اسلامی شریعت کے بارے میں وزیر داخلہ کا بیان گمراہ کن

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے وزیر داخلہ کے یکساں سول کوڈ کے سلسلے میں بیان کو مغالطہ انگیز قرار دیا

نئی دہلی،23مارچ ۔

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یکساں سول کوڈ کے سلسلے میں ان کا بیان گمراہ کن اور مغالطہ انگیز ہے، یہ بات تو طے ہے کہ کریمنل قوانین تمام شہریوں کے لئے یکساں ہیں، یہ مختلف طبقات کے مذہب اور رواج کے مطابق نہیں ہوتے ہیں۔ وزیر داخلہ کا یہ کہنا کہ شریعت اور حدیث کے مطابق عمل کرنا ہے تو چوری کرنے والوں کے ہاتھ کاٹ دینا چاہئے، عصمت دری کرنے والوں کو سڑک پر سنگسار کر دینا چاہئے، کسی مسلمان کو سیونگ اکاؤنٹ نہیں کھولنا چاہئے اور لون نہیں لینا چاہئے، بالکل بے معنی ہے، ان کو یہ تو معلوم کرنا چاہئے تھا کہ یہ قوانین کہاں جاری ہوتے ہیں، جرم وسزا کا قانون ایسے ملک میں نافذ ہوتا ہے، جہاں مکمل اسلامی شریعت نافذ ہو۔ اور یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ یہ تمام باتیں صرف اسلامی شریعت کا قانون نہیں ہیں، بلکہ تمام مذاہب کا مشترکہ قانون ہے۔ خود منوسمرتی میں چوری کی سزا اور نقب زنی کی سزا ہاتھ کاٹنا بتائی گئی ہے۔ زنا کرنے والی عورت کی سزا یہ ہے کہ اس کو بھوکے کتوں کے آگے ڈال دیا جائے، تاکہ وہ اسے کاٹ کھائیں اور زنا کرنے والے مرد کو لوہے کا پلنگ آگ سے تپا کر اس پر ڈال دیا جائے؛ تاکہ وہ جل کر مرجائے۔

اگر زنا بالجبر کا ارتکاب کرے تو مرد کا عضو تناسل کاٹ دیا جائے؛ البتہ برہمن کو ان سزاؤں سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے، اس کا صرف سر مونڈنے پر اکتفا کیا جائے گا، اسی طرح سود کو ویدوں میں بھی منع کیا گیا ہے، دنیا میں جتنے بھی مذاہب گزرے ہیں بہ شمول ہندو مت اور اسلام کے، ان کے یہاں اخلاقی اقدار کو بڑی اہمیت دی گئی ہے اور ان کو قائم کرنے کے لئے دو کام کئے گئے ہیں، ایک تو ایسا ماحول بنایا جائے کہ لوگوں کے لئے جرم سے بچنا آسان ہو جائے، دوسرے : سزائیں اتنی سخت مقرر کی جائیں کہ لوگوں میں خوف پیدا ہو جائے؛ اس لئے ایسی مثالیں دے کر شریعت اسلامی کو بدنام کرنا متعصبانہ ذہن کا پتہ دیتا ہے، اسلام میں یقیناََ بعض جرائم پر سخت سزائیں رکھی گئی ہیں؛ لیکن اس کے لئے جرم سے بچنے میں معاون ماحول کی تشکیل بھی کی گئی ہے، اسلام میں شراب کی بھی سخت سزا ہے؛ لیکن جہاں پوری اسلامی شریعت نافذ ہوگی، وہاں نہ شراب کے کارخانے ہوں گے اور نہ شراب خانے ہوں گے، اسلام میں زنا پر سخت سزا رکھی گئی ہے؛ لیکن اس کے ساتھ پردے کا پورا نظام رکھا گیا ہے، جہاں پوری اسلامی شریعت نافذ ہوگی، وہاں مردوں اور عورتوں کا اختلاط نہیں ہوگا، وہاں دونوں کے لئے الگ الگ کلاس رومس ہوں گے، ہر شعبہ  زندگی میں عورتوں کے لئے خصوصی انتظام ہوگا، ظاہر ہے کہ وہاں بدکاری کے واقعات خود بخود کم ہو جائیں گے، اسی طرح اسلامی حکومت ہر شہری کی بنیادی ضروریات مہیا کرنے کی پابند ہوگی؛ تاکہ چوری اور ڈاکہ زنی کے واقعات پیش نہ آئیں اور اگر کوئی شخص بھوک اور فاقہ سے مجبور ہو کر چوری کرے تو اس پر چوری کی سزا نافذ نہیں ہوگی؛ اسی لئے سعودی عرب اور جن علاقوں میں کبھی جرم وسزا کے طور پر شرعی سزا نافذ کی گئی، وہاں جرائم کی شرح صفر پر آگئی، اس کے بر خلاف جہاں جرم کو روکنے کے لئے ماحول سازی کا کام نہیں ہوا اور صرف سزائیں سخت مقرر کی گئیں، وہاں جرم میں اضافہ ہی ہوتا رہا، جس کی ایک مثال ہمارا وطن عزیز بھی ہے۔

ہمارے ملک میں مختلف اکائیوں کے لئے سماجی قوانین کے فرق کو قبول کیا گیا ہے؛ اس لئے دستور کی دفعہ ۲۵? میں مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے؛ اسی لئے نکاح وغیرہ کو اپنے اپنے مذہب اور رواج کے مطابق انجام دینے کی گنجائش رکھی گئی ہے، یقیناََ اسلام میں مرد کو ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت دی گئی ہے؛ لیکن یہ صرف اجازت ہے، اسلام نے اس کا حکم نہیں دیا ہے اور نہ خاص طور پر اس کی ترغیب دی ہے، اور یہ اجازت دوسرے مذاہب میں بھی دی گئی ہے، ہندو دھرم میں شودر کے لئے تو صرف ایک بیوی رکھنے کی اجازت ہے، ویش کے لئے دو، چھتری کے لئے تین ؛ مگر برہمن کے لئے چار اور بادشاہ کے لئے وہ جتنی چاہے، دنیا کے دیگر مذاہب میں بھی ایک سے زیادہ بیوی کی اجازت دی گئی ہے؛ کیوں کہ بعض دفعہ مرد کے لئے ایک سے زیادہ نکاح ایک سماجی ضرورت بن جاتی ہے اور یہ بات اخلاقی اقدار کی حفاظت میں مددگار ہوتی ہے، افسوس کی بات ہے کہ ایک سیکولر ملک کا وزیر داخلہ اپنے ہی ملک کی دوسری سب سے بڑی اکائی کے بارے میں نفرت اور تعصب پر مبنی ایسے خیالات کا اظہار کرے، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اس کی سخت مذمت کرتا ہے اور تمام برادران وطن سے اپیل کرتا ہے کہ وہ ایسی باتوں سے غلط فہمی کا شکار نہ ہوں، یہ صرف اور صرف سیاسی مقصد کے لئے ایک کمیونٹی کو نشانہ بنانے کی نامنصفانہ کوشش ہے۔