امن معاہدہ ،طالبان کی بڑی فتح
امریکہ آ خر کیوں ہوا مفاہمت پر مجبور؟۔ 19سالہ افغان جنگ کے خاتمہ کی اُمید
ڈاکٹر عبد الحمید اطہر ندوی
قطر کے دار الحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان۲۹ فروری ۲۰۲۰ کو ایک معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اب سوال یہ ہے کہ امریکہ کو اس معاہدے کی کیا ضرورت پیش آئی جب کہ طالبان امریکہ کی نگاہوں میں سب سے بڑے دہشت گرد تھے، اور اب کیوں ان کو دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دیا گیا؟ یہ معاہدہ کن نکات پر مشتمل ہے اور اس سے امریکہ کو کیا فائدہ حاصل ہوگا اور افغانستان کو کیا فائدہ ہوگا؟ طالبان کو کیا فائدہ ہوگا؟ اور دنیا کو اس معاہدے کے نتیجے میں کن فوائد کے حاصل ہونے کی امید ہے؟
۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کا واقعہ اور افغانستان پر زبردستی تھوپی ہوئی جنگ
ان تمام سوالوں کے جوابات سے واقف ہونے کے لیے ہمیں سب سے پہلے طالبان کے خلاف امریکہ کی طرف سے لادی ہوئی جنگ کی تفصیلات سے واقف ہونا ضروری ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعے سے واقف ہے، ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء جیسا کوئی دن تاریخ میں نہیں ملتا۔ اس دن تاریخ ماقبل ۱۱ستمبر اور مابعد ۱۱ستمبرمیں تقسیم ہوگئی۔ گویا یہی دن تیسری صدی کی ابتدا ہے۔
ہوائی جہاز کے فدائی حملوں سے امریکہ یکایک اپنے علاقے اور مرکز سے نکل کر ایشیا کے بیچوں بیچ چین اور روس کی سرحدوں تک پہنچ گیا۔
اسی دن گلوبلائزیشن اور اس کے عظیم وسائل کا رمز عالمی تجارتی مرکز کے دونوں برج گرگئے اور قوت وجبروت کی نشانی پنٹاگون کی عمارت کا ایک حصہ مسمار ہوگیا۔
بعد کے واقعات اور دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کو اس واقعے کا انتظار تھا، صرف طاقت میں اپنی انفرادیت کو ثابت کرنے کے لیے ہی نہیں بلکہ اپنی خارجی پالیسیوں کے بارے میں سوالات کرنے سے دوسروں کو منع کرنے اور اپنے نقطۂ نظر کو دنیا پر نافذ کرنے کے لیے بھی۔
مولانا نذر الحفیظ صاحب ندوی نے ’’۱۱ ستمبر کے بعد‘‘ (تالیف:مصطفی محمد طحان) کی کتاب کے ترجمے پر مقدمہ تحریر کرتے ہوئے اس واقعے کی حقیقت کو بیان کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:’’نائن الیون کے واقعے کو بجز امریکی حکومت اور یہودی لابی کے پوری دنیا نے تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ قرار دیا، ایسا فراڈ جس کو بہانہ بنا کر پوری دنیا کے مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا، گزشتہ سال جب ۱۱ستمبر کو ڈرامہ کی یاد منائی جارہی تھی تو امریکہ کے پچیس دانشوروں نے اعلان کیا کہ ہماری غیر جانبدارانہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس ڈرامہ کو امریکی حکومت اور اس کے کرتا دھرتاؤں نے انجام دیا ہے، اس بیان کو امریکی اخباروں نے شائع نہیں کیا، بلکہ لندنی روزنامہ’’آبزور‘‘ نے شائع کیا، اس بیان کو شائع کرنے کے جرم میں امریکی حکومت نے متعدد پروفیسروں کو ان تعلیمی اداروں سے نکال دیا جہاں وہ کام کرتے تھے۔ جب سے یہ ڈرامہ پیش آیا، اس کے بعد ہی سے اس کے بارے میں شکوک وشبہات ظاہر کیے جا رہے تھے کہ اس کے پسِ منظر میں بہت سے اسباب ہیں، اخیر کو بلی تھیلے سے باہر آگئی، لیکن اس ڈرامے کا پروپیگنڈہ اب بھی حسبِ سابق جاری ہے، اور اس کے مفروضہ مجرموں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ یہودی میڈیا کی ہاں میں ہاں ملارہے ہیں، اور بدستور تمام مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اسپین وبرطانیہ اور پاکستان وہندوستان اور نہ جانے کتنے ممالک ہیں، جہاں کی حکومتیں مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے نائن الیون ہی کے طرز پر ڈرامہ اسٹیج کر کے معصوم لوگوں کی جانیں لے رہی ہیں‘‘۔
طالبان کی حکومت پر حملے کی وجوہات
’’افغانستان میں طالبان کی حکومت پر حملے کا مقصد صرف یہ نہیں تھا کہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا جائے۔ ’’لیبرایشین‘‘ نے تجزیہ کیا ہے کہ یہ بہت بڑی بیوقوفی ہوگی کہ ہم اس بات کو مان لیں کہ امریکہ صرف بن لادن کو گرفتار کرنے کے لیے افغانی جنگ کے تمام اخراجات اور مصارف برداشت کر رہا ہے، حالانکہ اب تک اسامہ کے خلاف ۱۱/ ستمبرکے حملوں کے بارے میں پیش کردہ دلائل ثابت نہیں ہوئے ہیں، بلکہ اس کے پیچھے دوسرے بڑے منافع کی تکمیل کا مقصد بھی کار فرما ہے۔
اس پرچے نے آگے لکھا ہے کہ امریکی سوچ پٹرول کے پیچھے چلتی ہے۔ صدر جارج بش کو ریاست ٹکساس میں اپنی موجودگی کے زمانے ہی سے پٹرول کے میدان میں وسیع تجربات حاصل ہیں۔ نائب صدر ڈک چینی پٹرول کی عالمی کمپنیوں میں سب سے اہم کمپنی ہالیبورٹن کے ڈائریکٹر تھے۔ اسی طرح کونڈلیزارائس بھی شیفرون پٹرول کمپنی کی انتظامی مشیر تھی۔ اسی طرح بش حکومت کے بنیادی اراکین وسطی ایشیاء میں امریکہ کی موجودگی کی اسٹریٹیجک اہمیت سے پوری طرح واقف ہیں اور پٹرول کے تینوں ماہرین کے نقطۂ نظر سے یہ تمام مقاصد افغانستان میں حلیف حکومت کے بغیرحاصل ہو ہی نہیں سکتے تھے‘‘ (۱۱ستمبر کے بعد ص۵۲)
امریکہ کو اس جنگ میں حاصل ہونے والے نقصانات
عرب پوسٹ نے ۱۰ڈسمبر۲۰۱۹ کے نشریے میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ جنگِ افغانستان سے متعلق خفیہ دستاویزات سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ یہاں امریکی مہم بد ترین شکست سے دوچار ہوئی ہے، جس کی وجہ سے امریکی فوج اور حلیف ممالک کی فوجوں کے مقتولین میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ جب کہ دو دہائیاں گزرنے کے باوجود دسیوں ہزار شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق جنگ کے دوران دو ہزار تین سو سے زیادہ امریکی فوجی قتل ہوئے ہیں اور ناٹو اور حلیفوں کی گیارہ سو پینتالیس فوجی مارے گئے ہیں، جب کہ اس وقت تیرہ ہزار امریکی فوجی افغانستان میں ہیں (جب کہ یہ تعداد بھی صحیح ہونا ضروری نہیں ہے، کیوں کہ امریکی حکومت عام طور پر ان ہی فوجیوں کے قتل کو شمار کرتی ہے جن کے اہل وعیال ہوتے ہیں۔ جب کہ امریکی فوج میں زیادہ تر تعداد ان فوجیوں کی ہے جن کے والدین نا معلوم ہیں۔ امریکی حکومت ان کو اپنی نگرانی میں لیتی ہے اور بطور فوجی تیار کرتی ہے، اور ان ہی فوجیوں کو زیادہ تر افغانستان جیسی خون ریز جنگوں میں بھیجا جاتا۔ لہذا ان کے قتل کی خبر دینا ضروری نہیں سمجھا جاتا)۔
یہ تعداد صرف فوجیوں کی ہے، جب کہ دیگر شعبوں میں کام کرنے والوں میں بھی بڑی تعداد قتل ہوئی ہے، اس دوران ہلاک ہونے والی افغانی فوجیوں کی تعداد چونسٹھ ہزار ایک سو چوبیس بتائی گئی ہے۔
بی بی سی عربی نے ۲۹ اگسٹ ۲۰۱۹ کے اپنے نشریے میں امریکی وزارتِ دفاع سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکہ اکتوبر ۲۰۰۱ سے مارچ ۲۰۱۹ تک افغانستان میں اپنی فوجی کارروائیوں پر ۷۶۰ ۔ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ لیکن براؤن یونیورسٹی کی تحقیق میں اس کا اندازہ ایک ٹریلین (ایک ہزار ارب) ڈالر لگایا گیا ہے۔ اسی رپورٹ میں بی بی سی نے لکھا ہے کہ اس دوران تین ہزار دو سو امریکی فوجی مارے گئے اور بیس ہزار پانچ سو زخمی ہوئے۔ جب کہ افغانی صدر نے کہا ہے کہ ۲۰۱۴ سے جب سے انھوں نے صدارتی منصب سنبھالا ہے پینتالیس ہزار افغانی فوجی قتل کیے گئے ہیں۔
یہ نقصان کوئی معمولی نقصان نہیں ہے، اس کا اثر امریکی معیشت پر بھی پڑا ہے اور امریکہ کو اس جنگ سے جو فائدے حاصل ہونے کی توقع تھی وہ توقع بھی پوری نہیں ہوئی ہے، کیوں کہ طالبان خود امریکی رپورٹوں کے مطابق پچاس فیصد سے زائد افغانستان پر قابض ہیں، اور معاہدے سے پہلے تک روزانہ طالبان کی طرف سے امریکی فوجیوں کو نقصان برداشت کرنا پڑ رہا تھا۔ جب کہ افغانستان کے حالات سے باخبر بہت سے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ طالبان اسّی فیصد سے زائد علاقوں پر قابض ہیں۔ اگر امریکہ اس جنگ کو جاری رکھتا ہے تو اس کی معیشت اور زیادہ تباہی کا شکار ہوسکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکہ ۲۰۱۸ سے کوشش کر رہا ہے کہ طالبان کے ساتھ معاہدہ ہو تاکہ اسے افغانستان میں مزید جنگ کو جاری رکھنے کی مصیبت سے چھٹکارا حاصل ہو۔
بی بی سی عربی نے ۱۵ فروری ۲۰۲۰ کے نشریے میں امریکی دفاعی خبروں کے ماہر ٹونی کورڈسمان کی بات نقل کی ہے کہ امریکہ کی یہ کوششیں اسی طرح کی ہیں جیسے ویت نام جنگ میں کی گئی تھیں کہ امریکی فوجوں کے انخلا کو سیاسی جواز فراہم کیا جائے۔
۲۰۱۲ سے امریکہ اور طالبان کے درمیان مختلف ملکوں سعودی عرب، امارات، پاکستان اور روس میں جنگ بندی کے لیے خفیہ مذاکرات چل رہے تھے، لیکن ۲۰۱۸ سے قطر میں مذاکرات شروع ہوئے اور اس کے مثبت نتائج ۲۹ فروری ۲۰۲۰ کو سامنے آئے۔
معاہدے کے نکات
امریکہ کی جانب سے زلمے خلیل زادہ جب کہ طالبان کی طرف سے ملا عبدالغنی برادر نے دستخط کیے۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے پر دستخط کی تقریب دوحہ کے شیریٹن ہوٹل میں ہوئی جہاں 30 ممالک کے وزرا، نمائندے اور یورپی یونین کے ارکان موجود تھے۔
معاہدے کے مطابق امریکہ اور طالبان افغان فریقین کے مابین مذاکرات سے پہلے ہزاروں قیدیوں کا تبادلہ کریں گے۔ افغان فریقین کے مابین امن مذاکرات کا آغاز 10 مارچ سے ہوگا۔
یہ معاہدہ چار حصوں پر مشتمل ہے۔۔ جس کے مطابق امریکہ چودہ ماہ کے اندر امریکی اور اتحادی فوج افغانستان سے نکال لے گا۔ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا مکمل انخلا مشروط ہوگا کہ طالبان امن معاہدے کے نکات پر عمل کریں اور دہشت گردی روکیں۔ امریکا افغانستان اور اُس کی سیاسی ازادی پر اثرانداز نہیں ہوگا۔
معاہدے کے تحت یہ ضمانت دی گئی ہے کہ افغانستان میں ایک ایسا مکینزم لایا جائے گا جس کے تحت افغانستان کی سرزمین کسی بھی گروہ کی جانب سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔
اس معاہدے کے تحت ضمانت دی گئی ہے کہ تمام غیر ملکی افواج ایک طے شدہ مدت میں افغانستان سے نکل جائیں گی۔
افغان حکام پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کریں گے اور امریکا اور طالبان کے درمیان بھی قیدیوں کا تبادلہ ہوگا۔ اسی طرح تمام طالبان رہنماؤں کو بلیک لسٹ سے الگ کیا جائے گا۔
معاہدے میں واضح کیا گیا ہے کہ امریکہ امارت اسلامی افغانستان کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتا بلکہ انہیں طالبان کے نام سے ہی پکارتا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ چاروں نکات ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں اور پہلے دو نکات پر عمل سے ہی اگلے دو نکات پر عمل کا راستہ ہموار ہو گا۔
تقریب سے خطاب میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپو کا کہنا تھا کہ امریکا اور افغان طالبان کئی دہائیوں سے جاری جنگ کو ختم کر رہے ہیں، اب افغانستان میں امن کا قیام ہوگا۔ جس سے افغانستان دوبارہ دہشت گردی کا گڑھ نہیں بن سکے گا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سات دنوں کے دوران افغانستان میں پر تشدد واقعات میں کمی دیکھی گئی ہے’اگر ایک ہفتے میں امن برقرار رکھنے کے لیے کوششیں کی جا سکتی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ سب امن چاہتے ہیں۔‘
افغان طالبان کے نمائندے ملا عبدالغنی برادر نے معاہدے کو افغانستان میں پائیدار امن کی جانب ایک پیش رفت قرار دیا۔۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں مضبوط اسلامی نظام کے قیام کے لیے مذاکرات ہوں گے۔
عالمی برادی کی جانب سے افغان طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدے کو سراہا گیا۔
آخری بات
بہت سے لوگ اس معاہدے پر دستخط کے دن کو تاریخی دن قرار رہے ہیں، کیوں کہ اس کا اثر صرف افغانستان پر ہی نہیں پڑے گا بلکہ پوری دنیا پر اس معاہدے کا اثر ہونے والا ہے۔ کچھ تجزیہ نگار اس معاہدے کو طالبان کی بڑی فتح تصور کر رہے ہیں، لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کیوں کہ معاہدے کے نکات سے معلوم ہوتا ہے کہ مستقل امن معاہدے کی یہ ابتدائی شکل ہے، ابھی بہت سے امور طے ہونا باقی ہیں، البتہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ امریکہ کی طرف سے طالبان کے ساتھ اس طرح کا معاہدہ امریکہ کی شکست سے کم نہیں ہے۔
اللہ تعالی جنگوں سے بدحال افغانستان میں امن و امان کو بحال فرمائے اور بہترین حکومت نصیب فرمائے اور اس معاہدے کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو خیر نصیب ہو۔ آمین