اسوہ حسنہ کی پیروی سے معیاری سماج کی تعمیر ممکن

جماعت اسلامی ہند کی ماہ ربیع الاول کے پیغام پر ویڈیو سیریز

وسیم احمد، دلی

 

ربیع الاول ہجری سال کا تیسرا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ ہمیں رسول اللہ ﷺ کے کردار و گفتار اور ان کے پسندیدہ اعمال کو اپنی زندگی میں لاگو کرنے کا پیغام دیتا ہے۔ اس ماہ مبارک میں رسول اللہ ﷺ کی ولادت ہوئی اور وفات بھی اسی مہینے میں ہوئی۔ ربیع موسم بہار کو کہا جاتا ہے۔ یقیناً رسول اللہ ﷺ کی ولادت خزاں رسیدہ دھرتی کے لیے بہار لے کر آئی اور اسی مناسبت سے اس ماہ کا نام ربیع یعنی موسم بہار پڑا۔ پوری دنیا کے مسلمان اس ماہ کو آپؐ کی محبت کی لذت میں بسر کرنا چاہتے ہیں اور گنہگار سے گنہگار بھی اس ماہ کی عظمت پر خود کو قربان ہونے کو سعادت سمجھتا ہے۔ یہ ایک اچھا جذبہ ہے۔ لیکن ہمیں اس حقیقت کو بھی نہیں بھلانا چاہیے کہ اس ماہ کی آمد جہاں ہمارے لیے خوشیوں کا پیغام لے کر آتی ہے اور ولادت نبی کی تاریخ کا سرور دیتی ہے وہیں آپ ﷺ کی رحلت کا سوز بھی دیتی ہے کہ اسی ماہ میں آپ اس دار فانی سے دار بقاء کی طرف کوچ کئے۔ اسی ماہ میں نبی آخر کی ولادت اور رحلت سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ خوشی و شادمانی اور غم و اندوہ کے اظہار میں ہمیں ایک معتدل راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ دین اسلام کا یہی تقاضہ ہے، کیونکہ اسلام متوازن اور اعتدال پسند دین ہے۔ اس کی تعلیمات اور احکام میں توازن پایا جاتا ہے۔ اس نے ہر معاملے میں اعتدال کا حکم دیا ہے اور افراط و تفریط کا خاتمہ کیا ہے۔ اب اگر ہم اس اعتدال کو چھوڑ دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اس ماہ مبارک میں بجائے بہتر کرنے کے حکم عدولی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اس ماہ کی نسبت سے جماعت اسلامی ہند کے شعبہ اسلامی معاشرہ کی جانب سے پورے ماہ ہر روز ایک مختصر ویڈیو جاری کی جا رہی ہے جس میں ہمیں کیا کرنا ہے اور کس چیز سے بچنا ہے اس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اس ویڈیو کو اس لنک پر دیکھا جاسکتا ہے www.youtube.com/channel/UCNYgfVXB_LRjEwRMGQQESLQ اس پروگرام کے پہلے دن جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے اپنی ایک تقریر میں اس پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ انہوں نے اپنی اس تقریر میں کہا کہ رسول اللہ کی زندگی نوع انسان کے لیے ایک نمونہ ہے۔ نمونہ کا مطلب ہے ان کے حکم کی پیروی کرنا۔ یہ پیروی چند روز کے لیے نہیں بلکہ تا حیات ہے اور یہ حکم قیامت تک جاری رہے گا۔ رسول اللہ کی زندگی کا احصاء کیا جائے تو ہماری زندگی کے تمام شعبوں کے لیے نمونہ موجود ہے۔ اہل خانہ کے ساتھ محبت، رشتہ داروں اور اقربا کے ساتھ حسن سلوک، تاجر کی حیثیت سے ایمانداری، حکمراں کی حیثیت سے انصاف پروری، خوشحالی میں شکر گزاری، بدحالی میں صبر، انقلابی تحریک کی قیادت کرتے ہوئے تحمل و برداشت، شعب ابی طالب کے اذیتوں سے بھرے ایام میں صبر و رجاء اور فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوتے ہوئے عفو و درگزر کا اسلوب۔ غرض زندگی کے جتنے بھی شعبے ہیں سب میں نبی کا عملی نمونہ مل جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کے اقوال کی پیروی بھی عملی نمونے کا جزو ہے۔ یہ عملی نمونہ زندگی کے ہر گوشے میں ہونا چاہیے۔اسلام کی تعلیمات نہایت ہمہ گیر اور جامع ہیں۔اسلام انفرادی زندگی کے لیے بھی ہدایات دیتا ہے اور اجتماعی زندگی کے لیے بھی۔ اسلام میں جتنی اہمیت اخلاقی نظام اور عبادت کی ہے اتنی ہی اہمیت سیاسی، معاشرتی تمدنی اور اقتصادی نظام کی بھی ہے۔ حضورؐ کی رواداری، مساوات، عورتوں کے حقوق و احترام، بچوں کی تعلیم و تربیت وذہنی تعمیر، حق کی پاسداری، برائیوں کی بیخ کنی کے احسن طریقے، بھائی چارگی، پڑوسیوں کے حقوق غرض ہر موقع پر ہمیں رسولؐکے اسوہ کا خیال رکھنا ہوگا۔ کیونکہ اسی میں دنیا کا سکون ہے اور آخرت کی کامیابی بھی اور اسی اسوہ حسنہ کی پیروی کر کے ہم ایک معیاری سماج کی تشکیل دے سکتے ہیں‘‘۔
اگر ہم اس وقت دنیا کے حالات کا جائزہ لیں تو انسانی آبادی سخت بے چینیوں اور کلفتوں میں گرفتار ہے۔ ظلم و زیادتی کی گرم بازاری ہے اور انسانی خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ مصر، سیریا، عراق، ایران، افغانستان، روہنگیا مسلمانوں وغیرہ میں خون کی ارزانی ہے۔ اس کا حل اگر کہیں ہے تو وہ محمدی دستور حیات کو اختیار کرنے میں ہے۔ صرف زبان سے محبت کا دم بھرنے سے اسوہ محمدی کی پیروی کا حق ادا نہ ہوگا۔ آپؐنے اپنی زندگی کے آخری وقت میں نماز کی وصیت فرمائی تھی، بیجا اسراف اور فضول خرچی سے باز رہنے کی تلقین کی تھی، پڑوسی اور رشتہ داروں کے ساتھ نرم کردار و نرم گفتار بن کر ایک پُرامن سماج کو وجود میں لانے کی تلقین کی تھی، غیر محرم عورتوں سے اختلاط تو بڑی چیز ہے، ان کی جانب نظر اٹھانے کو بھی دین و ایمان کی ہلاکت قرار دیا تھا۔ مگر ہمارا رویہ اس سے بالکل الگ اور من مانی انداز کا ہے اور عورتوں کے احترام کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں عصمت دری کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہاہے۔
واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ہر روز تقریباً 87 عصمت دری کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ اگر ہر فرد رسول پاکؐکے قول کو مضبوطی سے پکڑ لے اور عورتوں کا احترام اور ان کی ناموس کے تحفظ کو لازمی سمجھے تو نربھیا یا ہاتھرس کی لڑکی کے ساتھ ہوئے سماج مخالف، انسانیت سوز اور دردناک واقعات سے بچا جاسکتا ہے۔ قابل غور ہے کہ اسلام کا پیغام تمام بنی نوع انسان کے لیے ہے چاہے وہ کسی ملک و ملت اور رنگ و نسل کا ہو۔ یہ بات ذہن نشیں کرنے کی ہے کہ دین اسلام عالم انسانی کے لیے نازل کیا گیا ہے لہٰذا بلا تفریق مذہب و ملت ہر فرد اس کی تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیا جائے تو ایک اچھا اور معیاری سماج وجود میں آئے گا۔ یہ مہینہ ہر سال آتا ہے اور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم اہل ایمان نے اپنے نبی کے نقش قدم پر چلنے کا جو ایمانی عہد کیا ہے، اسے پس پشت نہ ڈالیں۔ اس ماہ کا تقاضہ ہے کہ پوری زندگی بالخصوص اس ماہ میں کوئی خلاف سنت کام نہ ہو،م جو دین ہادی عالم کی منشا کے خلاف ہو اور ننگ انسانیت کا باعث بنے مگر ہائے افسوس کہ انسان اسی گھٹا ٹوپ اندھیرے کی طرف جا رہا ہے جہاں سے نبی کریمؐنے نکالا تھا۔
ہمیں غور کرنا ہے کہ اس ماہ میں ہمیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔ اس پر رہنمائی کے لیے جہاں ملک کے علماء انفرادی طور پر محنت کر رہے ہیں وہیں تنظیمیں، جماعتیں اور ملی ادارے اپنے اپنے طور پر امت کو ربیع الاول کے تقاضے سے آگاہ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس ماہ کی ابتدا سے ہی جماعت اسلامی ہند کے شعبہ اسلامی معاشرہ نے ایک پروگرام شروع کیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت پورے مہینے روزآنہ ایک مختصر ویڈیو جاری کیا جاتا ہے جس میں رسول اللہ کے ارشادات اور سیرت کی روشنی میں اسلام کی تعلیمات عام کی جاتی ہے۔ ہر ویڈیو الگ الگ عنوانات پر امت کو اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کرتا ہے۔ اس موقع پر مولانا جلال الدین عمری صدر شرعیہ کونسل، جماعت اسلامی ہند نے اپنے ایک خطاب میں کہا کہ اس ماہ کے آتے ہی لوگوں میں ایمانی جذبہ ابھر کر سامنے آنے لگتا ہے اور ذکر و فکر میں اضافہ ہونے لگتا ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ ہمارا رشتہ رسول پاک سے بہت گہرا ہے۔ ہر مومن اللہ سے محبت کو عزیز از جان رکھتا ہے اور اللہ کے رسول فرماتے ہیں کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ اللہ کی محبت رسول کی اطاعت میں مضمر ہے اور رسول کی اطاعت کا مطلب ہے ان کے اعمال و گفتار کو اپنی زندگی میں لاگو کرنا۔ جس کام کو اللہ کے رسول نے پسند فرمایا وہ ہماری پسند ہو جسے اللہ کے رسول نے مسترد کیا وہ ہمارے نزدیک قطعی متروک ہو۔ مولانا ولی اللہ سعیدی فلاحی نے اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ کی پیروی میں کامیابی ہے۔ پیروی کرنے والا کسی رنگ و نسل کا ہو، رسول کی پیروی میں اس کے لیے کامیابی ہے۔ بلال حبشی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ الگ رنگ و نسل کے تھے مگر پیروی کی تو کامیاب ہوئے اور اگر پیروی نہیں کی گئی تو وہ رسول کا چچا ہی کیوں نہ ہو تباہ و برباد ہوگا۔ اللہ کے رسول نے عورتوں کو عزت دی مگر ہمارا کردار کیا ہے۔ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی شکل میں سماج میں اسے کیا مقام دیا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے ہمیں ان تمام امور میں اللہ کے رسول کے کردار کو دیکھناہوگا۔ یہ مہینہ خوشیاں لے کر آیا ہے اور ساتھ میں رسول کی وفات بھی۔ ہمیں اعتدال کے ساتھ اسلام کی تعلیمات کو اختیار کرنے کا عہد کرنا ہوگا۔ کیونکہ اسی میں دین اور دنیا کی کامیابی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 تا 14 نومبر، 2020