اے ڈی آر رپورٹ پر سناٹے کے معنیٰ
کرِپٹو کرنسی کو حکومت ایک پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی کے ذریعے باضابطہ کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ سرمائی پارلیمانی اجلاس میں اس سے متعلق ایک بل پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ حالانکہ ریزرو بینک کے شکتی کانت داس نے اس کرنسی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور مئی ۲۰۱۸ میں معاملہ عدالت بھی پہنچا۔ لیکن صنعت کاروں کے ساتھ کرپٹو پر تبادلہ خیال کی خبریں آ رہی ہیں۔ دوسری جانب دلی کے معروف تھِنک ٹینک ’اسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ریفارمس‘ (ADR)کی تازہ رپورٹ پر کما حقہ بات نہیں ہو رہی ہے۔ سیاست کو شفاف بنانے کے لیے لازم ہے کہ ان کو ملنے والے چندے بھی شفافیت کے ساتھ جمع ہوں اور ان کی تفصیلات عوام کو دستیاب بھی ہوں۔ انتخابات سے قبل تمام پارٹیوں کو اپنے آمد و خرچ کا بیورا انتخابی کمیشن کے پاس داخل کرانا ہوتا ہے۔
adrindia.org نامی اپنی ویب سائٹ پر اس ادارے نے جو رپورٹ جاری کی ہے وہ عوام کو اپنے سیاست دانوں کے بارے میں پہلے سے خراب شبیہ کو مزید داغدار کرنے والی ہی کہی جا سکتی ہے۔
مین اسٹریم میڈیا نے اس چشم کشا رپورٹ سے اپنی آنکھیں موند لی ہیں تو وہ ناقابلِ فہم نہیں ہے۔ لیکن رائے دہندوں کو پانچ سال میں اپنے ’ووٹ کے حق‘ کا استعمال کر کے خاموش کردینے والے نمائندوں کے تمام اقدامات اور فیصلوں پر بھی مستقل اپنی ’رائے‘ کا اظہار کرنے سے ہی جمہوری نظام کی برقراری ممکن ہے۔
تازہ رپورٹ کہتی ہے کہ علاقائی پارٹیوں کو بھی ۵۵ فی صد چندہ نامعلوم ذرائع سے ملا ہے لیکن دوسرا رخ یہ ہے کہ مرکز میں حکمراں بی جے پی کو نامعلوم ذرایع سے چندہ سب سے زیادہ یعنی ۶۸ فی صد ملا ہے۔ مجموعی طور پر پارٹیوں کو ۹۵ فی صد چندے ان مشکوک الیکٹورل بانڈ کے توسط ہی سے ملے ہیں۔
سچ یہی ہے کہ سیاسی دلدل اور اس حمام میں سب ننگے ہیں!
مودی کابینہ کی پہلی توسیع کے بعد اسی اے ڈی آر نے نشاندہی کی تھی کہ ۷۸ وزرا کی جمبو وزارت میں ۳۳ یعنی ۴۲ فی صد وزیروں پر مجرمانہ مقدمات قائم ہیں۔ ۲۴ تو ایسے رتن ہیں کہ قتل، زنا، ڈکیتی جیسے نہایت سنگین جرائم کے کیس ان پر چل رے ہیں۔ دوسرا انکشاف کیا گیا کہ ۹۰ فی صد مرکزی وزیر کروڑپتی ہیں۔ ان حالات میں ہمارے ملک کے لیے جس نوعیت کے قوانین بنیں گے ان کے بارے میں کیسے سوچا جا سکتا ہے کہ وہ فلاحی، انسانی اور جمہوری اقدار کی پاسداری کرنے والے ہوں گے وہ تو اپنی جان، دولت، عزت، کاروباری مفادات اور کرسی بچانے پر ہی اپنی توجہ مرکوز کرسکتے ہیں۔
اکتوبر ۲۰۱۷ میں اے ڈی آر کی ایک عرضی پر سپریم کورٹ نے نامعلوم اور غیر ملکی ذرائع سے سیاسی چندوں پر انتخابی کمیشن اور مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا۔ حکومت نے جنوری ۲۰۱۸ میں انتخابی چندوں کے ضابطوں میں اصلاحات کے نام پر ’الیکٹورل بانڈ‘ کو متعارف کرایا تھا اور تب ہی سے شہری انجمنوں نے اس طریقے پر اپنے واضح شکوک اور اعتراضات درج کرائے تھے۔ ان بانڈ سسٹم کے تحت ملکی کارپوریٹ اور غیر ملکی چندہ دینے والوں کی شناخت کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔ کیا کسی بھی کثیر جماعتی جمہوریت میں کسی عوامی نمائندے کو یوں تحفظ ملنا جائز ہے؟ آخر سیاسی جماعتیں اپنے ارد گرد پردہ داری کو قائم رکھنے پر کیوں تُلی ہوئی ہیں؟ عوامی نگہ داشت کے لیے فیس ریکگنیشن اور آرٹی فشیل انٹیلی جنس جیسی تکنیکوں کا سہارا لے کر شہریوں کی نگرانی کرنے کی خواہش مند حکومتیں جب اپنی جوابدہی کی بات آتی ہے تو کیوں گونگی بہری بن جاتی ہیں؟ جانکاروں کی نظر میں الیکٹورل بانڈ اور مخفی ذرائع سے چندوں کا حصول کسی غیر مرئی بِٹ کوائین جیسی کرپٹو کرنسی سے کم مضرت رساں نہیں!
۱۵ مارچ ۲۰۱۹ تک بھارت میں کل ۲ ہزار ۳سو۷۲ رجسٹرڈ سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔ لیکن ان میں سے ۲۳۰۱ یعنی ۹۷ فی صد پارٹیوں نے اب تک انتخابی کمیشن سے منظوری حاصل نہیں کی ہے۔ آئے دن نِت نئے قوانین لا کر شہریوں کی زندگیوں کو پابند بنانے کی تگ و دو کرنے والے حکمراں کب اپنے دلدل کو صاف کریں گے؟ حب الوطنی کا تقاضا یہی ہے کہ اس گرد و غبار کو سیاسی افق سے صاف کیا جائے۔ بات صرف چندوں کی نہیں جمہوریت کی سیاہ تصویر یہ بھی ہے کہ آج بھی نیتا جتنا داغدار ہونے کے ساتھ ساتھ پیسے والا ہو تو اس کی سیاسی ترقی کی اتنی ہی گارنٹی ہوتی ہے۔ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے کہ پرچارک سے وزیر اعلی بنے کھٹّر نے ہریانہ میں کسان تحریک کی قوت کو منتشر کرنے کے لیے فارمولہ سجھایا تھا کہ بی جے پی کے کارکن اگر کسانوں سے لڑ بھڑ لیتے ہیں اور جیل بھی جاتے ہیں تو ان کی نیتاگیری اتنی ہی چمکدار ہوگی۔ ظاہر ہے کہ اس اعلی سطح پر جب جرم کی حوصلہ افزائی ہوگی تو اس کا منطقی نتیجہ سامنے آنا ہی ہے۔ ملک جرم، لا قانونیت، لوٹ کھسوٹ اور کلیت پسندانہ و آمرانہ پنجوں میں پھنستا جا رہا ہے۔ اب ملک کے سنجیدہ اور با شعور طبقے کو عوام کی بیداری اور حقوق سے آگہی کا کام انجام دینا چاہیے تاکہ کوئی بھی حکم راں ان پر شب خون مارنے کی جرات نہ کر سکے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 21 نومبر تا 27 نومبر 2021