اسرائیل کو تسلیم کروانے کی مہم: عرب حکمراں صیہونی دام میں

فلسطین انتخابی سیاست پر قربان۔امریکہ میں الیکشن سے قبل خطرناک کھیل

مسعود ابدالی

متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اعلان ابو ظہبی کے بجائے واشنگٹن سے ہوا جسے صدر ٹرمپ نے ’معاہدہ ابراہیم‘ قرار دیا ہے۔ یہ خبر کسی بھی اعتبار سے حیرت انگیز یا چشم کشا نہیں ہے اور سفارتی سرگرمیوں سے صاف محسوس ہو رہا ہے کہ بحرین اور عمّان بھی ایسا ہی فیصلہ کر چکے ہیں۔ 16اگست کو بحرینی وزارت خارجہ نے اپنے ایک ٹویٹ میں اطلاع دی کہ وزیر اعظم شیخ خلیفہ بن سلمان الخلیفہ غیر ملکی دورے پر روانہ ہوگئے ہیں۔ اعلامیے میں وزیر باتدبیر کی منزل کی بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا لیکن خیال ہے کہ موصوف ’مشورے‘ کے لیے اسرائیل یا مصر گئے ہیں جس کے بعد امریکی فوج کے پانچویں بحری بیڑے کا میزبان جلد ہی اسرائیل کو تسلیم کر لے گا۔ اسی کے ساتھ عمانی وزیر مملکت برائے امور خارجہ جناب یوسف بن علوی نے فون کے ذریعے اپنے اسرائیلی ہم منصب جنرل گیبی اشکنازی سے ’مشرق وسطیٰ امن منصوبے‘ کے اہم نکات اور علاقے میں ہونے والی سفارتی پیشرفت پر تفصیلی گفتگو فرمائی۔

اسرائیل و امریکہ کی ایک دہائی سے جاری مربوط و منظم عسکری و سفارتی مہم کے نتیجے میں فلسطینی عوام تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں اور ان مظلوموں کی حالتِ زار سے مکمل آگاہی کے باوجود اسلامی ممالک سمیت دنیا انکے ساتھ کھڑی ہونے کو تیار نہیں۔ اہل غزہ و رم اللہ سے کہا جارہا ہے اسرائیل جو دے رہا ہے اسے لے کر ہنسی خوشی رہنے پر تیار ہو جاؤ ورنہ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔مسلم دنیا میں فلسطینیوں کی حمایت میں کمی کا فائدہ اٹھا کر اسرائیل کو تسلیم کرانے کی مہم کا آغاز ہو چکا ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ اسلامی دنیا اسے قابض قوت کے بجائے ایک جائز و مستند ریاست کا مقام عطا کرے۔

فلسطینی ملت سکڑ کر غرب اردن کے کچھ دیہاتوں اور غزہ کی پٹی تک محدود ہو چکی ہے۔ غزہ کو کھلی چھت کا جیل خانہ کہنا بھی مناسب نہیں کہ دور جدید میں قیدیوں کو بجلی، پانی، صحت و صفائی اور خوراک کی جو سہولت حاصل ہے 18 لاکھ اہل غزہ اس سے بھی محروم ہیں۔فلسطینیوں کو صرف اتنی سی سفارتی مدد حاصل ہے کہ اکثر مسلمان ممالک اسرائیل کو غاصب قرار دیتے ہوئے کم از کم زبان کی حد تک آزاد فلسطین کے حامی ہیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور معمول کے سفارتی تعلقات قائم ہو جانے کے بعد مظلوم فلسطینی تنکے کے اس سہارے سے بھی محروم ہو جائیں گے۔اس سال 28جنوری کو صدر ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ امن منصوبے کا اعلان کیا تھا جس میں اسرائیل کے ساتھ فلسطینی ریاست کی ضمانت دی گئی تھی۔ معاہدے کی تیاری میں تنازعے کے دوسرے فریق یعنی فلسطین کو شریک مشورہ تو دور کی بات اعلان سے پہلے اعتماد میں بھی نہیں لیا گیا۔ صدر ٹرمپ نے اسے غیر معمولی اور اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے مجوزہ منصوبے میں فلسطین کے زیر انتظام علاقے میں بہت اضافہ کیا گیا ہے۔ اس موقع پر اسرائیل کے قائد حزب اختلاف بن یامین گینٹز کو صدر ٹرمپ نے خصوصی طور پر مدعو کیا تھا۔ انتخابات کے بعد اب مسٹر گینٹز مخلوط حکومت کے وزیر دفاع ہیں۔

مجوزہ منصوبے کے اہم نکات

  •  فلسطینیوں کے کلیدی مطالبے ’’دو ریاستی فارمولے‘‘ کو تسلیم کیا گیا ہے
  •  دریائے اردن کے مغربی کنارے اور دوسری فلسطینی آبادیوں پر اسرائیلی اقتدار کو قانونی حیثیت حاصل ہوگی  گولان اسرائیل کا اٹوٹ انگ ہوگا
  •  بیت المقدس بدستور اسرائیل کا دارالحکومت رہے گا۔ بیت المقدس کےمشرقی مضافاتی علاقے میں فلسطین کا دارالحکومت قائم کیا جائے گا۔
  •  مسجد اقصیٰ کو دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے کھول دیا جائے گا۔
  •  مجوزہ نقشے میں ننھا سا فلسطین ساری دنیا سے کٹا اور اسرائیل سے گھرا ہوا ہے۔
  •  غزہ بحر روم کے ساحل پر واقع ہے لیکن منصوبے کے تحت آبی آمد ورفت اس کے شمال میں اشدود بندرگاہ سے ہوگی جو اسرائیل کا حصہ ہے یعنی اہل غزہ کی پانی تک رسائی اتنی ہی ہوگی کہ وہ اپنے گھر کی کھڑکیوں سے سمندر کا نظارہ کرسکیں۔
  •  دنیا سے فلسطین کا رابطہ رفاح سے ہوگا جو مصر کے کنٹرول میں ہے۔ رفاح گیٹ ایک عرصے سے مقفل ہے جس کی کنجیاں جنرل السیسی کے پاس ہیں۔
  •  فلسطین میں 15 اسرائیلی بستیاں بھی ہونگی جو فلسطینیوں کی زمین پر آباد کی جائیں گی۔ ان آبادیوں کی حفاظت کے لیے اسرائیل فوج تعینات ہوگی۔ اگر فلسطینی ٹرمپ پلان کو تسلیم کرلیں تو اسرائیل اگلے 4 برس تک کوئی نئی بستی تعمیر نہیں کرےگا۔
  •  اس منصوبے کا آخری نکتہ معنی خیز ہے یعنی فلسطینیوں کی زمین مزید ہتھیانے سے ’پرہیز‘ کی مدت صرف چار سال ہے۔

اس کے بعد کیا ہو گا؟ یہ سب کو معلوم ہے۔ 181صفحات پر مشتمل یہ دستاویز جسے صدر ٹرمپ نے ڈیل آف دی سنچری قرار دیا تھا، امریکہ کے داماد اول جیررڈ کشنر نے تحریر فرمائی ہے۔ موصوف کو امارات اور سعودی عرب کے ولی عہد حضرات کا جگری دوست سمجھا جاتا ہے۔ یہ دونوں عرب شہزادے دنیا میں MBZ اور MBS کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ دستاویز کا لب لباب یہ ہے کہ اگر فلسطینی جدوجہد آزادی کا سودا سر سے نکال دیں تو ان کے لیے دودھ و شہد کی نہریں بہہ سکتی ہیں۔ نقشے کے مطابق فلسطینیوں کی یہ جنت ارضی چند سو مربع کلومیٹر پر مشتمل ہوگی اور ساکنانِ فردوسِ زمیں کی ہلکی سی گستاخی پر اسے جہنم زار میں تبدیل کر دیا جائے گا۔

فلسطینیوں کے شدید احتجاج کی بنا پر اس منصوبے کو پزیرائی نصیب نہ ہوئی اور خود سعودی عرب نے بھی اس پر کسی گرمجوشی کا اظہار نہ کیا چنانچہ چند ماہ پہلے غرب اردن کے مقبوضہ عرب علاقوں کے اسرائیل سے الحاق کا اعلان ہوا۔ یعنی گاجر غیر مؤثر ہونے پر لاٹھی لہرا دی گئی۔ دروغ بر گردن راوی لاٹھی و گاجر کی رونمائی بارش کے پہلے قطرے کا نزول خوشگوار بنانے کے لیے تھی۔

متحدہ عرب امارات کے MBZ اسرائیل سے تعلق میں پہل کے لیے بھی ایک عرصے سے پر تول رہے تھے۔ اسکا آغاز کرونا وائرس سے متاثر فلسطینیوں کے لیے امدادی سامان سے لدے اتحاد ایئرویز کی تل ابیب کے لیے براہ راست پرواز سے ہوا۔ گویا متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کا آغاز ہو گیا۔ تاہم فلسطینیوں نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے امدادی سامان قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ مقتدرہ فلسطین کے ترجمان نے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے فلسطینیوں کا کندھا استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔

اسی کے ساتھ اسرائیل نے عرب علاقوں کے اسرائیل سے الحاق کی کوششیں تیز کردیں اور تل ابیب سے اعلان کیا گیا کہ اس سال کے اختتام سے پہلے غرب اردن کے بڑے علاقے کو اسرائیل کا حصہ بنالیا جائے گا۔اسکی وضاحت کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرِ اعظم نے کہا کہ اسرائیل کی حدود کو وادی اردن اور شمالی بحیرۂ مردار تک بڑھا دیا جائیگا جسے انہوں نے ’نئی اسرائیلی مشرقی سرحد‘ کا نام دیا۔ ہتھیائے جانے والے علاقے کےصیہونی تشخص کو یقینی بنانے کے لیے یہ غیر مبہم اعلان بھی کردیا گیا کہ اسرائیل کا حصہ بننے والے علاقوں میں آباد فلسطینیوں کو اسرائیل کی شہریت نہیں دی جائے گی۔

الحاق کے اس فیصلے کی صدر ٹرمپ نے کھل کر حمایت جبکہ انکے حریف جو بائیڈن، یوروپی یونین اور اقوام متحدہ نے فلسطینیوں کی اشک شوئی کے لیے اس اعلان پر ’شدید تشویش‘ کا اظہار کیا۔ الحاق کے اس فیصلے کے خلاف فلسطینیوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا اور محمود عباس نے صاف صاف کہدیا کہ اگر فلسطینیی زمینوں کو ہتھیایا گیا وہ اسرائیل سے ہونے والے تمام امن معاہدوں کو منسوخ کردیں گے یا یوں کہیے کہ انہوں نے مسلح جدوجہد دوبارہ شروع کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ اسی دوران اسرائیل میں کورونا وائرس کی وجہ سے صورتحال خراب ہوگئی اور وزیر اعظم کے خلاف بے ایمانی و بدعنوانی کے الزامات پر اعلیٰ عدالت میں سماعت کا آغاز ہو گیا۔ پہلی سماعت میں نیتن یاہو کی اصالتاً حاضری سے استثنا کی درخواست بھی مسترد کر دی گئی۔ ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے فرد جرم کے جواب کی تیاری کے لیے ’ملزم‘ کو دسمبر تک کی مہلت کے ساتھ یہ بات بھی باور کرادی کہ اگلے سال کے آغاز سے مقدمے کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہو گی۔

دوسری طرف امریکہ میں انتخابی مہم کا آغاز ہوا۔ کورونا وائرس کے حوالے سے مایوس کن کارکردگی کی بنا پر صدر ٹرمپ دباؤ میں آگئے چنانچہ انہوں نے بین الاقوامی امور پر فیصلہ کن پیشرفت کے لیے سر توڑ کوششیں کر دیں۔ اس ضمن میں چار بڑے تنازعات کھنگھالے گئے جن میں ایران امریکہ کشیدگی، شمالی کوریا کا جوہری پروگرام، مشرق وسطٰی امن منصوبہ اور افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا شامل ہیں۔

ایران کا معاملہ امریکہ اور اس سے بڑھ کر اسرائیل اور امریکہ کے خلیجی اتحادیوں کے لیے خاصا نازک ہے اور سرد مہری کی برف پگھلانے کے لیے تہران کو کسی بھی قسم کی رعایت سے آبگینوں کو ٹھیس لگ جانے کا خدشہ تھا۔ دوسری طرف شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان نے جوہری عزائم پر کسی بھی قسم کی بات چیت سے پہلے اپنے ملک کے خلاف پابندیاں ختم کرنے کی شرط عائد کر دی ہے اور وہ پابندیوں کے خاتمے سے پہلے بات چیت تو دور کی بات صدر ٹرمپ کا فون اٹھانے پر بھی تیار نہیں۔ چونکہ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے اس لیے ستاروں پر کمند ڈالنے کے بجائے جھکی ڈالیوں سے پھل توڑنے کی حکمت اختیار کی کی گئی۔

افغانستان میں ’مسٹر و ملّا مفاہمت‘ کے لیے کوششیں تیز کردی گئیں اور ٹرمپ انتظامیہ نے امداد بند کر دینے کی دھمکی دے کر افغان حکومت کو طالبان قیدیوں کی رہائی پر آمادہ کرلیا۔ صدر ٹرمپ کی خواہش ہے کہ انتخابی مہم کے آخری دنوں میں افغانستان سے واپس آنے والے فوجیوں کا استقبال کر کے خود کو امریکی عوام کے سامنے ایک ایسا مدبر رہنما ثابت کریں جو Sleepy Joe کے مقابلے میں انتہائی سرگرم ہے اور کئی دہائیوں پر محیط گنجلک و پیچیدہ تنازعات کا منصفانہ حل تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔امارات۔اسرائیل مفاہمت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جیررڈ کشنر تحقیق و ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں اسرائیل کی عظیم الشان کامیابیوں کے قصے سناکر عرب شہزادوں کو مسحور کر چکے ہیں۔ دامادِ اول کا کہنا ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ کی سلیکون ویلی یا بنگلورو ہے۔ اسرائیل سے دوستی کے نتیجے میں انکے تپتے صحرا گل و گلزار میں تبدیل ہو جائیں گے اور غلہ درآمد کرنے والے خلیجی ممالک ایشیا اور افریقہ کو خوراک فراہم کریں گے۔ فرسودہ نظام و طریقہ تعلیم کی جگہ اسرائیل کے جدید ترین نصاب سے عرب دنیا میں علم و دانش کا وہ عظیم الشان انقلاب برپا ہوگا جو پسماندہ عربوں کو ایک بار پھر دنیا کا امام بنا دے گا۔ ان سب سے بڑھ کر خلیجی رہنماؤں پر ایران کا خوف طاری ہے۔ اسرائیل کی عسکری صلاحیتوں اور موساد کی سراغرسانی استعداد سے عرب امرا اور سلاطین بے حد متاثر ہیں اور انہیں یقین ہے کہ تعلقات کے بعد اسرائیل دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے ایران کے خلاف عربوں کا مؤثر دفاع کریگا۔

اسی کے ساتھ انا کی تسکین اور کامیاب سفارتکاری کا تاثر دینے کے لیے پہلے تو اسرائیل کو الحاق کا فیصلہ مؤخر کرنے پر راضی کیا گیا تودوسری طرف MBZ سے کہا گیا کہ وہ سفارتی تعلقات کے لیے الحاق کا فیصلہ منسوخ کرنے کی شرط عائد کر دیں۔ صدر ٹرمپ کی ثالثی میں امارات کی شرط اسرائیل تک پہنچادی گئی اور نیتن یاہو نے اس پر جزوی رضامندی ظاہر کر دی۔ چنانچہ فلسطینوں کے لیے ’زبردست رعایت‘ کے عوض امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ اور بات کہ فیصلے کے خیر مقدم کے لیے تل ابیب بلدیہ کی عمارت پر روشنیوں سے امارات کا قومی پرچم لہراتے ہوئے نیتن یاہو نے صاف صاف کہدیا کہ فلسطینی علاقوں کے الحاق کا فیصلہ منسوخ نہیں بلکہ ملتوی کیا جا رہا ہے۔ جب ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ کیا منصوبہ منجمد کیا جا رہا ہے تو انہوں نے کہا کہ ہاں! لیکن یہ انجماد وقتی ہے۔ اسکی مزید وضاحت 13 اگست کو واشنگٹن میں صدر ٹرمپ کی اخباری کانفرنس کے دوران ہوئی جب صدر نے امارات کے اس فیصلے کو مشرق وسطیٰ امن کے لیے شاندار پیشرفت قرار دیا۔ امریکی صدر نے کہا کہ ان کے پیش رو قائدانہ صلاحیتوں سے محروم تھے لیکن انہوں نے اس تنازعے کے تمام فریقین کو ایک ایسے معاہدے پر متفق کر دیا ہے جسکا سب سے بڑا فائدہ فلسطینیوں کو ہوگا۔ امارات کے جراءت مندانہ قدم سے فلسطینی علاقوں کے اسرائیل سے الحاق کا معاملہ داخل دفتر ہوگیا ہے اور انہیں یقین ہے کہ باقی عرب اور مسلمان ممالک MBZ کی پیروی کرتے ہوئے اسرائیل سے اپنے تعلقات معمول پر لے آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی زبان سے نہیں کہتے لیکن وہ بھی دل سے یہی چاہتے ہیں۔ جب ان سے ایک صحافی نے پوچھا کہ کیا اسرائیل الحاق کا فیصلہ منسوخ کرنے پر رضامند ہوگیا ہے تو وہاں موجود اسرائیل میں امریکہ کے سفیر ڈیوڈ فریڈ مین نے بہت صراحت سے کہا ’الحاق کا فیصلہ منسوخ نہیں بلکہ وقتی طور پر ملتوی کیا گیا ہے‘سوال یہ ہے کہ اسرائیل سے تعلقات کے لیے امارات کو الحاق کا شوشہ اٹھانے کی کیا ضرورت تھی۔ قطر کے سوا تمام کے تمام خلیجی ممالک بلا مشروط اسرائیل کو تسلیم کرنے کے پر جوش حامی ہیں۔ اماراتی حکمرانوں کو ملک میں کسی رد عمل کا خوف نہیں نہ ہی علاقے میں کسی مشکل کا سامنا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مخالفین کا منہ بند کرنے کے لیے الحاق کا مسئلہ اٹھایا گیا ہے گویا اسرائیل سے مہر ومحبت کا اظہار فلسطینیوں کی خاطر ہے۔ اب الحاق کے فیصلے کو مزید مؤخر کرنے کا جھانسہ دے کر دوسرے خلیجی ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے۔ فلسطینیوں سے ہمدردی کی آڑ میں پاکستان سمیت غیر عرب مسلم ممالک کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے لیے آمادہ کیا جائے گا۔ جس کے بعد فلسطینیوں کو پیشکش کی جائے گی کہ اگر وہ ہتھیار رکھنے پر رضامند ہو جائیں تو الحاق کا فیصلہ یکسر منسوخ کیا جا سکتا ہے یعنی چند سو مربع کلومیٹر اراضی کے عوض سارے فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو قانونی شکل دے دی جائیگی۔ اس پورے معاملے پر انتہائی دردناک تبصرہ حماس کے ترجمان کا ہے جن کا کہنا تھا کہ ’1977 میں انوارالسادات نے ہماری پشت میں جو چھرا گھونپا تھا اب اسکی نوک ہمارے دل و جگر تک پہنچ چکی ہے‘۔ مشرق وسطٰی کے سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ امارات کے بعد عمان اور بحرین اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں جبکہ سوڈان کی فوجی جنتا وزیر اعظم ڈاکٹر عبداللہ حمدوک پر اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔ خیال یہی ہے کہ ڈاکٹر صاحب بہت دیر تک مزاحمت نہیں کر پائیں گے۔ سعودی عرب اور کویت چاہتے ہیں کہ اب کچھ ’غیرعرب‘ مسلم ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ MBS کی خواہش ہے کہ اس ’کارِ خیر‘ میں ہاتھ بٹانے کے لیے پاکستان اور ملائشیا آگے آئیں۔ ملائیشیا اس پر فی الحال آمادہ نظر نہیں آ رہا ہے جبکہ پاکستان کو رضامند کرنے کے لیے فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ کو ریاض طلب کیا گیا ہے۔سعودیوں کو معلوم ہے کہ عوامی غیض و غضب کے پیش نظر سول انتظامیہ کے لیے یہ فیصلہ ممکن نہیں ہے، اس حوصلے کی توقع جرنیلوں ہی سے کی جاسکتی ہے۔

کہا تو جا رہا ہے کہ گزشتہ دنوں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کشمیر کے حوالے سے سعودی رویے پر جس مایوسی کا اظہار کیا تھا اس پر ریاض سخت برہم ہے اور باہمی تعلقات میں آجانے والی سلوٹوں کو ہموار کرنے کے لیے جنرل صاحب سعودی عرب تشریف لے گئے ہیں لیکن پیغامِ زبانی کچھ اور ہی نظر آ رہا ہے۔


صاحب مضمون سینیئر صحافی ہیں۔ آپ عالمی سیاسی منظرنامے خصوصاً ہندو پاک، مشرق وسطی اور امریکی صورت حال پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ رابطہ ٹوئٹر @MasoodAbdali