انتہا پسندی کی تشریح کے بغیر انتہا پسندی سے مقابلہ

فرانسیسی صدر کی وضاحت بعید از حقیقت ۔ اسلام دشمنی کے مظاہرہ کے بعد میکروں دباؤ میں آگئے

مسعود ابدالی

 

دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دل آزاری کے بعد فرانسیسی صدر ایمونوئیل میکروں نے وضاحت فرمائی ہے کہ گستاخانہ خاکوں سے متعلق ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پھیلایا گیا اور یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ گویا وہ ان خاکوں کے حامی ہیں یا فرانسیسی صدر کی تحریک وتجویز پر یہ خاکے بنائے گئے ہیں۔ قطر کے الجزیرہ ٹیلی ویژن کو ایک خصوصی انٹرویو میں فرانسیسی صدر نے کہا کہ ’اس پورے تنازع میں میرا کردار بس اتنا ہے کہ میں نے امن وا مان برقرار رکھتے ہوئے آزادیِ اظہار رائے کا دفاع کیا‘۔ انکا کہنا تھا کہ چارلی ہیبڈو ایک ازاد ادارہ ہے جس کا فرانس یا حکومت فرانس سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ خاکے نہ تو حکومت نے بنوائے ہیں اور نہ فرانسیسی حکومت چارلی ہیبڈو کی حامی یا سرپرست ہے۔ میکروں نے کہا کہ وہ مسلمانوں کے جذبات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ ان خاکوں سے مسلم دنیا کو صدمہ پہنچا ہے۔ فرانسیسی صدر نے کہا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کا احترام کرتے ہیں اور مسلمانوں کو یہ جاننا چاہیے کہ ان خاکوں سے میرا یا فرانسیسی حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ صدر میکروں نے کہا کہ ان کے خلاف اشتعال کی وجہ ان سے منسوب جھوٹی کہانیاں ہیں۔ ان کے بیان کو مسخ کرکے کہا گیا کہ فرانسیسی صدر نے خاکوں کی اشاعت کے لیے کہا ہے۔ میکروں نے کہا کہ ’ میرا مقصد یہ نہیں تھا۔ میں نے صرف یہ کہا تھا کہ فرانسیسی قانون کارٹون بنانے سمیت ہر قسم کی آزادی رائے کا حق دیتا ہے اور ہم اس آزادی کو سلب نہیں کریں گے’فرانسیسی صدر نے خود سے منسوب اس بیان سے بھی لاتعلقی کا اظہار کیا کہ ’اسلام ساری دنیا میں بحران کا شکار ہے‘ جس سے مسلمانوں نے سمجھا کہ ’میں اسلام کا مخالف ہوں۔ حالانکہ میں نے تو مسلمانوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر جگہ شدت پسند، اسلام کے نام کو استعمال کر رہے ہیں‘
اس چارہ سازی اور غم گساری کے بعد موصوف نے ناصح کی ٹوپی اوڑھتے ہوئے فرمایا کہ کچھ لوگ اسلامی تعلیمات کو غلط طریقے سے پیش کرتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی گمراہ کن تشریح کرکے گلے کاٹنے (slaughter)، تشدد، خونریزی اور اشتعال انگیزی پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ فرانسیسی صدر نے کہا کہ اسلام کے نام پر جو چیز پھیلائی جارہی ہے وہ خود مسلمانوں کے لیے ایک آفت بن چکی ہے اور میں یہ بات کئی بار کہہ چکا ہوں دہشت گردی کا خمیازہ بھگتنے والے 80 فیصد افراد مسلمان ہیں۔
الجزیرہ نے صدر میکروں کے اس انٹرویو کے فوراً بعد فرانس میں انسانی و شہری حقوق کمیٹی کے سربراہ یاسر لواشی (Yasser Louati) کا تبصرہ نشر کیا۔ جناب لواشی نے صدر میکروں کے انٹرویو کو مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی ایک کوشش قراردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم انتہا پسندی پر لیکچر دینے والے میکروں نے انتہاپسندی کی کوئی تعریف نہیں بیان کی۔ فرانسیسی صدر اور ان کے ساتھی پابندی سے نماز باجماعت ادا کرنے والے مسلم نوجوانوں کو انتہا پسند گردانتے ہیں اور ان کے خیال میں اسکارف اوڑھنے والی نو خیز لڑکی انتہا پسند ہے۔ اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزار نے والے مسلمانوں کو ان خوفناک دہشت گردوں اور مسلم دشمن گروہوں کے برابر سمجھا جارہا ہے جو دنیا کے مختلف حصوں میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل کے ذمہ دار ہیں۔ ان کاکہنا تھا کہ فرانس میں انتہا پسندی کے نام پر مسلمانوں کا قافیہ تنگ کر دیا گیا ہے۔
جناب لواشی نے کہا ’صدر میکروں نے انٹرویو میں سفید جھوٹ بول دیا کہ مقامی لوگ ان کے بیان کو سمجھتے ہیں اس لیے فرانسیسی مسلمانوں میں ان کے خلاف کوئی منفی ردعمل نہیں‘۔ جناب یاسر لواشی کا کہنا تھا کہ ملک کی خفیہ ایجنسیاں مسلمانوں کی جاسوسی میں مصروف ہیں اور خوف و ہراس کی وجہ سے لوگ گھروں اور نجی محفلوں میں بھی ان خاکوں کا کوئی ذکر نہیں کرتے کہ کہیں بچے یہ بات اسکول کے ساتھیوں یا دوستوں سے نہ کہہ دیں۔ جناب یاسر نے مسلمانوں کے بارے میں صدرمیکروں کی بد نیتی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ الجزیرہ کے انٹرویو کے بعد انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ’سیکیولرازم نے کسی کو قتل نہیں کیا‘۔ اس ٹویٹ کی شان نزول کیا تھی؟ آج کل صدر میکروں اسلام اور سیکیولرازم کو ایک دوسرے کا مد مقابل قرار دے رہے ہیں اور اس پس منظر میں اس ٹویٹ کی تشریح اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ پرامن سیکیولرازم کے مقابلے میں اسلام کشت وخون کی تعلیم دیتا ہے۔ فرانسیسی صدر اپنے ٹویٹ انگریزی اور فرانسیسی دونوں میں جاری کرتے ہیں لیکن مندرجہ بالا ٹویٹ پیغام صرف فرانسیسی زبان میں نشر کیا گیا۔ گویا وہ اپنے فرانسیسی حامیوں کو باور کرانا چاہتے تھے کہ الجزیرہ پر وضاحت محض ’موذیوں‘ کا منہ بند کرنے کے لیے تھی ورنہ ان کی انتظامیہ اسلاموفوبیا کے معاملے میں اپنی حریف میری لاپن سے کسی طور پیچھے نہیں۔
فرانسیسی مسلمانوں کے خلاف حالیہ مہم کا آغاز 2 اکتوبر کو ’انتہاپسندی سے نمٹنے کی حکمت عملی‘ کے عنوان سے ہونے والے سیمینار سے ہوا جہاں کلیدی خطاب کرتے ہوئے صدر میکروں نےکہا تھا کہ اسلام ساری دنیا میں بحران کا شکار ہے۔ ہم فرانس کو اس بحران کا حصہ نہیں بننے دیں گے اور اسلامی انتہا پسندی سے سیکولر اقدار کی ہر قیمت پر حفاظت کی جائے گی۔ الجزیرہ کے انٹرویو میں فرانسیسی صدر نے اپنی گفتگو کے اس حصے کی تردید کی ہے حالانکہ ان کے خطاب کا پورا متن خود فرانسیسی حکومت کے شعبہ ابلاغ عامہ نے جاری کیا تھا۔ اپنی تقریر میں جناب میکروں نے بہت وضاحت وصراحت سے کہا تھا کہ تعلیم اور عوامی مقامات سے اسلام کو بے دخل کرنے کے لیے مؤثر قوانین وضع کیے جارہے ہیں۔ جناب میکروں نے انکشاف کیا کہ انتہا پسندی، متوازی رویوں اور مسلم ثقافت خاص طور سے ذبیحہ، حجاب و پردہ جیسے خطرات سے نمٹنے کے لیے اس سال کے آخر تک ایک مسودہ قانون پارلیمان میں پیش کیا جارہا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ مسلم انتہا پسند اپنے محلوں، مساجد اور مدارس میں شریعت نافذ کرکے ریاست کے اندر ریاست قائم کر رہے ہیں جسکی بیخ کنی کے لیے موثر قانون سازی ضروری ہے۔
چونکہ ہم نے فرانسیسی صدر کے اس خطاب کو اس سے پہلے اپنے ایک مضمون میں نقل کیا تھا لہٰذا یہ بات بھی قارئین تک پہنچانا ضروری ہے کہ صدر میکروںنے فرانسیسی مسلمانوں کے بارے میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہاکہ ’ہم اسلام کے خلاف نہیں لیکن اسلام کو بطور معاشرت اپنانے والے انتہا پسندوں سے فرانس کی سالمیت کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ فرانس ایک سیکولر ملک ہے اور یہاں مسلم انتہا پسندوں کو متوازی معاشرہ بنانے کی قطعی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ فرانسیسی اقدار سے متصادم کسی رسم ورواج یا ثقافت کی یہاں کوئی گنجائش نہیں۔
اسی کے ساتھ 75کے قریب مساجد کو یہ کہہ کر مقفل کر دیا گیا کہ یہاں تعینات خطیب عرب ممالک کے سند یافتہ ہیں اور انہیں فرانسیسی تہذیب سے آگاہی حاصل نہیں۔ درجنوں مدارس اور مسلمانوں کے نجی اسکول بھی انتہا پسندی پھیلانے کے الزام میں بند ہیں۔ حجاب پر پابندی کا دائرہ سرکاری اداروں کے ساتھ نجی دفاتر و کاروباری اداروں تک بڑھا دیا گیا ۔
اسی پکڑ دھکڑ کے دوران پیرس کے مضافاتی علاقے کے ایک مڈل اسکول میں تاریخ کے 47سالہ استاد سموئل (Samuel Patty) کا اس وقت سر قلم کر دیا گیا جب وہ اسکول سے اپنے گھر جا رہا تھا۔ مسلم طلبہ نے شکایت کی تھی کہ سموئیل نے شاگردوں کو آزادی اظہار رائے کا سبق دیتے ہوئے کلاس میں نبی محترم صلعم کے توہین آمیز خاکے دکھائے تھے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق اس استاد کو ایک 18 سالہ شیشانی نوجوان عبداللہ انذروف نے قتل کیا جسے پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
اس واقعہ سے صدر میکروں مزید مشتعل ہوگئے اور مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں تیز کردی گئیں۔ صرف اسی دن تین بڑی مساجد کو مقفل کردیا گیا۔چارلی ہیبڈو نے نئے خاکے شائع کیے اور بڑی بڑی عمارات پر پروجیکٹر کے ذریعے خاکے دکھانے کے ساتھ انہیں پوسٹر کی شکل میں شائع کر کے دیواروں پر چسپاں کیا گیا۔ دوسری طرف وزیر داخلہ جیرالڈ درمانین نے خاکوں کے خلاف پرامن احتجاج کو غیر قانونی قرار دے دیا حتیٰ کہ سوشل میڈیا پر بھی اس ضمن میں ’منفی‘ تبصرہ قابل دست اندازی پولیس قرار پایا۔ پیرس کے مضافاتی علاقے کی ایک مسجد کے امام کو گرفتار کیا گیا جنہوں نے سوشل میڈیا پر حکومتی اقدامات پر تنقید کی تھی۔ فیس بک اور ٹویٹر پر I LOVE MOHAMMAD PBUHکے اسٹکر پوسٹ کرنے والے سو سے زیادہ مسلمان گرفتار ہو چکے ہیں۔ پیرس کی مسجدِ قبا پر 75 ہزار یورو کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے کیونکہ اس کے امام کے ویزے کی مدت ختم ہو چکی تھی۔ دلچسپ بات کہ امام صاحب کے ویزے کی توسیع کی درخواست منظور ہو چکی ہے تاہم ویزا جاری نہیں ہوا تھا۔ ضابطے کے تحت اگر توسیع کی درخواست مسترد ہو جائے تب بھی اسکے خلاف اپیل نمٹنے تک وہ شخص قانونی طور پر فرانس میں رہنے کا مجاز ہے۔
مسلم رفاہی تنظیموں کا مسلسل تعاقب کیا جا رہا ہے۔ 50کے قریب تنظیموں کو تحقیقات مکمل ہونے تک معطل کردیا گیا۔ فرانسیسی مسلمانوں کی سب سے بڑی فلاحی (Charity) تنظیم برکہ Barakacity کو تحلیل کر دیا گیا ہے۔ برکہ افریقہ کے 26 ممالک میں ذیلی رفاہی ادارے چلا رہا تھا۔ تنظیم کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ ایمانوئیل میکروں اپنے تکبر کو لگنے والی ضرب کا بدلہ برکہ کے پروگرام سے مستفید ہونے والے یتیم و نادار بچوں سے لے رہے ہیں۔
فرانس کے اس اسلام مخالف طرز عمل کا ساری دنیا میں شدید ردعمل ہوا۔ مسلم ممالک کے ساتھ ہندوستان، جاپان، امریکہ، مغربی یورپ اور دنیا کے دوسرے خطوں میں شدید احتجاج ہوا۔ ترک صدر نے اپنے فرانسیسی ہم منصب کو دماغی معائنہ کرانے کا مشورہ دیا جسے فرانس نے قومی توہین قرار دیتے ہوئے انقرہ سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔کویت، قطر، اردن، لبنان، ترکی اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ شروع ہوا۔ فرانسیسی حکومت کا اس پر شدید رد عمل سامنے آیا اور پیرس نے پاکستان اور ترکی کو فرانس کے اندرونی میں معاملے میں مداخلت سے باز رہنے کادھمکی آمیز مشورہ دیا لیکن دوسری جانب وزارت خارجہ نے تمام مسلم ممالک کو فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ ختم کرنے کی استدعا پر مشتمل ایک سفارتی چٹھی بھی بھیج دی ۔
کورونا وائرس کی وجہ سے فرانس کی معیشت بدترین کساد بازاری کا شکار ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے یورپی ممالک کو اس نامراد وبائی مرض کے دوسرے حملے کا سامنا ہے۔ جرمنی، فرانس، برطانیہ اور بیلجیم میں دو نومبر سے ایک مہینے کا سخت لاک ڈاون نافذ کر دیا گیا۔ اس پس منظر میں فرانسیسی معیشت مسلم دنیا کے بائیکاٹ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
دوسری طرف حراست و گرفتاری اور جاسوسی کے باجود تشدد کی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ 29اکتوبر کو ایک 21 سالہ تیونسی نوجوان ابراہیم العیساوی مبینہ طور پر جنوبی مشرقی فرانس کے ساحلی شہر نیس Nice کے ایک کیتھولک گرجا میں گھس گیا اور چھریوں کے وار سے دو خواتین سمیت 3 افراد کو ہلاک کر دیا۔ ان تینوں افراد کی گردنوں کو نشانہ بنایا گیا۔ پولیس فائرنگ سے ابراہیم زخمی ہوگیا۔ اسے بارہ گولیاں لگی ہیں اور اسکی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔
اس کے دو دن بعد 31اکتوبر کو وسط مشرقی فرانس کے شہر لائن Lyon میں نامعلوم فرد کی فائرنگ سے قدامت پسند یونانی کلیسا Greek Orthodox Church کے پادری نکولس کاکا ویلاکس Nikolaos Kakavelakis شدید زخمی ہوگئے۔ یونانی شہریت کے حامل پادری صاحب عبادت کے بعد گرجا کا مرکزی دروازہ مقفل کر رہے تھے جب انہیں نشانہ بنایا گیا۔ حملہ آور موقع واردات سے فرار ہو گیا جسکی شناخت اور محرکات کے بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔ ان دونوں واقعات کی مسلمانوں نے شدید مذمت کی اور ترک صدر نے فون کرکے یونانی وزیر اعظم سے پادری کے زخمی ہونے پر گہری ہمدردی کا اظہار کیا۔ فرانس سرکار کی امتیازی پالیسی اور ملک میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر مسلمانوں کے ساتھ عالمی رہنماؤں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی تشویش ہے۔
اقوام متحدہ کے نمائندہ برائے تہذیبی اتحاد UNHRAC جناب میگوئیل اینجل موراتینو نے تہذیبوں کے درمیان ہم آہنگی اور امن کی کوششوں کو فروغ دینے کے لیے تمام مذاہب اور عقائد کے احترام پر زور دیا ہے۔ چارلی ہیبڈو میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد سے تشدد اور عدم برداشت کی لہر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مقدس ہستیوں اور مذہبی علامات و نشانیوں کی توہین سے معاشرے میں نفرت اور کشیدگی پیدا ہونا فطری ہے۔ جناب موراتینو نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی کو استعمال کرتے ہوئے تمام مذاہب و عقائد کا احترام ضروری ہے۔ 69 سالہ موراتینو کا تعلق ہسپانیہ سے ہے۔ موصوف اسپین کی سوشلسٹ پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیر ہیں۔ میگوئیل اینجل موراتینو نے کہا کہ تشدد کی وارداتوں اور دہشت گردی کو کسی خاص مذہب، قومیت یا لسانی اکائی سے جوڑنا قرین از انصاف نہیں۔
کینیڈا کے وز یراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی فرانس میں تشدد کی بڑھتی ہوئی لہر پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ دارالحکومت اٹاوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کینیڈین وزیر اعظم نے کہا کہ ہم آزادیِ اظہار رائے کے پرجوش حامی ہیں لیکن اس کی ایک حد ہونی چاہیے۔ اس ضمن میں دوسروں کے جذبات کا احترام لازمی ہے تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو اور ایسی کوئی بات نہیں کہنی چاہیے جس سے ہمارے ساتھ رہنے والوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔ مسلمانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خاص طور پر ایسے افراد جنہیں معاشرے میں بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ کینیڈین وزیر اعظم نے کہا کہ ہیجان پھیلانے کی کسی بھی مہذب معاشرے میں اجازت نہیں سینما ہال اور سماعت گاہوں میں چیخ کر آگ آگ کہنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔
صدر میکروں کے حالیہ انٹرویو میں مسلمانوں کے حوالے سے ان کے رویے میں جو لچک نظر آرہی ہے، مبصرین کے خیال میں اسکی وجہ بائیکاٹ سے جنم لینے والا معاشی دباؤ، ملک میں تشد کا بڑھتا ہوا رجحان، انسانی حقوق کی تنظیموں اور متوازن طبیعت کے عالمی رہنماؤں کا رد عمل اور سب سے بڑھ کر ملک کی اندرونی سیاست ہے۔ صدر میکروں اپنے انتخابی وعدوں کی تکمیل میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ معاشی بحران اور بیروزگاری سے ان کی مقبولیت تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ اس صورتحال سے میرین لاپین کی الٹرا رائٹ نیشنل فرنٹ بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔ رائے عامہ کے کچھ جائزوں کے مطابق میری لاپین اسوقت صدر میکروں سے زیادہ مقبول ہیں۔ مسلم دشمن پالیسی میرین لاپین کی شناخت ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ میری لاپین کے ووٹ بینک میں نقب لگانے کے لیے جناب میکروں دائیں بازو کے قوم پرستوں کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ سیکیولرازم کے ذریعے وہ اسلام کی بیخ کنی بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔ لیکن سیکولرازم کو آمریت کی شکل میں پیش کرنے کے بھونڈے انداز نے کام خراب کر دیا اور ملک کا معتدل طبقہ جو جناب میکروں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، فرانسیسی صدر کے بارے میں اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار ہو رہا ہے۔ ان کے قریبی رفقا کے لیے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ آزاد خیال سیکولر میکروں انتہا پسند قوم پرستوں کے مقابلے کے لیے انہیں کے متعصبانہ منشورے کو آگے بڑھا رہا ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو معقولیت کی جانب اٹھنے والا ہر قدم حوصلہ افزائی کا مستحق ہے۔
(مسعود ابدالی معروف کالم نویس ہیں جو مشرق وسطیٰ ، مسلم دنیا اور عالمی سیاست پر لکھتے رہے ہیں)
[email protected]

فرانس کے اس اسلام مخالف طرز عمل کا ساری دنیا میں شدید ردعمل ہوا۔ مسلم ممالک کے ساتھ ہندوستان، جاپان، امریکہ، مغربی یورپ اور دنیا کے دوسرے خطوں میں شدید احتجاج ہوا۔ ترک صدر نے اپنے فرانسیسی ہم منصب کو دماغی معائنہ کرانے کا مشورہ دیا جسے فرانس نے قومی توہین قرار دیتے ہوئے انقرہ سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔کویت، قطر، اردن، لبنان، ترکی اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ شروع ہوا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 تا 14 نومبر، 2020