اسلام کو درپیش فکری وعلمی چیلنج اور ہماری ضرورتیں
عصرِ حاضر میں اسلام: سوالات اور سوچ کے نئے پہلو
سید سعادت اللہ حسینی
امیر، جماعت اسلامی ہند
(علی گڑھ میں گزشتہ دنوں ایک موقر سیمینار کے افتتاح اور کلیدی خطبہ کی پیشکش کے تحت بعض اہم تجاویز اس مقالہ میں پیش گئی ہیں، قارئین دعوت کے ملاحظہ و افادیت کے لیے ان کے اجزا کو پیش کیا جا رہا ہے۔ معزز قارئین اس کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کر سکتے ہیں۔)
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے دینی و علمی سرمائے میں ایک ہمہ تہذیبی سماج کے بہت سے مسائل ابھی بھی حل طلب ہیں۔
اس بحث کاسب سے اہم پہلو فکری اور تصوراتی ہے۔ ایک ہمہ تہذیبی سماج کو دیکھنے کا اسلامی زاویہ کیا ہو؟ اس کی اسلامی تھیوری کیا ہو سکتی ہے؟ ایسے سماج میں اسلامی مقصد و نصب العین کیا ہونا چاہیے؟ ریاست کے ساتھ تعلق کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟ سماج کی قدروں سے ہمارا رشتہ کیا ہونا چاہیے؟ ان سوالات کا ہندوستان کی اسلامی تحریک کو برسوں سے سامنا ہے۔ اور تحریک نے اپنے عمل سے ان کا جواب بھی فراہم کیا ہے لیکن جب تک یہ سوالات فکر اور نظریہ کی اونچی سطح پر ایڈریس نہیں ہوں گے الجھنیں باقی رہیں گی۔ ان الجھنوں کی سنگینی کا اندازہ ان مباحث سے ہوسکتا ہے جو گزشتہ کئی دہوں سے یورپ میں جاری ہیں اور جہاں ایک جداگانہ’ یورپی اسلام‘ (European Islam)کا تصور پیش کیا جارہا ہے۔ ہمارے ملک کی حالیہ احتجاجی مہمات سے معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ بحثیں ہمارے ملک کے نوجوانوں میں بھی چل پڑی ہیں۔ اگر ان سوالات کو فوری ایڈریس نہیں کیا گیا تو یورپی مسلمان جس فکری بحران سے گزرے ہیں اندازہ یہ ہے کہ وہ بحران ہمارے ملک میں بھی درآمد ہوگا۔
بحث کا ایک پہلو فقہی ہے۔ ہمارے فقہی سرمائے کا بیشتر حصہ مسلم اکثریتی علاقوں اور زمانوں میں اور مسلمان حکومتوں کے زیر سایہ وجود میں آیا ہے۔ ایک ہمہ تہذیبی معاشرے سے متعلق بہت سے سوالات کا اطمینان بخش اس سرمائے میں نہیں ملتا۔ اسی صورت حال نے فقہ الاقلیات جیسے مباحث کو جنم دیا ہے۔ ابھی بھی ہمارے ملک اور یہاں کے حالات کے تناظر میں یہ بحث بہت ابتدائی ہے۔ اس کو بہت کچھ آگے بڑھانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
بحث کا تیسرا اہم پہلو سماجیاتی ہے۔ یعنی ایسے سماجوں کا اسلامی نقطہ نظر سے سماجیاتی مطالعہ، اسلامی نصوص اور سماجیات و اجتماعی نفسیات وغیرہ کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں ایسے سماجوں کا تہلیل و تجزیہ۔
نئے بیانیہ اور نئے اپروچ کی ضرورت
ان سب حالات کی وجہ سے اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اسلامی فکر کا بدلے ہوئے حالات سے مطابقت رکھنے والا نیا بیانیہ تشکیل پائے۔ یہ بیانیہ نئے احوال سے مطابقت رکھنے والا اور اجتہادی روح کا حامل بھی ہو اور اس معذرت خواہانہ اور مصالحت پرستانہ انداز سے بھی پاک ہو جس کا ماڈریٹ اسلام کے نام پر اس وقت غلغلہ ہے۔
اس نئے بیانیہ کی خصوصیات کیا ہوں؟ یہ بڑا اہم اور بنیادی سوال ہے۔ اس سوال پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ باتیں جو اس وقت بطور مثال ذہن میں آرہی ہیں، انہیں عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں۔
الف) نظام یا تہذیب؟
جدیدیت نے دنیا کو نظریات اور نظاموں کی حکمرانی فراہم کی تھی۔ قومی ریاست، قوت و طاقت کا سب سے بڑا مرکز تھی۔ قومی ریاست کے اقتدار اعلیٰ (sovereignty) کا تصور جدید سیاست کا اہم ترین تصور تھا۔ ان حالات میں اسلامی مفکرین نے بجا طور پر ریاست اور سیاسی نظام کو اپنے بیانیہ کا بھی اور اسلامی نصب العین کا بھی اہم ترین عنوان قرار دیا تھا۔ بدلی ہوئی دنیا میں جبکہ سیاست کے بالکل نئے روپ سامنے آرہے ہیں، نیشن اسٹیٹ کی آہنی دیواریں تیزی سے زمین بوس ہورہی ہیں، افکار و نظریات کے بڑے نظام معدوم ہوتے جارہے ہیں، اور تجارتی مفادات، ٹکنالوجی کے کرشمے اور تہذیبی قدریں زیادہ تر نئی دنیا کی صورت گری کر رہی ہیں، یہ سوال نہایت اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ اسلامی فکر کی پیشکش کا موثر طریقہ کیا ہوسکتا ہے؟ اقامت دین یعنی مکمل اسلامی زندگی کے خواب میں کیا اب بھی ریاست مرکزی اہمیت کی حامل ہے؟ ایک خیال یہ ہے کہ اس بدلے ہوئے دور میں تہذیب اور تمدن پر بہت زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔ یعنی ایک ہمہ گیر تہذیبی و تمدنی انقلاب اسلامی جدوجہد کا ہدف بنے اور اس انقلاب کے لیے درکار فکری کمک فراہم کی جائے۔ اسلام کے ایک ایسے تہذیبی بیانیہ کو سامنے لایا جائے جس میں موجودہ دور کے اٹھائے ہوئے تہذیبی اور تمدنی سوالات، اسلام کی روشنی میں اطمینان بخش حل فراہم کیا جائے۔ایک فرد کے لئے خوشحال زندگی کا راستہ کیا ہے؟ خاندان اور جنسی رویوں کو کن قدروں کا پابند ہونا چاہیے؟ میڈیا اور سوشل میڈیا کی اخلاقیات کیا ہوں؟ جدید ترین ٹکنالوجی کے حوالے سے اسلامی موقف کیا ہو؟ انسانوں کی نگرانی اور ان کے حق انتخاب پر نیز ان کے ضمیر اور ان کی رائے پر ٹکنالوجی کے کنٹرول کے سلسلے میں اسلام کی رہنمائی کیا ہے؟ ٹکنالوجی کے موجودہ دور میں شہری تنظیم کے اصول کیا ہوں؟ عصری مالیاتی طریقوں کے سلسلے میں اسلامی اپروچ کیا ہو؟ فنون لطیفہ اور تفریحات کا اسلامی پیرا ڈائم کیا ہو؟ الگورتھم کی حکمرانی کو اسلامی فلسفہ کس نگاہ سے دیکھتا ہے؟ یہ اور اس طرح کے متعدد سوالات نہایت عمیق غور و فکر کے متقاضی ہیں۔ ان کے سلسلے میں فتوے مطلوب نہیں ہیں بلکہ گہرے سماجیاتی حل اور اطمینان بخش کلامی مباحث مطلوب ہیں۔
یہ تہذیبی بیانیہ جہاں عصر حاضر کی سوچ اور رائج طریقوں پر نقد کرے وہیں نئے رجحانات اور طریقوں کی ایجاد و اختراع کا بھی ذریعہ بنے یعنی صرف رد عمل پر مبنی (reactive) نہ ہو بلکہ اقدامی( proactive) بھی ہو۔ اس سلسلے میں سب سے اہم مثال اسلامی معاشیات کی دی جا سکتی ہے۔ اسلامی معاشیات، اسلام کے انسان دوست اصولوں اور قدروں کو روبہ کار لانے کا ایک موثر ذریعہ بن سکتا تھا۔ اسی علی گڑھ میں اسلامی معاشیات کا جو خواب دیکھا گیا تھا وہ بڑی تمدنی تبدیلی کا خواب تھا۔ لیکن اب اسلامی معاشیات دھیرے دھیرے اسلامی مالیات تک محدود ہوگئی اور اسلامی مالیات بھی اسلام کے معاشی مقاصد کے حصول کا انقلابی ذریعہ بننے کے بجائے جدید سرمایہ دارانہ معیشت ہی کے آلات و وسائل میں فقہی حیلوں کے سہارے اسلامی پیوند کاری تک محدود ہوکر رہ گئی۔ اس وقت جو تہذیبی چیلنج درکار ہے وہ اعلیٰ درجہ کی تخلیقی اور اجتہادی سوچ کا تقاضہ کرتا ہے۔
ب) قانون یا اقدار؟
گزشتہ صدی میں قومی ریاست اور اس کا قانونی نظام ایک ہمہ گیر قوت کے طور پر سامنے آیا تھا۔ دنیا کے سامنے یہ سوال سب سے اہم سوال بن گیا تھا کہ جدید دنیا کا قانونی نظام کیا ہو؟ اس وقت ہمارے بزرگوں نے اسلامی شریعت اور اسلام کے قانونی نظام کو وضاحت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اب دنیا ایک ایسے دور میں قدم رکھ رہی ہے جہاں انسانوں پر حکومتوں کے قوانین سے زیادہ غیر حکومتی عناصر ( Non State Players) یعنی کارپوریٹ، ٹکنالوجی، میڈیا وغیرہ کا استبداد بڑھ رہا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ اسلام کی قدریں یا جسے عصری اصطلاح میں نرم قوت (Soft Power) کہا جاتا ہے، اس کو نمایاں کیا جائے۔
ج) روحانی تسکین
ٹکنالوجی کے اس دور میں انسان کی بڑی ضرورت روحانی تسکین ہے۔ اس ضرورت کا بہت سی غیر اسلامی تحریکیں بری طرح استحصال کررہی ہیں۔ روحانیت کے نام سے دسیوں ادارے اب عالمی برانڈ بن چکے ہیں۔ عہد وسطٰی میں اسلام کی کشش کا ایک بڑا سبب اس کی روحانی طاقت تھا۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ جدید حالات و مسائل کے تناظر میں اسلام کو روحانی ارتقاء اور روحانی تسکین کے ایک موثر فلسفے کے طور پر پیش کیا جائے۔
د) مذاہب کو مخاطب کرنے کی ضرورت
بیسویں صدی کے تحریکی ڈسکورس میں اصلاً جدید نظریات کو مخاطب کیا گیا تھا۔ جیسا کہ اوپر کی سطروں میں واضح کیا گیا ہے۔ بدلتے ہوئے حالات میں مذہب کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے اور مذہب پر مبنی روحانی، اخلاقی، تہذیبی اور تمدنی فلسفے دنیا کو متوجہ کر رہے ہیں۔ ان حالات میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ مذہب اور مذہبی فلسفوں کو مخاطب کیا جائے۔ عیسائیت کے ساتھ ساتھ بدھ مت، ہندوازم اور چین و جاپان کے مذہبی اور نیم مذہبی فلسفے، کہیں روحانیت کے نام پر، کہیں تناو سے پاک خوشگوار زندگی کے نام پر، کہیں ماحولیات کے تحفظ کے نام پر اور اس طرح مختلف عنوانات سے ایک نئے عالمی تمدن کی صورت گری میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان سب کا جواب دینا تو دور کی بات ہے، ان کا سنجیدہ، گہرا مطالعہ بھی ابھی ہماری جانب سے باقی ہے۔
خود ہمارے ملک میں قوم پرستی کے نام پر احیا پرستی اور نسل پرستی کی ایک طاقتور تحریک غیر معمولی، سیاسی و سماجی قوت سے مالا مال ہو چکی ہے۔ اس تحریک کے اثرات اب ہمارے ملک سے نکل کر ساری دنیا میں عام ہونے لگے ہیں۔ اس تحریک کا ایک پہلو تو سیاسی ہے لیکن ایک بہت بڑا پہلو تہذیبی، تمدنی اور سماجی ہے۔ اس تحریک کا اسلامی ریسپانس ابھی بھی وقتی سیاسی اختلاف یا اس کے اختلاف میں اٹھنے والی سیکولر آوازوں میں آواز ملانے سے آگے نہیں بڑھ پایا ہے۔ یہ صرف ہندوستان کی حد تک نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اسلامی فکر کی بہت بڑی کمی ہے۔
نئے افکار، نئے نظریات اور نئے آئیڈیاز
یہ تفصیلی بحث اس موقع پر میں نے اس لئے چھیڑی ہے کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت اسلام کو درپیش فکری اور علمی چیلنج بہت بنیادی اور بہت گہرا ہے۔ ہماری ضرورتیں نہ سوالات کے فقہی جوابات اور فتووں سے پوری ہوسکتی ہیں اور نہ محض پرانی کتابوں کی باتوں کو نئی زبان میں دہرانے سے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے اہل فکر عصر حاضر کے مسائل اور افکار و نظریات کا انتہائی گہرا مطالعہ کریں اور نئے افکار اور نئے آئیڈیاز کے ساتھ سامنے آئیں۔
اس کام کے لئے علی گڑھ کی سر زمین اور اس ادارہ سے بہتر کوئی اور جگہ نہیں ہوسکتی۔ یہ کام علمائے دین اور سماجی سائنسدانوں کے اشتراک اور ہم آہنگی ہی سے ممکن ہے۔ علی گڑھ میں تمام سماجی علوم کے نیز انجنیرنگ، ٹکنالوجی، میڈیسین، قانون، علم انتظام وغیرہ جیسے علوم کے بہترین شعبے موجود ہیں۔ دینی اداروں اور علمائے دین سے ربط و ہم آہنگی کے لحاظ سے بھی ملک میں اس سے بہتر کوئی اور جگہ نہیں ہے۔ اس لیے بجا طور پر علی گڑھ کے اس ممتاز ادارہ سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ عام ڈگر سے ہٹ کر نئی سوچ اور نئے آئیڈیا ز کی تخلیق کے عمل کا آغاز کرے۔ اس سیمینار سے بھی مجھے امید ہے کہ اس سلسلہ کو شروع کرنے میں مدد ملے گی۔
ان پیچیدہ چیلنجوں کو سمجھنے اور اس کا حل تلاش کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اُن نوخیز ذہنوں سے بھی مدد لی جائے جن کی فکری توانائیاں ابھی تازہ دم ہیں اور لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہوئی اس دنیا کی پیچیدگیوں کو جو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ اس طرح کے سیمیناروں میں نوجوان اہل علم، مرکزی یونیورسٹیوں کے نوجوان فضلاء اور طلبہ کی ایک تعداد ضرور شریک ہونی چاہیے۔ عالم اسلام کے مختلف علاقوں کے حالیہ تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان خواتین کو بھی جب موقع فراہم کیا جاتا ہے تو وہ غیر معمولی علمی وتحقیقی کام کرتی ہیں ان کی شرکت بھی بڑھنی چاہیے۔