وزیر اعظم نریندر مودی نے ۲ اپریل کو ۷ لوک کلیان مارگ پر واقع اپنے کیمپ آفس میں مرکزی حکومت کے سینئر بیوروکریٹس کے ساتھ ایک میٹنگ کی۔ ۲۰۱۴ کے بعد سے وزیر اعظم کی ان سکریٹریوں کے ساتھ یہ نویں ملاقات تھی۔ وزیر اعظم نے ان اعلیٰ سطح کے انتظامی عہدہ داروں سے مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا اور ان کے نقطہ نظر کو بھی سنا۔ پی ایم مودی نے اس موقع پر ان سے واضح طور پر کہا کہ وہ کم وسائل کے انتظام کے ساتھ کام کرنے کی نیت سے باہر آئیں اور فاضل وسائل کو استعمال کرنے کے نئے چیلنجز کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ وزیر اعظم نے ان سے یہ بھی کہا کہ وہ بڑے ترقیاتی منصوبوں پر عمل آوری سے روکنے کے لیے غربت کا حوالہ دینے کی پرانی کہانی کو ترک کریں اور وسیع ذہن کے ساتھ کام کریں۔ میٹنگ میں اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ مختلف ریاستی حکومتوں کی جانب سے عوام کو لبھانے کی خاطر ایسی فلاحی اسکیمات شروع کی جا رہی ہیں جو سرکاری خزانے پر بوجھ بن رہی ہیں۔ اس موقع پر بطور خاص حالیہ بعض ریاستوں کے انتخابات کے موقع پر اس طرح کی اسکیمات کے اعلان کا بھی حوالہ دیا گیا اور اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا گیا کہ اگر یہی روش جاری رہی تو ہندوستان میں بھی سری لنکا جیسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔ اجلاس میں جو باتیں سامنے آئیں وہ کئی اعتبار سے لائق توجہ ہیں۔ یقیناً وزیر اعظم کا اس طرح اپنے ماتحت انتظامی عملے کے ساتھ باہمی ربط، کاموں کی بہتر انداز میں انجام دہی کے لیے معاون ثابت ہوگا اور اس لحاظ سے وزیر اعظم کا یہ اقدام بہت اچھا ہے۔ لیکن وزیر اعظم کو اس طرح کے جائزہ اجلاسوں میں انتخابات کے موقع پر کیے جانے والے عوامی خطابات کے انداز کے بجائے حقیقت پسندانہ اور تجزیاتی انداز اختیار کرنا چاہیے جو اس میٹنگ میں نظر نہیں آیا۔ البتہ وہ اس اجلاس میں بھی اپنی عادت کے مطابق بڑے بڑے انتخابی جملے ادا کرتے نظر آئے۔ ملک میں عوام کی غربت ایک سنگین حقیقت ہے، یہاں کی ایک بڑی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی اس غربت کو مزید گہرا کر رہی ہے۔ دوسری طرف ملک کا سربراہ اپنے ماتحت عملے کو یہ ہدایت دے رہا ہے کہ وہ ترقیاتی منصوبوں کی عمل آوری کے لیے غربت کی پرانی کہانی سنانا بند کرے۔ غربت کب پرانی کہانی ہو گئی؟ وہ تو آج بھی اسی طرح اپنا منہ پھاڑے کروڑوں انسانوں کو نگلنے کے لیے تیار ہے۔ شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپانے سے حقیقت نہیں بدل جاتی۔ ملک کے حکمرانوں کو اس معاملے میں سنجیدہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اجلاس میں ہونے والی یہ گفتگو بھی نہایت قابل اعتراض ہے کہ ریاستی حکومتیں محض عوام کو لبھانے کی خاطر فلاحی اسکیمات شروع کر رہی ہیں۔ ہمارا ملک اپنی اصل کے اعتبار سے ایک فلاحی مملکت ہے۔ آزادی کے بعد اس ملک کا دستور بنانے والوں نے ملک کے لیے ایک فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا۔ ان کے نزدیک ملک کی خدمت کا مطلب یہاں کے چند کارپوریٹس اور صنعتی گھرانوں کی خدمت نہیں تھا بلکہ ان کا مطلب ان کروڑوں انسانوں کی خدمت تھا جو طرح طرح کی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ اس سے مراد غربت، افلاس، جہالت، بیماریوں اور مواقع کی عدم مساوات کا خاتمہ تھا۔ انہوں نے یہ عزم کیا تھا کہ وہ ہر آنکھ سے بہنے والے آنسو کو پونچھ دیں گے، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ جب تک لوگوں کی آنکھوں میں آنسو اور زندگی میں مصیبتیں باقی رہیں گی ان کا کام ختم نہیں ہو گا۔ لیکن اسی فلاحی ریاست کے موجودہ جانشینوں میں کچھ لوگ عوام کی بہبود کے لیے جاری کی جانے والی اسکیمات کو عوام کو لبھانے والی کہہ کر ان کی تحقیر کرنا اپنا حق سمجھ رہے ہیں اور ملک کے وزیر اعظم کی جانب سے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں ایسی بات کہنا تو ان کے شایان شان ہرگز نہیں ہے۔ جب کہ اس سے زیادہ تشویش ناک امر یہ ہے کہ ہمارے ملک میں گزشتہ سات سالوں کے دوران سرکاری بنکوں کے غیر کارکرد اثاثے جات (NPA) میں انتہائی تیز رفتار اضافہ ہوا ہے۔ ۲۰۱۴ میں ان کی مجموعی رقم دو لاکھ چوبیس ہزار کروڑ تھی جو اب بڑھ کر پانچ لاکھ کروڑ سے متجاوز ہو چکی ہے۔ غیر کارکرد اثاثوں سے مراد بینکوں کی جانب سے بڑے بڑے کارپوریٹ کمپنیوں کو دیا جانے والا وہ قرض ہے جو واپس نہیں کیا جاتا۔ بعد میں یہی بینک ان قرضوں کو غیر کارکرد اثاثے قرار دے کر انہیں معاف کر دیتے ہیں۔ ان بڑی بڑی کمپنیوں اور کارپوریٹ اداروں نے قرض کے نام پر حکومت کی جس قدر دولت لوٹی ہے وہ ان فلاحی اسکیموں پر صرف ہونے والی رقم سے بہت زیادہ ہے جسے وزیر اعظم سرکاری خزانے پر بوجھ بتلا رہے ہیں۔ کالا دھن واپس لانے کے انتخابی جملے اور نوٹ بندی کے اقدامات کا پھر کیا مقصد تھا؟ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری بینکوں کی دولت لوٹ کر ملک چھوڑ کر بھاگنے والوں کی ذمہ داریاں طے کی جائیں۔
یہ بات درست ہے کہ عوام کو مفت خوری کی عادت نہیں ڈالنی چاہیے، انہیں محنت کا عادی بنانا چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ حکومت اپنی اصل ذمہ داری ادا نہ کرے اور عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کچھ نہ کرے؟ اور نہ صرف خود کچھ نہ کرے بلکہ جو حکومتیں فلاح وبہبود کے کام کر رہی ہیں ان کو تمسخر کا نشانہ بنایا جائے اور خود اس کی ساری توجہ محض سرمایہ داروں کی فلاح وبہبود پر لگی رہے، اس کی ہر پالیسی کا فائدہ صرف کارپوریٹس اور سرمایہ داروں کو ہو؟ یہ کیسا انصاف ہے کہ جہاں سرمایہ دار تو سرکار کا پیسہ بآسانی ہضم کر جائے اور غریب عوام کی فلاح پر لگنے والی رقم پر سربراہ مملکت کو تشویش لاحق ہو۔ عوام کو اس معاملے میں باشعور ہونے اور دوسروں کو باشعور کرنے کی ضرورت ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 10 تا 16 اپریل 2022