الکٹرانک میڈیا:تعمیری ادب کی ترویج کا اہم ذریعہ

ادب وصحافت کی اسلامی، اخلاقی اور روحانی اقدار کو عالمی سطح پر روشناس کروانا ممکن

ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی۔ بھٹکل

آئی ٹی کے ماہر و پیشہ ور نوجوانوں کو توجہ دینے کی ضرورت
اردو زبان ہندوستان کے مشتر کہ قومی کلچرکی پیداوار گنگا جمنی تہذیب کی علامت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علم بردار ہے۔ اردو زبان میں بڑی لچک ہے، یہ ہر دور کے تقاضوں اور ضرورتوں کا ساتھ دیتی رہی ہے۔ آج اردو زبان کو ایک نیا چیلنج درپیش ہے اور وہ ہے الکٹرایک میڈیا میں اس کا زیادہ سے زیادہ اور بہتر سے بہتر استعمال۔ اردو زبان کی عوامی مقبولیت اور اسے عوام رس بنانے میں اس کے ادب وصحافت کا اہم حصہ رہا ہے لہذا اردو صحافت کو خواہ وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الکٹرانک میڈیا، اسے جدید ٹکنالوجی سے مربوط کیا جا رہا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ آج یہ زبان ذرائع ابلاغ سے ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے ہی زندہ ہے۔
برقی ذرائع ابلاغ (Electronic Media) کی ایجاد نے سب سے پہلے ساری دنیا کو ایک عالمی گاؤں (Global Village) میں تبدیل کر دیا اور اب اس عالمی گاؤں میں جمہوریت کے چوتھے ستون ذرائع ابلاغ کی حکمرانی قائم ہے۔ عوامی ذرائع ترسیل خصوصاً انفارمیشن ٹکنالوجی کی بے پناہ ترقی نے تمام عالم انسانیت کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ آج ریڈیو، ٹیلیویژن، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، ای میل، ویب سائٹس، ریڈیو کانفرنسنگ، سیٹلائٹ چینلوں فیکس اور سیلولر فونوں کا دور دورہ ہے۔ دنیا بھر کی معلومات محض انگلی کے ایک اشارے کی محتاج ہیں۔ آج کے معاشرے کو پوری طرح ایک معلوماتی معاشرہ (Information Society) بنانے میں جدید الکٹرانک وسائل کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پوری دنیا ایک چھوٹے سے گاؤں میں نہیں بلکہ موبائل کے ایک چھوٹے سے sim میں سمٹ آئی ہے۔ بقول منور رانا:
اب فاصلوں کی کوئی حقیقت نہیں رہی
دنیا سمٹ کے چھوٹے سے اک سم میں آگئی
الکٹرانک میڈیا میں اردو کے استعمال پر جب ہم ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہیں تو سب سے پہلے ریڈیو کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے جس کا آغاز تقریبا ایک صدی قبل ہوا تھا۔ پھر جیسے جیسے ٹکنالوجی نے ترقی کی اسی مناسبت سے ریڈیو کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ ریڈیو پر ہر دور میں ادبی تعلیمی اور تفریحی پروگرام اردو زبان میں بھی نشر ہوتے رہے۔ ریڈیو کے تقریبا تمام مراکز سے اردو میں خبریں، حالات حاضرہ پر تبصرے، مشاعرے اور ڈرامے وغیرہ اردو سروس کے تحت نشریات میں شامل رہے ہیں۔
ہندوستان کا قدیم الکٹرانک ماس میڈیا ریڈیو کے ساتھ سینما بھی رہا ہے۔ گزشتہ صدی میں ان دونوں ذرائع عامہ نے بے پناہ ترقی کی ہے۔ آج ہندوستان کی مختلف زبانوں میں فلم پروڈکشن کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ہندوستانی فلم انڈسٹری نے جو غیر محسوس طور پر اردو زبان وادب کی خدمت کی ہے وہ قابل ستائش ہے۔ اس نے اردو زبان اور کلچر کو عوام کے ذہنوں میں زندہ اور محفوظ رکھا ہے۔ اگر چہ آج یہ فلمیں ہندی کے نام سے ریلیز ہو رہی ہیں مگر ان کےگیت، ٹائٹل، مکالمے، وغیرہ سب نوے فیصد اردو میں ہی ہوتے ہیں اور اس کے لکھنے والوں میں تقریبا تمام اردو کے ادیب وشاعر ہیں۔ ٹیلی ویژن نیٹ ورک گزشتہ بیس پچیس برسوں سے بڑی سرعت کے ساتھ وسعت پذیر ہور ہا ہے۔ دور درشن نے پورے ملک میں اپنے کئی طرح کے ٹرانسمیٹر نصب کر رکھے ہیں اور تنصیبات کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور اس طرح ہندوستان کے گاؤں گاؤں میں اور دور دراز کے پہاڑی علاقوں میں بھی دور درشن کے پروگرام دیکھے جا رہے ہیں۔ ریڈیو کی طرح ٹی وی پر بھی مختلف مراکز سے اردو پروگرام نشر کیے جا رہے ہیں۔ مختلف کیبل اور پرائیویٹ ٹی وی چینلز پر اردو خبریں مشاعرے، ڈرامے اور سیریلز وغیرہ بڑے پیمانے پر ٹیلی کاسٹ کیے جا رہے ہیں خصوصا ڈی ڈی اردو، نیوز 18 جو صرف اردو زبان میں ہی اپنے تمام پروگرام نشر کرتا ہے۔ ان سے اردو زبان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ آج ماس میڈیا کا کوئی ذریعہ ایسا نہیں ہے جس میں اردو زبان کی ضرورت و اہمیت مسلم نہ ہو۔ اخبار ہو یا ریڈیو فلم ہو یا ٹیلی ویژن، اردو زبان کی قوت، اس کی ہمہ گیری، گہرائی و گیرائی، شیرینی، حسن، فصاحت و بلاغت اور اشاریت و شعریت ہر جگہ کام آتے ہیں۔ خصوصاً الکٹرانک میڈیا میں اردو کی اہمیت اور ضرورت میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ ٹی وی کی نج کاری کے بعد اردو زبان کا چلن اور بھی بڑھا ہے۔ اس لیے کہ عوامی رابطے کے لیے انہیں اس زبان کی ضرورت ہے۔ اردو تاریخی اعتبار سے اپنی پیدائش سے ہی عوامی رابطے کی زبان رہی ہے اور اثر پذیری اس کی خصوصیت ہے ۔اس لیے میڈیا کو یہ ہمیشہ راس آئی ہے۔
آج انسان کے پاس فرصت کے لمحات بہت کم ہیں ضروریات زیادہ ہیں۔ اردو اپنی جامعیت کی وجہ سے اختصار کے ساتھ موثر ہونے پر قادر ہے۔ اس کی ایک مثال ٹی وی پر اشتہارات کی مقبولیت ہے۔ ظاہر ہے کہ ٹی وی کے لیے اشتہارات تیار کرنے اور پھر اسے ٹیلی کاسٹ کرنے کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ ایسی صورت میں کم وقت میں ضروری مواد پیش کرنا ہوتا ہے۔ اس جامعیت اور اختصار کے لیے اردو زبان بہت کام آتی ہے۔ کسی بھی وقت ٹی وی پر دکھائے جانے والے اشتہارات کو غور سے سن لیجیے آپ دیکھیں گے کہ استعمال کیے جانے والے لفظوں میں غالب عنصر اردو کا ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ٹی وی کے لیے اشتہار لکھنا ایک پروفیشنل معاملہ ہے اور بڑی حد تک تکنیکی بھی مگر ایسے لوگوں کے لیے جو خیال کو لفظوں میں ڈھالنے کے ہنر سے واقف ہیں کوئی مشکل کام نہیں۔ اب تو اس کے ہر پروگرام میں اردو کا استعمال ناگزیر ہو گیا ہے۔
انٹرنیٹ، ویب سائٹس اور آن لائن میڈیا کی بات کریں تو وہاں بھی محدود دائرے میں ہی سہی کچھ نہ کچھ کوششیں ضرور ہو رہی ہیں۔ ہند و پاک کے مختلف شہروں سے اردو میں شائع ہونے والے بڑے بڑے اخباروں کے ویب سائٹس ہیں جن کی وجہ سے ان اخبارات و رسائل کا ہم گھر بیٹھے روزانہ مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اردو پرنٹ میڈیا میں جہاں ریڈرشپ کا بازار نہایت سکڑا ہوا ہے وہیں ویب سائٹ پر یہ اخبارات لاکھوں قارئین کے ذریعہ پڑھے جا رہے ہیں، پھر اردو کے کئی پبلشنگ ادارے اور ادبی انجمنوں نے اپنے ویب سائٹس کھول رکھے ہیں جس کے ذریعہ وہ اپنی ادبی ولسانی سرگرمیوں کی واقفیت ساری دنیا میں پھیلے ہوئے اردو داں حضرات تک پہنچا رہے ہیں۔ اس میدان میں خصوصا ریختہ نے مختصر مدت میں اردو ادب کی ترویج میں جو خدمات انجام دی ہیں وہ اظہر من الشمس ہیں۔ اس طرح ہمارا الکٹرانک میڈیا عالمی سطح پر جہاں اردو زبان کے فروغ میں اپنا مؤثر کردار ادا کر رہا ہے وہیں داغ دہلوی کے اس شعر کی عملی تعبیر بھی پیش کر رہا ہے کہ:
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
میڈیا نے ہماری مادی ترقی یا مادی وسائل کے ساتھ ساتھ ہماری تہذیبی اقدار اور فکری میلانات کو بھی شدت سے متاثر کیا ہے اور اس کے منفی اثرات بھی معاشرے پر پڑے ہیں جسے کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ماس میڈیا نے اب علم اور جانکاری کی ان بند کھڑکیوں کو بھی تازہ ہوا کے نام پر کھول دیا ہے جنہیں ہم نے پہلے ممنوع سمتوں میں کھلنے والی کھڑکیاں سمجھ کر بند کر دیا تھا۔ کل کے نو آبادیاتی نظام کی گرفت کو مضبوط بنانے میں جن سیاسی و معاشی عوامل کا ہاتھ رہا تھا آج کے ذرائع ابلاغ نے ان کی شکل بدل کر رکھ دی ہے۔
آج کا ماس میڈیا دنیا میں جدید طرز کی نو آبادیات اور مغربی سیاست کی استعاریت کو مستحکم کرنے کے لیے اپنے پیغام رسانی کے حربوں کو پوری شدت سے استعمال کر رہا ہے۔ امریکہ و برطانیہ کی جنگ پرستی اور دہشت گردی، نو سامراجی استحصال و جارحیت مختلف مسلم ممالک پر غیر قانونی جنگیں لا کر ان کی تباہی و بربادی، ایران، ترکیہ اور قطر کو ہمہ وقت جنگ کے سائے میں دہشت زدہ کرنے کی جابرانہ کوششیں مشرقی اقوام کو ذہنی طور پر محکوم بنا کر ان کے آرٹ کلچر، زبان اور تہذیب کو مٹانے کی پر اسرار چالیں، آج ہم مغرب کی اس جارحانہ سیاست و صحافت کے سائے تلے ہانپ رہے ہیں۔ معاشرے میں عریانی وفحاشی کا فروغ، مادی اقدار کی غیر مشروط بالا دستی اور صارفی کلچر کو پھیلانے کے لیے ماس میڈیا کو ایک ایسے اوزار کے طور پر کہیں زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے جس کی براہ راست ضربوں سے انسانی معاشرہ اپنی روایتی، تہذیبی اور معاشرتی پہچان سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔
ان حالات میں اسلامی ادب وصحافت کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے، اس لیے کہ ادب ہی وہ دستاویز ہے جس کی وجہ سے ان تمام سفاک حقیقتوں کو بے نقاب کیا جا سکتا ہے۔ اس ظلم و جبر، نا انصافی، خونریزی اور نسل کشی کے خلاف احتجاج کیا جا سکتا ہے اور موثر احتجاج اپنے آپ میں خود ایک جہاد ہوتا ہے۔ ایسا ادب نظام باطل کو بدلنے کا نقیب اور انقلاب صالح کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ لہذا آج اسلام پسند اہل قلم، ادبا وشعرا اور صحافیوں کی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ ضرورت ہے کہ وہ آگے آئیں اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے ماہرین اور پیشہ ورانہ دسترس رکھنے والے جوانوں کو منظم کریں تاکہ ان کے ذریعہ ادب وصحافت کے اسلامی واخلاقی اور روحانی اقدار کو عالمی سطح پر روشناس کرایا جا سکے۔ یقینا ہمارے وسائل محدود ہیں لیکن اسلامی ادب کی ترویج واشاعت کے لیے ماس میڈیا کا استعمال ہماری ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ ہمارے ادبی رسائل، ادبا و شعرا کی اہم تصنیفات اور بلند پایہ تخلیقات اردو ویب سائٹ کے ذریعے پل بھر میں ساری دنیا میں پہنچ جائیں گی۔ اس طور پر اسلام پسندوں کی چند ویب سائٹس انٹرنیٹ پر موجود ہیں اور یہ کام محدود انداز سے ہی سہی کسی نہ کسی حد تک ضرور ہو رہا ہے، مگر آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اس محاذ پر اسلامی ادب کے علم بردار اپنی پوری طاقت جھونک دیں تاکہ ساری دنیا میں انفارمیشن ٹکنالوجی کے ذریعہ اسلامی ادب کو ایک مستند اور معتبر مقام حاصل ہو سکے اور مقصدی وتعمیری ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے نئے راہیں اور جہتیں ہموار ہو جائیں۔
(ماخوذ از۔ ادبی نگارشات)
***

 

***

 ادب ہی وہ دستاویز ہے جس کی وجہ سے ان تمام سفاک حقیقتوں کو بے نقاب کیا جا سکتا ہے۔ اس ظلم و جبر، ناا انصافی، خونریزی اور نسل کشی کے خلاف احتجاج کیا جا سکتا ہے اور موثر احتجاج اپنے آپ میں خود ایک جہاد ہوتا ہے۔ ایسا ادب نظام باطل کو بدلنے کا نقیب اور انقلاب صالح کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے لہذا آج اسلام پسند اہل قلم، ادبا وشعرا اور صحافیوں کی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ ضرورت ہے کہ وہ آگے آئیں اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے ماہرین اور پیشہ ورانہ دسترس رکھنے والے جوانوں کو منظم کریں تاکہ ان کے ذریعہ ادب و صحافت کے اسلامی واخلاقی اور روحانی اقدار کو عالمی سطح پر روشناس کرایا جا سکے ۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  24 جولائی تا 30 جولائی 2022