امریکہ کے علاوہ بھی دیگر علاقوں کے عوام کے جذبات ہوتے ہیں
فیس بک پر میانمار فوج کے صفحات پر پابندی کا مطالبہ
پہلے تو سوشل میڈیا کو اظہار رائے کی آزادی کا مضبوط پلیٹ فارم گردانا گیا تھا پھر رفتہ رفتہ اسے ہر قسم کے نظریات کے موافق اور مخالف تشہیر کا موثر ذریعہ بتایا گیا۔ اس بات سے سب ہی واقف ہیں کہ فیس بک اور ٹویٹر کی جانب سے ڈونالڈ ٹرمپ پر ہمیشہ کے لیے پابندی عائد کر دی گئی ہے کیونکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی متنازعہ پوسٹوں کی وجہ سے امریکی عوام کے وقار اور جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ اس ایک واقعہ کے علاوہ فیس بک اور ٹویٹر پر ایسی سینکڑوں پوسٹس اب بھی موجود ہیں جن میں اظہارِ خیال کی آزادی کے نام پر نسلی امتیاز سے لے کر مذہبی منافرت کی اتنی تشہیر کی گئی کہ وہ پرتشدد واقعات میں تبدیل ہوگئیں لیکن فیس بک نے کبھی انہیں ہٹانے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ اس کے علاوہ فیس بک منفعت پر مبنی تجارتی پلیٹ فارم بھی مہیا کرتا ہے جس سے فیس بک اور صارف دونوں نفع حاصل کرتے ہیں۔ صارفین اس سہولت سے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے کبھی کبھی حد سے تجاوز اختیار کرنے لگتے ہیں جس کے لیے وقتا فوقتاً شدید اعتراضات اٹھائے جانے لگے ہیں۔کیونکہ امریکہ کے علاوہ بھی دیگر علاقوں کے عوام کے جذبات ہوتے ہیں اور ان کا تحفظ بھی معنی رکھتا ہے۔لندن میں روہنگیا مسلمانوں کے دفاع کے لیے قائم کی گئی ایک تنظیم نے اس ہفتے فیس بک کو خط لکھ بتایا ہے کہ میانمار کی فوج نئی بھرتیوں کے لیے فیس بک پلیٹ فارم کو استعمال کررہی ہے۔اسی لیے فیس بک اپنی سائٹ پر میانمار کی فوج کے اس کاروبار کے فروغ کو روک دے۔ کیونکہ یہ منفعت میانمار کی فوج کو انسانیت کے خلاف جنگی جرائم اور روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے مالی امداد فراہم کرنے میں مدد کررہی ہے۔
برما کیمپین یو کے نامی تنظیم کے ڈائریکٹر مارک فارمنر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ڈونلڈ ٹرمپ کے سوشل میڈیا اکاونٹس کو تشدد بھڑکانے کے الزام میں معطل کیا گیا ہے لیکن برمی فوج ہر دن عام شہریوں کے خلاف تشدد کا ارتکاب کرتی ہے اور اس تشدد کے ارتکاب کے لئے فوجیوں کی بھرتی کے لئے فیس بک کو استعمال کرنے میں آزاد ہے“ انہوں نے مزید کہا ”فوجی ملکیت والی کمپنیوں کو فیس بک پر فوجی مصنوعات کی تشہیر کرنے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت ہے لیکن یہ منافع فوج کو وہ فنڈ فراہم کر رہا ہے جس سے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی سمیت کئی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کے لئے مالی اعانت فراہم کرنے میں معاون ثابت ہو رہا ہے‘‘۔برما کیمپین یو کے کے ترجمان کے مطابق اگرچہ فیس بک نے میانمار فوج کے سربراہ من آنگ ہیلنگ سمیت کچھ اور فوجی صفحات کو حذف کردیا ہے تاہم، ابھی بھی متعدد فوجی فیس بک پیج موجود ہیں جن میں کچھ صفحات باضابطہ نیلے رنگ کے نشان کے ساتھ شامل ہیں۔ روہنگیا حقوق کے دفاعی گروپ نے فیس بک سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ اس کے صفحات کو فوج کی بھرتی کے لئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔مارک فارمنر نے مزید کہا’’ایسا لگتا ہے کہ فیس بک کے دوہرے معیار ہیں۔ اگر آپ امریکہ میں تشدد کو ہوا دیتے ہیں تو آپ پر فیس بک سے پابندی عائد کردی جاتی ہے لیکن اگر آپ برما میں عوامی تشدد کے لیے انسانی بھرتی کرتے ہیں تب آپ کو باضابطہ فیس بک سے بلیو ٹِک مل جاتا ہے‘‘۔
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 24 جنوری تا 30 جنوری 2021