اداریہ

تالہ بندی اور میڈیا کی’’تپسیا‘‘

اپریل کو وزیر اعظم نے حسب توقع تالہ بندی کی مدت میں 3 مئی تک کی توسیع کردی ہے۔ 21 دن سے جاری غیر منصوبہ بند تالہ بندی سے پریشان عوام کی مصیبتوں میں اس توسیع سے مزید اضافے کا اندیشہ ہے۔ چنانچہ تارکین وطن مزدوروں کی ایک بھیڑ انہی متوقع مصائب سے پریشان ہو کر سماجی فاصلہ بندی کی تمام ہدایات کے باوجود باندرہ ریلوے اسٹیشن پر جمع ہوگئی اور اس بات کا مطالبہ کرنے لگی کہ انہیں اپنے وطن واپس ہونے کا موقع فراہم کیا جائے۔ اسی طرح گجرات میں کام کرنے والے اڈیشہ کے مزدوروں کی بھی ایک بڑی تعداد اپنی واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے سورت میں جمع ہوگئی۔ اس کے علاوہ دہلی کے جمنا پار، احمدآباد اور دیگر شہروں سے بھی اسی طرح کی رپورٹیں سامنے آرہی ہیں۔ مختلف ذرائع سے اطلاعات مل رہی ہیں کہ حکومت کی جانب سے لوگوں کو راشن اور کھانا فراہم کرنے کے دعووں کے باوجود شہروں میں عوام کی ایک بڑی تعداد اپنی بنیادی ضروریات کے لیے بے انتہا مصیبتوں کا سامنا کر رہی ہے۔ 14 اپریل کو قوم سے اپنے خطاب کے دوران وزیر اعظم نے 21 دن کی تالہ بندی کے دوران لوگوں کی قربانیوں اور ملک کے لیے ان کی کڑی جد وجہد کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں نے شدید تکالیف کا سامنا کر کے ملک کو بچایا ہے جس کے لیے میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ وزیر اعظم نے یہ کہتے ہوئے نہایت ہوشیاری کے ساتھ ملک کو بچانے کا کام عوام کے ذمہ ڈال دیا اور ان کی تمام پریشانیوں اور مصیبتوں کو ملک کے لیے ان کی جد وجہد و قربانیوں سے معنون کر کے اپنا دامن جھاڑ لیا۔ وزیر اعظم اور حکم راں جماعت کی یہی وہ چالاکی ہے جو اس سے قبل نوٹ بندی کے موقع پر کام میں لائی جا چکی ہے۔ عوام پریشانی و مصائب کا سامنا کر رہے تھے اور وزیر اعظم ان کے جذبات سے کھیلتے ہوئے ملک کے لیے قربانیاں دینے کا سبق دے رہے تھے۔ چنانچہ اس خطاب میں بھی وزیر اعظم نے نہ تو حکومت کے منصوبوں کا کوئی ذکر کیا اور نہ ہی اس بات کا تذکرہ کیا کہ تالہ بندی کے سبب متاثر ہونے والے متوسط و نچلے معاشی سطح کے لوگوں اور دوسری ریاستوں کے مزدوروں کی مصیبتوں کو دور کرنے کے لیے وہ کیا اقدامات کرنے والے ہیں۔ وزیر اعظم کا انداز اور طریقہ کار کسی ذمہ دار حکم راں کا نہیں بلکہ ایک رضاکار تنظیم کے سربراہ جیسا تھا جس پر کوئی منصبی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ انہوں نے محض عوام کے صبر کی داد و تحسین، نصیحتوں اور زبانی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے تالہ بندی میں توسیع کا اعلان کر دیا۔ کسی بھی حکم راں کا یہ رویہ انتہائی خطرناک ہے کہ وہ اپنی تمام تر کمزوریوں اور ناکامیوں کو دیش پریم، ملک کے لیے قربانی اور تپسیا جیسے خوبصورت اور جذباتی الفاظ میں چھپا کر اپنی ذمہ درایوں اور جواب دہی سے راہِ فرار اختیار کرے۔
اپنے خطاب میں وزیر اعظم نے اس بات پر ملک کی تعریف کی کہ وسائل کی کمی کے باوجود بروقت تالہ بندی اور اس کی سخت پابندی کی وجہ سے ملک میں اس وبا کے اثرات محدود رہے۔ یقیناً یہ پہلو خوش آئند ہے کہ دیگر ممالک کے بالمقابل ہندوستان میں کورونا کے پھیلنے کی رفتار کافی کم رہی۔ لیکن اس معاملے میں ایک دوسری حقیقت کو بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان میں طب وصحت کے بنیادی ڈھانچے میں کورونا وائرس کی جانچ کی سہولتوں کی کمی کے سبب شہریوں میں اس کی جانچ دیگر ممالک کے بالمقال نہایت ہی کم کی گئی ہے۔ انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ کے اعداد وشمار کے مطابق 15 اپریل تک یہاں صرف 2 لاکھ 74 ہزار 599 سیمپل ٹسٹ کیے گئے تھے جن میں 11 ہزار 297 افراد میں کورونا کا مرض پایا گیا۔ آج بھی ہم ملک بھر میں روزآنہ اوسطاً 14 ہزار 778 ٹسٹ ہی کر پا رہے ہیں۔ بعض بڑی ریاستوں جیسے بہار میں روزانہ محض ایک ہزار، اتر پردیش میں روزانہ دو ہزار اور مہاراشٹرا جیسی ترقی یافتہ ریاست میں بھی روزانہ محض چار ہزار ٹسٹ کیے جارہے ہیں۔ اور یہ تناسب فی دس لاکھ محض 199 ہے۔ جب کہ امریکہ میں دس لاکھ کی آبادی میں 10 ہزار کے حساب سے اب تک 32 لاکھ 65 ہزار، اسپین میں فی دس لاکھ 20 ہزار کے حساب سے 9 لاکھ 30 ہزار، اٹلی میں فی دس لاکھ 18 ہزار کے حساب سے 11 لاکھ اور جرمنی میں فی دس لاکھ 20 ہزار کے حساب سے 17 لاکھ ٹسٹ کیے جا چکے ہیں۔ حیرت ہے کہ ان تمام حقائق کے باوجود وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کس طرح یہ دعویٰ کیا کہ ہم نے صحت کے بنیادی ڈھانچے کو کافی بہتر بنالیا ہے۔
میڈیا کا شرمناک کردار
وزیر اعظم کی تقریر کے بعد حسب معمول میڈیا نے تقریر کے بعد اٹھنے والے بعض اہم سوالات سے گریز کرتے ہوئے غیر اہم اور علامتی چیزوں کو اپنا موضوع بنا کر عوام کو گمراہ کرنا شروع کر دیا۔ ایک مشہور ٹی وی چینل نے اپنی نشریات میں دکھایا ہے کہ وزیراعظم نے اپنے خطاب کے دوران سات بار لوگوں سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ عوام کی مصیبتوں پر کس قدر پریشان ہیں۔ کئی نیوز اینکرس نے اپنے ٹویٹر پر ایک جیسا پیغام لکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ لاک ڈاون تو عملاً 30 اپریل تک ہی ہے کیوں کہ یکم، 2 اور 3 مئی کو عام تعطیلات ہیں۔ جب کہ میڈیا کے ایک بڑے طبقے نے کورونا کی اس آفت کے دوران جس شرمناک انداز سے شر انگیزی کی ہے وہ ہندوستان کی تاریخ میں ایک اور بدنما داغ کا اضافہ ہے۔ عوام میں اس خطرناک وبا سے متحدہ طور پر لڑنے کا جذبہ پیدا کرنے کے بجائے انہوں نے اس وبائی آفت کو بھی ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلانے کا ذریعہ بنا لیا اور ہندوتو فسطائیت کے ناپاک ایجنڈے کی تکمیل میں اپنا بھرپور حصہ ادا کیا۔ اخلاقی گراوٹ کی اس سے زیادہ اور کیا مثال دی جا سکتی ہے کہ جہاں ملک ایک طرف خطرناک وبا سے لڑ رہا ہے وہاں میڈیا جھوٹی خبروں کے ذریعے ایک طبقے کو اس وبا کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے دیگر طبقات کے دلوں میں ان سے نفرت کے بیج بو رہا تھا۔ اسی دوران ایک مشہور ٹی وی چینل نے انتہائی شرارت کے ساتھ جہاد کی مختلف اقسام پر ایک اسٹوری پیش کی، جب کہ ایک اور چینل نے مدرسوں کو کورونا وائرس کا اڈہ بتاتے ہوئے ایک اسٹنگ آپریشن کیا۔ اسی دوران میسور کے ایک شام نامے نے 5 اپریل کے شمارے میں انتہائی شر انگیزی پر مبنی اداریہ لکھ کر ایک مخصوص طبقے کو ٹوکری میں موجود سڑے ہوئے سیب قرار دیا اور کہا کہ ان سے بہت جلد چھٹکارا پالینا چاہیے۔ چنانچہ اس شر انگیزی کے اثرات ملک کے مختلف مقامات پر مسلمانوں کے سماجی ومعاشی بائیکاٹ کی صورت میں سامنے آئے۔ میڈیا میں پیش کیے جانے والے یہ جھوٹ اس قدر بے شرمی سے بولے گئے تھے کہ خود یو پی اور دیگر ریاستوں کی پولیس نے اس جھوٹ کو بے نقاب کیا۔ حکم رانوں اور ان کے پالتو میڈیا کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جو طرز عمل انہوں نے اس نازک موقع پر اختیار کیا ہوا ہے وہ ملک اور یہاں کے عوام کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ حقیقی مسائل کو چھوڑ کر منفی پروپگنڈے کی جس راہ پر وہ چل رہے ہیں وہ ملک کو تباہی کی طرف لے جانے والا ہے۔ اپنے اس رویے کے ذریعے ریاست کے مختلف اداروں، بالخصوص میڈیا پر سے عوام کا اعتماد ختم کرواکے وہ ملک کو ایک ایسی کھائی کی طرف لے جارہے ہیں جس سے نکلنے کا کوئی راستہ خود ان کے پاس نہیں ہوگا۔

***


میڈیا کے ایک بڑے طبقے نے کورونا کی اس آفت کے دوران جس شرمناک انداز سے شر انگیزی کی ہے وہ ہندوستان کی تاریخ میں ایک اور بدنما داغ کا اضافہ ہے۔ عوام میں اس خطرناک وبا سے متحدہ طور پر لڑنے کا جذبہ پیدا کرنے کے بجائے انہوں نے اس وبائی آفت کو بھی ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلانے کا ذریعہ بنا لیا اور ہندوتو فسطائیت کے ناپاک ایجنڈے کی تکمیل میں اپنا بھرپور حصہ ادا کیا۔ اخلاقی گراوٹ کی اس سے زیادہ اور کیا مثال دی جا سکتی ہے کہ جہاں ملک ایک طرف خطرناک وبا سے لڑ رہا ہے وہاں میڈیا جھوٹی خبروں کے ذریعے ایک طبقے کو اس وبا کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے دیگر طبقات کے دلوں میں ان سے نفرت کے بیج بو رہا تھا۔