اسلام کی روحانی طاقت اس کی کشش کا سبب
افکار و نظریات کے گہرے مطالعے کے ساتھ عصر حاضر کے مسائل کا حل پیش کرنے کی ضرورت ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ کےسہ روزہ سیمینار کی رپورٹ
ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار میں ’’عصر حاضر میں اسلام کو درپیش چیلنجز‘‘ کے موضوع پر اپنے کلیدی خطاب میں جناب سید سعادت اللہ حسینی امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے دور میں انسان کی بڑی ضرورت روحانی تسکین ہے عہد وسطی میں اسلام کی کشش کا ایک بڑا سبب اس کی روحانی طاقت تھا، عصر حاضر میں اس بات کی ضرورت ہے کہ اسلام کو روحانی ارتقا ء اور روحانی تسکین کے ایک موثر فلسفہ کے طور پر پیش کیا جائے ۔انہوں نے مزید کہا کہ خاندانی وجود اور عورت کی پناہ گاہ صرف اسلام میں باقی رہ گئی ہے۔اس وقت اسلام کو درپیش فکری اور علمی چیلنج بہت بنیادی اور گہرا ہے۔ ہماری ضرورتیں پرانی کتابوں کی باتوں کو نئی زبان سے دھرانے سے پوری نہیں ہوسکتیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے اہل فکرعصر حاضر کے مسائل اور افکار و نظریات کا انتہائی گہرائی سے مطالعہ کریں اور نئے افکار اور نئے آئیڈیاز کے ساتھ سامنے آئیں۔سابق امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری نے افتتاحی اجلاس سے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ مذہب کا تعلق محض دلیل اور منطق سے نہیں ہے بلکہ خاص قسم کی ذہنی کیفیت سے ہے۔اسلام کا اصل خطاب عقل سے ہے، اس تعلق سے قرآن مجید میں دلائل کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا ہے، اسلام کا موقف یہ ہے کہ انسان عقل وشعور کا حامل ہے اور عقل و شعورسے ہی آگے بڑھ سکتا ہے، اسی لیے اس کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے جس کی بنیاد پر وہ حیوانوں سے ایک مختلف مخلوق ہے، اگر وہ عقل و شعور سے کام نہ لے تو انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں ہے، اس پہلو کو قرآن مجید نے بار بارابھارا ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ اللہ تعالی جب علم کا ذکر کرتا ہے تو انسان کے ساتھ جوڑ کر کرتا ہے لیکن علم کے ساتھ اللہ تعالی نے خشیت کا بھی ذکر کیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ علم اورخشیت لازم و ملزوم ہیں ۔علم وہ مطلوب ہے جو محض دوسرے کے لیے مفید نہ ہو بلکہ اس کا اثر فرد کی ذات پر بھی ہو ۔مولانا عمری نے اس سیمینار کے آخری اجلاس میں زادراہ کے طور پر سیرت نبوی میں مکّی دور کا حوالہ دیا اور کہا کہ آخر حضور اکرم ؐاور صحابہ کرام نے ایسی کیا بات کہی تھی کہ تمام اہل مکہ عداوت ودشمنی پر اترآئے۔ ان حالات کو موجودہ حالات پر منطبق کرنا چاہیے۔ مولانا محترم نے تفصیل سے وضاحت کی کہ مکّی دور سے ہمیں کیسے رہنمائی ملے گی۔
پروفیسر سید مسعود احمد نے ’’قرآن اور سائنس قرب و بعد کے پہلو اور تعاون باہم کی راہیں ‘‘کے موضوع پر پیش کردہ مقالہ میں کہاکہ علم سائنس کے احیاء اورارتقاء میں قرآن مجید یقیناً مثبت رول ادا کرسکتا ہے اور سائنس کی اصلاح کے لیے قرآن کی رہنمائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ پوری طرح علم نافع بن جائے، نصاب سائنس کی تدوین میں قرآن حکیم: اصول اور فروع دونوں سطحوں پر ہدایت دیتا ہے۔
ڈاکٹر وقار انور نے’’ معاشیات سے متعلق جدید چیلنجز ‘‘کے عنوان سے مقالہ پیش کیا انہوں نے کہا کہ مروجہ معاشی نظام اپنی افادیت کھو چکا ہے اس سے انسانی دنیا کی معیشت سے متعلق مسائل کے منصفانہ حل کی توقع محال ہے۔ موصوف نے معاشیات کو درپیش جدید چیلنجز کی وضاحت کرتے ہوئے ان کے تدارک کی تدابیر بیان کیں۔پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی نے’’ اسلام کو درپیش داخلی چیلنجز ‘‘کے عنوان پر مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے سامنے بہت سارے داخلی وخارجی چیلنج ہیںیہ چیلنج اسلامی احکام اور تعلیمات کی وجہ سے کم ہے اور مسلمانوں کے حالات اور معاملات ،رویہ اور اخلاق کی وجہ سے زیادہ ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے داخلی چیلنج کا باریک بینی سے جائزہ لیا، ساتھ ہی بتایا کہ کس طرح قرآن واحادیث نے ان کا بہترین حل پیش کیا ہے۔ڈاکٹر ندیم اشرف نے’’ مسلم اقلیت کے بعض سیاسی مسائل اور ان کا اسلامی حل‘‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم قوم کا المیہ یہ ہے کہ وہ بعض سیاسی پارٹیوں کا آلہ کار بن جاتی ہے، جب کہ ہونا یہ چاہیے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو مسلمانوں کے اعتماد جذبات اورووٹ سے کھیلنے کا موقع ہرگز نہ دیا جائے ۔ انہوں نے مسلمانوں کے سیاسی مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے تدارک کی تدابیر کی طرف رہنمائی کی۔
سراج کریم سلفی نے’’ موجودہ حالات میں شعائر اسلام کا تحفظ کیوں اور کیسے ‘‘کے عنوان سے مقالہ پیش کیا انہوں نے شعا ئراسلام پر داخلی وخارجی یلغارکا جائزہ لیا، شعائر اسلام کے تحفظ سے متعلق چند نکات کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی نظریہ، فکر اور تھیم اس وقت مؤثر اور کارگر ہوتی اور پائیدار رہتی ہے جب اسے عملی طور پراختیار کیا جائے۔ مولانا محمد شعیب ندوی نے ’’اسلام اور مغرب کا تصور علم‘‘ کے عنوان پر مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے اسلام کے نظریۂ علم کی وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ علم معرفت الٰہی کا نام ہے، اسلام علم کو مفید غیرمفید میں تقسیم کرتا ہے۔ علم کے ذریعے انسان کائنات اور انفس کے بارے میں غور و فکر کرتا ہے، جب کہ مغربی تصور تعلیم و تربیت کے مطابق مثالی انسان وہ ہے جو اپنی صلاحیتوں و استعداد اوراپنے وسائل کو مادی مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرے۔
ڈاکٹر ابو سعد اعظمی نے ’’اسلام اور مغرب کا تصور علم ‘‘کے عنوان پرپیش کیا ۔ انہوں کہا کہ تعلیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ جدید نسل کے افراد کی تربیت اس طرح کی جائے کہ وہ اچھا انسان بن کر اچھی زندگی گزار سکے، اور اس انسانی دنیا کا حصہ بن سکے، جو اسے پرانی نسل سے ورثہ میں ملی ہے ۔ مغربی نظام تعلیم میں اس پر توجہ نہیں ہے کہ لوگ اچھے انسان بنیں اور اچھی زندگی گزارسکیں ان کی ساری توجہ ان علوم وفنون میں مہارت حاصل کرنا ہے جن سے دنیا وی مفاد وابستہ ہیں ۔ انہوں نے اسلام اور مغرب کے تصور تعلیم کا تفصیل سے جائزہ لیا ۔ مولانا محمد انس فلاحی مدنی نے ’’خواتین کا مسجد میں داخلہ۔سپریم کورٹ میں استغاثہ اور شریعت اسلامیہ کا موقف ‘‘کے عنوان پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسلام نے خواتین کو مسجد میں داخل ہونے سے متعلق صریح احکام دیے ہیں، مگر مسلمانوں نے بوجوہ ان پر عمل ترک کردیا ہے، جس کی وجہ سے اسلام پر اعتراضات کیے جارہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اسلام کی ان تعلیمات کو دوبارہ اختیار کیا جائے تاکہ خواتین مسجد کی برکات سے مستفیض ہوسکیں اور اسلام پر اعتراضات کا دروازہ بندہوجائے۔ مولانا اختر امام عادل قاسمی نے ’’مسلم اقلیت کے مسائل میں سیرت نبویؐ سے رہنمائی‘‘ کے موضوع پرپیش کیا۔ انہوں نے موجودہ مسلم اقلیت کے مسائل بیان کیے اور بڑی باریک بینی سے سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے حل تلاش کرنے کی تدابیر بیان کیں۔انہوں نے کہا کہ امت کو جو مسائل درپیش ہیں ان کا حل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں پیش فرما دیا۔ لہٰذا ہمارا کام انہیں سیرت نبویؐ سے اخذ کرکے صحیح مقام پر انطباق کرنا ہے۔
ڈاکٹر محی الدین غازی نے’’ فنون لطیفہ اور اسلامی موقف عصر حاضر کے تناظر میں‘‘ کے عنوان پر مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے اپنے مقالے پر گفتگو کرتے ہوئے فنون لطیفہ کی فنی وضاحت کی۔ اس کا اسلامی موقف بیان کیا۔ عصر حاضر میں اس کی معنویت پر روشنی ڈالی ۔ دعوت کے لیے فنون لطیفہ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ڈاکٹر عبید اقبال عاصم نے ’’مذہبی قدریں جدید ذرائع ابلاغ کے نرغے میں‘‘ کے عنوان پر مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے عہد میں سوشل میڈیا نے زمانے پر پوری طرح قابو پالیا ہے ۔ بالخصوص ان اداروں کی حکمرانی میں جو مذہب کو کسی بھی طرح خاطر میں نہیں لاتے۔ اخلاقیات سے انہیں کوئی واسطہ نہیں۔ غیرت ،شرم وحیا جیسے الفاظ تک بھی ان کی آشنائی نہیں ہے۔ انہوں نے میڈیا کی تاریخ بیان کی۔
مولانا نصراللہ ندوی نے ’’ جمہوریت اور جمہوری نظام کا جائزہ:اسلامی تعلیمات کی روشنی میں‘‘ کے عنوان پر مقالہ میں جمہوری اصطلاحات کا اسلامی اصولوں سے موازنہ کیا اور بتایا کہ اسلام میں ان چیزوں کی گنجائش نہیں ہے مگر بحالت مجبوری ان کو برتا جاتا ہے۔ اضطرار میں احکام کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ مولانا محمد جرجیس کریمی نے’’ استخفاف حدیث کی مختلف صورتیں اور تدارک کی تدابیر ‘‘کے عنوان پر مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے استخفافِ حدیث کی آٹھ دس صورتوں کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ حدیث شریعت اسلامیہ کا بنیادی ماخذ ہے اور اس کی حفاظت کے لیے وہی اہتمام ہوا ہے جو قرآن کی حفاظت کے لیے ہوا ہے۔انکارِ حدیث در اصل انکارِ قرآن تک لے جانے والی فکر ہے۔ اس سے احتیاط کرنا چاہیے۔ علم حدیث اتنا مضبوط ہوچکا ہے کہ اب اس کا انکار آسان نہیںہے۔ڈاکٹر محمد رفعت نے ’’سائنس اور ٹیکنالوجی کے مضر اور مفید اثرات: خدشات اور امکانات ‘‘کے عنوان پر مقالہ پیش کیا انہوں نے انسان کے لیے تسخیر کائنات کا حوالہ دیا،مگر سائنسی ایجادات کے سلبی پہلوؤں کی بھی وضاحت کی۔ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے ’’اسلام کے عائلی قوانین جدید اعتراضات کا جائزہ‘‘ کے عنوان پرمقالہ پیش کیا۔ انہوں نے اپنے مقالے میں عورتوں سے متعلق بعض جدیدمسائل کا تذکرہ کیا خصوصاً رحم مادر کو کرایے پر لینے کے مسئلہ کی وضاحت کی۔
جناب جاوید علی نے ’’ہندوستانی تاریخ کے چھ شاندار ادوار ساورکر کی نظر میں‘‘ کے عنوان پر مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے ساورکر کی انتہا پسندانہ نظریات کی وضاحت کی۔اور بتایا کہ ان(ساورکر) کاہندو قوم کو متحد کرنے کا ایک منصوبہ اپنے ہدف کو حاصل کرچکا ہے اب دوسرے منصوبہ پر عمل ہورہا ہے کہ بھارت کو مسلم مکت بنایا جائے۔
جناب مجتبیٰ فاروق نے ’’اسلام میں خواتین کی سیاسی و سماجی شمولیت ‘‘کے عنوان پر مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ خواتین کی سیاسی و سماجی شمولیت کے حوالے سے ملک میں علماء کے دو نظریے ہیں ، ایک جواز فراہم کرنے والا اور دوسرا اس کے عدم جواز کا رجحان رکھنے والا۔اس کے حوالے سے انہوں نے بعض علما کی تحریروں کا ذکر کیا۔ڈاکٹر شہاب الدین قاسمی نے ’’اسلامی تہذیب کو درپیش چیلنجز‘‘ کے عنوان پر مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ مسلمانوں کی بے عملی اوربدعملی اپنی جگہ قابل توجہ ہے مگر اسلامی تہذیب کو کئی پہلوؤں سے خارج سے چیلنجز درپیش ہیں اور ان کا تدارک دین پر استقامت اور ثابت قدمی ہی سے ممکن ہے۔
مولاناعبداللہ شمیم ندوی نے ’’ہندوستان میں دعوت دین کو درپیش چیلنجز‘‘ کے عنوان پر مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے اسلام اور سناتن دھرم کی بعض مساویانہ تعلیمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں بعض انبیاء کی بعثت کے آثار ملتے ہیں جن کی تصدیق قرآنی آیات سے ہوتی ہے۔ خصوصا حضرت نوح کے حوالے سے بتایا کہ ہندو قوم اصلاً حضرت نوح کے متبعین میں سے ہےجن کی تحریف شدہ تعلیمات آج موجود ہیں۔مولانا کمال اختر قاسمی نے ’’ہندوستان میں اسلاموفوبیا اور مسلمانوں کا تحفظ‘‘ کے عنوان پر مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ برادران وطن میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بہت ہی منظم طریقہ سے ذہن سازی کی گئی ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ آج ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول ہے۔
پروفیسرعبدالرحیم قدوائی نے’’ مطالعۂ قرآن کو درپیش چیلنجز‘‘ کے عنوان سے مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ جرمنی میں قرآن کے ایک اہم پروجیکٹ پر کام چل رہا ہے، جس کا مقصد قرآن پاک کا مستند ایڈیشن تیار کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی خوش آئند خبروں سے مسلمانوں کو دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ کیونکہ یہ عیسائی مشینریز ، مسیحی ذہنیت اور استشراقی منصوبوں کا حصہ ہے۔ اس طرح کے منصوبوں سے اہل یورپ قرآن کی حقانیت کو مشتبہ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ۲۰ سالوں میں قرآن کے ۵۰ انگریزی تراجم سامنے آچکے ہیں۔ ان تمام تراجم میں قرآن کی تعلیمات کے علی الرغم افکار پیش کیے گئے ہیں۔
مولانا رفیق احمد رئیس سلفی نے ’’رجوع القرآن کی ضرورت و اہمیت اور اس کا صحیح منہج‘‘ کے عنوان پر مقالہ پیش کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ ملت میں بعض تحریکات محض رجوع الی القرآن کے نام پر چلیں۔ مگر وہ اپنے مقصد کے حصول میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکیں ۔کیونکہ رجوع الی القرآن کا صحیح مفہوم ان کے نظر سے اوجھل ہوگیا تھا۔
ان کے علاوہ پروفیسر اثمر بیگ نے’’ جمہوریت میںفسطائیت کا غلبہ۔ موجودہ سیاسی کشمکش کے تناظر میں‘‘ ، محترمہ روح نما پروین نے’’ یونیفارم سول کوڈ اور اس کی حفاظت کی راہ میں دشواریاں ‘‘، ڈاکٹر محمد ذکی کرمانی نے ’’اسلام اور سائنس کا مباحثہ علی گڑھ اسکول کے تناظرمیں ‘‘، ڈاکٹر محب الحق نے ’’دور حاضر میں مسلمانوں کو درپیش مسائل‘‘ ، ایازالشیخ نے ’’عصر حاضر میں رجوع القرآن کی اہمیت وضرورت: فکر اقبال کی روشنی میں‘‘ ،مولانا محمد ذکوان ندوی نے ’’رجوع الی القرآن کی ضرورت اور اس کا صحیح منہج‘‘ ، مولانا ذکی الرحمن غازی مدنی نے’’ استخفافِ حدیث کی مختلف صورتیں: حضرت ابوہریرہؓ کی کردار کشی کے حوالے سے‘‘، ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی نے’’ قرآنی تدبر و تفکر اور سائنسی علوم‘‘ ،پروفیسر توقیر عالم فلاحی نے’’ مسلم معاشرے میں اخلاق فاسدہ کا رواج‘‘ ، محمد اعظم قاسمی نے’’ مسلم اقلیت کے مسائل اور سیرت نبوی کی روشنی میں ان کا حل‘‘،ڈاکٹر ضیاء الدین ملک نے’’ بھارت کی مسلم اقلیت :مسائل اور حل‘‘ اورپروفیسر ظفرالاسلام اصلاحی نے ’’ قرآن کا تصور اطاعت الٰہی اور ہمارا رویہ ، اصلاح کی ضرورت‘‘ کے عنوان پر مقالے پیش کیے۔
مولانا جلال الدین عمری، مولانا اعجاز احمد اسلم، مولانا اختر امام عادل قاسمی ، ڈاکٹر محمد رفعت، پروفیسر احتشام احمد ندوی، ڈاکٹر وقار انور، ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی اور پروفیسر اشتیاق احمد ظلی نے مختلف اجلاسوں کی صدارت کی جب کہ مولانا محمد جرجیس کریمی، ڈاکٹر شہاب الدین قاسمی، ڈاکٹر ابو سعد اعظمی، جناب مجتبیٰ فاروق، جناب اشہد فلاحی، مولانا کمال اختر قاسمی، ڈاکٹر ندیم اشرف، اور مولانا اشہد جمال ندوی نے نظامت کے فرائض انجام دئیے۔
صدرِ اجلاس پروفیسر اشتیاق احمد ظلی (نائب صدر ادارہ تحقیق وڈائرکٹردار المصنّفین شبلی اکیڈمی) نے کہا کہ چیلنج اسلام کو نہیں۔ بلکہ مسلمانوں کو درپیش ہے۔ ہمیں خدمت خلق پر زور دینا چاہیے، تاکہ برادران وطن کے دلوں میں مسلمانوں کے تئیں موجود نفرت وعداوت کم ہو اور وہ اعتماد حاصل کرسکیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر اور جماعت اسلامی کے مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن ڈاکٹر محمد رفعت نے اپنے الوداعی خطاب میں کہاکہ امت مسلمہ کے اندر آفاقی مشن رکھنے والے گروہ کا شعور پیدا ہونا چاہیے۔ عالم اسلام آزاد نہیں ہے۔ انہیں عالمی طاقتوں کے حصار سے آزاد ہونے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ظاہری اتحاد اصل چیز نہیں ہے۔ بلکہ اصل ضرورت خیالات کی اتحاد کی ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں خیالات کی حدتک اتحاد موجود ہے۔
سیمینار آخر میں کنوینر سمینار (محمد جرجیس کریمی) نے مہمانانِ گرامی ، مرکزی شخصیات، مقالہ نگاران، مختلف اجلاسوں کے صدور، کارکنانِ ادارہ اور سامعین کا صمیم قلب سے شکریہ ادا کیا۔ صدرِ ادارہ کی دعا پر سمینار کا اختتام عمل میں آیا۔
(رپورٹ سراج کریم سلفی و محمد جرجیس کریمی)