عتیق احمد شفیق اصلاحی ،مرادآباد
رمضان کی آمد آمد ہے یہ ماہ نیکیوں کی فصل بہار ہے اس میں رحمت الہی جوش میں ہوتی ہے نیکیوں کی راہ آسان کردی جاتی ہے جبکہ برائیوں سے روکنے کے لیے بندشیں لگا دی جاتی ہیں اس کی وجہ سے نیکیوں پر چلنا آسان اور بدی سے روکنا سہل ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی چاہے تو اس ماہ کی برکتوں سے فائدہ اٹھا کر اپنے اندر اتنی استعداد پیدا کر سکتا ہے کہ سال کے بقیہ ایام میں بھی رضائے الہی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔اللہ تعالی ہمیں ایک بار پھر رمضان کی مبارک ساعتوں سے مالا مال ہونے کا موقع عنایت فرمانے والا ہے اس کو غنیمت جاننے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں ۔
منصوبہ بند ی اور نظام الاقات :۔ جب کوئی ہمارے یہاں مہمان آتا ہے تو اس کی آمد پر اس کی ضیافت اس کے آرام اور اس سے استفادہ کرنے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے ٹھیک اسی طرح رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ پورے رمضان کی منصوبہ بندی کریں نظام الاوقات بنائیں اور اس کی پابندی کریں۔ یہ مہینہ بڑی برکتوں رحمتوں عنایتوں بخششوں اور لطف وکرم کا ہے۔ اس ماہ کے اندر اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتیں رکھی ہیں۔ اب یہ بندے پر ہے کہ وہ چاہے تو رب سے لَو لگا کر اس کی عنایتوں سے فائدہ اٹھالے یا پھر غفلت میں رہ کر محرومین اور بد نصیبوں میں جا ملے۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو جو رمضان کا مہینہ پائے اور پھر بھی وہ اپنی مغفرت نہ کرا سکے۔ (متفق)
توبہ:۔ ماہ رمضان کی آمد سے قبل اللہ سے رجوع کریں اپنی سابقہ غلطیوں پر نادم ہوں اور مغفرت چاہیں ماہ رمضان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق مانگیں۔ توبہ ایک مستقل عمل و عبادت ہے جو اللہ کو محبوب ہے رمضان میں اس پر خصوصی توجہ دیں اس کے ذریعہ رب سے رشتہ کو مضبوط تر کریں۔ اے مومنو تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو توقع ہے کہ فلاح پاو گے (القرآن) اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے توبہ کرو خالص توبہ (القرآن) توبہ کرنے سے اللہ بندے سے اتنا خوش ہوتا ہے جتنا صحرا کے مسافر کو اپنا کھویا ہوا اونٹ مل جانے سے خوشی ہوتی ہے۔
اہل خانہ کی ذہن سازی:۔ اپنی تربیت اور نیکیوں پر عمل کے لیے ضروری ہے کہ گھر کا ماحول ساز گار ہو اس لیے رمضان سے قبل اہلِ خانہ کی ذہن سازی کریں تاکہ گھر کا ہر فرد نیکیوں کے حصول لیے سرگرم ہو جائے۔ اللہ کے رسول ﷺ بھی اپنے اہلِ خانہ اور صحابہ کو رمضان کی آمد سے قبل اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار کرتے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: جب آخری عشرہ آتا تو آپ ﷺ کمر کس لیتے اور پوری رات جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے۔ حضرت سلمان فارسی ؓ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ نے شعبان کی آخری تاریخ کو خطبہ دیا اور فرمایا تمہارے اوپر ایک بڑا بزرگ مہینہ سایہ فگن ہوا ہے یہ بڑی بر کت والا ہے۔
قرآن کریم سے تعلق:۔ رمضان کی سب سے بڑی نعمت قرآن مجید کا نزول ہے۔ قرآن انسانیت کے لیے راہ نجات ہے دکھوں کا مدوا ہے اس میں تمام انسانوں کے مسائل کا حل ہے۔ یہ انسانیت کو ظلمت وتاریکیوں سے روشنی کی طرف لاتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے۔ "رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں” ۔ دوسری جگہ فرمایا "لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے” (القرآن) ۔ قرآن اس دنیا میں انسانیت کے لیے رہنما ہے اور آخرت میں نجات وشفاعت کا ذریعہ بنے گا۔ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی شفاعت کرتے ہیں روزہ کہتا ہے کہ اے میرے رب میں نے اس کو دن بھر کھانے اور شہوات سے روکے رکھا تو اس کے حق میری سفارش قبول فرما اور قرآن کہتا ہے کہ میں نے اسے رات کو سونے سے روکے رکھا تو میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما۔ پس دونوں کی شفاعت قبول کی جاتی ہے لہٰذا اس ماہ میں قرآن کریم سے گہر اتعلق پیدا کرنے کی طرف سنجیدہ کوشش ہونی چاہیے۔
انسانوں سے خوش گوار تعلقات:۔ قرآن میں روزے کے احکام بیان کرنے سے پہلے رشتہ داروں یتیموں مسکینوں مسافروں سائلوں غلاموں کو غلامی سے نجات دلانے قصاص اور وصیت کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں اور روزے کے احکام بیان کرنے بعد ل لوگوں کے مال ناجائز طریقہ سے کھانے منع کیا گیا ہے۔ احکامات کی اس ترتیب سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسانوں کے حقوق کی ادائیگی کتنی ضروری ہے۔ روزہ انسان کے اندر دوسروں کے کام آنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ بخل لالچ اور دل کی سختی جیسی بیماریوں سے بچاتا ہے۔ ان بیماریوں کی وجہ سے ہی انسان انسان پر ظلم ناانصافی اور قتل تک کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ روزہ ان راذئل صفات سے انسان کو بچاتا ہے اسی لیے رمضان کو ماہ صبر کہا گیا ہے۔ اگر رشتہ داروں سے تعلقات خراب ہیں تو رمضان آنے سے پہلے پہلے ان کی اصلاح کی کوشش کی جانی چاہیے خواہ اس خرابی کے ذمہ دار آپ ہوئے ہوں یا وہ بہرحال رمضان میں رشتوں کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ ہونی چاہیے۔ رشتوں میں بہتری و مضبوطی حسن سلوک اور احسان کا رویہ اختیار کرنے سے ہی آتی ہے۔ وہ شخص اللہ کا پسندید بندہ نہیں بن سکتا جس کے تعلقات انسانوں سے اچھے نہ ہوں اور جو ان کے حقوق ادا نہ کرے۔ روزہ میں تعلقات خوش گوار بنانے کے نسخہ کی مشق کرائی جاتی ہے۔ ارشاد نبوی ہے کہ جب کوئی شخص تم میں سے روزے سے ہو تو اسے چاہیے کہ نہ بد کلامی کرے اور نہ دنگا فساد کرے اگر کوئی اس سے گالی دے یا لڑے تو وہ اس سے کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔
دعا:۔ رمضان دعا کا مہینہ ہے اس ماہ میں اللہ سے زیادہ سے زیادہ دعا مانگنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے احکام بیان کرتے ہوئے فرمایا: اے نبی ﷺ میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں کہہ دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔(بقرہ۱۸۶)
اللہ تعالیٰ بندوں کی دعا ہمیشہ سنتا ہے لیکن رمضان میں اس میں تیزی آجاتی ہے۔ رمضان میں مانگی جانے والی دعا قبول کی جاتی ہیں۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے کہ روزہ دار کے لیے دو فرحتیں ہیں ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا تین لوگوں کی دعا کبھی رد نہیں کی جاتی جن میں سے ایک روزے دار کی یہاں تک کہ وہ افطار کرلے۔
رمضان کی راتوں کی قدر:۔ رمضان کی راتوں کی قدر کی جائے۔ روزے میں انسان تھک جاتا ہے لیکن تھکان کے باوجود انسان رات کو اٹھ کر اپنے رب کے حضور اپنے گناہوں اور غفلتوں پر معافی چاہتا ہے تو اس کا رب اس کی رب مغفرت فرما دیتا ہے۔ ارشاد نبوی ہے کہ پکارنے والا پکارتا ہے کہ ائے بھلائی کے طالب آگے بڑھ اور ائے برائی کے طالب رک جا۔ اللہ کے بہت سے بندے ہیں جو آگ سے بچنے والے ہیں اور یہ ہر رات کو ہو تا ہے اور اللہ کے بہت سے بندے ہیں جو اپنے نیک اعمال اور رات کو اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کی وجہ سے بخشش دیے جاتے ہیں۔ ہر انسان کو اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ اس کا شمار کن بندوں میں ہو رہا ہے۔
شب قدر:۔ماہ رمضان میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے اس کو تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔ نبی ﷺ اس کو تلاش کرنے کے لیے بہت ہی کوشش کرتے تھے یہاں تک کہ ایک سال آپ نے اس کی تلاش میں پورے ماہ کا اعتکاف فرمایا۔ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کی جائے۔ ارشاد نبوی ہے اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار ماہ سے بہتر ہے جو اس کی بھلائی سے محروم رہا وہ بس محروم ہی رہ گیا۔ مزید ارشاد فرمایا کہ لیلۃ القدر کو تلاش کرو رمضان کی آخری عشرے کی طاق راتوں میں۔
ہمدردی کے جذبہ کو پروان چڑھانا:- ماہ رمضان میں ہمدردی کے جذبہ کو نشو ونما دینے کی کوشش کی جائے۔ ہمدردی ایک ایسی صفت ہے جس سے دل نرم ہوتے ہیں اور نرم دلوں کے لیے ہی ہدایت کے راستے کھلتے ہیں۔ روزہ رکھ کر ہی روزے دار کو بھوک پیاس کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔ دنیا میں جو لوگ محروم ہیں ان کے تیئں ہمدردی کا جذبہ ابھرتا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: الشھر المواساۃ یہ ماہ مواسات و ہمدردی کا ہے۔
نیکیوں کی حرص:۔ نیک اعمال کے ذریعہ بندہ رب سے قریب ہو جاتا ہے۔ ماہ رمضان میں نیکیوں کے لیے ماحول بھی سازگار ہوتا ہے اور اجر بھی بڑھ جاتا ہے لہذا اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا :جس شخص نے اس مہینے میں کوئی نیکی کرکے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کی تو وہ اس شخص کے مانند ہے جس نے دوسرے دنوں میں کوئی فرض ادا کیا ہو اور جس شخص نے اس مہینے میں ایک فرض ادا کیا تو وہ ایسا ہے جیسے دوسرے دنوں میں ستر فرض ادا کیے ہوں۔ دوسری حدیث میں ہے: ابنِ ادم کا ہر عمل کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک نیکی کا اجر دس گنا اور دس سے سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ روزے کا معاملہ اس سے جدا ہے کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ایمان کی تجدید:۔ رمضان میں بندے کا تعلق رب سے مضبوط سے مضبو ط تر ہو اس کی کوشش ہونی چاہیے اس کے لیے ضروری ہے کہ ایمان کی تجدید کی جاتی رہے شعوری ایمان پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ غیر شعوری پیدائشی اور تقلیدی ایمان کے ساتھ نہ تو اللہ کا قرب حاصل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اعمال صالحہ کی توفیق۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے ائے ایمان والو ایمان لاؤ (نساء) کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اس حق کے آ گے جھکیں (الحدید) نبی اکر م ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص نے ایمان واحتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے تو اس کے وہ سب گنا ہ معاف کر دیے جائیں گے جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں گے۔ جس شخص نے ایمان واحتساب کے ساتھ رمضان میں قیام کیا تو اس کے وہ تمام قصور معاف کردیے جائیں گے جو اس نے پہلے کیے ہوں گے اور جس شخص نے ایمان واحتساب کے ساتھ لیلۃالقدر میں قیام کیا تو اس کے وہ تمام معاف کر دیے جائیں گے جو اس نے پہلے کیے ہوں گے۔ اس حدیث میں بھی ایمان کی شرط لگائی گئی ہے یہ تمام عبادات ایمان کے تقاضوں اور شعوری ایمان کے ساتھ ادا کی جائیں تبھی فرد اجر کا مستحق ہوگا۔
اعتکاف: اس ماہ کی ایک اہم سنت اعتکاف ہے اس کو زندہ کیا جائے اور اس کی برکتوں سے متمتع ہوا جائے۔ عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ محلہ کا کوئی بزرگ اعتکاف میں بیٹھ جائے تو کافی ہے۔ ہاں اس لحاظ سے کافی ہے کہ محلہ اس سنت کو ترک کرنے کے گناہ سے بچ جائے گا۔ کیا ہر فرد کو اپنا تزکیہ مغفرت اور اپنے رب کا قرب حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟ بلا شبہ ہے۔ اس میں انسان یکسو ہو کر رب کریم کے گھر میں جا کر پڑ جاتا ہے۔ اس کیفیت کو یوں محسوس کیجیے کہ بندہ اپنے رب کے دربار میں حاضر ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ اے میرے رب مَیں سب سے کٹ کر تیرا ہو گیا ہوں لہٰذا تو میری مغفرت فرما اور میرے حال پر رحم فرما۔ اس کیفیت پر رب کو ضرور اپنے بندے پر پیار آئے گا اور وہ اس کو اپنی رحمت کے آغوش میں لے لے گا۔ نبی ﷺ کی یہ ایسی سنت ہے جس پر آپ نے مدینہ آ کر پابندی سے عمل کیا صرف ایک دفعہ سفر کی وجہ سے عمل نہ ہو سکا تو شوال کے مہینے میں اعتکاف فرمایا۔ حدیث شریف میں ہے کہ نبی ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔
تقویٰ:۔ ماہ رمضان کی ایک خوبی یہ کہ اس میں فرد کے اندر تقوی پیدا ہوتا ہے۔ تقوی یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی محبت میں ہر اس کام کو برغبت و رضا کرے جس سے اس کا رب خوش ہوتا ہو اور ہر اس بات سے رک جائے جس سے اس کا رب ناراض ہوتا ہو۔ اللہ تعالی نے روزے کی فرضیت کا مقصد لعلکم تتقون بتایا ہے۔ اگر بندگی کے شعور کے ساتھ روزہ رکھا جائے گا تب یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ہمارے اندر تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی اور روزے کا مقصد حاصل ہوگا۔