اللہ کی رحمت کو متوجہ کرنے والے اعمال

خدا سے تعلق اور انسانوں کی خیر خواہی کے ذریعہ رحمت الٰہی کے مستحق بنیں

ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد

جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اس میں امتِ مسلمہ کا ہر بچہ اور بڑا یہ محسوس کر رہا ہے کہ اب بس ہم کو اللہ کی رحمتِ خاص ہی خطرات، چیلنجز اور مسائل کے ہجوم سے کامیابی کے ساتھ نکال سکتی ہے۔ ہم مادی سیاسی اور روحانی و اخلاقی ہر اعتبار سے اتنے خستہ حال ہو چکے ہیں کہ ہمارے دنیا سے نیست ونابود ہو جانے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی مگر یہ اللہ کی رحمت ہی ہے جو ہمارے وجود کو بچائے ہوئے ہے۔ بھارت میں مسلسل تین ماہ سے ہم اپنے وجود کو باقی رکھنے کی لڑائی لڑ رہے تھے۔ ملک گیر احتجاجوں کے باوجود حکومت اپنے موقف سے ہٹی نہیں تھی کہ اچانک ایک جان لیوا COVID-19 وائرس کی آمد ہوئی اور یکم اپریل سے ہونے والے NPR سے وقتیہ طور پر راحت ملی۔ لیکن اب یہ وائرس ہمارے لیے آزمائش کا ذریعہ بن چکا ہے۔ یہ وائرس نفرت کے وائرس سے بدرجہا بہتر ہے جس نے انسانوں کے اندر یہ احساس پیدا کر دیا ہے کہ ایک ہی ہستی ہے جو ہماری زندگیوں کو کنٹرول کر رہی ہے۔ وہی ہے جو ہمارا خالق مالک اور حاکم ہے اور وہی قہار بھی ہے۔ اس کے قہر سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ اس وائرس نے یہ احساس بھی دلایا ہے کہ لاک ڈاؤن سے انسانوں کو کتنی تکلیف ہوتی ہے جبکہ ظالموں نے معصوم افراد کو ان کے گھروں میں قید کر دیا تھا۔ اسی وائرس نے یہ احساس بھی دلایا ہے کہ اپنے عزیزوں کی موت کتنی تکلیف دہ ہوتی ہے جبکہ ظالموں نے معصوم عوام پر جنگوں کو مسلط کرکے ان کے عزیزوں کو ان سے جدا کر دیا تھا۔ جنہوں نے غریب اور کمزور مسلم ملکوں پر بم برسا کر ان کے خون کو پانی سے بھی ارزاں کر دیا تھا۔ آج ان کی سرزمین میں ان کی قیمتی جانیں ارزاں ہوچکی ہیں۔ شام کے ایک معصوم بچے نے جب یہ کہا تھا کہ میں میرے اللہ کو سب کچھ بتا دوں گا تو خیال پیدا ہوا کہ ہو سکتا ہے کہ اسی کی فریاد سن کر اللہ تعالیٰ نے ایک نظر نہ آنے والے معمولی لیکن خطرناک کیڑے کو نازل کرکے انسانیت کے مجرموں کو سزا دینے کا ارادہ کر لیا ہو۔ اس کائنات کا ایک خالق ہے اور وہ خالق اس کائنات کو پیدا کر کے اپنی خلقت سے بے خبر ہو کر کہیں گوشہ نشین نہیں ہوگیا ہے بلکہ وہ باریک بینی کے ساتھ دنیا والوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ جب ظلم بہت بڑھ جاتا ہے تو وہ ظالموں کو اور حد سے گزر جانے والوں کو پکڑتا ہے اور عبرت کا نشان بنا کر چھوڑتا ہے۔
ان حالات میں اللہ کی رحمت ہی ہماری بقا کی ٖضامن ہے۔ کیا اللہ کی رحمت صرف مانگنے سے ملے گی؟ اللہ کی رحمت اس طرح نہیں آئے گی کہ منتروں کی طرح کچھ اذکار بغیر سوچے سمجھے زبان سے ادا کرلیے جائیں۔ آج کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے سوشل میڈیا پر اذکار ودعائیں شیر کی جارہی ہیں لیکن ہم اپنے اعمال کا احتساب اور اپنی اصلاح کیے بغیر اور اپنی زندگیوں میں تبدیلی لائے بغیر کیسے ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق ہو سکتے ہیں جبکہ قرآن کہتا ہے کہ ’’ اللہ کسی قوم کے حال کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہیں بدل لیتی‘‘(الرعد 11) ۔ یقیناً اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔ ’’میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے‘‘(اعراف 156) ۔ حتیٰ کہ اگر کسی قوم پر عذاب بھی نازل ہوتا ہے تو وہ بھی بتقاضائے رحمت ہی ہوتا ہے۔ اگر وہ ظالم ہو تو اس کے ظلم سے مظلوموں کو نجات دلانا بھی اللہ کی رحمت کا مظہر ہے۔ اگر کوئی قوم معصیت میں ڈوبی ہوئی ہے تو اس کو سزا دے کر اس معصیت سے دوسری اقوام کو بچانا بھی اللہ کی رحمت کا تقاضا ہے۔’’اگر تو نے ان کو چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا بدکار اورسخت کافر ہی پیدا ہوگا‘‘(نوح 27)
اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مستحق بننے اور اس کو پانے کے لیے ہمیں اپنے اعمال کا احتساب کرنا ہوگا اور پھر خود کو بدلنا ہوگا اور اپنی اصلاح کرنی ہوگی ’’البتہ جو اس روش سے باز آجائیں اور اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کرلیں اورجو کچھ چھپاتے تھے اسے بیان کرنے لگیں ان کو میں معاف کردوں گا اور میں بڑا درگزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں ‘‘ (البقرۃ 160) ۔ آئیے ہم جائزہ لیتے ہیں کہ وہ کونسے اعمال ہیں جو اللہ کی رحمت کو ہماری طرف متوجہ کرتے ہیں۔
1۔ توبہ، انابت واستغفار: سب سے پہلی چیز ہے اللہ کی طرف پلٹنا، اس کی طرف رجوع کرنا، اس کی طرف متوجہ ہونا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’وہ ہے باربار پلٹنے والے‘‘(التوبہ 112) پلٹنے سے مراد ہے گناہوں سے منھ موڑ کر معافی کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا۔ اسی کو ماوی وملجا سمجھ کر راضی کرنے کی کوشش کرنا۔ اپنی روش پر نادم ہو کر استغفار کرنا۔ اپنے گناہوں پر معافی طلب کرنا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’جو ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا وہ اس کے سامنے آئے گی اور جو ذرہ برابر برائی کرے گا وہ بھی اس کے سامنے آئے گی‘‘ (زلزال )۔ بدلہ دینے کی صورت یہ ہے کہ یا تو دنیا میں اس کی سزا دے دی جائے گی یا آخرت کے عذاب کی صورت میں موخر کردی جائے گی یا اگر بندہ اسی دنیا میں معافی طلب کرے تو اس کی مغفرت ہو جائے اور وہ سزا سے بچ جائے۔ توبہ دراصل احساسِ ندامت Self-Realization کا نام ہے کہ میں بھول گیا تھا کہ اللہ میرا معبود ہے اس لیے میں مقامِ عبدیت سے انحراف کر بیٹھا تھا۔ قرآن میں گناہ کو ظلم سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ ہر گناہ مقامِ عبدیت سے انحراف ہے اس لیے گناہ کا اعتراف ہی عبدیت کی شان ہے۔ اس کے بعد یہ یقین کہ صرف اللہ ہی گناہ وزیادتی کو معاف کرنے والا ہے اور اس کی سزا سے بچا سکتا ہے یہ بھی شانِ عبدیت کا اگلا قدم ہے۔ یہ دراصل اس بات کا اعتراف ہے کہ اللہ تعالیٰ سراپا قدرت ہے اور میں سراپا عاجز بندہ ہوں۔ چنانچہ قرآن میں اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی صفات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا’’اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا وہ گناہ کا ارتکاب کر کے اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انھیں یاد آجاتا ہے اور وہ اس سے اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں۔ کیوں کہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہو۔ اور وہ کبھی دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے‘‘ ۔(اٰل عمران 135)۔
قرآن واحادیث میں استغفار کی بہت اہمیت وافادیت بیان کی گئی ہے۔ سورۃ نوح میں حضرتِ نوحؑ اپنی قوم سے درخواست کرتے ہیں کہ اگر تم اکیلے اللہ کو معبود مان کر اس کی جناب میں اپنی استکبار و شرک کی روش پر نادم ہوکر استغفار کرو گے تو وہ تم پر اپنی نعمتوں کی بارش فرمائے گا۔ (نوح 10-12)۔ اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کے لیے قیامت تک کے لیے اللہ کی طرف سے عذاب سے امان کی ضمانت دی ہے کہ اگر لوگ حالتِ استغفار میں ہوں تو اللہ عذاب نازل نہیں کرے گا۔’’اللہ تعالیٰ اس امت پر عذاب نازل کرنے والا نہیں جب آپ ﷺ ان کے درمیان موجود ہوں اور نہ اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ ان کو عذاب دے دے‘‘(الانفال 33)۔ یہ ایک عظیم خوشخبری ہے ایک فرد کے لیے بھی اور ان افراد کے مجموعہ کے لیے بھی کہ جو حالتِ استغفار میں ہو اس یقین کے ساتھ کہ اللہ کا عذاب حالتِ استغفار میں نہیں آتا۔ ایسے لوگوں کو اللہ کے عذاب سے امان حاصل ہوتی ہے۔ آج ساری دنیا ایک ایسے وائرس سے خوفزدہ ہے جس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کون اس کی زد میں آنے والا ہے۔ ان حالات میں اس وائرس سے بچنے کا بہترین ہتھیار استغفار ہے۔ رسول اللہ ﷺ دن میں سو سو مرتبہ استغفار کیا کرتے تھے۔
2۔ دوسری چیز جس سے ہم اللہ کی رحمت کے امیدوار بن سکتے ہیں وہ ہے قرآن کی تلاوت۔ اکثر ہم بلا سوچے سمجھے قرآن پڑھنے کے عادی ہیں۔ اگر ہم قرآن کو سمجھ کر پڑھیں اور تفسیر کی مدد سے تدبر کریں تو قرآن پڑھنے کا لطف حاصل ہوگا اور اس سے ہمارے دل اس کے نور سے منور ہوں گے۔ قرآن پڑھنا دراصل اللہ کے خطاب کو سماعت کرنا ہے۔ قرآن ایک تقریری انداز میں نازل ہوا ہے۔ قرآن کو سمجھ کر پڑھیں تو محسوس ہوگا کہ اللہ تعالی ہم ہی سے مخاطب ہے۔ قرآن کی تلاوت اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔ اس کا پڑھنا سراسر اللہ کی رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ایمان لانے والوں کے لیے یہ ہدایت و رحمت ہے۔(یوسف 111)۔ قرآن کو دلوں کے امراض کے لیے شفا بناکر نازل کیا گیا ہے۔’’لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کرلیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے‘‘ ۔(یونس 57)
3۔ تیسری چیز جو اللہ کی رحمت کا مستحق بناتی ہے وہ ہے کثرت سے اللہ کا ذکر۔ ذکر اللہ کی کبریائی کا اعتراف ہے۔ چونکہ اللہ کی کبریائی لا محدود ہے اس لیے اہل ایمان کو کثرتِ ذکر کا حکم دیا گیا ہے(احزاب 41)۔ یہ دراصل اس احساس کے ساتھ ہو کہ اے رب تیری عظمت و کبریائی کا ہم احاطہ نہیں کرسکتے ہم بس تیرا ذکر حتی الوسع کثرت سے اٹھتے بیٹھتے کرسکتے ہیں جبکہ تیری کبریائی و عظمت کو بیان کرنے کا حق تو ادا ہی نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ذکرِ کثیر شانِ بندگی کا اظہار ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ اذکار اور دعاؤں سے معمور نظر آتی ہے جس سے بار بار اظہار بندگی ہوتا ہے۔ اذکار حوادثِ زمانہ بلاوؤں اور مصیبتوں سے بچنے کا ایک اہم ذریعہ بھی ہیں۔
4۔ چوتھی چیز ہے فرائض کے ساتھ نوافل کا اہتمام۔ بالخصوص نماز تہجد کی حالت میں بندہ اللہ سے بہت قریب ہوتا ہے۔ یہ روحانی بیٹری کو چارج کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ رسول للہ ﷺ نماز تہجد کا ہر روز التزام فرماتے تھے۔ آپ کو مخاطب کرکے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اور رات کو تہجد پڑھو، یہ تمہارے لیے نفل ہے، بعید نہیں کہ تمہارا رب تمہیں مقامِ محمود پر فائز کردے۔ (بنی اسرآئیل 79)۔
5۔ پانچویں چیز جو اللہ کی رحمت کی موجب ہوتی ہے وہ ہے صلہ رحمی۔ اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنا بالخصوص ایسے حالات میں جب رشتہ داروں سے آدمی کو تلخ تجربات ہوتے ہیں، مشکل کام ہے۔ اس کے علی الرغم اللہ کی خاطر اپنے رشتہ داروں سے تعلقات کو خوشگوار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ان سے حسن سلوک کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نافرمان بندوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کا ایک وصف یہ بیان فرماتا ہے: اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹتے ہیں۔ (البقرۃ 27)۔
6۔ صدقات و انفاق۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں مال کی تقسیم میں ایک بڑی حکمت کے تحت غیر یکسانی رکھی ہے جبکہ مال کمانے کے مواقع ہر ایک کے لیے کھلے رکھے ہیں ۔حکمت یہ ہے کہ کسی سے شکر کا امتحان لیا جائے اور کسی سے صبر وتوکل کا امتحان۔ اللہ تعالیٰ کو وہ بندے بہت محبوب ہیں جو اپنے مال میں سے دوسروں کا حق جان کر ان پر خرچ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق۔ (بنی اسرآئیل 26)۔ انفاق میں کم سے کم جو مقدار فرض کے درجے میں ہے وہ زکوٰۃ کا نصاب ہے۔ لیکن اللہ کی رحمت کا زیادہ سے زیادہ مستحق بننے کا طریقہ یہ ہے کہ محروم کو دیکھ کر ہمارا دل تڑپ اٹھے ۔حدیثِ رسول ﷺ ہے: جو زمین والوں پر رحم کرتا ہے آسمان والا اس پر رحم کرتا ہے۔
7۔ تقویٰ کی روش: اللہ کی رحمت کے حصول کا ایک بہت بڑا ذریعہ یہ ہے کہ ہم اللہ کی ناراضی ومعصیت سے بچیں اور ہر دم اس احساس کے ساتھ زندگی گزاریں کہ اللہ کی جناب میں کوئی نافرمانی نہ ہو۔ اسی کا نام تقویٰ ہے۔ نہ ہی اللہ کے حقوق کی ادائیگی میں کمی ہو اور نہ ہی اللہ کے بندوں کے حقوق کے سلسلے میں۔
8۔ احسان کی روش۔ اللہ تعالیٰ نے ہر معاملہ میں چاہے وہ عبادات کا معاملہ ہو یا معاملات کا ایک مقام عدل کا رکھا ہے اور دوسرا احسان کا۔ عدل کا تقاضا یہ ہے کہ کسی معاملے میں زیادتی نہ ہو اور حق پورا ادا کیا جائے۔ احسان کا درجہ یہ ہے کہ کسی کو حق سے زیادہ دیا جائے اور مطلوب اور توقع سے بڑھ کر حسنِ عبادت اختیار کیا جائے یا حسنِ معاملہ انجام دیا جائے یا حسنِ اخلاق برتا جائے۔ قرآن میں بار بار ارشاد ہوا ہے کہ اللہ متقین کے ساتھ ہے اور وہ محسنین سے بہت محبت رکھتا ہے۔
9 ۔اللہ کی رحمت کے خزانوں کو سمیٹنے کا ایک زرین موقع یہ ہے کہ ہم اس مشن کو اختیار کریں جو تمام انبیاء ورسل کا مشن تھا۔ ہم کارِ نبوت ورسالت کے امین ہیں۔ اس کام کو ہماری زندگی کا مقصدِ وجود بنائیں۔ بحیثیتِ انسان ہم کو اللہ تعالیٰ نے عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے لیکن بحیثیتِ امت ہم کو امتِ وسط و امتِ خیر بنا کر اس دنیا میں ساری انسانیت کے لیے نکالا ہے۔ اور ہمارا فریضہ یہ ہے کہ ہم مسلمانوں میں اصلاح کا کام انجام دیں۔ ان کے عقائد اور اعمال کے بگاڑ کو دور کریں اور غیرمسلموں کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچانے کی کوشش کریں۔ یہ وہ کام ہے جس سے نہ صرف اللہ کی رحمت ہمارے ساتھ ہوگی بلکہ اللہ کی نصرت بھی ہمارے ساتھ ہوگی اور وہ ہمارے قدم ہمارے وطن عزیز میں جما دے گا۔ (محمد7)
10۔ آخری چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے (البقرۃ 153)۔ وہ تمام امور جو اللہ کو مطلوب ہیں ان میں ایک قدر مشترک ہے وہ ہے صبر۔ ایمان پر ثابت قدم رہنے، اوامر پر عمل کرنے، معروف کا حکم دینے، نواہی سے بچنے اور دوسروں کو ان سے روکنے کے تمام مراحل میں صبر درکار ہوتا ہے۔ صبر بادِ مخالف کی مزاحمت کرتے ہوئے سچائی پر قائم رہنے کا نام ہے۔
چونکہ آج کل لاک ڈاون کا مرحلہ ہے اور فرصت بہت میسر ہے ان لمحات کو تعلق باللہ بڑھانے کے تمام اسباب کے لیے استعمال کریں اور مجبور انسانوں کی خدمت کر کے اللہ کی رحمت کے خزانوں کو لوٹنے کی کوشش کریں۔

***


اللہ کی رحمت کے حصول کا ایک بہت بڑا ذریعہ یہ ہے کہ ہم اللہ کی ناراضی ومعصیت سے بچیں اور ہر دم اس احساس کے ساتھ زندگی گزاریں کہ اللہ کی جناب میں کوئی نافرمانی نہ ہو۔