ابو فہد،دلی
اسلوبِ تحریر ہر صاحب قلم کے لکھنے کے اپنے اسٹائل کا نام ہے۔ أسلوبِ تحریر صاحب قلم کے مخصوص لفظیات، پھر انہیں خاص طرز پر ترتیب دینے کے ذاتی ہنر اور استعداد اور پھر استعاروں اور ضرب الامثال وغیرہ کو اس کے اپنے خاص طرز پر برتنے سے تشکیل پاتا ہے۔ یہ سرتا سر کوئی ذہنی رویہ یا فکرو رجحان نہیں ہے، البتہ یہ صاحب قلم کے ذہنی رویوں کا غماز اور فکر ورجحان کا پرتَو ضرور ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلوب تحریر صاحب قلم کے اسلوب زندگی کا پرتو ہے۔ اگر قلم کار کا ذہن صاف اور شارپ ہے تو اسلوب بھی صاف اور شارپ ہوگا اور اگر ذہن صاف نہیں ہے اور فکر گنجلک ہے تو اس کا اسلوب بھی گنجلک، بے معنیٰ اور تضادات سے بھرا ہوا ہوگا۔ کیونکہ صاحب قلم اگر کسی مسئلے یا کسی فکر کو بذات خود نہیں سمجھ سکتا تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ دوسروں کو بھی نہیں سمجھا سکتا، قلم کے ذریعے بھی نہیں، کم از کم مکمل وضاحت کے ساتھ تو بالکل بھی نہیں۔ اسلوب کا تعلق جس قدر فصاحت وبلاغت کی اضافی اور مقتدر صلاحیتوں سے ہے اسی طرح اس کا تعلق ذہنی رویوں اور ذہن میں پرورش پانے والے افکار سے بھی ہے۔
قلم کار اپنی کسی تحریر میں جو کچھ پیش کررہا ہے، جس فن پر یا موضوع پر خامہ فرسائی کر رہا ہے اگر وہ اس کے تعلق سے بہت زیادہ مطمئن ہے اور اس کے تمام ابعاد اور تمام مہمات اس کے ذہن میں روشن ہیں بلکہ اس حد تک روشن ہیں کہ وہ خود اپنا بے تابانہ اظہار چاہتے ہیں اور اظہار کے لیے کسی پیرائے کے متلاشی ہیں تو قلم کار یا مصور اس کو بہت ہی آسانی اور حسن کارکردگی کے ساتھ اظہار کا جامہ پہنا سکتا ہے۔
ہر آدمی کے اندر فکر ہے اور وہ اظہار چاہتی ہے۔ اب جس آدمی نے اظہار کے جس فارم کی مشق کی ہوتی ہے یا اسے اظہار کے کسی فارم جیسے شاعری، نثر نگاری، مصوری وغیرہ میں قدرتی ملکہ حاصل ہوتا ہے اس کی فکر خود بخود اسی فارم کو چن لیتی ہے اور بعض وقت آدمی کے نہ چاہتے ہوئے بھی اظہار کے مخصوص جامے میں آجاتی ہے۔ عربی کا ایک شعر ہے:
إنَّ الْكَلَامَ لَفِی الْفُؤَادِ وَإِنَّمَا
جُعِلَ اللِّسَانُ عَلَى الْفُؤَادِ دَلِیلًا
’’ کلام تو اصلاً دل (دماغ) میں ہوتا ہے اور زبان تو محض اس دل (دماغ) کی ترجمان ہے‘‘
ایک اچھا اسلوب پانے کے لیے قلم کار کو وہبی صلاحیت کے بعد اسے کسب سے حاصل کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے اسی طرح محنت ومشقت کرنی پڑتی ہے جس طرح وہ روزی روٹی کمانے کے لیے محنت ومشقت کرتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی صاحب اسلوب قلم کار کو اپنا استاد مان لے، یا کسی کے طرز اسلوب کو سامنے رکھ کر اپنا اسلوب بنانے کی سعی کرے۔
زبان سیکھنے کا یہی ایک طریقہ ہے کہ اچھی شاعری کا مطالعہ کیا جائے اور ادیبوں، عالموں اور مفکرین کی تحریریں پڑھی جائیں۔ الفاظ، اصطلاحات، ضرب الامثال، محاورے اور زبان کے مختلف لہجے اور پیرائے سیکھے جائیں۔ اور یہ سب چیزیں یاد کرنے یا رٹنے سے نہیں آتیں بلکہ برتنے سے اور مستقل مشق سے آتی ہیں۔ جس طرح تیراکی پانی میں اتر کر سیکھنے سے آتی ہے تیراکی کے اصول پڑھنے سے نہیں آتی۔ اسی طرح اسلوب بھی لکھنے کی مسلسل مشق سے بنتا ہے اور اسلوب بنانے کی شعوری کوشش کرنے سے بنتا ہے، محض گرامر جان لینے، الفاظ یاد کرلینے اور اور کبھی کبھار اور جستہ جستہ کچھ مضامین پڑھنے لینے سے نہیں بنتا۔
لکھنا آنا الگ چیز ہے اور صاحب اسلوب ہونا الگ چیز ہے۔ لکھنا بہت سارے لوگ سیکھ لیتے ہیں یا طویل عرصے تک پڑھنے لکھنے کا کام کرنے کی وجہ سے بھی بعض لوگ اچھا لکھنا سیکھ جاتے ہیں مگر صاحب اسلوب بننا آسان نہیں۔
کئی لوگ اپنی افتاد طبع کو ہی اسلوب بتاتے ہیں۔ مثلاً کوئی بہت غصے والا ہے، منفعل مزاج کا حامل ہے تو اس کی یہ صفات جیسا کہ میں نے کہا کہ اسلوب ذہنی رویوں کا غماز ہوتا ہے، اس کی یہ صفات اس کی تحریروں میں در آتی ہیں۔ کبھی جانتے بوجھتے ہوئے بھی اور کبھی خواہی نخواہی بھی۔ اس کا غصہ، انفعالیت، جذباتیت، شتابیت یا اس کے برعکس سرد مزاجی، سادہ لوحی اور سہولت پسندی اس کی تحریروں میں بھی لازماً ظاہر ہوں گی۔ مگر اسے اسلوب کہنا غلط ہے۔ کوئی آدمی بہت جلد رد عمل کا شکار ہو جاتا ہے تو یہ چیز اس کے اسلوب تحریر میں خواہی نخواہی آہی جائے گی، وہ جلد ہی لعن طعن پر اتر آئے گا، زمینی حقائق کو قبول کرنے سے انکار کرے گا اور اگر کسی بات کو رَد کرے گا تو سختی کے ساتھ اور درشت لب ولہجے میں رد کرے گا۔ اس کا تعلق افتادِ طبع سے ہے، اسلوبِ تحریر سے اس کا تعلق اضافی ہے۔ قلم کار اگر چاہے تو شعوری کوشش کر کے ان تمام طرح کی واردات کو اپنے اسلوب تحریر سے ختم کر سکتا ہے۔
جیسا کہ میں نے کہا کہ اسلوب ذہنی ریوں کا پرتو ہے، وہ کوئی فی نفسہ ذہنی عمل نہیں ہے، بلکہ وہ خارج کی شے ہے۔ اسلوب ذہن وفکر پر وارد نہیں ہوتا بلکہ فکر یا ذہنی رویے اسلوب پر وارد ہوتے ہیں۔ اسلوب ایک خارج کی شے ہے آپ اسے جس رنگ میں چاہیں رنگ سکتے ہیں، آپ اپنے اسلوب میں پھول جیسی نرمی اور شبنم جیسی ٹھنڈک بھی پیدا کر سکتے ہیں اور بجلی جیسی کڑک اور کالے بادلوں جیسی گھن گرج بھی۔ آپ اپنی شتابیت اور انفعالیت کو بھی اسلوب پر وارد کرسکتے ہیں اور اس کے برخلاف سنجیدگی اور گہرے فکر ورجحان کو بھی اس پر حاوی کرسکتے ہیں۔ اسلوب تحریر پر کئی بار مضمون کی نزاکتیں بھی وارد ہوجاتی ہیں اور اسی لیے ایسا ہوتا ہے کہ سائنس، ادب، تحقیق، تنقید اور فقہ وقانون جیسے مضامین میں ہر ایک مضمون کا اسلوب الگ ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ ایک ہی شخص جب مختلف مضامین میں خامہ فرسائی کرتا ہے تو اس کے اسالیب بدل جاتے ہیں، حد تو یہ ہے کہ صاحب اسلوب کے اسالیب بھی بدل جاتے ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے اسلوب میں بھی یہ چیز دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان کا اسلوب ہمیشہ یکساں نہیں رہا، ایک طرف تو یہ تھا کہ ان کا اسلوب ترقی کے مدارج طے کرتا رہا اور دوسرے یہ بات بھی ہے کہ مختلف موضوعات نے مختلف اسالیب کا جامہ پہن لیا ہے۔ کسی بھی موضوع پر لکھتے وقت ان کی قلبی واردات جس طرح کی تھیں اور موضوع سے متعلق استعداد اور تیاری جس طرح کی تھی وہ ان کے اسلوب کے مختلف زاویے طے کرنے کا باعث بن گئیں۔
ابوالکلام آزادؔ قلم کے بادشاہ، اپنے اسلوب کے آپ ہی موجد اور آپ ہی خاتم تھے۔ ان کے اسلوبِ تحریر پر شاعری بھی فریفتہ ہوئی اور اپنی تماتر لطافتوں، نزاکتوں اور نازک خیالیوں اور ہوش ربائیوں کے ساتھ فریفتہ ہوئی۔ جس وقت ان کی صریرِ خامہ نوائے سروش بن کر عالم مثال میں چھائی ہوئی تھی اس وقت اور بھی کئی لوگ تھے جن کے قلم کی صدائے باز گشت سے مردے جاگ اٹھتے تھے۔ ان میں سے اکثر نے ابوالکلام کے قلم کا پیچھا کیا۔ انہوں نے بہت دل سے چاہا کہ وہ ان کے جیسی نثر لکھنے لگ جائیں، مگر یہ ایسی نوائے سروش تھی کہ اس کا صرف عاشق بنا جا سکتا تھا اس کی نقل تقریباً نا ممکن تھی۔
آزادؔ کے قلم کی یہ انتہائی تعریف اپنی جگہ لیکن اصل بات یہ ہے کہ اسلوب وہی بہتر ہے جس کی نقل کی جا سکے۔ اسلوب کو نقل کرنے کے لائق بنانا ایک طرح سے اسلوب میں وہ استعداد بہم رکھنا ہے جو جاندار خلیات میں رکھی گئی ہے کہ وہ خود سے خود کو پیدا کرتے ہیں اور پھیلتے چلے جاتے ہیں، یہ استعداد خلیات کے اندر ودیعت کردہ ’جوہر حیات‘ کو غیر منقطع تسلسل کی ضمانت دیتی ہے۔
اسلوبِ تحریر میں یہ استعداد بہم پہنچانا کہ دوسرے ہو بہو اس کی نقل کر سکیں اسلوب کو یہ استعداد بہم پہنچانا ہے کہ اس کی کلون تیار کی جا سکے اس کو سالہا سال تک مین اسٹریم میں باقی رکھنے کی ضمانت بہم پہنچانا ہے۔
اگر ہم اس چشمے سے اردو کے صاحب اسلوب ادیبوں کو دیکھیں تو شاید شبلی ہی ہمارا آخری انتخاب ٹھہریں کہ اردو زبان وادب کی تاریخ میں سب سے زیادہ اسی اسلوب کی نقل کی گئی ہے۔ شبلی کا اسلوب دراصل سرسید کے اسلوب کا ہی توسیعہ ہے۔ گرچہ خود شبلی نے اپنے استاذ کے انداز تحریر کے بارے میں یہ کہا ہے کہ اب اس میں مزید ترقی وتوسیع کی گنجائش نہیں ہے۔ سرسید نے اسلوب کو جہاں چھوڑا ہے وہ گویا اسلوب کے سفر کا آخری پڑاؤ ہے، مگر یہ بھی خوب ہے کہ خود شبلی ہی نے سرسید کے اسلوب کو رنگین اور زرخیز کیا ہے۔ شبلی اپنے دعوے کے خود ہی قاتل ہیں۔ اردو زبان کے جس طرح بہت سے رسم الخط ہیں اسی طرح اس کے بہت سے اسلوب بھی ہیں۔ اور رسم الخط میں چند وہ بھی ہیں جو ہمیشہ مین اسٹریم کے رسم الخط رہے ہیں، جیسے نستعلیق مین اسٹریم کا رسم الخط ہے۔ رسم الخط تو اور بھی بہت سارے ہیں جو بہت اچھے ہیں مگر اردو داں طبقے کو جس طرح یہ رسم الخط پسند آیا اس طرح کوئی بھی رسم الخط پسند نہیں آیا، یہاں تک کہ عربی کا عثمانی رسم الخط بھی نہیں جس سے قرآنی رسم الخط کے طور پر اردو کا ایک بڑا طبقہ بچپن سے ہی آشنا رہتا ہے اور تا عمر رہتا ہے۔ اسی طرح بعد کے ادوار میں جو رسم الخط بنائے گئے ان میں بھی وہی رسم الخط قارئین اردو کو زیادہ پسند آئے جو نستعلیق کے مشابہ ہیں۔
ٹھیک اسی طرح اردو زبان نے بہت سارے اسلوب تحریر بھی دیکھے، بعض اپنی ندرتوں اور خوبصورتی کے باعث بہت مشہور بھی ہوئے تاہم مین اسٹریم میں وہی اسلوب رہا جسے ہم شبلی کا اسلوب کہتے ہیں۔ ابوالکلام آزاد، عبدالماجد دریابادی، ڈپٹی نذیر احمد اور محمد حسین آزاد کے اسالیب نے اپنے اپنے وقت میں گویا اردو کے قارئین کے دل ودماغ پر حکومت کی۔ تاہم ان تمام کے تمام ادیبیوں کے اسالیب انہیں ملے ہوئے حیات مستعار کے زمانی حدود کو پار نہ کر سکے اور ان کی زندگی کا چراغ گل ہوتے ہی ان کے اسالیب نے بھی اپنی طنابیں کھینچ لیں۔ مگر شبلی اس معاملے میں خوش قسمت ٹہرے کہ ان کا اسلوب ان کے بعد بھی ایک زمانے تک سکۂ رائج الوقت کی طرح وقت کی شاہ راہ پر پوری شان کے ساتھ ایستادہ رہا اور آج بھی ہے اور آنے والے وقت کی بساط پر بھی تا دیر اس کی جلوہ نمائی باقی رہے گی۔
ہم جانتے ہیں کہ زبان اپنے آپ کو بدلتی رہتی ہے۔ جس طرح انسانی جسم اور جلد خود کو بدلتی رہتی ہے اور پیڑ پودے خود کے پیرہن کو بدلتے رہتے ہیں اسی طرح زبانیں بھی خود کو بدلتی رہتی ہیں، یہاں تک کہ کوئی زبان ہزار سال بعد ایسا رنگ وروپ بھی اختیار کر لیتی ہے کہ پھر اس کی ہزار سال قبل والی شکل وصورت پہچانی نہیں جاتی۔ لفظوں کی بھی ایک تاریخ ہے لفظ بھی سفر کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح سمندر میں مچھلیاں سفر کرتی ہیں اور فضاؤں میں پرندے بین الممالک سفر کرتے ہیں۔ آج کے تناظر میں اگر دیکھیں تو کم ہی الفاظ ایسے ہوں گے جو اپنے اصل معنیٰ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ زبانوں کی تاریخ کے طویل سفر میں آج الفاظ کے جو معانی ہیں اور جن سے ہم متعارف ہیں وہ اُن معانی سے بہت مختلف ہیں جو ان کے وجود کے وقت رہے ہوں گے۔ لفظوں کا یہ سفر دو طریقے سے ہوتا ہے ایک سفر بین الاسنہ ہوتا ہے یعنی بہت سارے الفاظ ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہوتے ہیں اور بالکل ہی الگ معنیٰ کے لیے استعمال ہونے لگتے ہیں اور ایک سفر بین اللسان ہوتا ہے، یعنی ایک ہی زبان کے لفظوں کے معانی وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں یہاں تک کہ بعض الفاظ مخالف اور متضاد معنی کے لیےبھی استعمال ہونے لگتے ہیں۔ ایسا بہت ہوتا ہے کہ ایک لفظ جو اپنے وجود کے وقت عزت وشان کے معانی دیتا تھا بعد کے ادوار میں وہی لفظ تذلیل وتوہین کے لیے بولا جانے لگتا ہے۔
اردو زبان بھی اس سے مبرا نہیں بلکہ بعض حیثیتوں سے اردو میں یہ خصوصیت کچھ زیادہ ہی ہے، تاہم یہ کہنا درست ہے کہ شبلی کا اسلوب ابھی طویل عرصے تک سمجھے جانے کے قابل ہوگا۔ شبلی کے اسلوب کے بارے میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ وہ صحافتی اور ادبی اسلوب کے درمیان کا اسلوب ہے۔ اس میں ادبیت کی شان بھی جلوہ گر ہے اور صحافت جیسی سچائی اور سہل نگاری کی کارفرمائی بھی۔ اس لیے شبلی کو پڑھنا دلچسپی سے خالی نہیں اور سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔
اسلوب اور فکر یا میسیج میں کون پہلے ہے اور کون بعد میں، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قلم کار کے لحاظ سے فکر پہلے ہے، کیونکہ قلم کار کے ذہن میں پہلے فکر آتی ہے پھر بعد میں وہ اس کو اسلوب میں ڈھالتا ہے اور قاری کے لحاظ سے اسلوب پہلے ہے اور فکر یا میسیج بعد میں۔ کیونکہ قاری پہلے الفاظ پڑھتا ہے۔ الفاظ، جملوں اور ان کی ساخت پرداخت سے تاثر لیتا ہے اور پھرعبارت میں پوشیدہ فکر یا میسیج کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور چونکہ کوئی بھی صاحب قلم اپنے قاری کو نظر انداز کر کے نہیں لکھ سکتا اس لیے جو چیز قاری کے لیے پہلی توجہ کا مرکز ہے یعنی اسلوب، اس پر سب سے زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔
قلم کار کا ذہن صاف اور شارپ ہے تو اسلوب بھی صاف اور شارپ ہوگا اور اگر ذہن صاف نہیں ہے اور فکر گنجلک ہے تو اس کا اسلوب بھی گنجلک، بے معنیٰ اور تضادات سے بھرا ہوا ہوگا۔ کیونکہ صاحب قلم اگر کسی مسئلے یا کسی فکر کو بذات خود نہیں سمجھ سکتا تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ دوسروں کو بھی اسے نہیں سمجھا سکتا، قلم کے ذریعے بھی نہیں، کم از کم مکمل وضاحت کے ساتھ تو بالکل بھی نہیں۔ اسلوب کا تعلق جس قدر فصاحت وبلاغت کی اضافی اور مقتدر صلاحیتوں سے ہے اسی طرح اس کا تعلق ذہنی رویوں اور ذہن میں پرورش پانے والے افکار سے بھی ہے۔