افسانہ: احساس

وسیم قریشی،ریاض۔سعودی عرب

میں مصروفیت کے باوجود روزآنہ اخبار کی سرخیاں ضرور دیکھتا اور جب تک کوئی خاص دھماکہ دار خبر نہ ہو دوسرے خبریں پڑھنے کی کوشش نہ کرتا۔ اخبارات روزآنہ جرائم سے بھرے، سیاست سے پُر لیکن اخلاق سے پَرے اور سچی عبارت سے خالی ہوتے ہیں۔ اب تو حال یہ ہو گیا ہے کہ کہیں پچیس پچاس آدمی ہلاک نہ ہو جائیں اخبار کی سرخیاں اہم معلوم ہی نہیں ہوتیں۔ خلیج (گلف) کے پرسکون لیکن پراسرار ماحول میں اس چیز کا احساس بھی کم ہی ہوتا ہے۔ صحافی رابرٹ فسک نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا "خون اور سڑن کی بدبو ہم تک نہیں پہنچتی اس لیے حالات کا حقیقی علم ہم ٹیکس ادا کرنے والوں کو نہیں ہوتا ہے”۔ اب تو قتل، خود کشی، زنا بالجبر اور فسادات روز کا معمول بن گئے ہیں اور جو اس سے متاثر ہوتے ہیں وہ ہی اس کی صحیح کیفیت جانتے ہیں۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ قبر کا حال تو بس مردہ ہی بہتر جانتا ہے۔ رہے دوسرے لوگ تو بس کچھ دیر کا افسوس اور زبان سے اظہارِ تاسف اور پھر زندگی رواں دواں۔
کچھ ہفتہ قبل گھر پر کال کیا تو بیگم نے دادا بننے کی مبارک باد پیش کی۔ میں نے تعجب سے پوچھا ابھی میں اتنا ضعیف نہیں ہوا ہوں کے دادا بن جاؤں۔ بیگم نے بتایا کے اپنے خرگوش کے جوڑے کو چھوٹے چھوٹے چار بچے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا کہ میرا گھر کب سے چڑیا گھر بن گیا ہے۔ بیگم نے بتایا کے طلحہ بہت ضد کر کے خرگوشوں کا ایک عدد جوڑا خرید کر لایا ہے اور بالکونی میں ان کی رہائش کا انتظام کیا گیا ہے۔ بہت منع کرنے پر بھی دادی جان سے چھپا کر لایا ہے۔ روزانہ تیس چالیس روپیوں کی ترکاری بھی کھلائی جا رہی ہے۔ یہ سن کر پہلے تو مجھے بہت غصہ آیا لیکن اکّی کی خرگوشوں سے محبت بھری باتیں سنیں، وہ روزآنہ اسکول جاتے اور واپس آتے ہوئے خرگوش کے بچوں سے باتیں کرتی تھی، بیگم نے فون پر سنایا تھا۔ بہت پیاری پیاری باتیں کرتی تھی۔ ہم نے آخر ان کی سکونت کی اجازت دے دی۔ ہمارے واٹس ایپ پر بھی بہت سی خرگوشوں کی تصویریں آئیں۔ خنساء نے صفائی کی ذمہ داری لے لی، طہ نے گاجر اور مولی کی، ضحیٰ نے بچوں کے دیکھ بھال کی۔ ہمارے بچے بہت خوش تھے، گرما کی شدت، پانی کی قلت اور تمام پریشانیاں بھول چکے تھے۔ لیکن ننھے خرگوشوں کی ماں انہیں دودھ ہی نہیں پلاتی تھی۔ طبیبِ حیوانات سے رجوع کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ پہلن بچوں کو خرگوشن ایسے ہی کرتی ہے اور جب نو مولود بچوں کی پہلی کھیپ اس دار فانی سے کوچ کر جاتی ہے تب ہی خرگوشن کو دوسری کھیپ کو سنبھالنے کا تجربہ ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے بچے کب ماننے والے تھے، گوگل پر تمام خرگوش پروری کے معلومات پڑھتے رہے اور ننھے خرگوشوں کو ماں کے قریب لے جاتے اور دودھ پلانے کی کوشش کرتے۔ اب تمام باتیں روزآنہ کی نشریات کا حصہ تھیں۔ خرگوش کے بچوں کے آمد گویا گرما میں بھی بہار کی آمد تھی۔ بہت سے رشتہ دار بھی مبارک باد دینے آئے۔ اس طرح دادی جان اور نانی اماں کو بھی اس راز کا علم ہو گیا۔ طلحہ اور طہ کو گرمائی دینی کیمپ میں جانا تھا۔ وہ گئے اور بہنوں کو ساری ذمہ داری دے گئے جیسے کوئی بڈھا حج پر جاتے ہوئے وصیت کر جاتا ہے۔
میں بھی آفس کے ایک پروجیکٹ پر بہت مصروف رہا اور گھر کال نہ کر سکا۔ آج صبح ضحیٰ کا میسیج آیا کہ "ابو آپ فارغ ہیں کیا”۔ میں نے جواب میں لکھا میٹنگ میں ہوں۔ ابھی میٹنگ ختم بھی نہ ہو پائی تھی کے بیگم کا میسیج آیا، ذرا ضحیٰ سے بات کر لینا۔ مجھے شک ہوا کے ضرور کوئی گڑبڑ ہے میٹنگ روم سے باہر نکل آیا اور اپنے کیوبیکل میں آ بیٹھا۔ جلدی سے گھر فون ملایا۔ بیگم نے ضحیٰ کو فون تھما دیا۔ ضحیٰ بتا رہی تھی کے بہت کوشش کے باوجود خرگوش کا ایک بچہ مرگیا اور سارے بچوں کے درمیاں خاموشی طاری ہے لیکن اُس کی ماں کو کچھ بھی خیال نہیں ہے۔ میں نے مذاق سے کہا، بھائی گھر کے سامنے کالا جھنڈا لگاؤ محلہ میں تین دن کے سوگ کا اعلان کراؤ اور قرآن خوانی کروانا نہیں بھولنا۔ فون اسپیکر پر تھا لیکن غیر متوقع طور پر کوئی بھی نہیں ہنسا۔ لیکن ضحیٰ کی آواز بھر آئی اور اس نے کہا، میں نے کسی کو مرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور زور زور سے رونے لگی۔ بیگم نے کہا میں بہت سمجھا رہی ہوں لیکن مان کے نہ دے یہ لڑکی، بس روئے چلی جارہی ہے۔ اب آپ ہی سمجھائیے اسے۔ بچوں نے اس خرگوش کے بچے کو رات تمام گلوکوز پلایا ہے، سب رات کے جاگے ہوئے ہیں، اسے بچنا نہ تھا نہ بچا۔ میں محسوس کر رہا تھا کہ سارا گھر ماتم کدہ بن گیا ہے اور ہر بچہ رنجیدہ ہے، جیسے گھر کا کوئی فرد فوت ہو گیا ہو۔ طلحہ کہہ رہا تھا مت رو باجی، جب جنت کا دروازہ کھولیے گا تو سب سے پہلے ہمارا ہنی بنی دوڑتا ہوا آئے گا اور ہم سے ملے گا۔ میں نے بھی سمجھانے کے لیے تاسفی کلمات کہے اور گھر کے بازو والی زمین میں دفنانے کو کہا۔ بچے یوں توں کرکے مان گے، لیکن میں محسوس کر رہا تھا کے میری آنکھوں میں بھی آنسو ہیں۔ ہم ایک خرگوش کے بچے کی موت برداشت نہ کر سکے۔ اُن گھروں کا کیا حال ہوتا ہوگا جن کے سر پرستوں کے سامنے ان کے جگر گوشوں کو موت کی آغوش میں سلادیا جاتا ہے۔ میرا ہاتھ ٹشو پیپر کے ڈبے تک پہنچ چکا تھا لیکن آنسو آنکھوں سے نکل کر اخبار پر ٹپک چکے تھے۔