لیڈروں کے بلند بانگ دعووں اور بڑے بڑے وعدوں سے کبھی بھی کسی ملک یا سماج کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوتے۔ اس کے لیے حکومت اور اس کے منصب داروں کو عوام کے مسائل پر سنجیدہ غوروفکر اور مخلصانہ کوشش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنی حکومت کے دور اول کے آغاز سے قبل وزیراعظم مودی نے دو کروڑ ملازمتوں کی فراہمی اور شہریوں کے بینک کھاتوں میں پندرہ لاکھ روپیوں کی منتقلی جیسے بے شمار وعدے کیے تھے۔ دور اول کے اختتام کے وقت جب دوبارہ انتخابات کا مرحلہ آیا تو اس سے قبل 2018 میں کچھ نئے وعدوں کے ساتھ وہ لوگوں کے سامنے آئے۔ اس دوران ایک خطاب کے دوران انہوں نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ اگلے چار سالوں میں یعنی ملک کی آزادی کی ۷۵ ویں سالگرہ کے موقع پر وہ ملک کے تمام بے گھر لوگوں کو گھر فراہم کریں گے۔ عوام تو بھولی ہوتی ہے اس نے ان تمام وعدوں پر بھروسہ کرلیا اور اس انتظار میں دن گزارنے لگی کہ اب ہماری بے روزگاری دور ہوگی، ہمارے بینک کھاتوں میں رقم آئے گی، ہمارے سر پر گھر کی چھت ہوگی۔ اسی انتظار میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی تعداد میں ہر سال مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔ لیکن نہ نوجوانوں کو وعدے کے مطابق روزگار ملا، نہ بھولی بھالی عوام کو رقم ملی اور نہ تمام بے گھر غریبوں کو گھر ہی ملا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان سب وعدوں کو محض جملہ اور نعرہ قرار دے کر فراموش کردیا گیا۔
اس دوران بے روزگاری کی شرح مسلسل بڑھتی رہی اور ملک کا نوجوان اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتا رہا اور بالآخر یہ اندر ہی اندر سلگنے والا لاوا بہار میں ریلوے رکروٹمنٹ بورڈ کے امتحانات میں ہونے والی بے قاعدگیوں کے خلاف طلبا کے احتجاج کے ساتھ پھوٹ پڑا۔ بے روزگار نوجوانوں کی طرف سے ہونے والا یہ احتجاج اچانک پرتشدد ہو گیا اور بہار کے مختلف مقامات پر سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور ایک ریل گاڑی کو بھی آگ لگادی گئی۔ اس تشدد میں کئی لوگ زخمی ہوئے اور محکمہ ریلوے کو اپنا امتحان ملتوی کرنا پڑا۔ جس دن پورا ملک یوم جمہوریہ کی تقاریب منانے میں مصروف تھا اسی دن ہزاروں نوجوان بہار کی سڑکوں پر احتجاج میں مصروف تھے۔طلبا نے الزام لگایا گیا کہ ریلوے رکروٹمنٹ بورڈ کی جانب سے ملازمتوں پر بھرتی کا جو عمل ہو رہا ہے اس میں کافی بے قاعدگیاں پائی جا رہی ہیں۔ بھرتی کے اس امتحان میں نان ٹکنیکل زمروں کے لیے کمپیوٹر پر مبنی امتحان دو مرحلوں میں رکھا گیا ہے جس کا ایک مرحلہ ہو چکا ہے اور ۱۴ جنوری کو اگلے مرحلے کے امتحان کے لیے منتخبہ امیدواروں کی فہرست کے ساتھ اس کا نتیجہ جاری کر دیا گیا۔ طلبا کا کہنا ہے کہ اس فہرست میں بھی بہت ساری غلطیاں ہیں۔ طلبا نے الزام لگایا کہ بورڈ کے عہدہ دار طلبا کے مستقبل سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔ حکومت اور وزارت ریلوے نے طلبا کے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ طلبا کے ان الزامات اور دعووں کے بعد صوبے میں احتجاج شروع ہو گیا جو کسی حد تک پر تشدد بھی ہو گیا۔ واضح رہے کہ ریلوے رکروٹمنٹ بورڈ ایک سرکاری ادارہ ہے، یہ وزارت ریلوے کے تحت کام کرتا ہے اور ملک کے محکمہ ریلوے میں گروپ سی اور گروپ ڈی کی نان گزیٹیڈ ملازمتوں پر یہی ادارہ بھرتیاں کرتا ہے۔ ایک طویل عرصے سے ان ملازمتوں پر بھرتیاں نہیں ہورہی تھیں۔ مذکورہ احتجاج بھی جس رکروٹمنٹ ٹسٹ کے حوالے سے ہو رہا ہے اس کا اعلامیہ ۲۰۱۹ میں جاری ہوا تھا اور اس کا امتحان کم و بیش تین سال انتظار کے بعد ۲۰۲۲ میں ہو رہا تھا۔ نوجوانوں کی مسلسل بے روزگاری اور امتحانات کے انعقاد میں تاخیر نے ان بے روزگار نوجوانوں کو مزید مشتعل کر دیا تھا۔
اس پورے واقعے میں کچھ نکات ہمارے لیے غور وفکر کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ حکومت کی اس معاملے میں بے توجہی نے مسئلے کو پیچیدہ کردیا ہے۔ حکومت بے روزگاری، مہنگائی، غربت، تعلیم اور ایسے ہی بے شمار بنیادی انسانی مسائل کو یا تو حل کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے یا وہ انہیں حل ہی کرنا نہیں چاہتی ہے۔ حکومتیں عام طور پر ملازمتوں کی ان بھرتیوں کے مواقع کو اس وقت تک کے لیے لیت و لعل میں ڈالے رکھتی ہیں جب تک انہیں اس عمل سے کوئی سیاسی فائدہ ملنے کی توقع نہ ہو۔ موجودہ حکومت بھی ملازمتوں اور روزگار کی فراہمی کے وعدوں کے علی الرغم بھرتیوں کے معاملےمیں عام طور پر لاپروائی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ محکمہ تعلیم، ریلوے اور دیگر کئی سرکاری محکموں میں بے شمار ملازمتیں مخلوعہ ہیں۔ ایک طرف بے شمار تعلیم یافتہ بے روزگار اس انتظار میں اپنی عمر گزار رہے ہیں کہ حکومت انہیں روزگار فراہم کرے گی تو دوسری جانب حکومت مسلسل ان بھرتیوں کو نظر انداز کر رہی ہے۔ کافی عرصے سے حکومت کا رجحان یہ ہے کہ سرکاری ملازمتوں پر مستقل بھرتیاں نہ کی جائیں بلکہ اس کے بجائے عارضی اور معاہداتی ملازموں کے ذریعے سے کام چلایا جائے۔ اس کی ایک وجہ مالیہ کی کمی بتائی جاتی ہے لیکن اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عارضی اور معاہداتی ملازمین جاری سسٹم کے خلاف لب کشائی نہیں کرپاتے اور حکومت یہی چاہتی ہے کہ کوئی اس کے خلاف کچھ نہ بولے۔
اس سلسلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سرکاری ملازمتوں پر بھرتیوں کا یہ پورا نظام بدعنوانی، رشوت، بے قاعدگی اور اقربا پروری کے ایسے جال میں جکڑا ہوا ہے جس میں دولت کے بل پر نااہل افراد تو ملازمت حاصل کرلیتے ہیں لیکن اہل ترین افراد محروم رہ جاتے ہیں۔ مذکورہ احتجاج بھی اسی وجہ سے ہوا کہ طلبا کو حکومت پر اعتبار اور اعتماد نہیں ہے کہ وہ شفافیت کے ساتھ تقررات کا یہ پورا عمل انجام دے گی۔ اگر انہیں یہ بھروسا ہوتا کہ تقررات میں کوئی بد عنوانی نہیں ہوگی تو وہ پر امن رہ سکتے تھے۔ جب تک حکمراں اور ان کے سارے کارپرداز کسی لالچ اور اقرباپروری اور ذاتی و گروہی مفادات کے بغیر پوری ایمان داری کے ساتھ اپنے فرائض منصبی انجام نہیں دیتے اس وقت تک نہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے اور نہ ان کی فلاح و بہبود کا کوئی کام ہی ہوسکتا ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 06 فروری تا 12فروری 2022