اشوک اعظم اور ٹیپو سلطان کے لیے دو الگ الگ پیمانے کیوں؟
ٹیپو اور ان کے سپہ سالاروں کی شہرت اور کارناموں کو انہیں کے خلاف پیش کیا جا رہا ہے
آکار پٹیل، سینئر صحافی
مترجم :جاوید اختر
پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط سے 2015میں اتفاقاً میری ملاقات بنگلورو میں ہوئی تھی۔ میں انہیں ایک عرصے سے جانتا ہوں۔ میں نے ان سے پوچھا وہ جنوبی ہند میں اور کہاں جانے والے ہیں۔ دراصل عبدالباسط پاکستان کے پہلے یا دوسرے ہائی کمشنر تھے جنہیں بنگلورو میں آنے کی اجازت ملی تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ پہلے ٹکنالوجی پارک جائیں گے اس کے بعد وہاں سے میسور کے لیے روانہ ہونگے۔ وہاں عبدالباسط نے شری رنگا پٹنم میں ٹیپو سلطان پیلس جانے کا منصوبہ بنایا تھا جو میسور کے ٹھیک باہری حصہ میں واقع ہے۔ باسط نے شاید یہ مان لیا تھا کہ ٹیپو پر سبھی بھارتیوں کو فخر ہوگا لیکن حال کے واقعات نے یہ دکھا دیا ہے کہ انکی سوچ غلط تھی۔ ٹیپو جینتی تقریب کے دوران 2015میں دو لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ جیسا کہ آج کل کئی معاملوں میں ہندو۔مسلم کی سیاست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ویسے ہی ٹیپو جینتی بھی ایک ہندو۔مسلم کا مسئلہ بن چکا ہے۔
حقیقت پسندی کے بجائے جذبات کی غلامی
دنیا کے اس حصے یعنی بھارت میں بادشاہوں کو دو طرح سے دیکھا جاتا ہے۔ اچھا جیسے اشوک، اکبر وغیرہ ۔۔۔ اور برا جیسے اورنگ زیب، ٹیپو سلطان وغیرہ ۔۔۔ ایک خاص سماج اور قوم میں اس طرح کی سوچ عادت بن چکی ہے اور یہ لوگ تاریخ کو سچائی اور وجوہات کے بجائے جذبات کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ ایسی سوچ جاہل اور کچھ نئے تعلیم یافتہ لوگوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ ٹیپو اور انکے سپہ سالاروں کی شہرت اور کارناموں کو انہیں کے خلاف اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسے وہ ہمیشہ سے ہندوؤں کے خلاف جہاد کرتے رہے ہوں۔ یہ سب بکواس ہے! لیکن یہاں یہ سب بتانے کی کوشش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ لوگ انکے بارے میں کتابیں پڑھیں اور پھر فیصلہ کریں۔ لیکن یہاں مشکل یہ ہے کہ بھارت میں ایسے عنوانات پر کتابیں بہت کم لکھی گئی ہیں۔ ہمارے یہاں ڈائری یا خود نوشت لکھنے کی روایت نہیں ہے۔ تاریخ کے اہم واقعات پر ہمیں لکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اسی لیے ٹیپو پر کوئی ایسی جامع کتاب نہیں ہے جسے بھارتی مصنف نے لکھا ہے۔ اگر کسی کو اس بادشاہ کے بارے میں جاننا ہے تو انیسویں صدی میں لوئس باورنگ کی لکھی کتاب ’’حیدر علی، ٹیپو سلطان اینڈ اسٹرگل آف مسلمان پاورس آف ساؤتھ‘‘ کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ باورنگ ایسا نام ہے جس سے بنگلورو کے لوگ اچھی طرح واقف ہیں کیونکہ انکے نام پر ہی سینٹ مارکس روڈ پر باورنگ کلب ہے۔
ٹیپو سے متعلق چند اہم باتیں
ٹیپو سلطان میں میری دلچسپی دو تین باتوں سے متعلق ہے۔ پہلا یہ کہ انگریزوں کے لیے انکو شکست دینا بہت مشکل ہوگیا تھا۔ جب ہم ماضی کے معروف تاریخ داں جدو ناتھ سرکار کی تحریروں کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بالکل صاف ہوجاتا ہے کہ مراٹھا نہیں بلکہ ٹیپو اصل میں ایک بہادر جنگجو تھا۔ پانی پت کی لڑائی میں جس طرح مراٹھوں کا حوصلہ پست ہوا تھا اس کے مقابلے ٹیپو سلطان کا لگاتار بہادری کے ساتھ انگریزوں کو ٹکر دینا قابل غور ہے۔ یہ پورے واقعات چالیس سالوں یعنی 1761 (جب احمد شاہ ابدالی نے پانی پت کی لڑائی جیتی) سے 1799(جب ٹیپو سلطان کی موت واقع ہوئی) کے درمیان پیش آئے۔ ان برسوں میں انگریزوں نے اپنے سبھی دشمنوں کو ہرا دیا اور صرف پنجاب بچا رہ گیا جو کچھ سالوں میں رنجیت سنگھ کی موت کے بعد خود ہتھیار ڈال دیتا۔ یہ صرف ٹیپو سلطان ہی تھا جس کی طرف سے انگریزوں کو لگاتار مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹیپو سلطان صرف بہادر ہی نہیں تھا بلکہ اسے سیاسی امور کی بہتر جانکاری بھی تھی اور اسی وجہ سے ٹیپو نے بڑی عقلمندی کے ساتھ فرانسسیوں کو انگریزوں کے خلاف استعمال کیا۔ اس کے علاوہ جنگ سے متعلق ٹیپو کا نظریہ بالکل ہی الگ اور مارڈرن تھا۔ یہ بات بھی جگ ظاہر ہے کہ ٹیپو کی فوج ہی پہلی فوج یا پھر ابتدائی دور کی فوج تھی جس نے جنگ میں راکٹ کا استعمال کیا تھا۔ ٹیپو کو شکست دینے کے لیے برطانوی تاریخ کے سب سے عظیم جنگجو آرتھر ویلسلی کی خدمات لینی پڑی تھی۔ ویلیسلی نے جسے ہم ’’ ڈیوک آف ویلنگٹن‘‘ کے نام سے جانتے ہیں واٹرلو کی لڑائی میں نیپولین کو ہرایا تھا۔ یہ ہمارے لیے نہایت ہی مایوس کن ہے کہ ٹیپو کے فوجی کارناموں اور قومی خدمات کو بہت آسانی سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ٹیپو کے بارے میں اگر کچھ یاد کیا جا رہا ہے تو وہ بس یہ کہ اس نے ہندوؤں کو مارا اور مذہب تبدیل کروایا، چاہے اس بات میں کوئی سچائی ہو یا نہ ہو۔
اشوک اور ٹیپو سلطان
بادشاہ اشوک نے اڑیسہ کو فتح کرنے کے بعد کسی غیر ملکی شہری یا مسلمان کا قتل نہیں کیا تھا بلکہ یہ اڑیا ہندو ہی تھے جن کا ہزاروں کی تعداد میں اشوک نے بڑی بے رحمی سے قتل کیا تھا جیسا کہ تاریخ کی کتابوں میں اور کہانیوں میں ہمیں پڑھنے کو ملتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی اشوک کو ’مہان‘ یعنی عظیم کہا جاتا ہے اور اسکا نشان ’شیر‘ بھارتیہ جمہوریت کا قومی نشان بھی ہے۔ ترنگا جھنڈے میں جو چکر ہے اسے اشوک چکر کہا جاتا ہے کیونکہ یہ بھی راجا اشوک کا ہی نشان ہے۔ ہم کیوں اشوک کی عزت کرتے ہیں اور اسے عظیم بادشاہ کہتے ہیں لیکن ٹیپو سلطان کو نہیں جبکہ دونوں پر قریب ایک جیسا جرم کرنے کا الزام ہے؟ ہم اس کا جواب جانتے ہیں۔ بھارت میں ایک مسلمان بادشاہ کو ویسے ہی کسی جرم کے لیے معاف نہیں کیا جاسکتا جیسا ایک ہندو بادشاہ نے کیا ہو۔ پٹیالہ کی شاندار عمارت مہاراجہ آلا سنگھ نے تعمیر کروائی تھی لیکن انکے پاس بڑی فوجی کامیابی قریب صفر کے برابر ہے۔ لیکن آلا سنگھ طاقتور ہو گئے کیونکہ انہوں نے مراٹھاؤں کو شکست دینے میں ابدالی کا ساتھ دیا تھا اور انہیں افغان حکمرانوں کی جانب سے انعام و اکرام سے بھی نوازا گیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا کوئی آلا سنگھ اور انکے آبا واجداد کو غدار کی طرح دیکھتا ہے؟ پٹیالہ کے راجہ لگاتار مہاراجہ رنجیت سنگھ کی مخالفت کرتے رہے لیکن انہیں کوئی بھی ملک یا قوم مخالف کی طرح نہیں دیکھتا۔ ایسا رویہ صرف مسلم بادشاہوں کے خلاف ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں ہمیں پڑھنے یا لکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ ایسے لوگوں کے بارے میں ہمیں برے سے برا مان لینے اور ایسی چیزوں کی مخالفت کرنے میں ہمیشہ دلچسپی رہتی ہے جنکے بارے میں ہم بہت کم جانتے ہیں۔
(یہ تحریر 14نومبر 2015میں بی بی سی کی ویب سائٹ پر شائع ہوئی تھی، اس کے بعد
’’دکن کوئسٹ ویب سائٹ پر 10نومبر 2020کو شائع ہوئی ہے)
***
بھارت کے صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند جو آر ایس ایس کے نظریہ سے تعلق رکھتے ہیں کرناٹک اسمبلی میں ٹیپو سلطان کی تعریف کرکے سخت گیر بایاں بازو کی جماعت کے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ صدر جمہوریہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’ ٹیپو سلطان انگریزوں سے لڑتے ہوئے ایک ہیرو کی موت مرے۔ اس نے راکیٹ کی ایجاد اور ترقی میں بڑا رول ادا کیا اور اس کا استعمال بھی کیا‘‘۔
(سماجی کارکن و ماہرتعلیم، رام پنیانی کی تحریر جو دکن کوئسٹ ویب سائٹ پر شائع ہوئی تھی، سے ماخوذ ہے)
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020