکمل شرح صدر ہونے لگتا ہے بلکہ وہ اس کے مزاج،منہاج،مقصد اور طریقہ کار کی اصل روح کو بھی سمجھنے لگتا ہے، بلکہ اس میں پوری طرح ڈھل جاتا ہے۔اس کے قول و عمل کی یکسانیت اور اجتماعی شعور میں پختگی، اس کو راہ خدا کا ایک ایسا جیالا مجاہد بناتی ہے کہ اس کے شب وروز اللہ کے لیے اللہ کی راہ میں گزرنے لگتے ہیں۔ وہ رات کا راہب اور دن کا شہسوار بن جاتا ہے۔ اس کے لیے کام، صرف اجتماعیت کا کام رہ جاتا ہے،باقی سب مصروفیات اس کے نزدیک اسی حد تک اہمیت رکھتی ہیں کہ ان کے ذریعہ وہ اپنی نجی اور اہل وعیال کی واجبی ضرورتوں کو پورا کرلے۔
جب کسی فردکے انفرادی تعاون میں نمایاں کمی اور اجتماعی تعاون وقتی ہونے لگے تو وہ اپنی داخلی کم زوریوں پر قابو پانے میں یکسر ناکام ہوجاتا ہے اور پھر اجتماعی ماحول میں اپنےلیےایک ایسا رویہ اختیار کرتا ہے جس کو کبھی اس کی انانیت یا ہٹ دھرمی تو کبھی عدم دل چسپی اور سرد مہری کے طور پر جانااور سمجھاجاتا ہے۔وہ اپنے وقتی عمل سے اطمینان قلب حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن اجتماعی ماحول میں ایسا ممکن نہیں ہوپاتا، اس لیے اس کی یہ داخلی کم زوری، اس کے طیش، اس کی بے صبری اور اوپر بیان کیے گئے رویوں کے علاوہ تنقید اور عدم اطمینان کے طور پر منکشف ہوتی ہے۔ ایسے فرد کی اصلاح کرنا، اس کو مطمئن کرنا اور اس کا مثبت تعاون یقینی بنانا، ناممکن محسوس ہونے لگتا ہے۔ غالبایہی وجہ ان تمام افراد کے ساتھ ہوتی ہے، جو عرصہ دراز سے ایک ہی مقام اور حالت میں رہتے ہیں، آگے بڑھ نہیں پاتے۔
اجتماعیت سے وابستگی کے بعد ہر فرد اس بنیادی وجہ سے مکمل اجتناب کرتے ہوئے، اپنے مستقل انفرادی عمل کے ذریعہ، اجتماعیت کا حصہ بنے رہنے کی کوشش کرے۔ یہی ناخوش گوار داخلی ماحول کی بنیادی وجہ کا واحد حل ہے۔ ہر فرد یہ دیکھے کہ وہ کس میدان میں کام انجام دینے سے اطمینان قلب محسوس کرتا ہے؟ تقریر یا تحریرمیں؟ یا تعارف اور رابطہ سازی میں؟ یا خدمت خلق کی انجام دہی اور عوامی مسائل کے حل میں؟ میدان سیاست میں مثبت تعاون یا میدان معیشت کی تگ و دو سے؟ غریبوں اور یتیموں کی کفالت کے لیے دوڑ دھوپ یا پھر پچھڑے طبقات کے حقوق کی بازیابی میں؟ لوگوں سے ملاقات وروابط میں یا دفتری امور کی انجام دہی میں؟ وعظ و نصیحت میں اس کا دل لگتا ہے یا ملی کاموں میں تعاون دینےمیں؟ بس وہ اس کام کا انتخاب کرے، جس میں اس کی بھر پور دل چسپی ہو، اور پھر اخلاص کے ساتھ اس کو انجام دیتے ہوئے اپنے آپ کو ہمیشہ حالت اطمینان میں رکھے۔
تحریک اپنے نصب العین کے حصول کےلیے میدان عمل کی یہ ہمہ جہتی اسی لیے رکھتی ہے کہ یہ اس کے مقصد کا تقاضا بھی ہے اور ہر وابستہ فرد کے مزاج، قوت استعداد و عمل اور اس کی دل چسپی اور پسند سے ہم آہنگی کا مظہر بھی ہے۔
تحریک کے اجتماعی ماحول کی خوش گواری، ہر فرد کے انفرادی حالت میں مطمئن رہنے سے ممکن ہے،جس طرح جسم کا صحت مند رہنا سارے جسم کے اعضاء کے صحت مند ہونے سے ممکن ہے۔کسی بھی فرد کا یہ اطمینان، ہر روز اس کی صبح کی حالت سے ہی واضح ہوجاتا ہے۔ جس انداز سے صبح کی جاتی ہے اسی سے پتا چلتا ہے کہ سارا دن کن مصروفیات و مشغولیات میں گزرنے والا ہے۔لہذا فردکے لیے ہر دن، ایک نیا دن ہونا چاہیے، وہ بھی نیا، اس کے عزائم وحوصلہ بھی نئے۔اس کا میدان کار بھی نیا اور اس کی قوت عمل بھی نئی۔ رب کریم کا ارشاد وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے)اسی نئی صبح کا پیشگی منصوبہ ہے تاکہ ہر فرد دیکھے کہ وہ کل کے لیے کیا سامان اکٹھا کرسکتا ہے؟
اس پہلو سے غور کیجیے تو محسوس ہوگا کہ حضرات صحابہ کرامؓ کے درمیان خوش گوار تعلقات کی ایک بنیادی وجہ ان کی اپنی انفرادی واجتماعی سرگرمیوں کا حسین امتزاج تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی برگزیدہ ہستیاں غزوات ومہمات، دعوت وارشاد،وعظ و نصیحت کی اجتماعی کوششوں کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی صالحیت وصلاحیت کی بنا پرایک اور ایک سے زائد میدان کار کے بڑے ہی سرکردہ شہ سوار تھے۔اللہ کے رسولﷺ نے حضرات صحابہ کرامؓ کو جن پیارے القاب سے نوازا تھا، چاہے وہ صدیق ہو کہ غنی، سد اللہ ہو کہ سیف اللہ، ان تمام کے لیے ان کا اجتماعیت نواز انفرادی کردار بنیاد رہا۔
اجتماعیت سے وابستگی جس غایت حقیقی کے تحت ہوتی ہے، یعنی رضائے الہی وفلاح آخرت، اس کے حصول کا ایک محسوس طریقہ ہرفرد کے اختیار میں ہونا چاہیے۔وہ بس یہ دیکھے کہ وہ کس حال میں صبح کررہا ہے اور کس عمل کے ساتھ اس کے دن کا اختتام ہورہا ہے۔ کیا اس کو اجتماعی کاموں کے علاوہ اپنے انفرادی کاموں سے سکون و اطمینان میسر آرہا ہے اور کیا اس کا انفرادی کام،اجتماعی کاز کو تقویت پہنچانے کا ذریعہ بن رہا ہے؟ اگر اس کا جواب مثبت ہے تو اجتماعیت سے والہانہ وابستگی کے لیے راہیں ہموار ہیں۔
اجتماعیت سے وابستہ ہر فرد کی تڑپ اس حالت اطمینان کو حاصل کرنے اور اور ہرسطح کے قائدین کی فکر اس حالت اطمینان کو یقینی بنانے کے لیے ہونی چاہیے۔ رسول اللہﷺ اور حضرت زیدالخیرؓ کے درمیان ہوئی اس گفتگو سے یہی حقیقت منکشف ہوتی ہے۔ حضرت زیدالخیرؓ نے عرض کیا:یا رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ لِتُخْبِرْنِیْ مَا عَلاَمَۃُ اللّٰہِ فِیمَنْ یُّرِیدُہٗ وَمَا عَلاَ مَتُہٗ فِیمَنْ لاَّ یرِیدُہٗ۔ اے اللہ کے رسولﷺ مجھے بتلائیے کہ اس شخص میں اللہ تعالیٰ کی کیا نشانی ہے جسے وہ پسند کرتا ہے اوراس میں کیا نشانی ہے جس کواللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا؟۔اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:کَیفَ اَصْبَحْتَ یا زَیدُ؟– اے زید تم نے کس حال میں صبح کی؟حضرت زیدؓ نے فرمایا:اُحِبُّ الْخَیرَ وَاَھْلَہٗ وَاِنْ قَدَرْتُ عَلَیہِ بَادَرْتُ اِلَیہِ وَاِنْ فَاتَنِیْ حَزِنْتُ عَلَیہِ وَحَنَنْتُ اِلَیہِ۔اس حال میں صبح کرتا ہوں کہ نیکی اور اس کے کرنے والوں سے مجھے محبت ہوتی ہے اور اگر میں نیک کام کرنے پر قدرت رکھتا ہوں تو اسے جلدکرڈالتا ہوں اور اگر نیکی کرنے سے رہ جاؤں تو غمگین اور بے قرار ہوجاتا ہوں۔آپ ﷺنے فرمایا: فَتِلْکَ عَلاَمَۃُ اللّٰہِ تَعَالیٰ فِیمَنْ یُّرِیدُہٗ وَلَوْ اَرَادَکَ لِغَیرِھَا لَھَیَّأَکَ لَھَا۔ یہی اللہ تعالیٰ کی نشانی اس شخص میں ہے جس کو وہ پسند کرتا ہے اور اگر وہ تمہارےلیے کسی اورچیز کا ارادہ فرماتا ہے تو تمھیں اس کے لیے تیار کردیتا۔(ترمذی)۔
جب کوئی فرد اللہ تعالیٰ کی پسند و ناپسند کو اپنا معیار بنالیتا ہے تو اس کے نزدیک سوائے حضرت زیدالخیرؓ کے جیسے سوال کے کوئی اور بات قابل توجہ نہیں رہتی۔جب ہر فرد، اجتماعی کازکے لیے اپنے انفرادی تعاون سے دلی خوشی اور اطمینان محسوس کرےتواس کے لیے اجتماعی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا اوراپنے رفقا کے ساتھ گہرا تعلق بنائے رکھنا، اس کے اطمینان قلب کی اصل وجہ بن جاتا ہے۔اور جب ہروابستہ فرد کے قلبی اطمینان کی ایسی کیفیت ہوجائے تو بشری کم زوریوں کی استثنائی صورت کے علاوہ اجتماعیت کے داخلی ماحول کو بنیان مرصوص کے اعلی معیار پر قائم رہنے میں کوئی امر مانع نہیں رہتا۔