اسلام کی صحیح ترجمانی کی ضرورت، گفتار کے نہیں کردار کے غازی بنیں…!

کوتاہ کار علماء سے دوری، دین سے بیزاری اور بعد میں جماعت اسلامی ہند سے وابستگی کی داستان

مسلمانوں کےلیے ذرائع ابلاغ کا استعمال اشد ضروری ۔ مولانا محمد یوسف اصلاحیؒ کا ایک خاص انٹرویو
مولانا محمد یوسف اصلاحیؒ کے انتقال کے بعد ان کا ایک پرانا انٹرویو اس وقت یو ٹیوب پر کافی گردش میں ہے۔ پاکستان کے یوٹیوب چینل رائزنگ فارمولی (Rising Formuli)کے اینکر محمد افضال نے مولانا محمد یوسف اصلاحیؒ سے کافی دلچسپ سوالات کیے تھے جن کے مولانا نے بڑے ہی انوکھے انداز میں جواب دیے۔ اس انٹرویو کو تحریری شکل میں پیش کیا گیا ہے تاکہ اس کو پڑھنے سے ان کی ابتدائی زندگی کے حالات اور ان کا عزم وحوصلہ، ولولہ اور جذبہ بھی قارئین کی نگاہوں کے سامنے آجائے۔ وہیں اشاعت دین کا طریقہ، زندگی گزارنے کا نظام، بھارت۔پاکستان کے مسلمانوں میں فرق اور غیر مسلموں کو دعوت دینے کے نہج کے متعلق بھی خاطر خواہ جانکاری فراہم ہو۔ پیش خدمت ہے مولانا محمد یوسف اصلاحیؒ کا گراں قدر انٹرویو۔
سوال: اپنی ابتدائی زندگی کے متعلق کچھ بتائیں ؟
جواب: ابتدائی زندگی کے تعلق سے کیسے بتاؤں جبکہ اس وقت مجھے شعور ہی نہیں تھا۔ ہاں البتہ مجھے یہاں (پاکستان) کی گلیاں اور چوراہے ضرور یاد ہیں۔ اپنی گلی اور اپنے مکان کو میں کیسے بھول سکتا ہوں جہاں میں اپنی دادی کے پاس رہا کرتا تھا۔ کابل استاد کی مسجد کے قریب ایک تالاب تھا جہاں بچے نہایا کرتے تھے۔
سوال: تعلیم کے حصول کے لیے آپ کا بھارت کیسے جانا ہوا؟
جواب : دراصل میں بھارت تعلیم کے حصول کے لیے نہیں گیا تھا بلکہ میرے والد میری والدہ کو طلاق دینے کے بعد مجھے اپنے ہمراہ بریلی لے کر چلے گئے تھے۔ میری زندگی بے کسی، بے بسی اور یتیمی میں گزری ہے۔
سوال: زندگی میں سب سے بڑا تکلیف دہ واقعہ کونسا ہے ؟
جواب : زندگی میں بہت سے واقعات ہیں جو تکلیف دہ ہیں۔ اس لیے کہ میری پوری زندگی بہت بے بسی بے کسی میں گزری ہے۔ مگر میں نے ہمت نہیں ہاری کبھی۔ ہر میدان میں ہمت سے کام لیا اور دھیرے دھیرے اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطا فرمائی۔ ہم نے کبھی سہارے تلاش نہیں کیے۔ خود کے سہاروں سے زندہ رہے خود کے سہاروں سے جیے۔
سوال: تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ پاکستان تشریف کیوں نہیں لائے؟
جواب : تعلیم مکمل کرلینے کے بعد پاکستان آنا ہوا تھا، کئی مخلص افراد نے کوشش بھی کی تھی کہ میں پاکستان میں مقیم ہو جاؤں لیکن مولانا صدرالدین اصلاحی کی بات میں ٹال نہ سکا جب انہوںنے مجھ سے کہا تھا کہ ’’بھئی آپ نے پڑھا لکھا انڈیا میں ہے لہٰذا یہیں کے لوگوں کو فیض پہنچائیے‘‘۔
سوال: جماعت اسلامی سے آپ کیسے منسلک ہوئے؟
جواب: میں نے اپنے ارد گرد کے علماء کو دیکھا اور ان کے طرز عمل اور قول وفعل میں کافی تضاد پایا۔ نتیجتاً مجھے علماء سے نفرت ہو گئی اور اس وجہ سے میں دین بیزار بھی ہو گیا۔ مگر میں نے یہ ضرور فیصلہ کیا کہ میں خود ہی قرآن و سنت کا مطالعہ کروں گا۔ لیکن اس کے باوجود دل اچاٹ سا ہو گیا تھا۔ بریلی میں جماعت اسلامی سے منسلک ایک لیڈیز ٹیلر تھے وہ مجھے ہمیشہ کتابیں دیا کرتے تھے مگر پڑھنے میں دلچسپی پیدا نہیں ہوتی تھی۔ ایک شب مولانا مودودیؒ کی کتاب تنقیحات پڑھنے کا موقع ملا جس کے بعد لگا کہ ہاں! یہاں دین ہے۔ یہاں سے متاثر ہونے کے بعد میں نے مظاہرالعلوم میں داخلہ لیا جہاں ہمیں گمراہ سمجھ کر ہمارا اخراج کر دیا گیا۔ بعد میں مَیں نے اعظم گڑھ میں واقع مدرسہ اصلاح میں داخلہ لیا اور وہیں فراغت حاصل کی اور اس طرح میں جماعت اسلامی سے منسلک ہوگیا۔
سوال: غیر مسلموں کی طرف سے آپ کو کن مسائل کا سامنا ہے؟
جواب: کوئی بھی مذہب ہو یا کوئی بھی متوازی قسم کی امت وہ مخالفت تو کرے گی اور جس حد تک ممکن ہوگا اس حد تک کرے گی لیکن انڈیا کا آئین تمام مذاہب کو یکساں موقع دیتا ہے کہ وہ اپنی تبلیغ کریں اپنی تعلیمات پیش کریں۔ یکساں حقوق حاصل ہونے کی بنیاد پر مخالفت کی حد متعین ہو گئی۔ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بہت زیادہ رکاوٹیں ہیں بلکہ اس طرح کی چھوٹی موٹی مخالفت آدمی کے حوصلے کو اور بڑھاتی ہے کام کرنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے اور جرأت بھی پیدا کرتی ہے اس لیے کچھ پارٹیوں کی طرف سے کبھی نہ کبھی کچھ مخالفت ضرور ہوتی ہے لیکن اس سے ہم پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
سوال: غیر مسلم اسلام کے پیغام کو کس حد تک سمجھ پاتے ہیں؟
جواب : ہماری زندگی اسلام کے مطابق نہیں ہے۔ اسلام اور مسلمانوں میں کھلا فرق ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ ہی علماء اور نہ ہی جدید اداروں سے فارغ یافتہ افراد اسلام کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں۔ اسی لیے سماج میں اسلام کی صحیح تصویر سامنے نہیں آ پاتی ہے۔ لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اسلام واحد مذہب ہے جسے دنیا قبول کر رہی ہے۔ اور اسلام قبول کرنے والوں کا منشا یہ ہوتا ہے کہ اسلام ایسا ہو جو آج کی دنیا میں قابل عمل ہو اور موجودہ حالات سے نبرد آزما ہو سکے اور الحمدللہ اب جو اسلام کی طرف لوگ آرہے ہیں وہ جدید تعلیم سے بھی آراستہ ہیں اور قدیم تعلیم کو بھی جانتے ہیں اور اس کی قدر وقیمت سے بھی واقف ہیں۔ تاہم قرآن وحدیث ہی ہماری تعلیم کی بنیاد ہے۔ بفضلہ تعالیٰ جہاں جہاں ہم اسلام کی بات پیش کرتے ہیں وہاں ہماری وجہ سے چاہے قبولیت نہ ملتی ہو مگر خود دین کی قوت تسخیر، قوت تاثیر اورحقانیت اتنی غیر معمولی ہے کہ ہمیں نظر انداز کر کے لوگ خالص اسلام پر غور کرتے ہیں۔
سوال: انڈیا اور پاکستان کے مسلمانوں میں کیا فرق ہے؟
جواب : اسلام کے نقطہ نظر سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے دونوں ایک جیسے ہیں اور دونوں میں یکسانیت ہے۔ بے عمل یہ بھی ہیں بے عمل وہ بھی ہیں۔ کوتاہ کار یہ بھی ہیں کوتاہ کار وہ بھی ہیں۔ اسلام کی نمائندگی یہ بھی نہیں کر رہے ہیں اور وہ بھی نہیں کر رہے ہیں۔
سوال: کیا انڈیا میں جو سہولتیں ہندوؤں کو ملتی ہیں وہ مسلمانوں کے لیے بھی میسر ہیں؟
جواب : جس قوم کی حکومت ہوگی وہ اپنی قوم کو سراہے گی اور اسے موقع بھی دے گی، امکانات بھی اسی کے لیے روشن ہوں گے دوسروں کو کیسے موقع دیں گے لیکن مسلمانوں کے پاس چونکہ دین حق بھی ہے، انسانیت بھی ہے، شرافت بھی ہے اور صلاحیتں بھی ہیں۔ تو ایسی صورت میں حقوق مسلمانوں کو بھی ملتے ہیں۔
سوال: دین اسلام میں الیکٹرانک میڈیا کا کیا کردار ہے؟
جواب :مسلمانوں کا زیادہ حق بنتا ہے کہ وہ پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا کا استعمال کریں۔ قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ "وہ کون ہے جس نے حرام کر دیا دنیا کی زینت کی چیزوں کو بندوں کے لیے”۔ لہٰذا مسلمانوں کی جانب سے ذرائع ابلاغ کا استعمال اشد ضروری ہے۔
سوال: آپ کتنی کتابوں کے مصنف ہیں؟
جواب : اگر میں یہ کہوں کہ بے شمار کتابیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں نے شمار نہیں کیں اور شمار نہیں کیں تو مطلب بے شمار ہیں۔ اگر آپ اولاد کے بارے میں پوچھیں گے کہ سب سے پیارا بیٹا کون سا ہے تو جواب دینا ذرا مشکل ہو گا۔ بہرحال اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں آسان فقہ، آداب زندگی، شعورِ حیات بہت مقبول ہوئیں۔
سوال: آپ کے ماہنامہ رسالہ ذکریٰ کی اشاعت کتنی ہوتی ہے؟
جواب : یہ بات ایسی ہے جیسے آپ کس خاتون سے پوچھیں کہ آپ کی عمر کتنی ہے تو وہ نہیں بتائے گی ایسے ہی کوئی رسالہ والا شخص یہ نہیں بتائے گا کہ اس کے رسالے کی اشاعت کتنی ہے۔ ہاں! لیکن ہم یہ ضرور بتائیں گے کہ یہ رسالہ امریکہ، انگلینڈ، ہندوستان، پاکستان بلکہ جہاں جہاں اردو بولی اور پڑھی جاتی ہے وہاں پہنچتا ہے۔
سوال: کھانے میں کیا پسند ہے؟
جواب : جب آپ دعوت کریں تب پوچھیں تو زیادہ مناسب رہے گا۔ جب آپ نے پوچھ لیا ہے تو بتائے دیتا ہوں کہ کھانے میں ہر حلال چیز ہمیں پسند ہے۔ کھانا ہمارا موضوع نہیں ہے۔ وقت پر جو حلال مل گیا وہ کافی ہے۔ سادہ کھانا زیادہ پسند کرتا ہوں۔ زیادہ مرغن اور مرچ مسالوں کے چاٹ میں نہیں رہتا۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ تین نوالے کافی ہیں کمر کو سیدھا رکھنے کے لیے۔
سوال: آپ کتنی زبانوں پر عبور رکھتے ہیں؟
جواب : عبور تو میں اردو زبان پر بھی نہیں رکھتا۔ البتہ عربی زبان بھی جانتا ہوں، اردو لکھتا پڑھتا ہوں اور انگریزی سے کچھ تھوڑا بہت تعلق رہتا ہے وہیں پشتو جو ہماری آبائی زبان ہے اس سے بھی میں تھوڑا بہت آشنا ہوں اور اسے بھلانا بھی نہیں چاہتا اس لیے کہ آبائی چیز کو بھلانا نہیں چاہیے دراصل ہم لوگ بارکزئی ہیں۔ بارکزئی پٹھانوں کا ایک قبیلہ تھا جو عرصہ دراز تک افغانستان پر حکومت کرتا رہا۔ 1826 سے 1929 تک افغانستان میں بارکزئی قبیلے کی حکومت رہی ہے اور آخری حکمراں امان اللہ خان تھے جنہوں نے ایک انگریزی خاتون سے شادی کی اور وہ بے پردہ دربار میں آگئیں۔ پٹھانوں کو یہ بڑا ناگوارا گزرا اور انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ امان اللہ کو قتل کر دیا جائے۔ لہذا قتل کیے جانے کے خوف سے امان اللہ خان ملک سے بھاگ گئے اور اٹلی میں جا کر پناہ لی۔ 1929 میں یہ بھاگے تھے اور کچھ سال زندہ رہے پھر اٹلی ہی میں ان کا انتقال ہو گیا۔
سوال: کیا آپ پشتو زبان اب بھی بول سکتے ہیں؟
جواب : کم از کم آپ کو تو بول ہی سکتا ہوں کوئی سوال پشتو میں کریں اس کا جواب پشتو میں ملے گا انشاءاللہ۔
سوال: مسلمانوں کے لیے آپ کا کوئی پیغام؟
جواب :تمام مسلمانوں کے لیے پیغام یہ ہے کہ وہ اسلام کا نمونہ اور اسلامی کردار پیش کریں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  02 جنوری تا 08 جنوری 2022