امریکہ سے بھارت تک ظلم کی ایک ہی کہانی
عبدالباری مومن
امریکہ میں میں جارج فلائیڈ کی ظالمانہ موت کے بعد اٹھنے والے ہنگاموں کا مطلب صرف ایک شخص کے ساتھ ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانا ہی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ایسے مظلوم طبقہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار ہے جس کے خلاف امریکی سماج میں صدیوں سے نسلی تعصب برتا جارہا ہے۔ آج کے اس لبرل اور جمہوری دور میں بھی اس میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ یہ احتجاج اسی سماجی انسٹی ٹیوشن کے خلاف ناراضگی کا ایک نمونہ ہے۔ یہ احتجاج امریکہ میں دو قوموں کے مابین حکومتی، سیاسی، یہاں تک کہ عدلیہ کی سطح پر تفریق روا رکھنے کے عمل کے خلاف ایک زبردست آواز ہے۔ عوام بلا تفریق مذہب و ملت اور بلا تفریق رنگ و نسل اس ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ کوئی بھی آزاد اور جمہوری معاشرہ اس ناانصافی کے تحت نہیں چلنا چاہیے۔ یہ تفریق جمہوریت پر حملے کے مترادف ہے۔
کیا آج ہمارے بھارت میں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال نہیں ہے؟ مارچ 2020 میں اچانک لاک ڈاؤن کے اعلان کے ساتھ ہی وہ لاکھوں غریب مزدور جو اپنے آبائی مقامات کو چھوڑ کر دور دراز کے شہروں میں معاش کی جدوجہد کر رہے تھے، یکایک بے یار ومددگار ہو گئے کیوں کہ اب نہ صرف ان کا روزگار ختم ہو گیا تھا بلکہ بسیں اور ٹرینیں بند ہونے کی وجہ سے وطن واپسی کے راستے بھی مسدود ہو گئے تھے جس کی وجہ سے یہ غریب مزدور (جنہیں مہاجرین کہا جاتا ہے) پیدل ہی اپنے گھروں کو جانے کے لیے مجبور ہو گئے تھے۔ انہوں نے کسی پابندی کی پروا نہیں کی کیوں کہ انہیں اپنے سروں پر فاقہ کشی اور موت منڈلاتی نظر آرہی تھی۔ جن تکالیف اور مصیبتوں سے وہ گزر رہے تھے ہمارا میڈیا انہیں مسلسل دکھا رہا تھا لیکن ایک مہینے تک بھی عدالت کے کانوں پر جوں نہیں رینگی۔ حکومت بھی بے حس بنی رہی۔ بلکہ عدالت نے تو اس کی شنوائی پر بھی کوئی توجہ نہیں دی اور الٹا حکومت کو کلین چٹ دے دی۔ دوسری طرف یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اس انسانی آفت پر کوئی عوامی احتجاج بھی نہیں ہوا۔ غریب مہاجر سڑکوں پر خاموشی کے ساتھ مصیبتیں سہتے رہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ حادثوں کا شکار ہوگئے۔ لیکن ہمارے جمہوری نظام نے عوام کو ان غریبوں کے لیے کسی قسم کا مطالبہ کرنے کا حوصلہ نہیں دیا۔ یہ بات صرف ان مزدوروں کے تعلق سے ہی صحیح نہیں بلکہ دیگر اقلیتی طبقات خصوصاً مسلمان بھی اس ملک میں ایک عرصے سے ظلم سہتے آئے ہیں۔ ان کے حالات پر بھی کبھی عوامی احتجاج ہوتا نظر نہیں آیا۔ اس ملک میں خواتین، غریب دیہاتی، دلت، آدیواسی طبقات بھی انسانیت سوز مظالم کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ ان کی حمایت میں کبھی بھی عوامی سطح پر کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ بھارت جیسے جمہوری ملک میں آبادی کا ایک بڑا طبقہ ظلم و ستم، تشدد اور تعصب کا شکار ہوتا رہے اور وہ حکومت کا تابع دار بھی بنا رہے۔ کیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں اس ظلم و ستم کو برداشت کرتے رہنے کی حقیقت کی جانچ پڑتال کی ضرورت نہیں ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اس مسئلے کی جڑیں ہمارے تصوّرِ جمہوریت میں پوشیدہ ہیں، یا پھر ہندوستان کی قدیم تاریخ میں، یا آج کے حالات میں؟
ہمارا جمہوری مزاج تضادات سے بھرا ہوا ہے۔ ہمارے یہاں بھی عوام کے نام پر احتجاجات ہوتے ہیں لیکن ان میں عوام کی تعریف کو محدود کر دیا جاتا ہے۔ عوام کے ایک محدود طبقے کے مفادات کو عوامی مفادات قرار دیا جاتا ہے۔ کیا اس سے شہریوں کے درمیان تفریق پیدا نہیں ہوتی؟ ایک مخصوص طبقہ کے ذریعے اٹھائی جانے والی آواز کو عوامی آواز قرار دیا جاتا ہے اور اس نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو ملک مخالف یا غدار قرار دیا جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر جہالت اور کیا ہو سکتی ہے؟ جمہوریت میں افراد کو پر امن طریقے سے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا حق حاصل ہوتا ہے لیکن جب بھی یہ کمزور طبقات اپنی آواز اٹھاتے ہیں تو انہیں قانون کا غلط استعمال کرکے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ آخر عمل اور نظریات کے درمیان یہ فاصلہ کیوں ہے۔ جس بات کو نظریاتی طور پر درست قرار دیا جاتا ہے عملی زندگی میں اس کے خلاف کیوں عمل ہوتا ہے؟ نظریات کو عملاً نافذ کرنے کے لیے عوامی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سمجھنا کہ صرف جمہوری حقوق کی زبانی تکرار ہی حقیقت کا روپ دھارنے کے لیے کافی ہے ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں۔
حکومت عوامی احتجاجات کو یا تو نظر انداز کر دیتی ہے یا پھر ان کو دبانے کے لیے تشدد کا سہا را لیتی ہے۔ یہ سختی امن و امان کے نفاذ کے نام پر کی جاتی ہے۔ کیا حکومت یہ سمجھتی ہے کہ عام لوگوں کو براہ راست حکومت کے خلاف آواز نہیں اٹھانی چاہیے، بلکہ انہیں اپنے سیاسی لیڈروں پر انحصار کرنا چاہیے؟ یعنی عوام کو ہر صورت میں صرف اپنے سیاسی لیڈروں کا محکوم ہونا چاہیے۔ جب تک یہ سیاسی لیڈر اپنی آواز بلند نہ کریں عوام کو اپنے طور سے کوئی بات حکومت کے سامنے پیش نہیں کرنی چاہیے۔ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اس کا ہر فعل عوام کے مفاد میں ہوتا ہے۔ عوام بذات خود اپنے بھلے برے کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ حکومت اپنے آپ کو اور برسر اقتدار سیاسی لیڈروں کو عوام کے مفادات کا علم بردار اور محافظ سمجھتی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ وہ عوام کی مائی باپ ہے اس لیے وہ عوام کو سخت گیر والدین کی طرح مار پیٹ کر اور اپنی جابرانہ طاقت کے ذریعے نظم و ضبط کا عادی بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کی نظر میں امن و امان کے قیام کے لیے ہر صورت میں بے جا سختی ضروری ہے۔ عوام کے احتجاج کے حق کو قانونی موشگافیوں کے ذریعے داؤ پر لگا دیا جاتا ہے۔ تحریک آزادی کے موقع پر عوامی احتجاجات کو جو اہمیت دی جاتی تھی آج اس کا کہیں نام و نشان نہیں ہے۔ اب جمہوری احتجاج اور تحریر و تقریر کی آزادی کو وطن دشمنی اور غداری قرار دیا جانے لگا ہے۔ احتجاج کرنے والوں کو ملک دشمن اور نظریاتی اور قانونی طور سے بھی ملک اور سماج کے خلاف سمجھا جانے لگا ہے۔ چنانچہ اسی لیے ہمارے ملک میں دھڑلے سے UAPA جیسے ظالمانہ قانون کا استعمال کیا جاتا ہے جب کہ اس قانون کی منظوری ہی محل نظر ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ وہ ہر حال میں عوام سے بلند ہے۔ اس کو خصوصی مرتبہ حاصل ہے۔ وہ عوام کو ہمیشہ شک و شبہ کی نظر سے دیکھتی ہے۔ اس کی نظر میں عوام ہمیشہ گڑبڑ کرنے والے اور سزا کے مستحق ہوتے ہیں۔
جمہوری حقوق کو نظر انداز کرنے اور عوامی احتجاج کو اہمیت نہ دینے بلکہ ہمیشہ تنقیص کی نگاہ سے دیکھنے کا طریقہ ہی ہے جو آج ہمیں اس منزل پر لے آیا ہے کہ عوام یا اس کے کسی طبقے پر ظلم و ستم کے خلاف عوامی احتجاجات نظر نہیں آرہے ہیں۔ آج حکومت پر تنقید کو ملک کے خلاف غداری کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ کمزوروں اور مظلوموں کے حقوق کے لیے اٹھائی جائے والی آواز کو ملک کے خلاف جنگ قرار دیا جاتا ہے۔ سماجی انصاف کا شکار ہونے والے مظلوموں کے ساتھ ہمدردی دکھانے والوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ غیر جمہوری طریقوں کو عوام میں خوف پیدا کرنے کا ہنر سمجھا جانے لگا ہے۔
سلسلہ صفحہ نمبر ۱۶
کیا ہم سال 1975 میں نافذ کی گئی ایمرجنسی کی صورتحال کو بھول سکتے ہیں جب پوری اسٹیٹ مشینری کو عوام پر بے جا سختی کا ذریعہ بنا لیا گیا تھا۔ لیکن آج کا دور اس سے کہیں زیادہ تشویش ناک ہے۔ آج با قاعدہ ایمرجنسی کے بغیر ہی شہریوں کو خاموش کرنے کا پُر تشدد طریقہ اپنایا جا رہا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ آج عوامی احتجاج کے فقدان کی وجہ حکومت کا یہی سخت رویہ ہے؟ یا پھر حکومت نے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جس میں عوام کی تکالیف، عوام کے ساتھ ناانصافی اور ان کی مظلومیت کا سرے سے انکار کیا جاتا ہے۔ عوام کو نہ تو کوئی تکلیف ہے نہ ان کے ساتھ کوئی ناانصافی ہو رہی ہے اور نہ اس ملک میں کسی کے ساتھ کوئی ظلم ہو رہا ہے۔ راوی بس چین ہی چین لکھتا ہے۔ اس طرح حقیقت کو نظروں سے اوجھل رکھنے کی کامیاب کوشش کی جا رہی ہے۔ آج ظلم کے شکار مظلومین کو ہی اصل قصور وار قرار دیا جاتا ہے۔ یہی سب کچھ مسلمانوں کے ساتھ آج ہو رہا ہے۔ مصیبت کے مارے مزدور سڑکوں پر پیدل چل کر جو تکلیفیں جھیل رہے ہیں اسے قربانی کا نام دیا جاتا ہے۔ کمزور طبقات کی خراب صورت حال کو ماضی کی سیاست کا نتیجہ بتا کر اپنے آپ کو اور عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سماج کو دو طبقات میں بانٹ دیا گیا ہے۔ ان میں سے صرف ایک طبقے کو وطن پرست قرار دے دیا گیا ہے چنانچہ اسی طبقے کے اتحاد اور ترقی کی بات ہوتی ہے اسی کی ترقی کو پوری قوم کی ترقی قرار دیا جاتا ہے۔ دوسرے طبقے کو انتشار پسند اور ملک کو بانٹنے والا کہا جاتا ہے۔ اس دوسرے طبقے کی تکالیف کے خلاف اٹھائی جانے والی آواز کو ملک کی ترقی میں رکاوٹ اور کمزور طبقوں کے اتحاد کو ملک مخالف قرار دیا جاتا ہے۔ حکمران طبقے کے زور بیان اور شور وغل کے سامنے انصاف کی پامالی، کمزورطبقات کی تکالیف اور مصیبتیں بے معنی ہو جاتی ہیں۔ ان طبقات کی ترقی کی ذمہ داری سے اس نے اپنا ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ ہم ایک ایسے جمہوری دور سے گزر رہے ہیں جہاں کھلے عام انصاف کی پامالی ہو رہی ہے اور اس کے خلاف آواز اٹھانے پر عوام کو بہ آسانی خاموش کر دیا جاتا ہے۔ یہی مغربی جمہوریت کا تضادات سے بھرپور اصل چہرہ ہے۔ حقائق کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ عوام کی خاموشی سے یہ نتیجہ اخذ کر لیا گیا ہے کہ وہ اس طرح کے حالات کو قبول کر چکے ہیں نیز ان کے اخلاقی رجحان میں بھی تبدیلی آچکی ہے۔ اسی قسم کی جمہوریت کا نتیجہ ہے کہ صدر امریکہ ٹرمپ، جارج فلائیڈ کے قتل کی مذمت نہیں کرتے لیکن اس کے خلاف ہونے والے احتجاجات کی تحقیر ضرور کرتے ہیں۔ وہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ دانستہ نظر انداز کردیتے ہیں کہ اس احتجاج کے پیچھے پوری سیاہ فام قوم کے خلاف مروّجہ نسلی تفریق کا رویہ ہے۔ یہ صرف کسی ایک فرد کے قتل پر کیا جانے والا احتجاج نہیں ہے۔کیا بھارت بھی نسلی تفریق اور کمزوروں کے استحصال کے اسی دور سے گزر رہا ہے؟