اسلام نے ہی عورت کو سر بلندی عطا کی

عورت کی ہر حیثیت کے لیے دینِ اسلام رحمت ہے

عتیق احمد شفیق اصلاحی، مرادآباد

 

اسلام نے عورت کو بہت اونچا مقام عطا کیا اور اس کو عزت و وقار اور برابری کے حقوق دیے ہیں۔ایک عورت کی چار حیثیتیں نمایاں ہیں۔ ماں، بیوی، بیٹی اور بہن۔ اسلام نے ان چاروں ہی حیثیتوں میں عورت کو جو حقوق دیے ہیں اس کی نظیر کوئی اور مذہب و معاشرہ پیش نہیں کر سکتا۔
ماں:۔ نبیﷺ نے ماں کی خدمت، اطاعت اور حسن سلوک کا حکم دیا ہے اور ماں کے قدموں تلے جنت بتائی ہے۔ حضرت جاہمہؓ نبیؐ کے پاس گئے اور کہا اے اللہ کے رسولؐ میں جہاد میں جانا چاہتا ہوں، آپ کے پاس مشورہ کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ آپؐ نے پوچھا کہ تمہاری ماں ہے؟ انہوں نے کہا ہاں وہ زندہ ہیں آپؐ نے فرمایا ’’میں تم کو تمہاری ماں کے سلسلے میں وصیت کرتا ہوں“ ایسا آپ نے تین مرتبہ فرمایا پھر فرمایا ”تمہارے باپ کے بارے میں اچھے سلوک کی نصیحت کرتا ہوں“( ابن ماجہ) آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ نے ماؤں کی نافرمانی ہم پر حرام کر دی ہے۔ والدین کی نافرمانی کو کبائر گناہوں میں شمار کیا گیا ہے( بخاری) ایک صحابی نے آپؐ سے سوال کیا کہ حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے آپؐ نے فرمایا تمہاری ماں چوتھی بار جب اس نے یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا تمہارا باپ ۔(بخاری و مسلم) حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک روز نبیؐ نے فرمایا میں نے خواب میں جنت کا نظارہ دیکھا وہاں میں نے کسی کے قرآن پڑھنے کی آواز سنی میں نے پوچھا یہ کس کی آواز ہے بتایا کہ حارثہ بن نعمان کی آواز ہے اس کے بعد آپؐ نے صحابہ سے فرمایا یہ ہے ماں کے ساتھ حسن سلوک کا ثواب یہ ہے ماں کے ساتھ حسن سلوک کا ثواب۔
بیوی :۔ عورت کی ایک حیثیت بیوی کی ہوتی ہے اس صورت میں عورت نکاح کے بعد شوہر کی نہ تو غلام ہو جاتی ہے اور نہ ہی شوہر کی شخصیت میں گم ہو جاتی ہے۔ اسلام نے عورت کی شخصیت کو اہمیت دی ہے اور حکم دیا۔ وعاشروھن بالمعروف(النساء ۱۹) ان کے ساتھ بھلے طریقہ سے زندگی بسر کرو
ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف (بقرہ ۲۲۸) عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔
نبیؐ نے فرمایا ’’جو تم کھاؤ وہی ان کو کھلاؤ جو تم پہنو وہی ان کو پہناؤ ان سے مار پیٹ مت کرو اور برا بھلا مت کہو‘‘( ابو داؤد) ‘‘کوئی مومن کسی مومنہ (بیوی ) سے نفرت نہ کرے اگر اس کی ایک عادت اچھی نہ لگے تو دوسری لگے گی‘‘
وعاشروھن بالمعروف (النساء ۱۹)
اسلام نے بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کو ایمان کا تقاضا بتایا ہے۔ ’’ایمان والوں میں سب سے کامل ایمان اس شخص کا ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں اور تم میں بہتر لوگ وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہیں‘‘
( ترمذی)’’یہ دنیا زندگی گزارنے کا سامان ہے اس کا بہتر سامان صالح عورت ہے‘‘( مسلم)۔
’’اللہ کے تقوی کے بعد ایک مومن جن چیزوں سے فائدہ اٹھاتاہے ان میں صالح بیوی سے بہتر کوئی چیز نہیں‘‘( ابن ماجہ)
بیٹی:۔ عورت کی ایک حیثیت بیٹی کی ہوتی ہے اسلام نے اس پہلو سے عورت کو بہت اہمیت دی ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے لڑکی کی پرورش کو نیک کام اور جنت میں لے جانے والا عمل بتایا ہے۔
فرمایا ’’اللہ تعالی جس شخص کو ان لڑکیوں کے ذریعہ کبھی بھی آزمائش میں ڈالے اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو وہ ان کے لیے جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ ہوں گی‘‘( بخاری)
’’جو شخص دو بچیوں کی ان کے جوانی کو پہنچنے تک پرورش کرے گا قیامت کے روز میں اور وہ اس طرح (مل کر) آئیں گے۔ یہ کہہ کر آپ نے انگشت ہائے مبارک ملا کر دکھایا‘‘(مسلم)
’’جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کی تعلیم و تربیت دی ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے‘‘(ابو داؤد)
سماج میں لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دی جاتی ہے لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس طرح کے سلوک سے منع فرمایا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا ’’جس شخص کو لڑکی ہو اور وہ نہ تو اسے زندہ در گور کرے اور نہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے اور نہ اس پر اپنے لڑکے ہی کو ترجیح دے تو اللہ تعالی اسے جنت میں داخل فرمائے گا (ابو داؤد)۔ حضرت محمدﷺ نے جہاں بچیوں کی پرورش، تعلیم وتربیت، نکاح اور ان کے ساتھ برابری سے پیش آنے پر جہنم سے نجات اور جنت ملنے کی بشارت دی وہیں آپؐ نے ان کو اللہ کا قیمتی تحفہ قرار دیا تاکہ ان کی حیثیت و مقام و عظمت لوگوں کے دلوں بیٹھ سکے۔ چنانچہ فرمایا’’لڑکیوں سے نفرت مت کرو وہ تو غم خوار اور بڑی قیمتی ہیں‘‘( مسند احمد)
شادی سے قبل لڑکیوں کی کفالت باپ اور قریبی رشتہ داروں پر رکھی اور شادی کے بعد شوہر اور اولاد پر رکھی ہے اگر شوہر کا انتقال ہو جائے یا طلاق دے دے اور عورت خود کفیل نہ تو اولاد پر اور اولاد بھی اس لائق نہ ہو یعنی چھوٹی ہو یا نہ ہو تو باپ یا قریبی رشتہ داروں کی ذمہ داری ٹھہرائی ہے کہ وہ اس کی کفالت کریں۔ سراقہ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسولﷺ نے پوچھا کیا تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ سب سے بڑا صدقہ کیاہے؟ انہوں نے عرض کیا حضور ضرور بتائیے۔ آپ نے ارشاد فرمایا اپنی اس بچی پر احسان کر جو (بیوہ ہونے یا طلاق دیے جانے کی وجہ سے) تیری طرف لوٹا دی گئی ہو اور تیرے سوا کوئی دوسرا اس کا کمانے والا نہ ہو۔ آپ نے دیکھا کہ حضرت محمد ﷺ نے کس طرح عورتوں کو مقام بلند پر اٹھایا۔ بہن: عورت کی ایک حیثیت بہن کی ہے۔ اسلام نے بہنوں کی پرورش اور ان کی پرداخت پر بھی کافی زور دیا ہے اور ان کی پرورش پر اجر کی خوش خبری سنائی ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہو سکتا ہے کہ والد کی وفات جلد ہی ہو جاتی ہے ایسے میں بہنوں کی پرورش کی ذمہ داری بھائیوں پر ڈالی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ’’جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں وہ ان کی پرورش کرے ان کو تحفظ فراہم کرے اور ان کی شادی کر دے وہ جنت میں جائے گا‘‘۔
برابری کا معاملہ: ایک بات یہ کہی جاتی ہے اسلام میں عورتوں کو برابری کا درجہ نہیں دیا گیا ہے یہ بات غلط ہے اس لیے کہ پہلے برابری کی تعریف طے کی جانی چاہیے (آیا برابری کے معنی یہ ہیں کہ عورتیں مردوں کے ساتھ نوکری کریں تو اسلام اس کو غلط قرار دیتا ہے ایسا سمجھنا برابری نہیں ہے بلکہ ظلم ہے) مثلاً اگر کسی کے دو بچے ہیں ایک دس سال کا جو اسکول جاتا ہے اور ایک دودھ پیتا ایک سال کا بچہ ہے کیا برابری کے معنی یہ ہوں گے جو بڑا کھائے گا وہی چھوٹے کو دیا جائے یا چھوٹا دودھ پیتا ہے تو بڑے کو کھانا نہ کھلا کر اسے بھی صرف دودھ دیا جائے؟ کوئی بھی عقل مند آدمی اس کو برابری نہیں سمجھے گا بلکہ برابری یہ ہوگی کہ چھوٹے بچے کے لیے دودوھ اور بڑے بچے کے لیے کھانے کا نظم کیا جائے۔ عورتیں مرد کے مقابلے جسمانی لحاظ سے کمزور ہوتی ہیں اس لیے اسلام نے ان کا دائرہ کار الگ الگ متعین کیا ہے مرد کو گھر کے باہر اور عورتوں کو گھر کی ذمہ داریاں دی ہیں۔ اس کے علاوہ چند ایسے ایام ہوتے ہیں جن میں جوانی سے بڑھاپے تک عورتوں کو ماہواری آتی ہے، حمل اور رضاعت کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ان ایام میں اس کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر مرد عورتیں ہر جگہ ساتھ رہیں گے تو اس بات کا بڑا امکان ہے جنسی میلانات بھڑک اٹھیں اور وہ بے قابو ہو کر جنسی بے راہرروی کا آسانی سے شکار ہو جائیں۔ اس طرح عورت کی عفت کی حفاظت نا ممکن ہے۔ آج کے سماج نے عورتوں کو مردوں کے برابر لا کھڑا کیا ہے تو اس کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے۔ یعنی عورت کی پاکیزگی کے لیے ضروری ہے کہ وہ غیر مردوں سے الگ رہے۔تیسری وجہ یہ ہے کہ عورت کے سروس کرنے پر عورت پر دوگنی ذمہ داری آجاتی ہے ایک تو وہ باہر سروس کرے اور پھر گھر آکر کھانا پکائے بچوں کی دیکھ بھال کرے گویا اس طرح عورت کو دوگنا کام کرنا پڑتا ہے جو عورت کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ اگر مرد تھکا ہوا اور عورت بھی تھکی ہو تو کون کس کا خیال کرے گا جب کہ عورت کے گھر پر رہنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی جب باہر سے تھکا ہارا آتا ہے تو عورت اس کو راحت پہونچانے کے لیے تیار ملتی ہے۔ اس طرح آدمی کو سکون ملتا ہے۔ پانچویں وجہ یہ ہے کہ عورت سروس کرتی ہے تو چھوٹے بچوں کی نگہداشت ٹھیک سے نہیں ہو پاتی ہے اور ان کا حق مارا جاتا ہے۔ نہ ان کو ماں کا دودھ اہتمام سے مل پاتا ہے اور نہ ہی ماں کی ممتا۔ جب کہ ایک بچہ کی اچھی اور صحت مند پرورش کے لیے یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں۔
اسی طرح بوڑھے والدین کی نگرانی اور ان کی ضرورتوں کا خیال بھی نہیں رکھا جا سکتا ہے۔عورتوں کی عفت محفوظ رہے، ان پر زیادہ کام کا بوجھ نہ پڑے، بچوں کی پرورش درست ہو سکے، والدین کی ضروریات کا خیال رکھا جا سکے، مرد جب باہر سے گھر میں آئے تو اس کو محبت کا گوشہ مل سکے۔ ان تمام مصلحتوں کی بنا پر اسلام نے عورت کا دائرہ کار گھر متعین کیا ہے۔ اسی بنیاد پر اچھے سماج کی تعمیر ہو سکتی ہے۔اسلام نے ایک سے زیادہ شادی کی اجازت دی ہے یہ عورتوں کے لیے باعث رحمت ہے۔ رحمت کیسے ہے اس بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان باتوں کو ذہن میں رکھا جائے جن کی بنیاد پر اسلام نے اس کی اجازت دی ہے۔ایک ایسا مرد جس کے اندر جنسی میلان زیادہ ہو وہ کیا کرے؟ کیا وہ ایک بیوی سے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں کسی سے آشنائی اور ناجائز تعلق قائم کرے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو سماج میں گندگی پھیلتی ہے اور پہلی بیوی کے بہت سے حقوق مارے جاتے ہیں۔ جب کہ دوسرے نکاح کی صورت میں دونوں بیویوں کو قانونی درجہ ملتا ہے۔ دونوں کے اخراجات، ان کے بچوں کی ذمہ داری، ان کی رہائش و دیگر تمام چیزوں کی ذمہ داری مرد اٹھاتا ہے اس صورت میں پہلی بیوی کے حقوق محفوظ رہتے ہیں۔
عورت کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہو کہ جس کی وجہ سے ڈاکٹروں نے جنسی تعلق قائم کرنے سے منع کر دیا ہو تو ایسی صورت میں شوہر کیا کرے؟ کیا مرد کو صبر کی تلقین کی جائے گی؟ لیکن سوال یہ ہے کیا ایسی صورت میں تلقین کار گر ہوگی؟ ہوگی تو کتنے فیصد؟ ایسے میں امکان ہے کہ شوہر بیوی کو چھوڑ دے اگر شوہر ایسا کرتا ہے تو بیماری کی حالت میں کوئی دوسرا مرد اس سے نکاح نہیں کر سکتا ایسی حالت میں عورت کو دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا یا پھر مرد عورت کو طلاق نہ دے لیکن اپنے جذبات کی تسکین کے لیے کوئی غلط قدم اٹھائے۔
یہ دونوں صورتیں ایسی ہیں جن میں بیوی ہی کا نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے اسلام نے مرد کو اجازت دی ہے کہ دوسری شادی کر لے تاکہ پہلی عورت بھی اپنے تمام حقوق کے ساتھ گھر والی رہے اور مرد بھی کسی غلط فعل کا مرتکب نہ ہو اور سماج و معاشرہ پاک صاف رہے۔
عورت بانجھ ہو۔ مرد اور عورت دونوں کو اولاد کی چاہت ہوتی ہے۔ نکاح کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نسل کا تسلسل رہے لیکن عورت جب بانجھ ہوتی ہے تو نکاح کا یہ مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ ایسے میں مرد کیا کرے کیا اپنی پوری زندگی اولاد کی خوشی سے محروم رہے یا وہ عورت کو طلاق دے کر دوسری کسی عورت سے شادی کر لے؟ ایسے میں عورت ہی کا نقصان ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں کوئی دوسرا مرد اس سے شادی نہیں کرے گا اور اس کو عمر کے اس مرحلے میں بے چارگی کی زندگی گزارنا پڑے گا۔ جب کہ اس میں اس کا کوئی قصور نہیں یہ فطری چیز ہے۔ ایک دوسری شکل یہ ہے کہ مرد دوسری شادی کر لے اور پہلی بیوی بھی اس کے ساتھ رہے۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے مزاج میں موافقت نہیں ہوتی۔ بیوی بہت تیز مزاج ہوتی اس کی طرف سے کبھی شفقت کا اظہار نہیں ہوتا اور ہمیشہ تکرار ہی ہوتی رہتی ہے ایسے میں مرد کو گھر میں سکون نہیں ملتا ہے۔ ایسے میں مرد کیا کرے کیا عورت کو طلاق دے دے؟ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو عورت کے لیے نقصان ہوگا۔دوسرا طریقہ یہ کہ وہ دوسری شادی کرے پہلی بیوی کو بھی رکھے اور اسی کے ساتھ دوسری بیوی کو بھی اور زندگی پر سکون گزارے تاکہ بچوں کی تربیت کے فرائض ٹھیک سے انجام پا سکیں۔
کبھی کبھی معاشرے میں ایسی صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ خواتین کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے۔اب جو خواتین مردوں سے زیادہ ہیں ان کا کیا کیا جائے کیا ان کو بغیر شوہروں کے پوری زندگی گزارنے پر مجبور کیا جائے؟ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو کیا ان کی پاک دامنی محفوظ رہ سکتی ہے؟ قوی امکان یہ ہے کہ ان کی عصمت تار تار ہو جائے گی اور معاشرہ برائیوں کا اڈہ بن جائے۔ اسلام اس صورت کا حل یہ پیش کرتا ہے کہ مردوں کو اجازت دی جائے کہ وہ ایک سے زیادہ شادی کر کے ایسی عورتوں کی ذمہ داریاں اٹھائیں اور ان کی عصمت کو تحفظ فراہم کریں۔
سماج میں بیوائیں بھی ہوتی ہیں شوہر کے انتقال کے بعد خود ان کی اپنی کفالت اور اگر بچے ہیں تو ان کی کفالت کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں عورت کو کیسے بے سہارا چھوڑ دیا جائے کیا ایسی صورت میں عورت کی عصمت باقی رہ پائے گی؟ اسلام ایسی عورتوں کے لیے یہ حل پیش کرتا ہے کہ مرد ایک سے زیادہ شادیاں کریں اور ایسی عورتوں کی ذمہ داریوں کا بوجھ برداشت کریں۔ اسی طرح یتیم بچوں کا مسئلہ ہے۔
اسلام نے اس بات کا حکم دیا کہ بچیوں کا خصوصی خیال رکھا جائے اور اس کی ایک شکل یہ ہے کہ ان کو نکاح میں داخل کر لیا جائے تاکہ قربت کی بنا پر آدمی کسی گناہ میں مبتلا نہ ہو۔
کوئی مرد وعورت اگر اسلام کے تعداد ازدواج کے قانون پر سنجیدگی سے غور کرے گا وہ اسی نتیجے پر پہونچے گا کہ اسلام کا قانون ازدواج عورتوں کے لیے سماج کے لیے باعث رحمت ہے۔عورت کے لیے طلاق باعث رحمت: اسلام نے طلاق کو جائز رکھ کر عورتوں پر رحم کیا ہے۔ ایک مرد اگر اپنی بیوی سے خوش نہیں ہے جس کی وجوہات کچھ بھی ہو سکتی ہیں ایسے میں امکان ہے کہ مرد عورت کو ستائے گا، اس کے جو حقوق زوجیت اس کو ادا نہیں کرے گا۔ ایسے میں عورت کی زندگی اجیرن ہو جائے گی۔ اللہ کی نظر میں وہ شخص ظالم اور گناہ گار ہوگا۔ ایسی صورت میں مرد کو یہ اختیار ہے کہ وہ علیحدگی اختیار کرسکتا ہے۔ اس سے مرد گناہ و ظلم سے اور عورت مرد کے ظلم و تعددی کا شکار ہونے سے بچ سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے طلاق عورت کے لیے باعث رحمت ہے۔ طلاق ایک بہت ہی سنجیدہ اور سوچ سمجھ کر اٹھایا جانا والا قدم ہے لیکن آج اس کا غلط استعمال ہو رہا ہے جس کی وجہ سے مرد اور عورت دونوں ہی پریشانیوں سے دو چار ہوتے ہیں۔
خلع: مرد کو طلاق تو عورت کو خلع کا اختیار دیا گیا ہے۔ جہاں مرد کو اپنی پسند اور ناپسند کا اختیار دیا وہیں عورت کو بھی اس کا اختیار دیا ہے کہ کسی بھی بنیاد پر اگر عورت مرد کو پسند نہیں کرتی ہے ۔اور وہ اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہے تو مرد کو علیحدگی کے لیے تیار کر لے اسی کو خلع کہتے ہیں عورت کا شوہر کو کچھ لے دے کر علیحدہ ہونے کا فیصلہ خلع کہلاتا ہے۔ خلع ایسا طریقہ ہے جو گھر میں بیٹھ کر حل ہو جاتا ہے اور سماج و معاشرے میں کوئی بدمزگی پیدا نہیں ہوتی ہے۔
’’ طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقہ سے اس کو رخصت کر دیا جائے اور رخصت کرتے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے واپس لے لو البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کر لے۔ یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کریں وہی ظالم ہیں‘‘۔(البقرہ:۲۲۹)
اگر عورت علیحدگی چاہتی ہے اور مرد تیار نہیں ہے تو شریعت نے عورت کو اختیار دیا ہے کہ قاضی کے سامنے اپنا معاملہ رکھے اور قاضی سارے معاملے کو سمجھ کر ان کے درمیان تفریق کرا دے۔
مرد کو طلاق کا اختیار دینے کی وجہ یہ ہے کہ مرد کے اندر صبر و تحمل زیادہ ہوتا ہے وہ عورت کی جملہ ذمہ داریاں اٹھاتا ہے۔ مرد جب بھی علیحدگی کا فیصلہ کرے گا زیادہ سوچ سمجھ کر کرے گا۔ جب کہ عورت فطری طور پر چیزوں سے متاثر جلدی ہو جاتی ہے۔ اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ عورت طیش میں آکر کوئی ایسا قدم اٹھالے جس کا نقصان بھی اسی کو اٹھانا پڑے۔
حلالہ: ایک عورت کو طلاق ہو جائے تو وہ اپنے پہلے شوہر کے لیے حرام ہو جاتی ہے اور وہ آزاد ہو جاتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی سے نکاح کر لے۔ جب اس نے اپنی مرضی سے کسی سے نکاح کر لیا تو نکاح کر لینے کے بعد شوہر کا انتقال ہو جائے یا دوسرا شوہر بھی طلاق دے دے تو پھر اس کا نکاح پہلے شوہر سے جائز و حلال ہو جاتا ہے کہ وہ پہلے شوہر سے پھر سے نکاح کر سکتی ہے۔ حلالہ کی اصل شکل یہ ہے۔ جو نکاح طے کر کے ہو وہ حرام ہے۔ اس کو حلالہ نہیں کہا جائے گا یہ غلط فہمی ہے اس کی اصلاح ہونی چاہیے۔ اللہ کے رسولﷺ نے ایسے لوگوں پر لعنت بھیجی ہے۔
اسلام نے عورت کا وراثت میں حق متعین کیا ہے۔وہ وراثت میں باپ کی جائیداد میں حصہ دار ہوگی۔ ضرورت ہے کہ مسلم مرد و خواتین اسلام کی عائلی و معاشرتی تعلیم کو جانیں اور اس پر عمل کریں اسی سے دنیا میں خوشگوار زندگی میسر آئے گی اور آخرت میں اللہ کی رضا حاصل ہو سکے گی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020