اقلیتوں کے لیے اسکالرشپ اسکیمات، بجٹ تخصیص اور نفاذ۔ایک جائزہ
پری میٹرک اسکالرشپ کے ماسوا کسی بھی اسکیم کے لیےمختص رقم کا صحیح استعمال نہیں کیا گیا
ڈاکٹر جاوید عالم خان
ماہر معاشیات ،آئی پی ایس اے ،دلی
حکومت کے دعووں اوراقدامات میں تضاد۔ اقلیتوں کو اپنے حقوق منوانے کی ضرورت
وزارت برائے اقلیتی امور(موما) کے ذریعے نافذ کی جانے والی پری میڑک ، پوسٹ میٹرک اور میرٹ کم مینس اسکالرشپ اسکیمیں ہیں جو سو فیصد مرکزی حکومت کے ذریعے فنڈ دی جاتی ہیں یہ ایسی اہم اسکیمیں ہیں جنہیں اقلیتی طلبہ کی تعلیمی ترقی کے لیے متعین کیا گیا ہے۔ نیز موما کے تحت مولانا آزاد فیلوشپ اور فری کوچنگ اسکیم روبہ عمل لائی جا رہی ہے اور مولانا آزاد فاؤنڈیشن کے ذریعے لڑکیوں کے لیے بیگم حضرت محل اسکیم کو بھی نافذ کیا جا رہا ہے۔ یہ اسکیمیں مرکزی سطح پر چھ اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے طلباء کو تعلیمی طور پربااختیار بنانے کے لیے ہیں۔ یہ اسکمیں کوٹہ پر مبنی ہیں نہ کہ طلب پر۔ایک خاندان سے صرف دو طلباء ہی اسکالرشپ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ان اسکیموں کے تحت %30 اسکالرشپ طالبات کے لیے مختص ہیں، اگر طالبات کی مناسب تعداد دستیاب نہیں رہی تو اس کو لڑکوں کے ذریعے استعمال کر لیا جائے گا۔
پری میٹرک اسکالرشپ اسکیم:
پری میٹرک اسکالرشپ کے تحت تیس لاکھ نئے اسکالرشپ طلباء کو نوازے جاتے ہیں، وہ طلبہ جو اسکالرشپ کی تجدید کراتے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ گزشتہ برس کم از کم پچاس فیصد نمبرات حاصل کیے ہوں اور ان کے والدین/ سرپرستوں کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ سے کم ہو.
پوسٹ میٹرک اسکالرشپ:
پوسٹ میٹرک اسکالرشپس اسکیم کے تحت تقریبا پانچ لاکھ نئی اسکالرشپس دی جاتی ہیں۔اس اسکالرشپ کی تجدید کرانے والے طلباء کے علاوہ ایسے طلبہ درخواست دے سکتے ہیں جنہوں نے گزشتہ برس کے فائنل امتحان میں پچاس فیصد سے زیادہ نمبرات حاصل کیے ہوں اور ان کے والدین/ سرپرستوں کی سالانہ آمدنی دو لاکھ سے زائد نہ ہو اور طلبہ جہاں سے تعلیم حاصل کر رہے ہوں وہ سرکاری طور پر تسلیم شدہ ہائر سیکنڈری اسکول ہو یا سرکاری اسکول ہو یا کالج اور یونیورسٹی ہوں اور وہ ملک کے اندر قائم ہائر سکینڈری اسکول و کا کالج ہوں۔
میرٹ کم مینس اسکالرشپ اسکیم:
میرٹ کم مینس اسکالرشپ کی تجدید کرانے والے طلبہ کے علاوہ ہر سال نئی اسکالرشپس دی جاتی ہیں بشرطیکہ وہ پچاسی معروف اور تسلیم شدہ اداروں میں سے کسی میں بھی انڈر گریجویٹ يا پوسٹ گریجویٹ تکنیکی کورس میں داخلہ لیے ہوئے ہوں۔یہ اسکالرشپس ان طلباء کو دی جاتی ہے جنہوں نے پچھلے فائنل امتحان میں پچاس فیصد نمبرات حاصل کیے ہوں اور ان کے والدین/ سرپرستوں کی سالانہ آمدنی ڈھائی لاکھ سے زیادہ نہ ہو۔ اسکالرشپ اسکیمیں اقلیتوں اور مسلمانوں کی تعلیمی بہتری کے لیے اور مسلمانوں میں مجموعی اندراج کے تناسب اور اسکول چھوڑنے کی شرح میں کمی لانے کے اعتبار سے نہایت ہی ضروری ہیں۔پری میٹرک اسکالرشپ کے علاوہ کسی اور اسکالرشپ اسکیم نے گزشتہ برسوں میں مختص کردہ رقم کو صحیح طورسے استعمال نہیں کیا ہے۔ اسی طرح ان اسکالرشپ اسکیموں میں بھی کافی مسائل رہے ہیں مثلا مستحقین تک عدم رسائی ، کم یونٹ لاگت اور اسکیم ڈیزائن کے مسائل۔
جدول 1 : میں ملاحظہ کریں تعلیمی اسکیموں کے تحت مختص شدہ بجٹ اور اس کا خرچ
جدول نمبر 2 : اس بات کو واضح کرتا ہے کہ پری میٹرک اسکالرشپس اسکیم کے تناظر میں سال 17-2016 سے 21-2020 تک جتنے بھی طلباء نے اسکالرشپ کی درخواستیں دی تھیں ان کی تعداد 56 سے 48 ہی رہی ہے باوجود یہ کہ محروم کیے گئے طلبہ نے درخواستیں دی تھیں اور وہ اس کے مستحق بھی تھے۔
جدول نمبر: 2 میں ملاحظہ کریں پری میٹرک اسکالرشپس اسکیم کی تفصیلات
پوسٹ میٹرک اسکالرشپ میں حقیقی ترقی اس بات کو واضح کرتی ہے کہ17 -2016 سے 21-2020 تک اسکالرشپس کے لیے کل موصولہ درخواستوں کے مقابلے دی گئی اسکالرشپس کا دائرہ 48 سے 23 فیصد ہی رہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سے مستحق طلبہ کو درخواستیں دینے کے باوجود اسکالرشپ سے محروم کر دیا گیا۔
جدول 3 : میں ملاحظہ کریں پوسٹ میٹرک اسکالرشپس اسکیم کی تفصیلات۔
میرٹ کم مینس اسکالرشپ اسکیم میں 17-2016 سے 21-2020 تک اسکالرشپ کی کل درخواستوں کے منجملہ اسکالرشپ پانے والے طلبا کی کل تعداد 50-36 فیصد ہی ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بہت سے طلبہ جنہوں نے باوجود یہ کہ درخواستیں دی تھیں اور وہ اس کے مستحق بھی تھے بہت سے در پیش مسائل کے باعث اسکالرشپ سے محروم کر دیے گئے۔
جدول4 : میں ملاحظہ کریں میرٹ کم مینس اسکالرشپ اسکیم کی تفصیلات
اسکالرشپ اسکیموں میں در پیش مسائل:
مستفیدین کا کم احاطہ
مرکزی حکومت کو اقلیتوں کی ضرورت کے حساب سے وظیفہ کی تعداد کو بڑھانا چاہیے تاکہ طلباء کی طرف سے وظیفہ کے لیے موصولہ کل درخواستوں کو منظور کیا جا سکے۔ سال2019 میں مرکزی حکومت نے اس بات کا اعلان کیا تھا کہ وہ تمام وظیفہ والی اسکیموں کے تحت سلالانہ ایک کروڑ اسکالرشپ دے گی۔بہرحال یہ تعداد وزارت برائے اقلیتی امور کو موصول ہونے والی کل درخواستوں کی موجودہ تعداد سے بھی کم ہے۔ وزارت برائے اقلیتی امور نے پری میٹرک اسکالرشپ اسکیم کے لئے سالانہ تیس لاکھ، پوسٹ میٹرک کے لیے پانچ لاکھ اور میرٹ کم مینس کے لیے ساٹھ ہزار نئی اسکالرشپ کی درخواستوں کو منظوری دینے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ جبکہ سال 21-2020 کے لیے کل موصول درخواستوں کی تعداد پری میٹرک میں 90.61 لاکھ، پوسٹ میٹرک میں 17.62 لاکھ اور میرٹ کم مینس میں 2.34 لاکھ ریکارڈ ہوئی ہیں۔ لہذا اس بات سے ہمیں یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ حکومت کے ذریعے وظیفوں کے لیے منظوری کا ہدف اور موصول ہونے والی کل درخواستوں کے مابین کافی فرق ہے۔
تجزیہ سے یہ پتا چلتا ہے کہ ہر سال تقریبا 85 لاکھ طلباء وظیفہ حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ وزارت برائے اقلیتی امور نے 18-2017 اور19-2018 میں بالترتیب 2200 کروڑ اور 2450 کروڑ روپے تمام اسکالرشپ پروگراموں کے تحت تقریبا 36 لاکھ اسکالرشپ کے لیے مختص کیے تھے۔
اگر حقیقت میں حکومت ہر سال سالانہ ایک کروڑ اسکالرشپس دینے کا ہدف رکھتی ہے تو بجٹ کی رقم 5 سے 6 ہزار کروڑ ہونی چاہیے تھی۔
اگر حقیقت میں حکومت اقلیتوں کو ایک کروڑ سالانہ اسکالرشپ دینا چاہتی ہے تو اس کو چاہیے کہ اب وہ اس اسکیم کی خاطر 3000-3500 کروڑ اضافی رقم مختص کرے۔
اقلیتی امور سے متعلق کمیٹی برائے سماجی انصاف نے سال 19-2018 میں بیان جاری کیا ہے کہ پری میٹرک اسکالرشپ کے لیے جاری شدہ رقم نا کافی ہے۔
لہذا پری میٹرک اسکالرشپ اسکیم کے مطالبے کو پورا کرنے کےلیے ابتدائی (Elementry) سطح کے 80 فیصد مسلم طلباء کےلیے مالی ضرورت تقریبا 2493 کروڑہونی چاہیے جبکہ مختص کی گئی رقم 950 کروڑ ہے۔ (پارلیمانی کمیٹی برائے سماجی انصاف، ڈیمانڈس فار گرانٹس،وزارت برائے اقلیتی امور 19-2018)
وظیفے کے لیے منظورہ رقم ناکافی
پارلیمانی کمیٹی برائے سماجی انصاف سال 19-2018 نے طلبہ کو دی جانے والی پری میٹرک، پوسٹ میٹرک اور میرٹ کم مینس اسکالرشپ اسکیم کے تحت طلبہ کو دی جانے والے معمولی/ ناکافی رقم پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ان اسکیموں میں آغاز کے سال 08-2007 کے بعد سے ہی اسکالرشپ میں طلباء کو دی جانے والی رقم پر کوئی نظر ثانی نہیں کی گئی ہے۔
پری میٹرک اسکالرشپس اسکیم کے ڈے اسکالر کو محض ایک ہزار روپے ہی دیے جاتے ہیں، وہیں پوسٹ میٹرک اسکالرشپ میں گیارہویں اور بارہویں جماعت کے داخلہ/ ٹیوشن فیس کیلئے سالانہ سات ہزار روپے کی مالی مدد فراہم کی جاتی ہے۔
اسی طرح میٹیننس الاؤنس میں ہاسٹلرس کو 380 روپے ماہانہ، اور ڈے اسکالرس کیلئے 230 روپے ماہانہ دیے جاتے ہیں۔
میرٹ کم مینس اسکالرشپ اسکیم کے لیے پیشہ وارانہ اور تکنیکی کورسز کے لیے تقریبا پچاسی اداروں کو شامل کیا گیا ہے۔
ان اداروں میں زیر تعلیم طلبہ کو مکمل فیس واپس کر دی جاتی ہے اسی طرح دیگر اداروں میں زیر تعلیم طلباء کو بیس ہزار سالانہ کورس فیس دی جاتی ہے۔اس کے علاوہ طلبہ کو مینٹیننس الاؤنس بھی دیا جاتا ہے۔ ڈے اسکالر کو پانچ سو اور ہاسٹلرس کو ایک ہزار ماہانہ دیا جاتا ہے۔لہذا یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ پری میٹرک اور پوسٹ میٹرک اور میرٹ کم مینس اسکالرشپ اسکیموں کے بجٹ تخصیص نیز اُسکی رقم پر بھی نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے اور اس میں مہنگائی کی شرح کو بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
اسکالرشپ اسکیم کے نفاذ کی صورتحال پر آئی آئی ٹی (IIT) دہلی کے ذریعے کیے گئے ایک مطالعہ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسکالرشپ اسکیموں کے اہلیت کی معیاروں میں تبدیلی، شرحوں میں اضافہ، نوڈل آفسر کے ادارہ کو مراعات اور سالانہ کوٹہ میں اضافہ کیا جائے ساتھ ساتھ طلباء میں اسکیموں کے بارے میں بیداری پیدا کی جائے۔
وزارت نے یہ بات بھی جاری کی ہے کہ اقلیتوں میں بیداری لانے اور اسکالرشپ کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے نیز اس کی تقسیم اور طریقہ کار کو مزید مضبوط کرنے کے لیے وزارت برائے پنچایتی راجیہ کے ذریعے سرپنچوں اور کلکٹروں کو مختلف ایس ایم ایس(SMS) اور پیغام بھیجے گئے تھے کہ اسکیموں کے بارے میں عوامی سطح پر لوگوں کو بتلائیں اور معلومات فراہم کریں۔
اسکالرشپ کا ناقص آن لائن انتظامی سسٹم:
ریاستی سطح پر تکنیکی کمیوں کے باعث طلباء کی ایک بہت بڑی تعداد اسکالرشپ سے محروم ہو جاتی ہیں اور بہت سے اقلیتی ادارے آن لائن ویب پورٹل پر رجسٹریشن کرنے سے قاصر ہیں۔ بہت سے دیہی علاقوں میں طلبہ نیٹ ورک اور بجلی کی ناقص سہولیات کے باعث اسکیم میں اپلائی نہیں کر پا رہے ہیں لہذا آن لائن درخواستوں کے ساتھ ساتھ آف لائن (ہاتھ سے) درخواست جمع کرنے کی سہولت بھی دستیاب ہونی چاہیے تاکہ طلباء دیہی علاقوں میں بھی اسکیم سے استفادہ کر سکیں۔اقلیتی اداروں اور اسکالرشپ کے لیے آن لائن ویب پورٹل پر ریجسٹریشن کرنے والے عہدیداروں/ دفاتر کے درمیان بات چیت اور ایسے ہی سمجھ بوجھ کا کافی فقدان ہے، ٹھیک اسی طرح طلبہ کے بینکوں کے اکاؤنٹ کھولنے اور ضلع انتظامیہ کے درمیان بھی کافی کم سمجھ داری ہی جس کے باعث طلبہ کے اسکالرشپ میں تاخیر ہو جاتی ہے۔
ساتھ ہی اسکیم کے لیے درخواست جمع کرنے کے طریقہ کار میں بھی اصلاح کی ضرورت ہے۔
پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم (PMJVK)/ ملٹی سکٹرل ڈیولپمنٹ پروگرام (MSDP) کے نفاذ میں مضبوطی بخشنا:
14ویں مالیاتی کمیشن جس کی مدت 2019 سے 2020 تک تھی، اس کے تحت پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم (PMJVK) کی MSDP کے ذریعے تنظیم نو کی گئی تھی اور اب یہ سال تا2024تا2025 جاری رہے گی۔ اسکیم کی اثرپذیری کا پتہ لگانے کے لیے PMJVK اور MSDP کا ایک جامع جائزہ بھی لیا جانا چاہیے، درج ذیل جدول سے پتا چلتا ہے کہ سال 20-2019 کے علاوہ MSDP کے فنڈ کے استعمال کو مکمل نہیں کیا گیاگیا، جس کے باعث اس اسکیم کے تحت ہو رہے ترقیاتی کاموں جیسے اسکول بلڈنگ، نئے کلاس رومز اور ہاسٹل وغیرہ کی تعمیر میں کافی تاخیر ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے کئ ضلعوں میں یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ مکمل شدہ اسکول اور ٹیکنیکل کالج ابھی تک شروع نہیں کیے جا سکے ہیں جسکی وجہ سے طلباء اس سے استفادہ نہیں کر پا رہے ہیں۔
جدول :پانچ میں ملاحظہ کریں ہمہ شعبہ جاتی ترقیاتی پروگرام کے تحت مختص بجٹ اور خرچ
اہم نکات
قومی تعلیمی پالیسی(NEP) میں مقررہ اہداف کے حصول کے لیے مجموعی ملکی پیداوار (GDP) کا تقریباً %6 یا بجٹ اخراجات کا %20 درکار ہے۔
مرکزی حکومت کو اقلیتوں کی ضرورت کے حساب سے وظیفہ کی تعداد کو بڑھانا چاہیے تاکہ طلباء کی طرف سے وظیفہ کے لیے موصول ہونے والی کل درخواستوں کو منظور کیا جا سکے۔
اسکالرشپ اسکیموں کی رقم پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اسی طرح اہلیت کے معیار اور اسکالرشپ کی تعداد کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہے۔
اقلیتی برادری میں اسکالرشپ اسکیموں کو لے کر بیداری لانے اور اسکی تقسیم کے طریقہ کار کو بہتر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
مختلف ایس ایم ایس اور پیغامات کو پنچایتی راج وزارت کے ذریعے سرپنچوں اور ضلع كلکٹروں کو بھیجے جائیں تاکہ وہ عوامی سطح پر تینوں اسکالرشپ اسکیموں کے بارے میں بیداری عام پیدا کرسکیں۔
آن لائن درخواستوں کے ساتھ ساتھ آف لائن (ہاتھ سے) بھی درخواست جمع کرنے کی سہولت مہیا ہونی چاہیے تاکہ طلباء دیہی علاقوں میں بھی ان اسکیموں سے فائدہ اٹھا سکیں۔
اقلیتی اداروں اور اسکالرشپ آن لائن ویب پورٹل پر رجسٹریشن کے سلسلے میں متحرک لوگوں کے درمیان تال میل کو بڑھانا چاہیے۔
اسی طرح طلباء کے اسکالرشپ کے لیے بینک اکاؤنٹ کھولنے کے لیے ضلع انتظامیہ کو مدد کرنی چاہیے اور اسکالرشپ کے حصول میں جو تاخیر ہوتی ہے اسے دور کرنا چاہیے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 06 فروری تا 12فروری 2022