اداریہ

نشہ اقتدار کا یا۔۔۔ ؟

ایک جانب ملک و میڈیا نے ڈرگ اور کرپشن کو سب سے بڑا موضوع بنا رکھا ہے لیکن جموں و کشمیر کے سابق اور میگھالیہ کے موجودہ گورنر ستیہ پال ملک نے یہ انکشاف جو کیا کہ ’’مجھے امبانی کی ریلائنس کمپنی اور آرایس ایس کے ایک ممتاز افسر کی فائل کلیر کرنے کے لیے 3 سو کروڑ روپیے کی پیش کش کی گئی تھی‘‘ اس پر سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ ملک کے ایک طاقتور وزیر داخلہ کی شبیہ بنانے والے امیت شاہ نے ہمالیائی ریاست کا تین روزہ تاریخی دورہ کیا جب کہ جموں و کشمیر میں سرکاری ملازمین، صحافیوں اور پینشن یافتہ افراد کے لیے ہیلتھ انشورنس پالیسی سے متعلق اسکیم کی منظوری کے لیے دیے گئے اس لالچ کو کہیں زیرِ بحث لائے جانے کی کوئی ’خبر‘ دیکھنے سننے کو نہیں ملی۔ بھلے ہی گورنر صاحب نے اور ان کے دعوے کے مطابق ملک کے وزیراعظم نے بھی مبینہ طور پر اس رشوت کو مسترد کردیا اور وہ مشکوک فائلیں شاید واپس اپنے آقاؤں کے پاس لوٹا دی گئی ہوں، لیکن تاحال کسی بدعنوان مافیا اور افسر یا قوم پرست کارندے پر سخت کارروائی کی کوئی خبر منظرعام پر نہیں آئی۔
اسی قبیل میں منی پور نارکوٹکس کی ایک ایماندار سینئر خاتون افسر ٹی برندا نے یہ کہتے ہوئے اپنا ’بہادری میڈل‘ لوٹا دیا ہے کہ منی پور کے وزیراعلیٰ بیرین سنگھ نے ڈرگ اسمگلنگ ریکٹ میں گرفتار ایک کلیدی ملزم لکھاؤسی زو پر عائد سنگین الزامات کو ہٹانے کا دباؤ ڈالا تھا۔ ڈرگس کے کاروبار کا سرخیل ملزم لکھاؤسی زو منی پور کے ضلع چندیل میں بی جے پی لیڈر بھی ہے۔ 19 جون 2018 کی درمیانی شب امپھال میں بی جے پی لیڈرکی رہائش گاہ پر چھاپہ ماری کے دوران آٹھ لوگوں کی گرفت سے ڈرگ اور نقدی برآمد کی گئی تھی۔ ضبط شدہ منشیات کی بین الاقوامی بازار میں قیمت اٹھائیس کروڑ روپیوں سے زیادہ ہے۔ میگھالیہ میں بھی ڈرگس کی چھاپہ ماری کے دوران منی پور کے ملزم بی جے پی لیڈر لکھاؤسی زو سے تار جڑے ہوئے پائے گئے۔ واضح ہو کہ 2017ء میں منی پور اسمبلی انتخابات کے دوران بی جے پی نے ڈرگس کے کاروبار کو اپنا انتخابی موضوع بنایا تھا۔ برین سنگھ نے اس وقت کی کانگریس حکومت کو ڈرگس کے کاروبار کے لیے مورد الزام ٹھہرایا اور اقتدار میں آنے پر منی پور میں ڈرگس کے کاروبار کے خلاف جنگ کااعلان بھی کردیاتھا۔ حد تو یہ ہے کہ ڈرگس کے کاروبار خلاف کئی کامیاب مہمات کی قیادت کرنے والی افسر برندا کو کئی مواقع پر وزیراعلیٰ نے انعام اور ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔ آخر ایسا کیا ہوا کہ برندا منی پور ہائی کورٹ میں باضابطہ سولہ صفحات پر مبنی حلف نامہ داخل کر کے سیدھے وزیراعلیٰ پر دخل اندازی کا الزام عائد کرنے پر مجبور ہوئیں۔ بالآخر ریاستی پولیس کی چارج شیٹ کے چار دن بعد این ڈی پی ایس عدالت نے کلیدی ملزم لکھاؤسی کو ضمانت دے دی جس کے بعد وہ فرار بھی ہو گیا تھا۔
تیسرا مشہور واقعہ مغربی بنگال بی جے پی یوا مورچہ کی جنرل سکریٹری پامیلا گوسوامی کے بٹوا اور کار کی سیٹ کے نیچے کوکین پکڑے جانے کا ہے۔ پامیلا برسرعام عدالت کے سامنے ایک ویڈیو میں بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری کیلاش وجے ورگیہ کے قریبی ساتھی راکیش سنگھ اس ڈرگ معاملے میں ملوث ہونے کا اعلان کررہی تھیں، اب کوئی نہیں جانتا کہ اس ڈرگ اور اس کیس کی فائل کہاں دھول چاٹ رہی ہے؟
یہ مثالیں کیا کم تھیں کہ گجرات کے مُندرا کی اڈانی بندرگاہ سے تقریباً تیس ہزار کروڑ روپیوں کی ڈرگ کھیپ پکڑی گئی لیکن مجال ہے کہ کوئی اس انتہائی سنگین جرم کی تہ تک جاتا ہوا کہیں دکھائی دیتا ہو!
قصہ مختصر یہ کہ تقریباً چار ہفتوں تک ممبئی۔گوا کروز پارٹی ڈرگ کیس ملک اور میڈیا میں چھایا ہوا ہے لیکن مذکورہ کیسوں کی کوئی بِھنک تک نہیں؟ جرم کی تفتیش اور پولیس، انتظامیہ کی کارکردگی اپنی جگہ لیکن ہر مجرمانہ معاملہ کا رشتہ کہیں نہ کہیں سیاست سے کیوں کر جڑ جاتا ہے؟
ممبئی کے اس ڈرگ کیس نے اُس وقت ایک نیا موڑ لے لیا جب انسداد منشیات بیورو(این سی بی) کے زونل ڈائریکٹر سمیر وانکھیڑے کے خلاف ایک گواہ پربھاکر نے الزام لگایا کہ معاملے کو نمٹانے کے لیے ایک ہائی پروفائل ملزم کے اداکار والد سے 25 کروڑ روپے کی رشوت طلب کی گئی تھی جس میں این سی بی افسر وانکھیڑے کو آٹھ کروڑ ملنے تھے۔
واضح ہو کہ مہاراشٹرا میں ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی مہاوکاس اگھاڑی حکومت میں راشٹروادی پارٹی سے وابستہ وزیر نواب ملک کروز ڈرگ کیس میں اور بالخصوص اس میں ایک مشہور اداکار کے بیٹے آرین خان کی ڈرامائی انداز سے گرفتاری پر مسلسل حملہ آور ہو رہے ہیں۔
دوسری جانب رشوت کے الزامات اور مرکزی حکومت کی ایماء پر بی جے پی ایجنٹ بن کر مہاراشٹرا کی حکومت اور فلم انڈسٹری کو ہدف بناکر کام کرنے کا الزام وانکھیڑے جیسے افسر پر لگ رہا ہے اس کے باوجود ایک بدنام زمانہ ہندوتوادی کارکن منوہر کلکرنی عرف سنبھاجی بِھڑے نے مغربی مہاراشٹرا میں متعدد احتجاجات وانکھیڑے کی حمایت میں کیے۔ یہاں تک کہ گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کو مہاراشٹرا حکومت کے خلاف مکتوب تک ارسال کیے۔ گواہ پربھاکر نے این سی بی کے تفتیشی افسر وانکھیڑے پر یہ بھی الزام لگایا ہے کہ انہوں نے سادہ کاغذ پر ان کے دستخط بھی لے رکھے ہیں جس کا ایک ویڈیو شیوسینا کے رکن پارلیمنٹ اور سامنا اخبار کے مدیر سنجے راوت نے ٹویٹ بھی کیا ہے۔ اب یہ گواہ کہہ رہا ہے کہ اس کی جان کو خطرہ درپیش ہے۔ نیز ایک دیگر گواہ بارڈی گارڈ کے پی گوساوی بھی مفرور ہے جس میں مرکزی تفتیشی ایجنسی این سی بی کا ہاتھ بتایاجارہاہے ۔
آخر کیا وجہ ہے کہ مرکزی تفتیشی ایجنسیاں جس جس ریاست میں بھی جاتی ہیں وہاں اصل ملزم اور جرم کی تفتیش کے مقابلے میں سیاست کا عمل دخل زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ ادکار سشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کا کیس ہو یا مکیش امبانی کی رہائش گاہ کے قریب بم دھماکے کی مبینہ سازش کا معاملہ ہو یا مختلف ریاستوں میں سی بی آئی، انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ(ای ڈی )، این آئی اے اور انکم ٹیکس وغیرہ کی چھاپے ماری کے نام پر ہونے والی مختلف ’مہمات‘ ہوں ہر جگہ مقامی پولیس اور حکومتیں مرکزی کارروائیوں کو شک وشبہ اور سیاسی کارروائی کے طور پر دیکھنے لگی ہیں۔ آخر جمہوری مملکت میں تفتیشی و دیگر ادارہ جات کا یوں بے دریغ استعمال حزب اختلاف والی ریاستوں ہی میں کیوں دیکھا جارہاہے؟۔ اقتدار کا یہ نشہ شاید ڈرگ کے نشے سے زیادہ ملک و قوم کی سیاست، سالمیت اور جمہوری صحت کو گھن کی طرح کھائے جارہاہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 اکتوبر تا 6 نومبر 2021