اداریہ

جمہوری روایات کی بھی پامالی

پارلیمنٹ کے سرمائی سیشن کے دوران ووٹر شناختی کارڈ کو آدھار سے مربوط کرنے کا بل لوک سبھااور راجیہ سبھا سے منظور ہوگیا۔ یہ بل الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے انتخابی اصلاحات کے متعلق پیش کی گئی سفارشات کے پیش نظر لوک سبھا میں پیش کیا گیا تھا اور اپوزیشن کی مخالفت کے دوران منظور بھی ہوگیا۔ اس کے بعد یہ بل راجیہ سبھا میں پیش ہوا اور انتہائی رواروی میں اطمینان بخش مباحثے کے بغیر ہی منظور کروالیا گیا۔ اس بل کے مندرجات اور اس کے فوائد ونقصانات پر گفتگو کرنے سے قبل اس امر کی جانب توجہ دلانا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ مختلف قوانین اور بلوں کو منظور کروانے کے سلسلے میں حکومت کا رویہ نہایت ہی غیر جمہوری ہوتا جا رہا ہے۔ یہ طرز عمل کسی بھی جمہوری نظام کے لیے موزوں نہیں ہے۔ کانگریس کے رہنما ششی تھرور نے تو یہ تک کہہ دیا کہ حکومت نے قانون سازیوں سے متعلق اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے پارلیمنٹ کو محض ربر اسٹامپ بنا دیا ہے۔ مودی حکومت کی دوسری معیاد میں پارلیمنٹ جیسا کوئی ایوان باقی نہیں رہا جہاں ملک کے مسائل پر سنجیدہ غور وفکر ہوتا ہو۔ ایوان پارلیمنٹ میں قانون سازی کے عمل کو انتہائی کمزور کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ سال تو کورونا وبا کے سبب حکومت نے سرمائی اجلاس منعقد ہی نہیں کیا۔ اس سال کا بجٹ سیشن پانچ ریاستوں میں انتخابات کے سبب مختصر کر دیا گیا۔ مانسون اجلاس متعدد مرتبہ کی خلل اندازیوں کی نذر ہو گیا اور اسی کے درمیان حکومت نے انتہائی مختصر مباحثے کے ساتھ مختلف بل منظور کروالیے۔ حالیہ سرمائی اجلاس میں بھی وہی کہانی دہرائی گئی ہے یعنی مباحثے سے گریز، خلل اندازی اور رواروی میں یک طرفہ طور پر مختلف قوانین کی منظوری۔ پارلیمنٹ کے ایوان ہمارے ملک کی جمہوریت کی سب سے بڑی علامت ہیں۔ ششی تھرور کہتے ہیں کہ اگر یہی صورت حال جاری رہی تو وہ دن دور نہیں جب پارلیمنٹ حکومت کے یکطرفہ اعلانات اور کارروائیوں کے نوٹس بورڈ، حکومتی قانون سازیوں کے لیے ایک ربر اسٹامپ اور اپوزیشن کے احتجاج کے لیے ایک اسٹیج میں تبدیل ہو جائے گا، اور یہ کیفیت ملکی جمہوریت کے لیے نہایت ہی تباہ کن ہوگی۔ راجیہ سبھا میں قائد حزب اختلاف ملیکارجن کھرگے نے کہا کہ مرکز نے کسی گفتگو اور مباحثے کے بغیر ہی انتخابی قوانین ترمیم بل منظور کرلیا، یہ کیفیت جمہوریت کے ساتھ بھونڈا مذاق ہے۔
متذکرہ بالا قوانین انتخابات (ترمیمی) بل ۲۰۲۱ پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے دوران ۲۰ دسمبر کو لوک سبھا میں پیش ہوا اور اپوزیشن کی جانب سے اسے اسٹانڈنگ کمیٹی کے حوالے کرنے کے مطالبے کے باوجود اسی دن منظور کرلیا گیا، پھر دوسرے دن یعنی ۲۱ دسمبر کو راجیہ سبھا میں پیش ہوا ور محض تھوڑی ہی دیر میں وہاں بھی منظور ہو گیا۔ اس بل کے ذریعے عوامی نمائندگی ایکٹ ۱۹۵۰ اور عوامی نمائندگی ایکٹ ۱۹۵۱ میں ترمیم کی گئی ہے تاکہ بعض اہم انتخابی اصلاحات کو نافذ کیا جا سکے۔ بنیادی طور پر اس بل کے ذریعے مذکورہ بالا دو قوانین میں چار ترمیمات کی گئی ہیں جن میں ایک ترمیم ایسی ہے جس پر مختلف گوشوں سے کافی اعتراض ہوا ہے، اور وہ ہے ووٹر شناختی کارڈ کو آدھار سے مربوط کرنے کا فیصلہ۔ اگرچہ اس بل میں آدھار سے ووٹر شناختی کارڈ کے مربوط کرنے کو لازمی نہیں بلکہ رضاکارانہ رکھا گیا ہے لیکن حکومت نے خود آدھار کارڈ کو بھی رضاکارانہ رکھا تھا لیکن یہ بتدریج رضاکارانہ سے لازمی میں تبدیل ہو گیا۔
حزب اقتدار کی جانب سے اس ترمیم کے حق میں جو دلائل دیے جا رہے ہیں وہ یہ ہیں کہ اس کے ذریعے رائے دہی کے تناسب میں اضافہ ہو گا کیوں کہ ہندوستان میں تقریباً تیس کروڑ لوگ مختلف وجوہ سے اپنے آبائی مقام کو چھوڑ کر دوسرے مقامات پر نقل مکانی کیے ہوئے ہیں اور انتخابات کے وقت اپنے وطن پر موجود نہ ہونے کے سبب رائے دہی میں حصہ نہیں لے سکتے۔ ووٹر شناختی کارڈ کو آدھا رسے مربوط کرنے کے بعد ان کے لیے کہیں سے بھی ووٹ ڈالنا ممکن ہو جائے گا۔ دوسرا فائدہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ اس سے رائے دہی میں دھوکے کا امکان کم ہو جائے گا کیوں کہ آدھار کارڈ میں انگلیوں کے نشانات اور آنکھوں کی پتلیوں کے ذریعے لوگوں کی شخصی معلومات محفوظ کی جاتی ہیں جس کے سبب نقلی ووٹر شناختی کارڈ بنانا ممکن نہیں ہوگا۔ یہ دونوں دلائل بہت اچھے ہیں یقیناً انتخابی اصلاحات ہونی چاہئیں اور رائے دہی کے تناسب میں اضافہ اور انتخابات میں دھوکہ اور بدعنوانی کو کم سے کم کرنے کی ہر ممکن کوشش ہونی چاہیے لیکن مذکورہ بالا ترمیم سے یہ فوائد حاصل ہو جائیں گے اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ البتہ ان دونوں کو مربوط کرنا کئی اعتبارات سے شخصی آزادی اور شفاف جمہوریت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ اولاً یہ کہ شخصی معلومات کے تحفظ کے سلسلے میں کسی سخت قانون کی عدم موجودگی کے نتیجے میں فہرست رائے دہندگان اور اس میں موجود شخصی تفصیلات کے غلط استعمال کا امکان بہت بڑھ جائے گا۔ آدھار کارڈ کے ذریعے آبادی کی مختلف زمروں میں تقسیم، مذہب اور ذات پات سے متعلق جو معلومات حاصل ہوں گی ان کو سیاسی تشہیر کے لیے اور امکانی طور پر مخصوص طبقے کے افراد کو ووٹر لسٹ سے خارج کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایسی صورت حال سے روکنے کے لیے کوئی تکینکی میکانزم بھی اس بل میں موجود نہیں ہے۔ جہاں تک انتخابی دھوکہ اور بدعنوانی میں کمی کی دلیل ہے وہ بھی بہت کمزور ہے۔ خود سرکاری اعداد وشمار سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ۲۰۲۰ میں تقریباً ۴۰ ہزار جعلی آدھار کارڈ منسوخ کیے گئے ہیں۔ جب آدھار کارڈ ہی درست نہ ہوں تو آخر انتخابات میں دھوکے کو کیسے روکا جا سکتا ہے بلکہ جعلی آدھار کارڈ کے ذریعے جعلی ووٹر شناختی کارڈ کو جواز عطا ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ حزب اقتدار کی جانب سے اس سلسلے کی سب سے مضبوط دلیل یہ دی گئی کہ اس سے رائے دہی کے تناسب میں اضافہ ہوگا۔ لیکن ورلڈ بنک اور دوسرے متعدد اداروں کی جانب سے کی گئی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ شناخت کی واحد صورت کو لازم کرنے کے نتیجے میں رائے دہی کے تناسب میں کمی واقع ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے شہری بسا اوقات رائے دہی کے حق سے محروم اور ملک کے فلاحی وانتخابی نظام سے خارج بھی ہوجاتے ہیں۔ لاطینی امریکہ میں واحد ووٹر شناختی کارڈ کے لزوم پر ہونے والی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ ایک ہی شناختی کارڈ کے نتیجے میں بہت سارے لوگ رائے دہی میں حصہ لینے سے محروم ہوگئے کیوں کہ وہ اپنی شناخت ثابت نہیں کر سکے تھے۔ چنانچہ شخصی ڈیٹا تحفظ بل کا مسودہ تیار کرنے والی کمیٹی کے چیرمین جسٹس بی این کرشنا نے بھی اسی وجہ سے ان دو معلومات کو مربوط کرنے کی تجویز کو انتہائی خطرناک قرار دیا تھا۔ کسی بھی جمہوریت میں عوام اور ان کا حق رائے دہی ہی سب سے اہم عنصر ہوتا ہے۔ اگر حکومت کے کسی فیصلے یا قانون سے اسی بنیادی حق پر ضرب پڑتی ہے تو یہ جمہوریت کے لیے واقعی تباہ کن ثابت ہو گا۔ موجودہ حکومت نے اس سے قبل ایسے کئی فیصلے کیے ہیں جنہیں عوام کے سنجیدہ طبقات نے جمہوریت کے لیے خطرہ سمجھا تھا لیکن حکومت ہے کہ اپنی طاقت کے نشے میں مسلسل ایسے فیصلے کر رہی ہے جن کے سبب ہماری جمہوریت ایک مذاق بنتی جا رہی ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  02 جنوری تا 08 جنوری 2022