اداریہ

’فراخدلانہ جمہوریت‘ کا سبق

18 جولائی سے ایوانِ پارلیمان کے مانسون اجلاس کے آغاز سے اب تک کیا کچھ کارروائی انجام دی گئی اس سوال کے جواب میں نظروں کے سامنے جو کچھ آتا ہے وہ ہے ارکانِ پارلیمان کے احتجاجات اور ان کی اسپیکر کے ذریعے معطلی یا حزبِ اختلاف اور حکمران جماعت کے ارکان کی مچھردانی میں ستیہ گرہ کی تصاویر۔ اس سے آگے بڑھیں تو کسی کی زبان کے مبینہ طور پر پھسلنے پر ہنگامہ آرائی اور بعض چرب زبان وزیروں کی سینئر خاتون سیاستداں سے ناشائستہ گفتگو اور بس۔
ابھی زیادہ دن نہیں گزرے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سب سے اونچے اور باوقار عہدے پر فائز چیف جسٹس ایم وی رمنا نے جمہوری نظام میں حزب اختلاف اور غیر جانب دار میڈیا کے رول پر ملک کو نصیحت کی تھی۔ ایک میڈیا گروپ کی صد سالہ تقریبات میں نوبل انعام یافتہ ہندوستانی دانشور امرتیہ سین نے جمہوریتوں میں اکثریت اور اقلیت کے کردار پر مفصل گفتگو کی تھی۔ ملک کے سیکڑوں سرکردہ شخصیات نے مکتوبات کے ذریعے ملک میں بڑھتی عدم رواداری پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اس سے قبل متعدد انعام یافتگان نے اپنے اعزازات لوٹائے تھے۔
اور اب ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر رگھورام راجن نے متنبہ کیا ہے کہ بھارت کا مستقبل فراخدلانہ جمہوریت اور اس کے اداروں کو مستحکم بنانے میں مضمر ہے اور یہ کہ ملک کی ایک بڑی اقلیت کو دوسرے درجے کے شہری بنانے کی کسی بھی کوشش سے ملک تقسیم ہو جائے گا۔
ہمیشہ بے لاگ تبصروں کے لیے مشہور رگھو رام راجن نے ایک مخصوص نظریے کے دلائل کو یہ کہتے ہوئے مسترد کیا کہ یہ دلیل قطعی غلط ہے اور عبث ماڈل پر مبنی ہے جس میں شئے اور سرمائے کو تو اہمیت دی گئی ہے لیکن عوام اور نظریات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اسی لیے ایسے لوگ ملک کو جمہوریت سے نکال کر مطلق العنان اور آمرانہ طرز حکومت کی طرف لے جانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگرچہ کہ کووڈ کی وبا نے دنیا کی معیشت کو بری طرح تہ وبالا کر دیا ہے لیکن رگھورام راجن جو کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے چیف ماہر اقتصادیات رہ چکے ہیں، کہتے ہیں کہ بھارت کی ناقص کارکردگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں ہماری معاشی ترجیحات پر ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ سری لنکا کے تناظر میں انہوں نے تنبیہ کی کہ سیاسی قائدین ناقص کارکردگی سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے بے روزگاری کا ٹھیکرا ملک کی اقلیت کے سر پھوڑتے ہیں تو اس کے یہی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ہر مذہب کی اچھی چیز تلاش کرنا فراخدلانہ جمہوریت کا اہم جز ہے۔
ان اہم تبصروں کے تناظر میں پارلیمانی تعطل کے منظر نامے کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ دراصل حکمراں ٹولہ چاہتا ہی نہیں کہ ملک اور معاشرے کو درپیش سنگین اور حقیقی مسائل پر کوئی معقول اور سنجیدہ گفتگو ہو۔ حالانکہ جب یہ لوگ خود کئی دہائیوں تک حزب اختلاف میں رہے تو ہر چھوٹے بڑے مسئلے پر ہفتوں ایوان پارلیمان کو معطل کرنے کا سبب بنتے رہے۔ معروف صحافی تولین سنگھ نے موجودہ بحران کے لیے ایرے غیرے ایشوز کی پارلیمنٹ کی تعبیر استعمال کی ہے۔ کیا اس سے ظاہر نہیں ہوتا کہ اب ملک کے عوام کی امنگوں اور خوابوں کے نمائندہ ایوان کا وقار کئی کئی دنوں تک تار تار ہو رہا ہے؟ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ آخر پارلیمان سے جمہوری نظام میں مقصود کیا ہے؟ عوامی نمائندوں سے کن موضوعات پر کتنے مدلل اور سنجیدہ مباحث منعقد کرائے جاتے ہیں اور ان کا معیار کیا ہے؟ اعلیٰ طبقے اور اعلیٰ عہدے داروں کی انا کی تسکین کا کا انجام دیا جا رہا ہے یا عوام اور ان کے مسائل کے حل کی تلاش ان کی گفتگؤں کا مرکز ومحور بھی ہوتا ہے؟
یہ بات درست ہے کہ ملک کے عالمی معاشی اور سماجی و دیگر معاملات پر قانون سازی ایوان کا ایک اہم فریضہ ہے، ساتھ ہی فراخدلانہ جمہوریت میں حزب اختلاف کا بھی حق ہے کہ وہ ان طبقات کی آواز ایوان میں اٹھائے جن پر ان قوانین اور فیصلوں کی زد پڑتی ہے۔ اکثریت کے زعم میں مبتلا ہو کر بے لگام رویہ اختیار کرنے والے حکمرانوں کی نکیل کسنا بھی عین تقاضائے جمہوریت ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  07 اگست تا 13 اگست 2022