مدھیہ پردیش، اتر پردیش اور ہماچل پردیش کے بعد اب کرناٹک میں جبری تبدیلی مذہب پر پابندی کا قانون بنانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ کرناٹک کی بی جے پی حکومت، اسمبلی کے سرمائی اجلاس میں اس بل کو پیش کرنے والی ہے۔ اطلاعات کے مطابق مذکورہ بل کے مسودے میں مذہبی تنظیموں کی جانب سے چلائے جانے والے تعلیمی اداروں میں فراہم کی جانے والی مفت تعلیم، بے روزگاروں کے لیے روزگار کی فراہمی جیسے فلاحی کاموں کو بھی تبدیلی مذہب کے لیے ترغیب کا نام دے کر جبری تبدیلی مذہب کا جرم قرار دینے کی تجویز ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ کرناٹک تحفظِ حقِ مذہبی آزادی بل ۲۰۲۱ کے نام سے پیش ہونے والے اس مسودہ قانون میں تعلیمی اداروں، یتیم خانوں، اولڈ ایج ہومز، شفاخانوں، غیر سرکاری تنظیموں کے بشمول فلاحی خدمات کے تمام ہی اداروں کو جانچ کے دائرے میں لانے کی تجویز ہے تاکہ ان اداروں کے ذریعے لالچ، ترغیب یا کسی اور ذریعے سے لوگوں کا مذہب تبدیل نہ کیا جا سکے۔ یقیناً عقیدہ اور مذہب وہ چیز ہے جسے انسان اپنی مرضی سے اختیار کرتا ہے اور ہر فرد کو ایسا کرنے کی آزادی ہونی چاہیے کیوں کہ یہی ایک ترقی یافتہ اور باشعور سماج کی نشانی ہے۔ چنانچہ ہندوستان کے آئین نے ہر شہری کو یہ آزادی دی ہے لیکن یہ آئینی حق اور آزادی ملک کے تنگ نظر لیڈروں کو ہمیشہ کھٹکتی رہتی ہے اور مختلف ذرائع سے اس پر قدغن لگانے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔
یو ایس لائبریری آف کانگریس کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق برطانوی دور حکومت میں بالخصوص ۱۹۳۰ اور ۱۹۴۰ کی دہائیوں میں پہلی بار ہندو راجاوں کی حکمرانی والی شاہی ریاستوں میں تبدیلی مذہب پر پابندی لگانے والے قانون بنائے گئے۔ ان ریاستوں میں یہ قوانین دراصل برطانوی مشنریوں کے مقابلے میں ریاست کی ہندو مذہبی شناخت کے تحفظ کی خاطر لاگو کیے گئے تھے۔ آزادی کے بعد پارلیمنٹ میں کئی بار مخالف تبدیلی مذہب بل پیش ہوئے لیکن وہ منظور نہیں ہو سکے۔ اس طرح کا پہلا بل ۱۹۵۴ میں ہندوستانی تبدیلی مذہب (ضوابط ورجسٹریشن) بل کے نام سے پیش ہوا تھا جس میں مشنریوں کو اجازت نامے دینے اور سرکاری دفاتر میں تبدیلی مذہب کے رجسٹریشن کی سفارش کی گئی تھی لیکن یہ بل لوک سبھا میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا تھا۔ اس کے بعد دوسری کوشش ۱۹۶۰ میں ہوئی تھی جب کہ پسماندہ طبقات (مذہبی تحفظ) بل پیش کیا گیا جس کا مقصد ہندوؤں کو غیر ہندوستانی مذاہب قبول کرنے سے روکنا تھا۔ اس بل کے مطابق غیر ہندوستانی مذاہب کی تعریف میں اسلام، عیسائیت، یہودیت اور زرتشت شامل تھے۔ اس کے بعد ۱۹۷۹ میں مذہبی آزادی بل پیش کیا گیا جس کا مقصد بین مذہبی تبدیلی پر سرکاری روک لگانا تھا لیکن یہ دونوں بل بھی پارلیمنٹ میں درکار اکثریت کی کمی کے سبب منظور نہیں ہو سکے۔ ۲۰۱۵ میں مرکزی وزارت قانون نے یہ رائے دی کہ جبر اور دھوکے سے مذہبی تبدیلی کے خلاف ملکی سطح پر کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا کیوں کہ آئین کے مطابق لا اینڈ آرڈر ریاستوں کا موضوع ہے اس لیے ریاستیں ایسے قوانین بنا سکتی ہیں۔
آزادی کے بعد اس طویل عرصے میں مختلف ریاستوں نے جبر، دھوکے یا لالچ کے ذریعے ہونے والی تبدیلی مذہب کو روکنے کے لیے مذہبی آزادی سے متعلق کئی قوانین بنائے ہیں۔ اس وقت اڈیشہ (۱۹۶۷)، مدھیہ پردیش(۱۹۶۸)، ارونا چل پردیش (۱۹۷۸)، چھتیس گڑھ (۲۰۰۰ اور ۲۰۰۶)، گجرات (۲۰۰۳)، ہماچل پردیش(۲۰۰۶ و ۲۰۱۹)، جھارکھنڈ (۲۰۱۷)اور اتر اکھنڈ (۲۰۱۸) میں مذہبی آزادی سے متعلق باقاعدہ قوانین نافذ ہیں۔ ان کے علاوہ تمل ناڈو (۲۰۰۲) اور راجستھان (۲۰۰۶ و ۲۰۰۸ ) میں بھی اسی طرح کے قوانین منظور کیے گئے لیکن تمل ناڈو نے عیسائی اقلیتوں کی جانب سے احتجاج کے بعد ۲۰۰۶ میں اس قانون کو واپس لے لیا جب کہ راجستھان میں منظورہ بل کو ریاست کے گورنر اور صدر جمہوریہ کی توثیق حاصل نہیں ہو سکی۔ سال ۲۰۱۹ میں جبر و دھوکے سے ہونے والی مذہبی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے اتر پردیش کے لا کمیشن نے مذہبی تبدیلی کو باقاعدہ بنانے کے لیے ایک نئی قانون سازی کی سفارش کی جس کے بعد حکومت نے ریاست اتر پردیش میں اس سے متعلق ایک آرڈی ننس جاری کر دیا۔ اب ریاست کرناٹک بھی انہیں ریاستوں کی فہرست میں شامل ہونے جا رہی ہے۔ ریاست کرناٹک کی اسمبلی میں پیش ہونے والے بل کے مسودے کے متعلق جو باتیں سامنے آئی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں تو ان تمام سرگرمیوں کو شک اور جانچ کے دائرے میں لانے کی کوشش کی گئی ہے جو غریبوں کی فلاح وبہبود سے متعلق ہیں۔ اس وقت ملک میں سرکاری اداروں کے علاوہ مذہبی تنظیموں اور غیر سرکاری اداروں کی جانب سے غریب اور ضرورت مند عوام کو تعلیم، صحت اور روزگار کی فراہمی کے لیے بے شمار ادارے چلائے جا رہے ہیں جن سے تمام مذاہب کے ماننے والے استفادہ کرتے ہیں۔ ان اداروں کی خدمات کو اپنی تنگ نظری کے باعث تبدیلی مذہب سے جوڑنا اور ان کی سرگرمیوں پر قدغن لگانے کی کوشش کرنادراصل غریب عوام کے ساتھ ناانصافی اور ان کو بہترین خدمات سے محروم کرنا ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ جبری تبدیلی مذہب کے نام پر اس طرح کی تنگ نظری کو کسی صورت برداشت نہ کریں۔ یقیناً جبر اور اکراہ کے ذریعے کسی کا مذہب تبدیل کرنا اس مذہب کی توہین ہے لیکن ایک مہذب اور باشعور سماج کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں میں کھلے مکالمے اور مختلف عقائد ونظریات کے درمیان گفتگو وتبادلے اور مختلف مذاہب کو سمجھنے اور غور کرنے کے ایک خوشگوار ماحول کو برقرار رکھیں تاکہ لوگ مختلف مذاہب کو سمجھ سکیں اور اپنی مرضی کا مذہب اختیار کرنے کے لیے آزاد رہیں۔ کیوں کہ یہی انسانی شعور کی ترقی کی علامت ہے بصورت دیگر جبر کا ماحول اور لوگوں کو زبردستی کسی مخصوص مذہب سے وابستہ رکھنے کی کوشش خود جبر اور زبردستی کہلائے گی۔
اس سلسلے کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ تبدیلی مذہب کی اس بحث میں اسلام اور مسلمانوں کو بھی مسلسل نشانہ بنایا جاتا ہے چنانچہ اہل اسلام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ہم وطنوں کے سامنے یہ بات واضح طور پر پیش کریں کہ اسلام کسی بھی صورت میں لوگوں پر زبردستی اپنا مذہب مسلط کرنے کو صحیح نہیں سمجھتا بلکہ اسلام کا سب سے بنیادی تصور ہی یہ ہے کہ انسان قبول و اختیار کے معاملے میں آزاد ہے اور یہی آزادی دراصل انسانوں کا امتحان ہے اور ہر وہ کوشش جو انسانوں سے اختیار کی اس آزادی کو ختم کرتی ہے وہ اسلام اور اسلام کی بنیادی اسکیم کے خلاف ہو گی۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 دسمبر تا 1 جنوری 2021